"خاموش ! ریل گاڑی اپنے آخری سٹیشن پر پہنچ چکی ہے ۔۔۔ یہاں سے انجن مڑتا ہے واپسی کے لیے ۔
‘ نومور’ نے چِلّا کر کہا۔
” ہم دائرے میں کیوں گھوم رہے ہیں ؟ اب کتنا وقت لگے گا؟” ایک روہانسی سی آواز اُبھری۔
” یہ گارڈز بتائیں گے ۔۔”
"گارڈز کہاں ہیں ؟ "
” ریسٹ ہاؤس میں آرام کر رہے ہیں ۔ کچھ نئی بوگیوں کی تلاش میں ہیں۔”
‘نو مور’ نے مسافروں کو بتایا ۔
"تم تو سٹیشن ماسٹر تھے نا” ایک مسافر نے متعجب ہو کر نومور سے پوچھا۔
” تمہیں اس سے کیا؟ تمہیں اپنے سفر سے مطلب رکھنا چاہیئے۔ سٹیشن ماسٹر اہم نہیں ہوتا۔ ریل گاڑی گارڈ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
” لیکن سفر بھی تو ہو؟”
‘منفی ایک‘ بولا۔
” تم سفر کرنا چاہتے ہو یا سفر کاٹنا چاہتے ہو؟”
ایک باوردی اہلکار غصہ میں آگے بڑھا۔
” میں تمہیں جانتا ہوں، تم وہی ہو نا۔ پگڑی پہن کر ریل میں منجن بیچنے والے۔ تم نے ہم سب کو لوٹ لیا ہے۔”
مسافروں میں سے بڑھ کر ایک نے اس کا گریبان پکڑنا چاہا۔
” تم سب گدھے ہو ۔۔۔ پہلی بار لٹے ہو کیا؟ میں ’ضرب ہزار‘ ہوں ۔ سفر مفت میں کرنا چاہتے ہو کیا؟ "
وہ شیطانی ہنسا۔
"ہم سب بیمار ہو چکے ہیں۔ ہمیں سستانے دیا جائے، ہماری منزل بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہمیں وہاں اُترنا تھا ۔۔۔۔”
ایک دُبلی سی لڑکی بغل میں بچے کو پچکارتی ہوئی دل گرفتگی سے بولی۔
” خاطر جمع رکھو۔ منزل قریب ہے” نومور کے ساتھ کھڑا ڈو مور بولا۔
"کونسی نئی منزل ؟ کونسا گارڈ ؟ بھول جاؤ منزل، ونزل ۔۔۔۔ سفر کٹ چکا ۔۔۔ مجھے روٹی چاہیئے۔ ”
وہ چیخی۔
ویران سے ریلوے اسٹیشن پر جستی شیڈ کے نیچے تھکن سے چُور اور بھوک سے نڈھال ننگے فرش پر بیٹھے خاموش ہجوم میں سے کوئی دوسرا کھانستا ہوا بول اُٹھا ۔۔۔
"آزادی کہاں ہے؟”
یہ شخص سارے راستے عجیب سے الفاظ بڑبڑاتا رہا تھا۔۔۔۔۔
"عجیب سفر ہے ۔۔۔ پہلے شمال ۔۔۔ پھر جنوب ۔۔۔ ۔۔۔۔ کل تک مشرق میں تھے۔ آج مغرب ۔۔۔ یہ تجربے ؟
کون جانے یہ سفر ہے کہ منڈی کی تلاش؟”
ہم گھر کب پہنچیں گے؟ دوسرے کے لہجے میں خاموش احتجاج تھا۔
” جب سب دشمن ختم ہو جائیں گے۔” نومور بولا۔
"دشمن؟ ۔۔۔ ہر وقت دشمن؟ مجھے روٹی دو ۔۔۔ میرے بچے مر رہے ہیں۔”
سارے رستے بڑبڑاتے رہنے والا مسافر آخر احتجاج پر اتر آیا۔ وہ چِلّا اُٹھا۔ "مجھے پٹری پر لٹا دو۔ میں مرنا چاہتا ہوں۔”
"میں کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ ہمیں اس کے لیے اب سحر کا انتظار کرنا ہوگا”
” کونسی سحر؟ مرنے کے لئے سحر نہیں ہوتی۔ زندگی کے لئے ہوتی ہے۔ مجھے مرنا ہے۔”
” اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں دونوں ایک ہیں ۔”
” تم سب جانتے ہو۔
اب میں "نو مور” ہوں۔”
” اب جو بھی ہوگا ‘ڈو مور’ کی اجازت سے ہوگا۔
نو مور کی آواز میں مایوسی تھی۔
احتجاجی مسافر خلاء میں جھانکتے ہوئے بولا۔
” یہ شام تو بوڑھی ہو چکی ہے لیکن سحر کا نشان دُور دُور تک نہ ہے۔”
—♦—
© جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں!
