پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد کا کسی ایک شخص یاشدت پسند جتھے کے ہاتھوں وحشیانہ قتل اب پاکستان کا چہرہ بن چکا ہے۔ مجھ پر بلاسفیمی کا الزام لگنے اور میرے وطن چھوڑنے کے واقعے کے بعد ابھی تک شدت پسندگروہوں اور تنظیموں، جیسے تحریکِ لبیک، سپاہ صحابہ، لشکر ِ طیبہ، جیشِ محمد و دیگر، سے وابستہ افراد، شدت پسند ذہنیت کے حامل نوجوان اور ایجنسیوں کے پروپیگنڈہ سیل کی فیک شناخت والے میری ہر پوسٹ پر پہنچ کر لکھتے ہیں گستاخ، بھاگ گیا، ڈر گیا مقابلہ کرتا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ پاکستان اور اس کے زیر ِکنٹرول علاقوں میں بلاسفیمی کے معاملے میں اگر قانون کا احترام ہو تو انسان قانونی لڑائی لڑتا ہے اور انصاف اپنا راستہ بناتا ہے۔ لیکن وہاں تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔ کوئی بھی ذہنی مریض اُٹھ کر آپ کو قتل کر سکتا ہے اور ایسا کرنے کیلئے اس کے پاس کسی ثبوت کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ وہ بس دوسروں سے سُن کر ہی ایسا کر لیتا ہے۔
اب یہ دیکھ لیجیے کہ کیسے گذشتہ ماہ کوئٹہ اور پھر عمر کوٹ سندھ میں بلاسفیمی کے الزام میں اور سخت سکیورٹی میں تھانے میں بند افراد کو پاگل پولیس اہلکاروں نے ہی اُٹھ کر مار دیا ہے۔ تو انسان کیسے توقع رکھے کہ وہ انصاف ملنے سے قبل تھانے، جیل یا عدالت میں محفوظ رہے گا۔
در حقیقت پاکستان اور اُس کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں بلاسفیمی کے الزامات کا شکار لوگوں کیلئے سب سے غیر محفوظ جگہیں یہی ہیں۔
میرے کیس میں انکوائری کرنے والا ڈی آئی جی میرپور ڈویژن اور میری پہلے سے دی گئی عبوری ضمانت رات کے اندھیرے میں منسوخ کرنے والا ایڈیشنل سیشن جج دونوں شدید دباؤ کا شکار تھے اور نفسیاتی مریض لگ رہےتھے، اور یہ بات اکثرپولیس ملازمین اور متعددوکیل بخوبی جانتے ہیں۔ وہ دونوں ایسی کسی بھی ملازمت کیلئے انتہائی ناموزوں ہیں جو انصاف اور قانون سے متعلق ہو۔(جس انسان کو اپنے ماتحتوں سے بات کرنے کی تمیز نہ ہو اور بات بات پہ اُن کو گندی گالیاں دے اور فضول، بے ربط اور بے تکی گفتگو کرے، وہ ڈی آئی جی بن جائے اور جو وکیل کو عدالت میں نہ گھسنے دے اور نہ کسی قانون کا خیال رکھے بلکہ سر عام بولے کہ مجھے چیف فون کر کے کہہ رہا ہے معاملہ مُکاؤ، وہ جج بن جائے اور ایسے لوگوں کو انصاف کرنے پر لگا دیا جائے تو باقی اندازہ آپ خود لگا لیجیے کہ قانون و انصاف کا حشر کیا ہوگا)۔
اسی طرح میرے خلاف گستاخی کا مقدمہ درج کروانے والے لوگوں کے پیچھے جو لوگ براہِ راست ملوث ہیں ان میں سے ایک آدمی پاکستان کی ایک انٹیلی جنس ایجنسی کا ڈی جی (جو خود ایک شدت پسند بیک گراؤنڈ رکھتا ہے) ہو اور دوسرا وہاں کا وزیر تعلیم (ایک سزا یافتہ مجرم) ہو تو پھر آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ کیس کا انجام کیا ہوگا۔
