پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛
” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں گے۔ ہم ترقی پسند ہوں گے یا ملنگ۔
2۔ صوفی سندھ کے جس روادار معاشرے کو (ہمارے دوست) glamourize کر رہے ہیں وہ جاگیردارانہ پیداواری نظام کا اوپری ڈھانچہ، سپر سٹرکچر ہے۔
3۔ سندھی بورژوا سیاست دانوں کو صوفی ازم کا چوغا پہننا ان کی سیاست کی ضرورت ہے۔“
میں سمجھتا ہوں تصوف، صوفی ازم اور سندھ کی رواداری بابت یہ خیالات یک طرفہ اور ٹھیک نہیں۔ یہ خیالات 60ء کی دہائی کے ان ترقی پسندوں میں عام پائے جاتے تھے جو over scientific تھے، جنہیں مغرب کی ہر بات میں جدیدیت اور ترقی پسندی، جبکہ اپنی مشرقی تہذیب کے ہر پہلو میں قدامت پسندی اور رجعت پسندی دکھتی تھی۔ یہی وہ کالونیل فکری رویہ ہے جس کے خلاف بیسویں صدی میں اورئنٹل فلسفے (اورئنٹلزم) جگہ پیدا کرنا شروع کی۔ اس رجحان نے بھی کہیں غیر ضروری طور پر اک دوسری انتہاپسندی (قومی یا تہذیبی نرگسیت) کو جنم دیا، مگر اپنی تاریخ کو اپنی نظر سے دیکھنے کے عمل (جس کی تو ہم نے ابھی شروعات کی ہے) میں یہ بیماری کی طرح سے مگر فطری بھی بن جاتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ سماج کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کا دعویٰ رکھنے والے ہمارے کچھ ساتھی اپنے سماج کو تاریخی اور سائنسی بنیادوں پر سمجھنے میں کمزور ثابت ہوتے ہیں۔
مارکس نے ہیگل سے متاثر ہوکر شروع میں کہا تھا کہ انڈین کی کوئی تاریخ نہیں مگر بعد میں مارکس کو اپنے اس غیر جدلی خیال کو بدلنا پڑا۔ مگر ہم اپنی تاریخ اور تہذیب بابت خیالات بدلنے میں سُست تو درکنار شاید اس کے لیے تیار بھی نہیں۔ پہاڑی اور ریگستانی مشرقِ وسطیٰ کی تہذیبوں کے برعکس، متحدہ سرسبز ہندوستان تاریخی طور پر کثیر المذاہب رہا ہے۔ سماجی ارتقاء کو لازمی طور پر ایک ایسے فلسفےاور فن کی ضرورت رہی ہوگی جو وحدت الوجودیت اور رواداری پر اکتفا کرے۔ یہی کام یہاں پر تصوف نے کیا۔
یہی سبب ہے کہ برصغیر اور خاص طورسے پاکستان کے کمیونسٹوں کے نظریاتی استاد سبط حسن سے جب ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ ان کی ترقی پسندی کی بنیادیں کیا ہیں؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک عالمی (مارکسزم) ہے، اور ایک مقامی (تصوف)۔ یہ وہی سبط حسن ہے جس نے صوفی شاہ عنایت کو ”سندھ کا پہلا سوشلسٹ صوفی“ کہا اور لکھا تھا۔ ”جیہڑا واہوے اوہی کھاوے“ کا نعرہ دینے والی اٹھارہویں صدی کی یہ تحریک (جس میں بیس ہزار کسان مارے گئے) اپنے جوہر میں جاگیردار دُشمن تھی۔ جس کو کامریڈ نے جاگیرداری کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہاں تصوف اسی طرح جاگیردارانہ دور کے سماجی شعور (بالائی ڈھانچے) کا فلسفیانہ اور سیاسی اظہار ہے، جس طرح مارکسزم جدیدیت اور سرمایہ دارانہ دور کا۔ مگر مارکسزم سرمایہ داری کا پھر بھی رَد ہے نہ کہ اس کی توضیح۔ یہی بات تصوف اور جاگیرداری کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ ہر phenomenon کی طرح تصوف بھی appearance اور Essence میں بٹا ہوا ہے، مگر ہم جب تصوف، ویدانت یا صوفی ازم کو تارک الدنیا فلسفہ کہتے ہیں تو ہم سرکاری، فراریت پسند، ملنگی، اور رجعتی تصوف کی Appearance پر تصوف کے انقلابی جوہر کو قربان کردیتے ہیں۔
