جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
مجروح سلطانپوریؔ جن کا اصل نام اسرارالحسن تھا یکم اکتوبر 1919ء کو ہندوستان کی ریاست اُتر پردیش کے ضلع سلطانپور میں ایک پولیس انسپکٹر کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے روایتی تعلیم صرف ساتویں جماعت تک حاصل کی۔ تاہم انہوں نے درسِ نظامی پڑھا اور عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی، اور بعد ازیں حکمت کا کورس کیا۔ لیکن وہ نہ واعظ بنے اور نہ ہی حکیم، سیدھا سماج کی نبض پر ہاتھ رکھا اور ایک انقلابی و جمالیاتی زوق سے جُڑ گئے۔
اسی دوران پروڈیوسر اے آر کاردار کی ان سے ممبئی کے ایک مشاعرے میں ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے اِنہیں موسیقار نوشاد سے ملایا اور پھر مجروح سلطانپوریؔ نے فلموں کے لیے بے شمار سدا بہار گیت لکھ ڈالے۔
مجروح ہزاروں خوبصورت گیتوں کے خالق ہیں جو ہمشہ کانوں میں رس گھولتے رہیں گے۔
لیکن ہم ان کی اس زندگی سے ہٹ کر ان کی انقلابی جدوجہد کی بات کرنا چاہتے ہیں۔
اب کارگہِ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے
ترقی پسند شعراء میں مجروح کی غزل اور نظم دونوں ہی اعلیٰ معیار قائم کرتی ہیں اور ان کی شاعری اس بات کی مظہر ہے کہ وہ فن اور بالخصوص غزل کے فن کا بہت ہی شائستہ مزاج رکھتے ہیں۔ ان کے ذہن کی ابتدائی تربیت غزل کے کلاسیکی ماحول میں ہوئی، جس سے انہیں غزل کی روایات کا شعور حاصل ہوا۔ اور پھر ترقی پسند تحریک کے وسیلے سے عصری تقاضوں کو سمجھنے میں بھی مدد ملی۔ ان کی شاعری کے ترقی پسندانہ رنگ بہت واضح ہیں۔
لال پھُریرا اس دنیا میں سب کا سہارا بنے گا
یا یہ کہ ۔۔۔۔۔
یہ بھی کوئی ہٹلر کا ہے چیلا مار لے ساتھی جانے نا پائے
ایسی چند اور مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجروح نے اپنے آپ کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی انتہائی کم ایسی مثالوں سے پرے مجروح نے اپنی غزل میں فن کی جمالیاتی حُرمتوں کو محفوظ رکھا۔ ان کی غزل کا خارجی نظام ایک والہانہ پن اور نشاطیہ آہنگ سے عبارت ہے۔
شب ظلم نرغہ راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فراز دار سے دیکھ لوں کہیں کاروان سحر نا ہو
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
داخلی سطح پر مجروح کی شاعری میں تصادم اور رجز ہے حتیٰ کہ وہ اشعار جو بہ ظاہر بے حد چست درست اور جوڑ جوڑ سے کسے اور بندھے ہوئے ہیں ان کی تہہ میں ایک داخلی جنگ ہے۔
جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا
مجروح کہیں بھی کسی مقام پر سِپَر نہیں ڈالتے بلکہ انتہائی غیر یقینی لمحوں میں بھی استقلال و حوصلے اور رجال سے کام لیتے ہیں۔
شب انتظار کی کش مکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ بجھا دیا کبھی اک چراغ جلا دیا
یہی وجہ ہے کہ مجروح کے اندازِ بیاں میں ان کے تجربے میں ایک تیکھا پن اور نوک داری ہے ایسے لمحوں میں آہنگ کا بلند ہونا ایک فطری بات ہے۔ لیکن مجروح کے ہاں خارج اور داخل کا تصادم یا نا آہنگی کسی غصہ داری ہیجان یا کشاکش کو راہ نہیں دیتی بلکہ فن کا کلاسیکی رچاؤ۔۔۔ایک سطح پے ان کے فن پر ڈھال بن جاتا ہے۔
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کئے ہیں ہم نے عزیزو چار گریباں تم سے زیادہ
چاک جگر محتاجِ رفو ہے آج تو دامن صرف لہو ہے
اک موسم تھا ہم کو رہا ہے شوق بہاراں تم سے زیادہ
مجروح غزل کی نفسیات سے آگاہ تھے اور اس کے امکانات سے بھی واقف تھے، فلموں کے لکھے ہزاروں گیت جب بھی سُنے جائیں گے مجروح یاد آئیں گے۔
آج ایک گیت سُنا تو سوچا اس عظیم شاعر کو خراجِ عقیدت کے طور پر اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں یاد کر لوں ۔۔۔
اک دن بِک جائے گا ماٹی کے مول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
سر پر ٹوپی لال ہاتھ میں ریشم کا رومال او تیرا کیا کہنا
یہ گیت فلم اوپرا ہاؤس سے لیا گیا ہے، آواز لتامنگیشکر کی ہے، اس گیت کی موسیقی چترگپت جی نے دی اور یہ خوبصورت گیت بھی مجروح سلطانپوری کا لکھا ہوا ہے
—♦—
ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
