اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں ماحولیات اور خاص طور پر تھر کے کوئلے کے حوالے سے ان کی سرکاری اور جانبدارانہ سوچ کو دیکھ کر یہ طے کرنا مشکل ہوگیا کہ ایسے مؤقف پر زیادہ حیرت کی جائے یا افسوس؟ اگر یہ کسی عام آدمی کی بات ہوتی تو ہم بھی یہ دکھ دل میں رکھ کر یا ان کے سامنے رکھ کر بات ختم کر دیتے۔ لیکن میرے خیال میں سندھ کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نگاروں میں جامی چانڈیو اور نصیر میمن بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ بہت سارے پہلوؤں سے سیاست اور سندھ کو عقلی اور علمی نقطہ نظر سے دیکھتے آئے ہیں۔
نصیر میمن کے اعداد و شمار پر مبنی مضامین سے ہم بھی مستفید ہوتے رہے ہیں، مگر حقیقت صرف اعداد و شمار کا مجموعہ نہیں ہوتی۔ اعداد و شمار اپنے آپ میں حقیقت کا مقداری اور مردہ پہلو ہوتے ہیں۔ یہ خود کسی چیز کو سمجھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔ انہیں ہمیشہ زندہ حقائق اور ایک تجزئیے کی ضرورت ہوتی ہے، اور تجزیہ کسی نہ کسی نقطہ نظر سے ہی کیا جاتا ہے۔
سو، جو عقل اور علم نصیر میمن صاحب بانٹ رہے ہیں، وہ کچھ اور نہیں بلکہ نیولبرل ترقی کی وہ کوشش ہے جسے وہ سندھ کے شعور کو ہضم کرانا چاہتے ہیں۔ یہ کوشش نہ پہلی ہے نہ آخری۔ اس سے پہلے بھی کافی صحافی، سیاسی رہنما، اور نامور ادیب تھر کول کی تعریف کرتے ہوئے سرکاری تھالی سے اپنا حصہ اٹھاتے رہے ہیں۔
دنیا کے ابتدائی یونانی کہانی کار ایسوپ کی ایک کہانی تھی ’سورج کی شادی‘۔ اس میں سورج کی شادی کی خوشی میں جہاں سارا جنگل ناچ رہا تھا، وہیں کچھ مینڈک بھی شرارت میں ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر ایک بڑا مینڈک انہیں کہتا ہے کہ تم کیوں ناچ رہے ہو؟ ذرا سوچو کہ یہی سورج ہے جو ہماری جھیلیں اور تالاب سوکھا کر ہمیں ہلکان کر دیتا ہے۔ کل جب اس سورج کے شادی کے بعد بچے ہوں گے تو پھر ہماری کیا حالت ہوگی؟ تو بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی مانند نصیر میمن بھی سرکار کی شادی میں ناچتے دکھائی دیتے ہیں۔
ملازمت کرنا کوئی عیب نہیں۔ انسان ریاست، کسی بھی این جی او یا بینک میں ملازمت کر سکتا ہے، لیکن اگر وہی شخص ریاست، این جی او، یا بینکاری نظام کی وکالت کرنے لگے، تو اسے ابن الوقتی اور موقع پرستی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے؟ خیر، دلیل سے پہلے تجزیہ الزام بھی بن جاتا ہے، اس لیے ہم نصیر میمن کی تحریر کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
نصیر میمن لکھتے ہیں:
”
ڈھائی سو سال سے زائد عرصے تک یورپ، امریکہ، چین اور روس نے کوئلے سمیت فاسل فیولز پر اپنی معیشت کو استوار کیا۔ آج بھی فاسل فیولز کے سب سے بڑے پیداواری اور استعمال کرنے والے مراکز یہی ممالک اور ان کے ساتھ سعودی بلاک کے ممالک ہیں۔ جرمنی اور دیگر یورپی گرین چیمپئنز بھی اب تک 40 فیصد بجلی کوئلے سے بنا رہے ہیں۔ چین اور روس، جو سرمایہ دارانہ ترقی کے بڑے مخالف رہے ہیں، وہ آج بھی فاسل فیولز، خصوصاً کوئلے کی توانائی کے بڑے مراکز ہیں۔ اس ساری عالمی صورتحال میں دوستوں نے سارا بوجھ آکر سندھ کے کوئلے پر ڈالا ہے، جس کا دنیا میں اثر 0.0001 فیصد سے بھی کم ہے۔