مارکس اگر ہیگل کے فلسفے کے ساتھ یہی کرتا تو اٹھارہویں صدی کی میکانکی مادیت کبھی بھی جدلی جوہر کو نہ پاسکتی تھی۔ تصوف ہزاروں سالوں (سندھو کے کنارے لکھے ویدوں کے دور) سے ہماری لوک وزڈم یا کامن سینس رہا ہے۔ ہر کامن سینس متضاد ہوتا ہے۔ اس میں ترقی پسند یا رجعتی دونوں پہلو ہوتے ہیں جن کو الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ”سندھی بورژوا سیاست دانوں کو صوفی ازم کا چوغا پہننا ان کی سیاست کی ضرورت ہے“۔ مگر سوال ہے کہ کیوں؟ کیوں کہ وہ سندھ ہی ہے جہاں ریاست کی تمام تر کوششوں کے باوجود سماج اور عوام لطیف کے خیالات میں رچی بسی ہوئی ہے۔
کسی پنجابی دانشور نے حالیہ سندھ کے ڈاکٹر شاہنواز واقعے پر خوب لکھا تھا کہ؛پہلی بار دیکھا گیا کہ ایک مسلمان لاش کو جلانا چاہ رہا ہے اور ایک ہندو لاش کو دفنانا چاہ رہا ہے۔
یہ بھی پہلی بار دیکھا گیا کہ ہندوؤں نے بھی جنازہ پڑھا۔ والدین نے بیٹے شاہنواز کا جنازہ پڑھا، باقیوں نے انتہا پسندی کا جنازہ پڑھا۔
یہ بھی پہلی بار دیکھا گیا کہ لاش ایک تھی اور قبریں دو کھودی گئیں۔ ایک قبر میں شاہنواز کو دفن کیا گیا، دوسری میں جہالت کو دفنایا گیا۔
ایسا کہاں ہوتا ہے؟ ایسا سندھ میں ہوتا ہے۔
یہ پریمو کا ہاتھ نہیں ہے، یہ سندھ کی تہذیب ہے جسے ایک ماں چوم رہی ہے! فرنود
کارپوریٹ اور سرکاری تصوف کے ذریعے عوامی تصوف کو گندہ کرنے کی کوشش ہر دور کے حاکم کرتے ہیں۔ اگر ایران کو جدید کیلنڈر دینے والا، فلکیات اور فلسفے کا ماہر، کمال صوفی شاعر عمر خیام ہے تو پھر سائنس اور علم دشمن امام غزالی بھی اس کا ہم عصر ہے۔ اورنگزیب اور دارہ شکوہ کا تضاد بھی ریاستی تنگ نظر مذہب کا سماجی رواداری کے ساتھ تضاد تھا۔ اس تضاد کو گڈ مڈ کرنے سے نہیں بلکہ ان کو الگ کرکے ہی ہم اک حقیقت پسندانہ تجزیے کی طرف بڑھ سکتے ہیں.
” تصوف یا صوفیوں پہ چارج شیٹ کا جواب“ کے عنواں سے میں نے اپریل 2018ء میں اک مضمون تفصیل کے ساتھ لکھا تھا۔ اس کے کچھ حصے بھی رقم کر رہا ہوں۔
لہٰذا، دونوں طرح کے صوفیوں کو الگ الگ کرکے دیکھنا اور دکھانا ضروری ہے۔ کچا مال اور آدھا سچ ہر دور میں ملتا ہے، لیکن اگر اسی کو معیار بنالیا جائے تو پھر علم و تحقیق کے سب دروازے بند ہو جائیں گے۔
مارکس کہتا ہے؛
”اگر ظاہری شکل اور حقیقت براہِ راست مطابقت رکھتیں، تو تمام سائنس غیر ضروری ہو جاتی۔“
اس لیے عرض یہ ہے کہ نہ صرف تصوف بلکہ سیاست سے لے کر سائنس تک، کسی بھی شعبے کی ظاہر کو اس کے جوہر سے موازنہ کرکے، ہم اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے۔
سرِ آئینہ میرا عکس ہے
پسِ آئینہ کوئی اور ہے
صوفیوں یا تصوف کے ظاہر پر چارج شیٹ (دُنیا میں خرابی نہیں ہے، خرابی تمہارے اندر ہے، تمہیں خود کو ٹھیک کرنا ہے، دُنیا خودبخود ٹھیک ہو جائے گی۔ مالک کی ذات مہربان ہے، صبر شکر کے ساتھ گزارا کرو، یہ فانی دُنیا ہے، یہاں سے ہر کوئی چلا جائے گا۔ دولت اور ترقی کیا؟ خود کو مٹا دینا ہی اصل خوشی ہے، وغیرہ) کو کسی نہ کسی حوالے سے درست سمجھا جا سکتا ہے، لیکن کیا یہ باتیں تصوف کے جوہر پر بھی صادق آتی ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ نہیں!