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں۔
Comments 6
جواب دیں جواب منسوخ کریں
"خاموش ! ریل گاڑی اپنے آخری سٹیشن پر پہنچ چکی ہے ۔۔۔ یہاں سے انجن مڑتا ہے واپسی کے لیے ۔
‘ نومور’ نے چِلّا کر کہا۔
” ہم دائرے میں کیوں گھوم رہے ہیں ؟ اب کتنا وقت لگے گا؟” ایک روہانسی سی آواز اُبھری۔
” یہ گارڈز بتائیں گے ۔۔”
"گارڈز کہاں ہیں ؟ "
” ریسٹ ہاؤس میں آرام کر رہے ہیں ۔ کچھ نئی بوگیوں کی تلاش میں ہیں۔”
‘نو مور’ نے مسافروں کو بتایا ۔
"تم تو سٹیشن ماسٹر تھے نا” ایک مسافر نے متعجب ہو کر نومور سے پوچھا۔
” تمہیں اس سے کیا؟ تمہیں اپنے سفر سے مطلب رکھنا چاہیئے۔ سٹیشن ماسٹر اہم نہیں ہوتا۔ ریل گاڑی گارڈ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
” لیکن سفر بھی تو ہو؟”
‘منفی ایک‘ بولا۔
” تم سفر کرنا چاہتے ہو یا سفر کاٹنا چاہتے ہو؟”
ایک باوردی اہلکار غصہ میں آگے بڑھا۔
” میں تمہیں جانتا ہوں، تم وہی ہو نا۔ پگڑی پہن کر ریل میں منجن بیچنے والے۔ تم نے ہم سب کو لوٹ لیا ہے۔”
مسافروں میں سے بڑھ کر ایک نے اس کا گریبان پکڑنا چاہا۔
” تم سب گدھے ہو ۔۔۔ پہلی بار لٹے ہو کیا؟ میں ’ضرب ہزار‘ ہوں ۔ سفر مفت میں کرنا چاہتے ہو کیا؟ "
وہ شیطانی ہنسا۔
"ہم سب بیمار ہو چکے ہیں۔ ہمیں سستانے دیا جائے، ہماری منزل بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہمیں وہاں اُترنا تھا ۔۔۔۔”
ایک دُبلی سی لڑکی بغل میں بچے کو پچکارتی ہوئی دل گرفتگی سے بولی۔
” خاطر جمع رکھو۔ منزل قریب ہے” نومور کے ساتھ کھڑا ڈو مور بولا۔
"کونسی نئی منزل ؟ کونسا گارڈ ؟ بھول جاؤ منزل، ونزل ۔۔۔۔ سفر کٹ چکا ۔۔۔ مجھے روٹی چاہیئے۔ ”
وہ چیخی۔
ویران سے ریلوے اسٹیشن پر جستی شیڈ کے نیچے تھکن سے چُور اور بھوک سے نڈھال ننگے فرش پر بیٹھے خاموش ہجوم میں سے کوئی دوسرا کھانستا ہوا بول اُٹھا ۔۔۔
"آزادی کہاں ہے؟”
یہ شخص سارے راستے عجیب سے الفاظ بڑبڑاتا رہا تھا۔۔۔۔۔
"عجیب سفر ہے ۔۔۔ پہلے شمال ۔۔۔ پھر جنوب ۔۔۔ ۔۔۔۔ کل تک مشرق میں تھے۔ آج مغرب ۔۔۔ یہ تجربے ؟
کون جانے یہ سفر ہے کہ منڈی کی تلاش؟”
ہم گھر کب پہنچیں گے؟ دوسرے کے لہجے میں خاموش احتجاج تھا۔
” جب سب دشمن ختم ہو جائیں گے۔” نومور بولا۔
"دشمن؟ ۔۔۔ ہر وقت دشمن؟ مجھے روٹی دو ۔۔۔ میرے بچے مر رہے ہیں۔”
سارے رستے بڑبڑاتے رہنے والا مسافر آخر احتجاج پر اتر آیا۔ وہ چِلّا اُٹھا۔ "مجھے پٹری پر لٹا دو۔ میں مرنا چاہتا ہوں۔”
"میں کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ ہمیں اس کے لیے اب سحر کا انتظار کرنا ہوگا”
” کونسی سحر؟ مرنے کے لئے سحر نہیں ہوتی۔ زندگی کے لئے ہوتی ہے۔ مجھے مرنا ہے۔”
” اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں دونوں ایک ہیں ۔”
” تم سب جانتے ہو۔
اب میں "نو مور” ہوں۔”
” اب جو بھی ہوگا ‘ڈو مور’ کی اجازت سے ہوگا۔
نو مور کی آواز میں مایوسی تھی۔
احتجاجی مسافر خلاء میں جھانکتے ہوئے بولا۔
” یہ شام تو بوڑھی ہو چکی ہے لیکن سحر کا نشان دُور دُور تک نہ ہے۔”
—♦—
© جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں!
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں۔
Comments 6
-
-
Naeem Baig says:
میں انتظامیہ ڈیلی للکار اور طارق شہزاد کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے کام کو اس موقر وہب سائٹ اخبار میں شائع کیا۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ پڑھنے کے بعد اپنی خیالات یا کمنٹس سے ضرور نوازیں۔
-
بہترین افسانہ پاکستان کے سماجی حالات کا پوسٹ مارٹم ہے یہ
پسندیدگی کا شکریہ سلیم ابڑو صاحب۔
میں انتظامیہ ڈیلی للکار اور طارق شہزاد کا ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے کام کو اس موقر وہب سائٹ اخبار میں شائع کیا۔ قارئین سے درخواست ہے کہ وہ پڑھنے کے بعد اپنی خیالات یا کمنٹس سے ضرور نوازیں۔
بہت شکریہ جناب نعیم بیگ صاحب۔ آپ ایسے شاندار لکھنے والے ہمارا اثاثہ ہیں۔ ڈیلی للکار کے صفحات آپ کے لئے ہمیشہ حاضر ہیں۔
بہت خوب انتخاب
پسندیدگی کا شکریہ محترمہ سفینہ صاحبہ