“
ماحول جیسے حساس موضوع پر سیدھا فریق بن کر جیسا کہ نصیر میمن صاحب نے لکھا ہے، اس پر مجھے ایک انگریزی کہاوت یاد آتی ہے:
”Fools rush in where angels fear to tread“
(بیوقوف وہاں جلدی پہنچ جاتے ہیں جہاں فرشتے بھی قدم رکھنے سے ڈرتے ہیں)۔
سوال یہ نہیں ہے کہ ساری ترقی یافتہ دنیا کوئلہ استعمال کر رہی ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ کوئلے کا انسانوں، پرندوں، جانوروں، درختوں، پودوں، پانی کے وسائل، اور مجموعی طور پر فطرت اور ماحول پر کیا اثر ہے؟ اور کیا یہ اثر توانائی کے دوسرے ذرائع (ہوا، شمسی) کے مقابلے میں مثبت ہے یا منفی؟ یا پھر یہ کہ کوئلے کا استعمال باقی دنیا اور پاکستان میں اب بڑھ رہا ہے یا کم ہو رہا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی ذی شعور شخص توانائی کے ماحول دوست ذرائع کو چھوڑ کر کوئلے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ دوسرا یہ کہ کوئلے کا استعمال باقی دنیا میں کم ہو رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں بڑھ رہا ہے۔ کوئی دلیل دے سکتا ہے کہ یہ سامراجی ممالک خود ترقی کر چکے ہیں اور اب ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں، اور اسی ترقی پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے، جیسے ملک کے صدر آصف زرداری کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کہتے تھے: ”کرپشن پر سندھی کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کسی پنجابی یا پٹھان کا۔“
یہ ویسا ہی ہے جیسے کسی سندھی وڈیرے کے گھر میں گرینائٹ پتھر لگنے سے کارونجھر کی کان کنی کا جواز مل جائے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مغرب کا نظام مشرق کی تباہی کی قیمت پر ترقی یافتہ بنا ہے۔ یہ افریقہ، لاطینی امریکہ، اور ایشیا کی تباہی ہے جو امریکہ، آسٹریلیا، اور یورپ کی ترقی میں چمک رہی ہے۔ یہ سامراجی ممالک ٹیکسٹائل سے لے کر سمارٹ فون بنانے تک کی سرمایہ دارانہ پیداوار کی سماجی اور ماحولیاتی قیمت ہمیں تیسری دنیا کی طرف منتقل (آؤٹ سورس) کر چکے ہیں۔
غیر مساوی اور ناہموار ترقی سامراجی سرمایہ داری کا بنیادی قانون ہے، جو لینن نے سمجھایا تھا۔ اس لیے اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ نظام کے اندر بھی پاکستان اور سندھ کو ترقی کرنے کا حق ہے، لیکن یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ’تھر بدلے گا پاکستان‘ سے مراد پاکستانی ریاست ہے یا عوام؟ اور اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟ اس کا جواب بھی سامنے اور سادہ ہے۔ یہ ترقی ریاست، سرمایہ داروں، اور حکمران طبقوں کی ہے، اور اس کی قیمت سندھ سمیت دیگر مظلوم قومیں اور محنت کش عوام ادا کریں گے۔