مثال کے طور پر، سندھ اور اس پورے خطے کے صوفیوں کے امام، شاہ عبداللطیف بھٹائی ہیں۔ انہوں نے کاہوڑیوں، لاہوتیوں، جوگیوں، کَاپڑیوں، سامیوں، سامونڈیوں، سنتوں اور صوفیوں کا منشور لکھا۔ لطیف کا پیغام ان تمام باتوں کے برعکس ہے جو تصوف یا صوفیوں کے نام پر مشہور کی گئیں ہیں۔ مجھے تو یہ باتیں تصوف کے بجائے روایتی مذہب کے زیادہ قریب لگتی ہیں۔
میرے نزدیک، بھگت کبیر، نانک، بُلھے شاہ، باہو، شاہ حسین، وارث شاہ، لطیف اور سچل یہ سب لوگ دُنیا اور انسانیت سے مایوس نہیں تھے، بلکہ یہ سب علم، مزاحمت اور زندگی سے محبت کرنے والے لوگ تھے۔
انہوں نے وقت کے عوام دشمن حکمرانوں اور دقیانوسی روایات کو چیلنج کیا۔ یہ عوام کی طرف گئے، ان کی زبان میں بات کی اور انہیں ظلم کے خلاف مزاحمت کی ترغیب دی۔ ”اپنی نگری آپ وسا، تُو پُٹ انگريزی تھانے“۔ یہ لوگ اپنے دور میں انسانیت کی اعلیٰ اقدار کے امین اور مستقبل کے انصاف پر مبنی معاشرے کے نقیب تھے۔
یہ لوگ حق کی تبلیغ اپنے عمل اور محنت کے ذریعے کرتے تھے، اس لیے ان کی وفات کے بعد، حکمرانوں نے ان کے مقبرے بنا کر انہیں پیر بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ البتہ، انہوں نے دنیا اور ذات سے متعلق غلط تصورات کو ترک کرنے یا توڑنے کی بات کی، لیکن صرف یہ کیوں؟ تاریخ کے تمام دانشوروں بشمولِ مارکس بھی اجناس کی فریب نظری (commodity fetchism) پر بات کرتا ہے، جو کہ ہمارے دور کے دانشور سلاوو ژیژک کے مطابق، ”حقیقت کے بجائے ورچوئل کی حقیقت“ ہے۔
البتہ، میں اس چارج شیٹ سے متفق ہوں کہ صرف تصوف سے مذہبی انتہاپسندی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ موجودہ مذہبی انتہاپسندی صرف مذہبی فکر کا نتیجہ نہیں، بلکہ سرمایہ داری اور اس کی سیاست کا نتیجہ بھی ہے۔
ہمارے کچھ کامریڈ تصوف کو مذہب کی پیداوار قرار دیتے ہیں، لیکن اسے منظم مذہب کے خلاف ایک احتجاج اور مزاحمت کی صورت میں نہیں دیکھتے، جیسے مارکس نے مذہبی تکالیف کے بارے میں لکھا تھا کہ؛
”یہ حقیقی تکلیف کا اظہار اور اس کے خلاف احتجاج بھی ہے۔“
اگر مذہب کو بے روح سماج کی روح کہا جا سکتا ہے، تو تصوف کو بھی ایک ریاستی، سرکاری اور بے روح مذہب کے خلاف روحانی اور ثقافتی مزاحمت کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے دوست بھی اس مزاحمت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن صرف انفرادی سطح تک۔ جیسے وہ ”ان الحق“کے اعلان کو صرف ایک ذاتی بغاوت کے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مارکس کا پسندیدہ کردار پرومیتھیس تھا، جس نے دیگر دیوتاؤں کے خلاف بغاوت کی اور انسانوں کو علم کی آگ دی، اور اس جرم کی پاداش میں صبح سے شام تک اسے عقاب نوچتے رہتے تھے۔ یہ بغاوت انفرادی تھی، لیکن صرف ذاتی آزادی کے لیے نہیں۔ یہاں ”ان الحق“ کے نعرے یا اعلان کی تفصیل میں نہیں جایا جا سکتا، لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مطلب ذاتی حق نہیں بلکہ کل وجود کا حق ہے۔