آزاد کشمیر میں بالعموم اور کوٹلی میں بالخصوص موجود پاکستان کی تمام ایجنسیاں ہر مسجد، مولوی اور مفتی کے پاس جا جا کر انہیں مجبور کر رہی تھیں جلوس نکالو، کمپین چلاؤ، منبر سے ڈاکٹر توقیر کے خلاف تقریریں کرو، ہر مسجد میں پرچیاں تقسیم کی جا رہی تھیں، کالعدم تنظیموں کے دہشت گرودں کو چوکوں میں لایا جا رہا تھا، تمام سہولت کار، مخبر،خفیہ اداروں کے پے رول پر کام کرنے والے کارندے اور اصلی و فیک سوشل میڈیا آئی ڈیز میرے خلاف مہلک پروپیگنڈہ کی بھرمار کر رہے تھے۔
کوٹلی تھانے کا ایس ایچ او ایجنسیوں کے دباؤمیں آ کر اور اُنکے اہلکاروں کے ہمراہ خود ضلع و تحصیل مفتی کے پاس جا کر میرے خلاف فتویٰ مانگ رہا تھا کہ ایف آئی آر کاٹ سکے۔ تو ایسے حالات میں 15 دن گزار کر یہی محسوس ہوا کہ یہاں نہ قانون آزاد ہے نہ انصاف۔ چونکہ جان بچانے کیلئے ہجرت اللہ کے رسول کی بھی سنت ہے اور انقلابی راہنماوں کا طریقہ کار بھی رہا ہے، تو اسی سنت کو اپنایا اور یقینا ًخود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ بمشکل جان بچا پایا۔
میرے وہاں سے بچ نکلنے کے بعد پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع پونچھ میں دو مزیدسیاسی کارکنان کو بھی ایک نظم سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے الزام میں بلاسفیمی کے مقدمات اور بدترین سوشل میڈیا ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اُن میں حال ہی میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والی ایک نوجوان طالبہ ہے جِس کے گھر کے سامنے جا کر ایک جتھے نے اُس طالبہ کے پورے خاندان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں تک دیں اور اُن دھمکیوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی۔
چند روز قبل پلندری سے تعلق رکھنے والے ایک اور ہر دل عزیز نوجوان سیاسی راہنما سردار امان کے خلاف مُلّاؤں اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے ایک اکٹھ نے راولاکوٹ میں ایک جلسہ منعقد کیا اور نوجوان راہنما کو مُلحِد قرار دے کر اُس کے خلاف عوام اور شدت پسندوں کو اُکسایااور پاکستان اور بھارت سے ریاست جموں کشمیر کی آزادی کی پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دیں۔
جلسے میں کالعدم جیش محمد کے امیر مسعود الیاس اور کالعدم جماعت الدعوہ کے امیر رضوان حنیف نے مجھے قتل کرنے اور امریکہ تک میرا پیچھا کر کے میری جان لینے کی سرعام دھمکیاں دیں اور لوگوں کو اکسایا کہ وہ سب ممتاز قادری بن جائیں اور پاکستان کے قبضے کے خلاف گفتگو کرنے والے سیاسی کارکنان کو قتل کریں۔ اِس جلسے میں درجنوں شِدت پسند دہشت گرد سرِ عام آتشیں اسلحہ لہراتے رہے اور مقامی پولیس، پاکستانی ایجنسیوں کے اہلکار اور سول انتظامیہ بھی اُن کے ساتھ کھڑی ہو کر اُس جلسے کی دیکھ بھال کرتی رہی۔
پاکستان میں ہر قتل اور ہر ناانصافی کے پیچھے قانون و انصاف کے اداروں میں بیٹھے افراد ہی شامل ہیں۔پاکستان میں بلاسفیمی کا الزام ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کر چکاہے۔اس کاروبار کے اہداف سیاسی، سماجی، معاشی یا فرقہ وارانہ کسی بھی نوعیت کے ہو سکتے ہیں اور اس کاروبار میں ملوث گروہ یعنی مُلّا، پولیس، ایجنسیاں، حکمران، سیاسی و سماجی حریف حتیٰ کہ رشتہ دارتک سب اپنے اپنے حصے کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