مجروح سلطانپوریؔ جن کا اصل نام اسرارالحسن تھا یکم اکتوبر 1919ء کو ہندوستان کی ریاست اُتر پردیش کے ضلع سلطانپور میں ایک پولیس انسپکٹر کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے روایتی تعلیم صرف ساتویں جماعت تک حاصل کی۔ تاہم انہوں نے درسِ نظامی پڑھا اور عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی، اور بعد ازیں حکمت کا کورس کیا۔ لیکن وہ نہ واعظ بنے اور نہ ہی حکیم، سیدھا سماج کی نبض پر ہاتھ رکھا اور ایک انقلابی و جمالیاتی زوق سے جُڑ گئے۔
اسی دوران پروڈیوسر اے آر کاردار کی ان سے ممبئی کے ایک مشاعرے میں ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے اِنہیں موسیقار نوشاد سے ملایا اور پھر مجروح سلطانپوریؔ نے فلموں کے لیے بے شمار سدا بہار گیت لکھ ڈالے۔
مجروح ہزاروں خوبصورت گیتوں کے خالق ہیں جو ہمشہ کانوں میں رس گھولتے رہیں گے۔
لیکن ہم ان کی اس زندگی سے ہٹ کر ان کی انقلابی جدوجہد کی بات کرنا چاہتے ہیں۔
اب کارگہِ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے
ترقی پسند شعراء میں مجروح کی غزل اور نظم دونوں ہی اعلیٰ معیار قائم کرتی ہیں اور ان کی شاعری اس بات کی مظہر ہے کہ وہ فن اور بالخصوص غزل کے فن کا بہت ہی شائستہ مزاج رکھتے ہیں۔ ان کے ذہن کی ابتدائی تربیت غزل کے کلاسیکی ماحول میں ہوئی، جس سے انہیں غزل کی روایات کا شعور حاصل ہوا۔ اور پھر ترقی پسند تحریک کے وسیلے سے عصری تقاضوں کو سمجھنے میں بھی مدد ملی۔ ان کی شاعری کے ترقی پسندانہ رنگ بہت واضح ہیں۔
لال پھُریرا اس دنیا میں سب کا سہارا بنے گا
یا یہ کہ ۔۔۔۔۔
یہ بھی کوئی ہٹلر کا ہے چیلا مار لے ساتھی جانے نا پائے
ایسی چند اور مثالیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مجروح نے اپنے آپ کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی انتہائی کم ایسی مثالوں سے پرے مجروح نے اپنی غزل میں فن کی جمالیاتی حُرمتوں کو محفوظ رکھا۔ ان کی غزل کا خارجی نظام ایک والہانہ پن اور نشاطیہ آہنگ سے عبارت ہے۔
شب ظلم نرغہ راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فراز دار سے دیکھ لوں کہیں کاروان سحر نا ہو
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے
داخلی سطح پر مجروح کی شاعری میں تصادم اور رجز ہے حتیٰ کہ وہ اشعار جو بہ ظاہر بے حد چست درست اور جوڑ جوڑ سے کسے اور بندھے ہوئے ہیں ان کی تہہ میں ایک داخلی جنگ ہے۔
جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے کارواں بنتا گیا
مجروح کہیں بھی کسی مقام پر سِپَر نہیں ڈالتے بلکہ انتہائی غیر یقینی لمحوں میں بھی استقلال و حوصلے اور رجال سے کام لیتے ہیں۔
شب انتظار کی کش مکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ بجھا دیا کبھی اک چراغ جلا دیا
یہی وجہ ہے کہ مجروح کے اندازِ بیاں میں ان کے تجربے میں ایک تیکھا پن اور نوک داری ہے ایسے لمحوں میں آہنگ کا بلند ہونا ایک فطری بات ہے۔ لیکن مجروح کے ہاں خارج اور داخل کا تصادم یا نا آہنگی کسی غصہ داری ہیجان یا کشاکش کو راہ نہیں دیتی بلکہ فن کا کلاسیکی رچاؤ۔۔۔ایک سطح پے ان کے فن پر ڈھال بن جاتا ہے۔
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
چاک کئے ہیں ہم نے عزیزو چار گریباں تم سے زیادہ
چاک جگر محتاجِ رفو ہے آج تو دامن صرف لہو ہے
اک موسم تھا ہم کو رہا ہے شوق بہاراں تم سے زیادہ
مجروح غزل کی نفسیات سے آگاہ تھے اور اس کے امکانات سے بھی واقف تھے، فلموں کے لکھے ہزاروں گیت جب بھی سُنے جائیں گے مجروح یاد آئیں گے۔
آج ایک گیت سُنا تو سوچا اس عظیم شاعر کو خراجِ عقیدت کے طور پر اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں یاد کر لوں ۔۔۔
اک دن بِک جائے گا ماٹی کے مول
جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول
سر پر ٹوپی لال ہاتھ میں ریشم کا رومال او تیرا کیا کہنا
یہ گیت فلم اوپرا ہاؤس سے لیا گیا ہے، آواز لتامنگیشکر کی ہے، اس گیت کی موسیقی چترگپت جی نے دی اور یہ خوبصورت گیت بھی مجروح سلطانپوری کا لکھا ہوا ہے
—♦—
ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