تصوف کی فکر، اسپینوزا، ہیگل اور مارکس کی طرح، وحدانی ( monist) ہے یعنی حقیقت ایک ہے اور متضاد ہے۔ حق کی آفاقیت ایک حقیقت ہے، لیکن یہ نعرہ اور تحریک حق کو مذہبی سے نکال کر دنیاوی بنا دیتی ہے، جیسے یونانی فلسفی پروٹاگورس کے الفاظ تھے کہ؛”انسان ہی ہر چیز کا معیار ہے“۔
عام تنقید یہ ہے کہ تصوف لوگوں کو غیر سیاسی اور غیر پیداواری بناتا ہے، اور آج کے دور میں سندھ کو اعلیٰ سطح کے ماہرین، دانشوروں، سائنسدانوں اور فنکاروں کی ضرورت ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ صوفی بننے سے کوئی شخص اچھا سائنسدان، استاد یا سیاستدان نہیں بن سکتا۔ سائنس کی تاریخ اور 20ویں صدی کی عظیم اشتراکی شخصیت البرٹ آئن اسٹائن کے الفاظ کو پڑھیں، جو انہوں نے 1946ء میں ایک خط میں لکھے؛
”سب سے اعلیٰ احساس جو ہر انسان کو ہونا چاہیے، وہ وجدانی احساس ہے۔ اس میں فن اور حقیقی سائنس کا بیج چھپا ہوا ہے۔۔۔“
اسی طرح تاریخ میں اسپینوزا سے لے کر جون آف آرک تک کئی مثالیں ملتی ہیں جو صوفیوں یا ان کے نظریات سے متاثر تھے اور انہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں عظیم کارنامے انجام دئیے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہماری فلاح، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی میں ہے۔ نوآبادیاتی دور میں دو لاکھ سے زیادہ نہ ہونے والے انگریزوں نے اس کروڑوں کی آبادی والے برصغیر کو صدیوں تک غلام بنایا، کیونکہ ان کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی تھی۔ مگر سائنس یا اسٹیفن ہاکنگ کا فن یا شیکسپیئر سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔
میرے تجربے میں تصوف اور شاہ لطیف کے حوالے سے دو متضاد انتہائیں ہیں جو عدم برداشت کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ ایک وہ جو تصوف کے کسی خیال کو سائنسی انداز میں پرکھتے ہوئے رد کر دیتے ہیں، اور دوسرے وہ جو لطیف پر تنقید کو ان کے وقار کے خلاف گستاخی سمجھتے ہیں۔ اگر عقیدت پسندی کے انفرادی اور سماجی نقصانات ہیں، تو غیر ضروری سائنسی نقطہ نظر کے بھی نقصانات ہو سکتے ہیں۔
آخر میں، ہمیں تصوف کی رجعتی اشکال اور اس کے انقلابی سبق کو الگ الگ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ کام کا ہے اسے اپنایا جائے اور اپنی سمجھ کو طاقت بخشی جائے، تاکہ ایک دوسرے پر جائز تنقید کرتے ہوئے جڑا جا سکے۔ یہی ہمارے بزرگوں کی مزاحمتی تاریخ کا سبق ہے۔
—♦—

بخشل تھلہو عوامی پارٹی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے محنت کشوں کو منظم کرتے ہوئے سوشلسٹ تبدیلی کے لئے کوشاں ہیں۔ آپ اکثر سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛
” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں گے۔ ہم ترقی پسند ہوں گے یا ملنگ۔
2۔ صوفی سندھ کے جس روادار معاشرے کو (ہمارے دوست) glamourize کر رہے ہیں وہ جاگیردارانہ پیداواری نظام کا اوپری ڈھانچہ، سپر سٹرکچر ہے۔
3۔ سندھی بورژوا سیاست دانوں کو صوفی ازم کا چوغا پہننا ان کی سیاست کی ضرورت ہے۔“