بلاسفیمی کے شکار افراد کے اہلِ خانہ، ساتھی اور دوست بھی شدید ذہنی و نفسیاتی دباؤ اور جان و مال کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں اور پاکستان جیسے ملکوں میں ایسے حالات پیدا کرنے والے افراد، ملازمین اور جتھوں کو سراہا جاتا ہے اور انہیں اعزازات و القابات سے نوازا جاتا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی صحافی احمد نورانی نے بلاسفیمی بزنس گروپ کے حوالے سے ایک تفصیلی اور رونگٹے کھڑی کر دینے والی تحقیقاتی رپورٹ بھی آن ائیر کی ہے۔یہ رپورٹ ایک جامع اور بھرپور تحقیق کے بعد مرتب کی گئی ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کیسے پاکستان میں بلاسفیمی بزنس اب ایک منظم کاروباری گروپ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور حکمرانوں اور فوج سے لیکر مقامی انتظامیہ، شدت پسند مذہبی جنونی اور جرائم پیشہ سیاستدان کیسے بلاسفیمی کو اپنے مکروہ سیاسی مقاصد و معاشی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کو مکمل طور پر یرغمال بنانے کے بعد اب یہ بزنس گروپ پاکستانی زیرِ قبضہ جموں کشمیرو گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی تانے بانے اور پرامن فضاء کو اپنا شکار بنا رہا ہے۔یہ ایک انتہائی غیر انسانی اور مہلک دھندہ ہے جِس کا شکار ابتدا میں مذہبی و لسانی اقلیتی گروہ، حقوق اور آزادی کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد بنتے ہیں لیکن آخری نتیجے میں پورا معاشرہ اِس دھندے کے مہلک نتائج کا شکار ہو جاتا ہے۔پاکستانی زیر قبضہ جموں کشمیروگلگت بلتستان کے علاقوں کے سیاسی کارکنان اور آزادی پسند تنظیموں کو تیزی سے بڑھتے ہوئے اِس خطرے سے نپٹنے کیلئے فوری اور نتیجہ خیز کردار ادا کرنا ہوگا۔
—♦—

ڈاکٹر توقیر گیلانی ترقی پسند شاعر ، ادیب اور سیاسی راہنما ہیں۔ آپ پاکستانی زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کےزونل صدر ہیں۔آپ کا تعلق پاکستانی زیرِانتظام کشمیر کے شہر کوٹلی سے ہے۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی مسائل پر مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 1
جواب دیں جواب منسوخ کریں
پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد کا کسی ایک شخص یاشدت پسند جتھے کے ہاتھوں وحشیانہ قتل اب پاکستان کا چہرہ بن چکا ہے۔ مجھ پر بلاسفیمی کا الزام لگنے اور میرے وطن چھوڑنے کے واقعے کے بعد ابھی تک شدت پسندگروہوں اور تنظیموں، جیسے تحریکِ لبیک، سپاہ صحابہ، لشکر ِ طیبہ، جیشِ محمد و دیگر، سے وابستہ افراد، شدت پسند ذہنیت کے حامل نوجوان اور ایجنسیوں کے پروپیگنڈہ سیل کی فیک شناخت والے میری ہر پوسٹ پر پہنچ کر لکھتے ہیں گستاخ، بھاگ گیا، ڈر گیا مقابلہ کرتا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ پاکستان اور اس کے زیر ِکنٹرول علاقوں میں بلاسفیمی کے معاملے میں اگر قانون کا احترام ہو تو انسان قانونی لڑائی لڑتا ہے اور انصاف اپنا راستہ بناتا ہے۔ لیکن وہاں تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔ کوئی بھی ذہنی مریض اُٹھ کر آپ کو قتل کر سکتا ہے اور ایسا کرنے کیلئے اس کے پاس کسی ثبوت کا ہونا بھی ضروری نہیں۔ وہ بس دوسروں سے سُن کر ہی ایسا کر لیتا ہے۔
اب یہ دیکھ لیجیے کہ کیسے گذشتہ ماہ کوئٹہ اور پھر عمر کوٹ سندھ میں بلاسفیمی کے الزام میں اور سخت سکیورٹی میں تھانے میں بند افراد کو پاگل پولیس اہلکاروں نے ہی اُٹھ کر مار دیا ہے۔ تو انسان کیسے توقع رکھے کہ وہ انصاف ملنے سے قبل تھانے، جیل یا عدالت میں محفوظ رہے گا۔
در حقیقت پاکستان اور اُس کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں بلاسفیمی کے الزامات کا شکار لوگوں کیلئے سب سے غیر محفوظ جگہیں یہی ہیں۔
میرے کیس میں انکوائری کرنے والا ڈی آئی جی میرپور ڈویژن اور میری پہلے سے دی گئی عبوری ضمانت رات کے اندھیرے میں منسوخ کرنے والا ایڈیشنل سیشن جج دونوں شدید دباؤ کا شکار تھے اور نفسیاتی مریض لگ رہےتھے، اور یہ بات اکثرپولیس ملازمین اور متعددوکیل بخوبی جانتے ہیں۔ وہ دونوں ایسی کسی بھی ملازمت کیلئے انتہائی ناموزوں ہیں جو انصاف اور قانون سے متعلق ہو۔(جس انسان کو اپنے ماتحتوں سے بات کرنے کی تمیز نہ ہو اور بات بات پہ اُن کو گندی گالیاں دے اور فضول، بے ربط اور بے تکی گفتگو کرے، وہ ڈی آئی جی بن جائے اور جو وکیل کو عدالت میں نہ گھسنے دے اور نہ کسی قانون کا خیال رکھے بلکہ سر عام بولے کہ مجھے چیف فون کر کے کہہ رہا ہے معاملہ مُکاؤ، وہ جج بن جائے اور ایسے لوگوں کو انصاف کرنے پر لگا دیا جائے تو باقی اندازہ آپ خود لگا لیجیے کہ قانون و انصاف کا حشر کیا ہوگا)۔
اسی طرح میرے خلاف گستاخی کا مقدمہ درج کروانے والے لوگوں کے پیچھے جو لوگ براہِ راست ملوث ہیں ان میں سے ایک آدمی پاکستان کی ایک انٹیلی جنس ایجنسی کا ڈی جی (جو خود ایک شدت پسند بیک گراؤنڈ رکھتا ہے) ہو اور دوسرا وہاں کا وزیر تعلیم (ایک سزا یافتہ مجرم) ہو تو پھر آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ کیس کا انجام کیا ہوگا۔
آزاد کشمیر میں بالعموم اور کوٹلی میں بالخصوص موجود پاکستان کی تمام ایجنسیاں ہر مسجد، مولوی اور مفتی کے پاس جا جا کر انہیں مجبور کر رہی تھیں جلوس نکالو، کمپین چلاؤ، منبر سے ڈاکٹر توقیر کے خلاف تقریریں کرو، ہر مسجد میں پرچیاں تقسیم کی جا رہی تھیں، کالعدم تنظیموں کے دہشت گرودں کو چوکوں میں لایا جا رہا تھا، تمام سہولت کار، مخبر،خفیہ اداروں کے پے رول پر کام کرنے والے کارندے اور اصلی و فیک سوشل میڈیا آئی ڈیز میرے خلاف مہلک پروپیگنڈہ کی بھرمار کر رہے تھے۔