چلیں، مان لیا کہ سندھ کے کوئلے کا دنیا میں ماحولیاتی اثر صرف 0.0001% ہو گا، لیکن اس کا اثر خود سندھ پر کتنا ہوگا؟ جو پہلے ہی دنیا کے ماحول سے متاثرہ دس بڑے خطوں میں سے ایک ہے۔ کیا اس پر کوئی ایسی تحقیق نصیر میمن صاحب کی نظر میں ہے؟
شاید ہی تاریخ میں سندھ کبھی گرمی کی لہر میں اتنی بری طرح جھلسی ہو جتنا کہ اس سال نظر آئی۔ ہمارے بزرگوں نے بھی بے بے موسم بارشوں کے اس طرح کے ابھار کو نہیں دیکھا۔ اسی لیے شاید سندھ کبھی اتنی بار بار ڈوبی اور دربدر ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی منفی ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ملک کے جاہل اور عوام دشمن حکمرانوں کی مخصوص مفادات والی اندھی پالیسیوں نے سندھی لوگوں کے لیے سارنگ اور اس کے سوز کی معنویت کو ہی بدل دیا ہے۔ تو اتنی تکالیف برداشت کرنے کے بعد بھی اگر ہمارا مانجھی ہمیں سونے کی تلقین کرے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ہم میں سے نہیں۔
کوئلے کی راکھ (کول ایش) جو مقامی زندگی کو متاثر کر رہی ہے اور کرے گی، وہ اپنی جگہ، لیکن اس سے پہلے تھر کول پروجیکٹ تھر کو کیسے بدل رہا ہے، اس بارے میں کئی تحقیقات سامنے آ چکی ہیں۔ اس تناظر میں ماحولیات سے متعلق ایک تحقیقی ادارہ PRIED کے کچھ حوالے دیے جاتے ہیں۔
ایچ ڈی آئی کے حساب سے تھرپارکر ضلع پاکستان کے 114 اضلاع میں 109ویں نمبر پر ہے، جہاں پہلے سے 87 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پھر بھی، تھرپارکر صدیوں سے لاکھوں لوگوں کو پال رہا ہے۔ موجودہ کارپوریٹ تبدیلیاں چند سو نوکریاں دے کر لاکھوں تھریوں کے پیروں تلے زمین، زمین کے نیچے کا پانی، اور اوپر کا صاف آسمان تیزی سے چھین رہی ہیں۔
تھر کی زمین قانونی طور پر عام طور پر تین اقسام کی ہوتی ہے: قبولی (سروی شدہ ذاتی زمین)، یکسالا (لیز پر دی گئی سرکاری زمین)، اور گئوچر (چراگاہیں اور دیہاتیوں کی مشترکہ ملکیت)۔ پاکستان کے قانون کے مطابق بھی ریاست خود گئوچر کو کسی بھی عوامی مقصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتی۔ لیکن تھر میں، ریاست خود اپنے قانون سے بالاتر ہو کر عوام کی ملکیت کو نجی کمپنیوں کی جھولی میں ڈال رہی ہے۔ بحریہ ٹاؤن کیس اور حال ہی میں بنایا گیا ادارہ SIFC ہمارے سامنے ہے۔
دوسری بات یہ کہ اگر قانونی طور پر ریاست کوئی زمین لے بھی سکتی ہے، تو اسے متاثرہ فریق کو متبادل زمین اور معاشی مدد میں کچھ دینا ہوتا ہے۔ اس اصول کے مقابلے میں دیکھا جائے تو، تھر کول انتظامیہ کی کمپنسیشن پالیسی میں کوئی یکسانیت نہیں ہے۔ کچھ کو ایک قسط ملی ہے تو دوسری نہیں۔ اس طرح سے لالچ اور لاٹھی کے ساتھ کام چلایا گیا ہے۔
اس حوالے سے سب سے اہم بات جو تھر کول ایریا کے دس متاثرہ دیہات کی ایک سروے سے ظاہر ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ ان دیہات کی آدھی آبادی پہلے ہی سے بے زمین تھی۔ ان کے یا ان کے جانوروں کے لیے اگر کچھ تھا تو صرف گئوچر تھے، جو بھی ان سے چھین لیے گئے۔ مقامی دیہات پر تھر کول کے اثرات کے بارے میں اسی بڑی رپورٹ کا ایک پیراگراف یہاں براہ راست نقل کیا جاتا ہے۔