میں سمجھتا ہوں تصوف، صوفی ازم اور سندھ کی رواداری بابت یہ خیالات یک طرفہ اور ٹھیک نہیں۔ یہ خیالات 60ء کی دہائی کے ان ترقی پسندوں میں عام پائے جاتے تھے جو over scientific تھے، جنہیں مغرب کی ہر بات میں جدیدیت اور ترقی پسندی، جبکہ اپنی مشرقی تہذیب کے ہر پہلو میں قدامت پسندی اور رجعت پسندی دکھتی تھی۔ یہی وہ کالونیل فکری رویہ ہے جس کے خلاف بیسویں صدی میں اورئنٹل فلسفے (اورئنٹلزم) جگہ پیدا کرنا شروع کی۔ اس رجحان نے بھی کہیں غیر ضروری طور پر اک دوسری انتہاپسندی (قومی یا تہذیبی نرگسیت) کو جنم دیا، مگر اپنی تاریخ کو اپنی نظر سے دیکھنے کے عمل (جس کی تو ہم نے ابھی شروعات کی ہے) میں یہ بیماری کی طرح سے مگر فطری بھی بن جاتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ سماج کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کا دعویٰ رکھنے والے ہمارے کچھ ساتھی اپنے سماج کو تاریخی اور سائنسی بنیادوں پر سمجھنے میں کمزور ثابت ہوتے ہیں۔
مارکس نے ہیگل سے متاثر ہوکر شروع میں کہا تھا کہ انڈین کی کوئی تاریخ نہیں مگر بعد میں مارکس کو اپنے اس غیر جدلی خیال کو بدلنا پڑا۔ مگر ہم اپنی تاریخ اور تہذیب بابت خیالات بدلنے میں سُست تو درکنار شاید اس کے لیے تیار بھی نہیں۔ پہاڑی اور ریگستانی مشرقِ وسطیٰ کی تہذیبوں کے برعکس، متحدہ سرسبز ہندوستان تاریخی طور پر کثیر المذاہب رہا ہے۔ سماجی ارتقاء کو لازمی طور پر ایک ایسے فلسفےاور فن کی ضرورت رہی ہوگی جو وحدت الوجودیت اور رواداری پر اکتفا کرے۔ یہی کام یہاں پر تصوف نے کیا۔
یہی سبب ہے کہ برصغیر اور خاص طورسے پاکستان کے کمیونسٹوں کے نظریاتی استاد سبط حسن سے جب ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ ان کی ترقی پسندی کی بنیادیں کیا ہیں؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک عالمی (مارکسزم) ہے، اور ایک مقامی (تصوف)۔ یہ وہی سبط حسن ہے جس نے صوفی شاہ عنایت کو ”سندھ کا پہلا سوشلسٹ صوفی“ کہا اور لکھا تھا۔ ”جیہڑا واہوے اوہی کھاوے“ کا نعرہ دینے والی اٹھارہویں صدی کی یہ تحریک (جس میں بیس ہزار کسان مارے گئے) اپنے جوہر میں جاگیردار دُشمن تھی۔ جس کو کامریڈ نے جاگیرداری کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہاں تصوف اسی طرح جاگیردارانہ دور کے سماجی شعور (بالائی ڈھانچے) کا فلسفیانہ اور سیاسی اظہار ہے، جس طرح مارکسزم جدیدیت اور سرمایہ دارانہ دور کا۔ مگر مارکسزم سرمایہ داری کا پھر بھی رَد ہے نہ کہ اس کی توضیح۔ یہی بات تصوف اور جاگیرداری کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ ہر phenomenon کی طرح تصوف بھی appearance اور Essence میں بٹا ہوا ہے، مگر ہم جب تصوف، ویدانت یا صوفی ازم کو تارک الدنیا فلسفہ کہتے ہیں تو ہم سرکاری، فراریت پسند، ملنگی، اور رجعتی تصوف کی Appearance پر تصوف کے انقلابی جوہر کو قربان کردیتے ہیں۔