کوٹلی تھانے کا ایس ایچ او ایجنسیوں کے دباؤمیں آ کر اور اُنکے اہلکاروں کے ہمراہ خود ضلع و تحصیل مفتی کے پاس جا کر میرے خلاف فتویٰ مانگ رہا تھا کہ ایف آئی آر کاٹ سکے۔ تو ایسے حالات میں 15 دن گزار کر یہی محسوس ہوا کہ یہاں نہ قانون آزاد ہے نہ انصاف۔ چونکہ جان بچانے کیلئے ہجرت اللہ کے رسول کی بھی سنت ہے اور انقلابی راہنماوں کا طریقہ کار بھی رہا ہے، تو اسی سنت کو اپنایا اور یقینا ًخود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ بمشکل جان بچا پایا۔
میرے وہاں سے بچ نکلنے کے بعد پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر کے ضلع پونچھ میں دو مزیدسیاسی کارکنان کو بھی ایک نظم سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے الزام میں بلاسفیمی کے مقدمات اور بدترین سوشل میڈیا ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اُن میں حال ہی میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والی ایک نوجوان طالبہ ہے جِس کے گھر کے سامنے جا کر ایک جتھے نے اُس طالبہ کے پورے خاندان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں تک دیں اور اُن دھمکیوں کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی۔
چند روز قبل پلندری سے تعلق رکھنے والے ایک اور ہر دل عزیز نوجوان سیاسی راہنما سردار امان کے خلاف مُلّاؤں اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے ایک اکٹھ نے راولاکوٹ میں ایک جلسہ منعقد کیا اور نوجوان راہنما کو مُلحِد قرار دے کر اُس کے خلاف عوام اور شدت پسندوں کو اُکسایااور پاکستان اور بھارت سے ریاست جموں کشمیر کی آزادی کی پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دیں۔
جلسے میں کالعدم جیش محمد کے امیر مسعود الیاس اور کالعدم جماعت الدعوہ کے امیر رضوان حنیف نے مجھے قتل کرنے اور امریکہ تک میرا پیچھا کر کے میری جان لینے کی سرعام دھمکیاں دیں اور لوگوں کو اکسایا کہ وہ سب ممتاز قادری بن جائیں اور پاکستان کے قبضے کے خلاف گفتگو کرنے والے سیاسی کارکنان کو قتل کریں۔ اِس جلسے میں درجنوں شِدت پسند دہشت گرد سرِ عام آتشیں اسلحہ لہراتے رہے اور مقامی پولیس، پاکستانی ایجنسیوں کے اہلکار اور سول انتظامیہ بھی اُن کے ساتھ کھڑی ہو کر اُس جلسے کی دیکھ بھال کرتی رہی۔
پاکستان میں ہر قتل اور ہر ناانصافی کے پیچھے قانون و انصاف کے اداروں میں بیٹھے افراد ہی شامل ہیں۔پاکستان میں بلاسفیمی کا الزام ایک منظم کاروبار کی شکل اختیار کر چکاہے۔اس کاروبار کے اہداف سیاسی، سماجی، معاشی یا فرقہ وارانہ کسی بھی نوعیت کے ہو سکتے ہیں اور اس کاروبار میں ملوث گروہ یعنی مُلّا، پولیس، ایجنسیاں، حکمران، سیاسی و سماجی حریف حتیٰ کہ رشتہ دارتک سب اپنے اپنے حصے کا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