’گوڑانو کے زہریلے پانی، ویجھیار کی رسکی ڈیم، بغیر کسی مالکانہ حق کے نیو سنیہری درس والوں کی نقل مکانی، تھاریو ہالیپوٹو میں برادریوں کے آپس میں تنازعات، کھاریو غلام شاہ والوں کی خراب صحت سے لے کر بھاوے کے تڑ کا گھیراؤ اور رانجھو نون پر لٹکتی ہوئی ریاستی جبر کی تلوار تک‘ تھر کول پاور پروجیکٹ کے سبب مقامی لوگوں اور دیہاتیوں کے لیے ان گنت مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ کہانی کسی ایک بلاک کی نہیں بلکہ مستقبل کے پورے تھر کی ہے۔
تھر کا گزارا زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر ہائیڈرولوجی) پر ہوتا ہے۔ دوسری طرف، کوئلے کے منصوبوں کے لیے بھی بہت زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔ اس کے لیے تھر کے زیر زمین پانی کے ساتھ دریائے سندھ سے بھی پانی لیا جا رہا ہے۔ نتیجتاً کنویں خشک ہو رہے ہیں یا ان کا پانی اور نیچے چلا گیا ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے تھری عورتوں اور بچوں کو اور بھی زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ جہاں فضلے یا گندے پانی کے ذخیرے ہیں جیسے گوڑانو، وہاں کنوؤں میں پانی تو بڑھا ہے لیکن پانی کے زیادہ نمکین اور زہریلا ہونے کی قیمت پر۔ یہ پانی، جس کے بارے میں کمپنی نے کبھی مچھلی فارمنگ کا دعویٰ کیا تھا، وہ نباتات اور حیوانات کے لیے WHO کے معیار کے مطابق نقصان دہ ہے۔
دودو بھیل کی موت بتاتی ہے کہ اینگرو کمپنی اور تھر کول انتظامیہ ایک مافیا کی طرح کام کر رہی ہے۔ تھریوں سے ان کی زمینیں اور گئوچر چھین کر انہیں دربدر کیا جا رہا ہے۔ ماڈل ولیج بھی ماڈل تباہی کے ولیج کے طور پر ظاہر ہوئے ہیں۔ پھر بھی نصیر میمن صاحب کی نظر مقامی لوگوں کے حال پر نہیں پڑتی۔ اور جن کی نظر پڑتی ہے، صاحب کو ان پہ بھی غصہ ہیں۔ صاحب کے خیال میں تھر کے کوئلے کی مخالفت کراچی، پنجاب اور اسلام آباد کے وہ لوگ کر رہے ہیں، جو سندھ سے کوئلہ نکلنے پر برہم ہیں۔
اس حوالے سے، آئیں، ان کے اپنے الفاظ کو پڑھتے ہیں:
”
درحقیقت تھر کے کوئلے کو سندھ کی معاشی ترقی کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا۔ تھر کے کوئلے کے خلاف جتنی ماحولیات کی مہم چلائی گئی، اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ یہ کوئلہ سندھ سے نکلا، اور آئینی طور پر کوئلہ وفاقی نہیں بلکہ صوبائی سبجیکٹ تھا۔ سندھ کی گیس اور تیل کی طرح کوئلہ بھی وفاق کے سیدھے کنٹرول میں نہیں ہے، اس لیے اس مہم کو چلانے والوں میں پنجاب کے وہ دوست بھی آگے تھے جن کے منہ سے کبھی امپورٹڈ کوئلے پر چلنے والے ساہیوال پلانٹ کی مخالفت نہیں سنی۔ اسی طرح، کوئلے کی مخالفت میں کراچی کے کچھ آگے بڑھنے والے دوستوں کو کبھی پورٹ قاسم کراچی میں لگے کوئلے والے بجلی گھر کی مخالفت کرتے نہیں سنا، ورنہ ان کے ماحولیاتی اثرات کس چیز میں کم تھے۔ بینظیر بھٹو کے دور میں تھر کے کوئلے پر بننے والے کیٹی بندر منصوبے کو بھی اسلام آباد کی اسی لابی نے ختم کرایا تھا کیونکہ یہ ذخیرہ سندھ سے نکلا تھا۔