مارکس اگر ہیگل کے فلسفے کے ساتھ یہی کرتا تو اٹھارہویں صدی کی میکانکی مادیت کبھی بھی جدلی جوہر کو نہ پاسکتی تھی۔ تصوف ہزاروں سالوں (سندھو کے کنارے لکھے ویدوں کے دور) سے ہماری لوک وزڈم یا کامن سینس رہا ہے۔ ہر کامن سینس متضاد ہوتا ہے۔ اس میں ترقی پسند یا رجعتی دونوں پہلو ہوتے ہیں جن کو الگ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ”سندھی بورژوا سیاست دانوں کو صوفی ازم کا چوغا پہننا ان کی سیاست کی ضرورت ہے“۔ مگر سوال ہے کہ کیوں؟ کیوں کہ وہ سندھ ہی ہے جہاں ریاست کی تمام تر کوششوں کے باوجود سماج اور عوام لطیف کے خیالات میں رچی بسی ہوئی ہے۔
کسی پنجابی دانشور نے حالیہ سندھ کے ڈاکٹر شاہنواز واقعے پر خوب لکھا تھا کہ؛پہلی بار دیکھا گیا کہ ایک مسلمان لاش کو جلانا چاہ رہا ہے اور ایک ہندو لاش کو دفنانا چاہ رہا ہے۔
یہ بھی پہلی بار دیکھا گیا کہ ہندوؤں نے بھی جنازہ پڑھا۔ والدین نے بیٹے شاہنواز کا جنازہ پڑھا، باقیوں نے انتہا پسندی کا جنازہ پڑھا۔
یہ بھی پہلی بار دیکھا گیا کہ لاش ایک تھی اور قبریں دو کھودی گئیں۔ ایک قبر میں شاہنواز کو دفن کیا گیا، دوسری میں جہالت کو دفنایا گیا۔
ایسا کہاں ہوتا ہے؟ ایسا سندھ میں ہوتا ہے۔
یہ پریمو کا ہاتھ نہیں ہے، یہ سندھ کی تہذیب ہے جسے ایک ماں چوم رہی ہے! فرنود
کارپوریٹ اور سرکاری تصوف کے ذریعے عوامی تصوف کو گندہ کرنے کی کوشش ہر دور کے حاکم کرتے ہیں۔ اگر ایران کو جدید کیلنڈر دینے والا، فلکیات اور فلسفے کا ماہر، کمال صوفی شاعر عمر خیام ہے تو پھر سائنس اور علم دشمن امام غزالی بھی اس کا ہم عصر ہے۔ اورنگزیب اور دارہ شکوہ کا تضاد بھی ریاستی تنگ نظر مذہب کا سماجی رواداری کے ساتھ تضاد تھا۔ اس تضاد کو گڈ مڈ کرنے سے نہیں بلکہ ان کو الگ کرکے ہی ہم اک حقیقت پسندانہ تجزیے کی طرف بڑھ سکتے ہیں.
” تصوف یا صوفیوں پہ چارج شیٹ کا جواب“ کے عنواں سے میں نے اپریل 2018ء میں اک مضمون تفصیل کے ساتھ لکھا تھا۔ اس کے کچھ حصے بھی رقم کر رہا ہوں۔
لہٰذا، دونوں طرح کے صوفیوں کو الگ الگ کرکے دیکھنا اور دکھانا ضروری ہے۔ کچا مال اور آدھا سچ ہر دور میں ملتا ہے، لیکن اگر اسی کو معیار بنالیا جائے تو پھر علم و تحقیق کے سب دروازے بند ہو جائیں گے۔
مارکس کہتا ہے؛
”اگر ظاہری شکل اور حقیقت براہِ راست مطابقت رکھتیں، تو تمام سائنس غیر ضروری ہو جاتی۔“
اس لیے عرض یہ ہے کہ نہ صرف تصوف بلکہ سیاست سے لے کر سائنس تک، کسی بھی شعبے کی ظاہر کو اس کے جوہر سے موازنہ کرکے، ہم اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے۔
سرِ آئینہ میرا عکس ہے
پسِ آئینہ کوئی اور ہے
صوفیوں یا تصوف کے ظاہر پر چارج شیٹ (دُنیا میں خرابی نہیں ہے، خرابی تمہارے اندر ہے، تمہیں خود کو ٹھیک کرنا ہے، دُنیا خودبخود ٹھیک ہو جائے گی۔ مالک کی ذات مہربان ہے، صبر شکر کے ساتھ گزارا کرو، یہ فانی دُنیا ہے، یہاں سے ہر کوئی چلا جائے گا۔ دولت اور ترقی کیا؟ خود کو مٹا دینا ہی اصل خوشی ہے، وغیرہ) کو کسی نہ کسی حوالے سے درست سمجھا جا سکتا ہے، لیکن کیا یہ باتیں تصوف کے جوہر پر بھی صادق آتی ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ نہیں!