بلاسفیمی کے شکار افراد کے اہلِ خانہ، ساتھی اور دوست بھی شدید ذہنی و نفسیاتی دباؤ اور جان و مال کے خطرات سے دوچار رہتے ہیں اور پاکستان جیسے ملکوں میں ایسے حالات پیدا کرنے والے افراد، ملازمین اور جتھوں کو سراہا جاتا ہے اور انہیں اعزازات و القابات سے نوازا جاتا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی صحافی احمد نورانی نے بلاسفیمی بزنس گروپ کے حوالے سے ایک تفصیلی اور رونگٹے کھڑی کر دینے والی تحقیقاتی رپورٹ بھی آن ائیر کی ہے۔یہ رپورٹ ایک جامع اور بھرپور تحقیق کے بعد مرتب کی گئی ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کیسے پاکستان میں بلاسفیمی بزنس اب ایک منظم کاروباری گروپ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور حکمرانوں اور فوج سے لیکر مقامی انتظامیہ، شدت پسند مذہبی جنونی اور جرائم پیشہ سیاستدان کیسے بلاسفیمی کو اپنے مکروہ سیاسی مقاصد و معاشی مفادات کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کو مکمل طور پر یرغمال بنانے کے بعد اب یہ بزنس گروپ پاکستانی زیرِ قبضہ جموں کشمیرو گلگت بلتستان کے سیاسی و سماجی تانے بانے اور پرامن فضاء کو اپنا شکار بنا رہا ہے۔یہ ایک انتہائی غیر انسانی اور مہلک دھندہ ہے جِس کا شکار ابتدا میں مذہبی و لسانی اقلیتی گروہ، حقوق اور آزادی کیلئے کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد بنتے ہیں لیکن آخری نتیجے میں پورا معاشرہ اِس دھندے کے مہلک نتائج کا شکار ہو جاتا ہے۔پاکستانی زیر قبضہ جموں کشمیروگلگت بلتستان کے علاقوں کے سیاسی کارکنان اور آزادی پسند تنظیموں کو تیزی سے بڑھتے ہوئے اِس خطرے سے نپٹنے کیلئے فوری اور نتیجہ خیز کردار ادا کرنا ہوگا۔
—♦—

ڈاکٹر توقیر گیلانی ترقی پسند شاعر ، ادیب اور سیاسی راہنما ہیں۔ آپ پاکستانی زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کےزونل صدر ہیں۔آپ کا تعلق پاکستانی زیرِانتظام کشمیر کے شہر کوٹلی سے ہے۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی مسائل پر مضامین بھی لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 1
-
جی بلکل پاکستان کی دهشتگرد تنظیمیں آے روز نوجوانوں کو مذهب کے نام گمراه کر کے لوگوں کو بلاوجہ قتل کروا دیتے بعد میں نوجوان کو پهانسی دلوای جاتی اور بلخصوص کشمیر میں فرقہ واریت عروج پر هے پاکستانی غنڈوں اور خفیہ ایجنسی کے کتے صرف اس طاق میں رهتے هیں کب ایک اچهے لیڈر کو ختم کیا جاے اپنا ملک یہ سنبهال نہی سکتے چلے کشمیر آذاد کروانے پاکستان کو چاهیۓ اپنے پالتو کتوں کو لگام دے ورنہ همارے هاں آواره کتوں کا علاج کیا لوگ بہتر جانتے هیں۔ پاکستان ایک دهشتگرد ملک هے جہاں صرف دهشتگرد تیار کیۓ جاتے هیں۔
جی بلکل پاکستان کی دهشتگرد تنظیمیں آے روز نوجوانوں کو مذهب کے نام گمراه کر کے لوگوں کو بلاوجہ قتل کروا دیتے بعد میں نوجوان کو پهانسی دلوای جاتی اور بلخصوص کشمیر میں فرقہ واریت عروج پر هے پاکستانی غنڈوں اور خفیہ ایجنسی کے کتے صرف اس طاق میں رهتے هیں کب ایک اچهے لیڈر کو ختم کیا جاے اپنا ملک یہ سنبهال نہی سکتے چلے کشمیر آذاد کروانے پاکستان کو چاهیۓ اپنے پالتو کتوں کو لگام دے ورنہ همارے هاں آواره کتوں کا علاج کیا لوگ بہتر جانتے هیں۔ پاکستان ایک دهشتگرد ملک هے جہاں صرف دهشتگرد تیار کیۓ جاتے هیں۔