“
”کہاں منہ مریم کا، کہاں ٹنڈو الہ یار!“دراصل جب سندھ کا مڈل کلاسی شعور کوئلے کی طرح بھاشا ڈیموں پر راضی ہو رہا تھا، تب بھی ایک پنجابی ماہر، حسن عباس تھا جو ڈیموں کو دریاؤں اور ماحول کے لیے مضر قرار دے کر اپنے اعداد و شمار سامنے لا رہا تھا (اس سے پہلے محمد علی شاہ اور ہماری طرح کی چند ایک تنظیمیں اس کی مخالفت کر رہی تھیں)۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ دھرتی کا بیٹا/بیٹی ہونا اور درست ہونا ہمیشہ ایک ہی بات نہیں ہوتی۔ مرحوم عبدالقادر جونیجو بھی تو خود تھری تھا، پھر کیا اس نے تھر کول کی حمایت کرکے تھر دوستی کی یا دشمنی؟ (یہ سوال بھی عوام سے ہے۔)
باقی ہماری بھوکی ریاست یہ نہیں دیکھتی کہ تیل سندھ میں ہے، ریکوڈک اور سینڈک بلوچستان میں ہیں یا تانبے کے ذخائر پنجاب کے بجائے وزیرستان میں ہیں، اس لیے ان کو چھوڑ دیا جائے۔
آج بھی تھر کے کوئلے کے استعمال کا فیصلہ کراچی نے نہیں کیا ہے، یہ بھی اسلام آباد نے کیا ہے۔ تو پنجاب اور اسلام آباد کی حکومت کو ”جے جے“، لیکن اگر کوئی عام پنجابی، سندھی یا سرائیکی آدمی ریاست کی ایسی پالیسی پر سوال اٹھاتا ہے تو وہ ہوا سندھ کی ترقی کا دشمن!؟ ایسی نظریاتی سادگی آپ کو مبارک ہو۔ پاکستان اور سندھ کو صرف کوئلے کا آسرا اور اس کے نتیجے میں ملک کا ہر گھر روشن ہوتا، تو شاید بحث پھر بھی بنتی اور جاری رہتی۔ ہم تو دیگر ماحول دوست ذرائع میں بھی امیر ہیں، لیکن شروع سے کوئلے میں کی جانے والی عالمی سرمایہ کاری کے اپنے منافع اور کنٹرول کے بارے میں جو دلچسپی رہی ہے، اس بات کو چُھپانا کہاں کی سندھ دوستی یا ماحول دوستی ہے؟
صاحب مزید لکھتے ہیں؛
”نہ کبھی اس لابی نے بتایا کہ سارے ونڈ پاور پروجیکٹ کے لیے نوری آباد سے گھارو تک سندھ کی ہزاروں ایکڑ زمین گرین انرجی کے نام پر مفت میں کیوں لی گئی؟ گرین اور فوسل فیول انرجی کے فوائد اور نقصانات کا تعین بھی سرمایہ دار دنیا ہی کر رہی ہے، اور ہم اس کی مقامی سیاست اور معیشت کے پہلوؤں کو سمجھے بغیر پورے گرین انقلاب کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے کھڑے ہیں۔ دنیا میں فوسل فیولز اپنی رفتار سے ختم ہوں گے، تو ہمارے یہاں بھی ختم ہوں گے، اور اسے ابھی کچھ دہائیاں لگیں گی۔ یہ بھی نہ بھولیے کہ پاکستان کے پس منظر میں گرین انرجی کے نام پر ہائیڈل اور ونڈ انرجی کو بڑھانے کی قیمت بھی سندھ ہی ادا کرے گی۔ ہائیڈل کے لیے ہماری ڈیلٹا قیمت چکائے گی اور ونڈ کے نام پر سندھ کے ساحلی علاقوں کی زمین لی جائے گی۔ پنجاب میں سولر کا ایک بڑا پاور پلانٹ بہاولپور کے قریب لگایا گیا، جو بھی رلا ہوا ہے، پر اس پر کوئی سوال نہیں کرتا۔ لگتا ہے کہ سولر انرجی کے لیے بھی ایک دن سندھ کے کاچھو، کوہستان، اچھڑو تھر اور تھر کی زمین ہی کام آئے گی۔ مگر اس پر شاید کوئی ماحولیاتی ماہر مخالفت نہیں کرے گا۔“