مثال کے طور پر، سندھ اور اس پورے خطے کے صوفیوں کے امام، شاہ عبداللطیف بھٹائی ہیں۔ انہوں نے کاہوڑیوں، لاہوتیوں، جوگیوں، کَاپڑیوں، سامیوں، سامونڈیوں، سنتوں اور صوفیوں کا منشور لکھا۔ لطیف کا پیغام ان تمام باتوں کے برعکس ہے جو تصوف یا صوفیوں کے نام پر مشہور کی گئیں ہیں۔ مجھے تو یہ باتیں تصوف کے بجائے روایتی مذہب کے زیادہ قریب لگتی ہیں۔
میرے نزدیک، بھگت کبیر، نانک، بُلھے شاہ، باہو، شاہ حسین، وارث شاہ، لطیف اور سچل یہ سب لوگ دُنیا اور انسانیت سے مایوس نہیں تھے، بلکہ یہ سب علم، مزاحمت اور زندگی سے محبت کرنے والے لوگ تھے۔
انہوں نے وقت کے عوام دشمن حکمرانوں اور دقیانوسی روایات کو چیلنج کیا۔ یہ عوام کی طرف گئے، ان کی زبان میں بات کی اور انہیں ظلم کے خلاف مزاحمت کی ترغیب دی۔ ”اپنی نگری آپ وسا، تُو پُٹ انگريزی تھانے“۔ یہ لوگ اپنے دور میں انسانیت کی اعلیٰ اقدار کے امین اور مستقبل کے انصاف پر مبنی معاشرے کے نقیب تھے۔
یہ لوگ حق کی تبلیغ اپنے عمل اور محنت کے ذریعے کرتے تھے، اس لیے ان کی وفات کے بعد، حکمرانوں نے ان کے مقبرے بنا کر انہیں پیر بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ البتہ، انہوں نے دنیا اور ذات سے متعلق غلط تصورات کو ترک کرنے یا توڑنے کی بات کی، لیکن صرف یہ کیوں؟ تاریخ کے تمام دانشوروں بشمولِ مارکس بھی اجناس کی فریب نظری (commodity fetchism) پر بات کرتا ہے، جو کہ ہمارے دور کے دانشور سلاوو ژیژک کے مطابق، ”حقیقت کے بجائے ورچوئل کی حقیقت“ ہے۔
البتہ، میں اس چارج شیٹ سے متفق ہوں کہ صرف تصوف سے مذہبی انتہاپسندی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ موجودہ مذہبی انتہاپسندی صرف مذہبی فکر کا نتیجہ نہیں، بلکہ سرمایہ داری اور اس کی سیاست کا نتیجہ بھی ہے۔
ہمارے کچھ کامریڈ تصوف کو مذہب کی پیداوار قرار دیتے ہیں، لیکن اسے منظم مذہب کے خلاف ایک احتجاج اور مزاحمت کی صورت میں نہیں دیکھتے، جیسے مارکس نے مذہبی تکالیف کے بارے میں لکھا تھا کہ؛
”یہ حقیقی تکلیف کا اظہار اور اس کے خلاف احتجاج بھی ہے۔“
اگر مذہب کو بے روح سماج کی روح کہا جا سکتا ہے، تو تصوف کو بھی ایک ریاستی، سرکاری اور بے روح مذہب کے خلاف روحانی اور ثقافتی مزاحمت کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے دوست بھی اس مزاحمت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن صرف انفرادی سطح تک۔ جیسے وہ ”ان الحق“کے اعلان کو صرف ایک ذاتی بغاوت کے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مارکس کا پسندیدہ کردار پرومیتھیس تھا، جس نے دیگر دیوتاؤں کے خلاف بغاوت کی اور انسانوں کو علم کی آگ دی، اور اس جرم کی پاداش میں صبح سے شام تک اسے عقاب نوچتے رہتے تھے۔ یہ بغاوت انفرادی تھی، لیکن صرف ذاتی آزادی کے لیے نہیں۔ یہاں ”ان الحق“ کے نعرے یا اعلان کی تفصیل میں نہیں جایا جا سکتا، لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مطلب ذاتی حق نہیں بلکہ کل وجود کا حق ہے۔
تصوف کی فکر، اسپینوزا، ہیگل اور مارکس کی طرح، وحدانی ( monist) ہے یعنی حقیقت ایک ہے اور متضاد ہے۔ حق کی آفاقیت ایک حقیقت ہے، لیکن یہ نعرہ اور تحریک حق کو مذہبی سے نکال کر دنیاوی بنا دیتی ہے، جیسے یونانی فلسفی پروٹاگورس کے الفاظ تھے کہ؛”انسان ہی ہر چیز کا معیار ہے“۔
عام تنقید یہ ہے کہ تصوف لوگوں کو غیر سیاسی اور غیر پیداواری بناتا ہے، اور آج کے دور میں سندھ کو اعلیٰ سطح کے ماہرین، دانشوروں، سائنسدانوں اور فنکاروں کی ضرورت ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ صوفی بننے سے کوئی شخص اچھا سائنسدان، استاد یا سیاستدان نہیں بن سکتا۔ سائنس کی تاریخ اور 20ویں صدی کی عظیم اشتراکی شخصیت البرٹ آئن اسٹائن کے الفاظ کو پڑھیں، جو انہوں نے 1946ء میں ایک خط میں لکھے؛
”سب سے اعلیٰ احساس جو ہر انسان کو ہونا چاہیے، وہ وجدانی احساس ہے۔ اس میں فن اور حقیقی سائنس کا بیج چھپا ہوا ہے۔۔۔“
اسی طرح تاریخ میں اسپینوزا سے لے کر جون آف آرک تک کئی مثالیں ملتی ہیں جو صوفیوں یا ان کے نظریات سے متاثر تھے اور انہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں عظیم کارنامے انجام دئیے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہماری فلاح، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی میں ہے۔ نوآبادیاتی دور میں دو لاکھ سے زیادہ نہ ہونے والے انگریزوں نے اس کروڑوں کی آبادی والے برصغیر کو صدیوں تک غلام بنایا، کیونکہ ان کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی تھی۔ مگر سائنس یا اسٹیفن ہاکنگ کا فن یا شیکسپیئر سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔
میرے تجربے میں تصوف اور شاہ لطیف کے حوالے سے دو متضاد انتہائیں ہیں جو عدم برداشت کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ ایک وہ جو تصوف کے کسی خیال کو سائنسی انداز میں پرکھتے ہوئے رد کر دیتے ہیں، اور دوسرے وہ جو لطیف پر تنقید کو ان کے وقار کے خلاف گستاخی سمجھتے ہیں۔ اگر عقیدت پسندی کے انفرادی اور سماجی نقصانات ہیں، تو غیر ضروری سائنسی نقطہ نظر کے بھی نقصانات ہو سکتے ہیں۔
آخر میں، ہمیں تصوف کی رجعتی اشکال اور اس کے انقلابی سبق کو الگ الگ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ کام کا ہے اسے اپنایا جائے اور اپنی سمجھ کو طاقت بخشی جائے، تاکہ ایک دوسرے پر جائز تنقید کرتے ہوئے جڑا جا سکے۔ یہی ہمارے بزرگوں کی مزاحمتی تاریخ کا سبق ہے۔
—♦—

بخشل تھلہو عوامی پارٹی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے محنت کشوں کو منظم کرتے ہوئے سوشلسٹ تبدیلی کے لئے کوشاں ہیں۔ آپ اکثر سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