صاحب تو ایسے بات کرتے ہیں جیسے تھرکول سے بننے والی بجلی کی وجہ سے لاڑکانہ میں لوڈ شیڈنگ ختم ہو گئی ہے (ایسا ہو بھی جائے تو تھر کے عوام اور باقی ماحول کے لیے اس کی قیمت بڑی ہے)۔ اگر دائیں گھٹنے کے درد کی دوا نہ لی تو بائیں گھٹنے پر لگنے والے ڈنڈے کی چوٹ کی بھی شکایت نہ کریں۔ باقی ریاست کی جانب سے محکوم قوموں کے وسائل کی لوٹ مار پر ہم اور صاحب خود بھی لکھتے رہے ہیں، سو اس پر کوئی دو رائے نہیں۔ مگر کوئلے کی حمایت میں صاحب اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ سولر، ونڈ، اور ہائیڈل انرجی بھی سوالیہ ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ اگر کسی ایک جگہ کی برائی (کوئلے) پر آواز کم یا نہ اٹھے تو اس کا مطلب دوسری جگہ کی برائی کا نیکی میں بدلنا نہیں ہوتا۔ ساتھ ہی یہ بھی مانتے ہیں کہ امریکہ یا مغرب، ماحولیات کے سوال پر چین یا تیسری دنیا کی ابھرتی معیشتوں پر رکاوٹ لگا رہے ہیں، لیکن کیا ماحولیات کے سوال پر ساری حساسیت (سینسیٹوٹی) کو سامراج یا ریاست نواز کہنا مناسب ہوگا؟ باقی اس رکاوٹ کا بھی خودمختار ملک ہی سامنا کریں گے، وہ نہیں جن کے پاس اپنی ریاستی بینک بھی نہیں ہے۔
سائیں نصیر میمن اپنی گفتگو کا اختتام اس پیراگراف پر کرتے ہیں؛
’’تھر کے اُس پار بھارت 1950 کے عشرے سے اسی طرح کی لگنائٹ کوئلے سے بجلی بنا رہا ہے، لیکن اگر راجستھان میں کوئی بربادی ہوئی ہو تو کوئی دکھائے۔ یہاں تو اچھے بھلے لوگ ہیرو بننے، تالیاں بٹورنے اور سوشل میڈیا پر لائکس حاصل کرنے کی دوڑ میں اس مہم کا حصہ بن گئے۔ اگر مختلف آراء کو سننے اور ان کا احترام کرنے کا رویہ ہوتا تو شاید اس معاملے پر سنجیدگی سے بحث ہوتی اور ایک دوسرے سے سیکھا جاتا، مگر جب رویہ ہی ایسا نہ ہو تو کون بات کرے؟ باقی فوسل فیولز کے مخالف کئی مجاہدین نے ماحولیاتی یکجہتی کے طور پر اپنی ذاتی زندگی میں گاڑیوں، ریفریجریٹرز اور ایئرکنڈیشنرز کا استعمال بند کر دیا ہے، اس کے بارے میں مجھے علم نہیں۔‘‘
” اس لیے، کہیں بھی کوئلے کی بربادی کی کہانی تلاش کرنا، ہاتھ کنگن کے لیے آئینہ دیکھنے کے برابر ہے۔
یہ بات درست ہے کہ گھریلو استعمال کی چیزیں (جیسے گاڑیاں، فرج، اور ایئر کنڈیشنر) بھی ماحول دوست نہیں ہیں، لیکن ان کے اثرات کو کوئلے کی تباہی کے برابر ٹھہرانا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ ریاست بھی اپنی کرپشن اور جرائم کا بوجھ عوام پر ڈال کر (individualizing the guilt) خود کو بری الذمہ کرنے کی کوشش کرتی ہے، اور سائیں نصیر میمن نے بھی اسی روش کا انتخاب کیا ہے جس پر انہیں سبز اور سیاہ سلام پیش کیا جا سکتا ہے۔
—♦—
بخشل تھلہو عوامی پارٹی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے محنت کشوں کو منظم کرتے ہوئے سوشلسٹ تبدیلی کے لئے کوشاں ہیں۔ آپ اکثر سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