اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر بالواسطہ تسلط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تسلط اقتصادی اور مالیاتی کنٹرول، پابندیوں، اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے مزید مستحکم ہوا ہے۔ اسے ”نواستعماریت“ کہا جاتا ہے، جہاں ترقی یافتہ ممالک کم ترقی یافتہ ممالک کو بالواسطہ طریقوں سے قابو میں رکھتے ہیں۔
اس تناظر میں، معاشی پابندیاں ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، جو ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو متاثر کرتی ہیں اور انہیں مغربی طاقتوں کے مفادات کے مطابق چلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ پابندیاں اکثر ان ممالک کی آبادیوں کو مالی مشکلات میں مبتلا کرتی ہیں، جس سے ان کی خودمختاری محدود ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسے عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ترقی پذیر ممالک پر ایسے قرضوں اور اقتصادی اصلاحات کا دباؤ ڈالتے ہیں جو ان کی معیشتوں کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع کرتے ہیں۔ یہ اقدامات مقامی معیشتوں کو کمزور کرتے ہیں اور انہیں بیرونی طاقتوں کے اثر و رسوخ میں لے آتے ہیں۔
اس سے بڑھ کے ثقافتی اثر و رسوخ اور عالمی میڈیا کے ذریعے مغربی اقدار اور طرز زندگی کو فروغ دیا جاتا ہے، جس سے مقامی ثقافتوں اور شناختوں کی محکومیت برقرار رہتی ہے۔ یہ ثقافتی بالادستی ”نواستعماریت“کی ایک اور شکل ہے، جو ترقی پذیر ممالک کو مغربی معیارات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔
ان تمام عوامل کے نتیجے میں، سابقہ محکوم ممالک کی خودمختاری اور ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور وہ معاشی اور ثقافتی طور پر مغربی طاقتوں کے زیر اثر رہتے ہیں۔
مغربی مرکزی میڈیا اکثر ایک قسم کے تکبر—یعنی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی—کا مظاہرہ کرتا ہے، جس کے ذریعے یہ غیر مغربی معاشروں کا جائزہ اپنی نام نہاد” لبرل اقدار “ اور بعض اوقات منافقانہ معیارات کی روشنی میں کرتا ہے۔ یہ رویہ عالمی سطح پر ترقی پذیر معاشروں کے تصور کو مسخ کرکے پیش کرتا ہے جس کا مقصد مغربی ممالک کے جیوسٹریٹیجک اور جیو اکنامک مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔
بہرحال مین سٹریم مغربی میڈیا کا یہ رجحان انگلوسینٹرزم سے منسلک ہے، جہاں دنیا کو بنیادی طور پر اینگلو-امریکی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، جس سے غیر انگریزی بولنے والی ثقافتیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ جس طراح امریکی ڈالر گلوبل کرنسی ہے اُسی طرح انگریزی گلوبل لینگوئج ہے۔ ایسا تعصب غلط ڈسکورسز کا باعث بنتا ہے اور عالمی معاشروں میں موجود تنوع (diversity) کی قدر کو کم کرتا ہے۔
ہربرٹ شِلر، جو ایک معروف امریکی میڈیا سکالر ہیں، جنھوں”میڈیا امپیریلزم “ پر کئی کتابیں اور مقالے لکھے، اُنھوں نے لکھا ہے کہ عالمی میڈیا کے نظام، خاص طور پر وہ جو مغربی طاقتوں کے زیر اثر ہیں، کس طرح استعماری ڈھانچوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کو دوام دیتے ہیں۔ موجودہ مضمون کے ساتھ ہم آہنگ اُن کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے جو مغربی میڈیا پر کہتے ہیں کہ:
”معلومات کا بہاؤ ایک غیر جانبدار عمل نہیں ہے بلکہ یہ اقتصادی اور سیاسی طاقت کو چند ہاتھوں میں برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم فیکٹر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس سے ایک ایسا نظام تشکیل پاتا ہے جو ماضی کے استعماری تعلقات کو مستحکم کرتا ہے، جس سے ترقی پذیر دنیا مغرب کی معلومات پر انحصار کرنے والا سامع بن کر رہ جاتی ہے۔“
یہ معاملہ محض مین سٹریم میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کی اپنی اپنی گائیڈ لائینز ہیں جنھیں بنیادی طور پر انہی ”انگلوسینٹرزم“ پر استوار کیا گیا ہے جو مین سٹریم میڈیا کے رہنما اصول ہیں۔ اس لیے اس خوش فہمی میں نہ رہا جائے کہ سوشل میڈیا پر وہ تمام باتیں کہی جا سکتی ہیں جو مین سٹریم میں نظر نہیں آتی ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر کسی حد تک ایک گنجائش ہے۔
ہربرٹ شلر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عالمی سطح پر طاقتور میڈیا ادارے کمزور ممالک میں ثقافتی اور سیاسی بیانیوں پر غلبہ حاصل کرتے ہیں۔ شلر کے مطابق، یہ غالب میڈیا ادارے، خاص طور پر مغربی ممالک کے، نہ صرف معلومات کی ترسیل کے طریقوں پر قابو پاتے ہیں، بلکہ یہ ان کی اقدار، نظریات اور ثقافت کو دوسرے ممالک میں مسلط کرتے ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے مقامی ثقافتوں اور آوازوں کو دبایا جاتا ہے اور ان کے اپنے بیانیے میں کمی آتی ہے
ہربرٹ شلر کے علاوہ بھی کئی دیگر سکالرز نے مغربی میڈیا کے استعماری کردار پر لکھا ہے۔ ان میں سے چند اہم شخصیات یہ ہیں:-
ایڈورڈ سعید: ان کی مشہور کتاب “اورینٹلزم” (Orientalism) میں مغربی میڈیا اور اکیڈمیا کے ذریعے مشرقی ثقافتوں کی توہین اور انہیں غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ طور پر پیش کرنے کی بحث کی گئی ہے۔ سعید کے مطابق، مغربی میڈیا نے مشرق کوایک”غیرمتمدن “ اور” وحشی“ طور پر دکھایا ہے تاکہ استعمار کے جواز کے طور پر اس کی تصویر پیش کی جا سکے۔
نائلہ کبیر: انہوں نے بھی اس موضوع پر کام کیا ہے اور خاص طور پر یہ بیان کیا کہ مغربی میڈیا، خاص طور پر نیوز چینلز، دنیا کے مختلف حصوں کو ایک مخصوص تناظر سے دکھاتے ہیں جو ان کے استعماریت اور ثقافتی غلبے کو تقویت دیتا ہے۔
رابرٹ ہاکنس: انہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ عالمی میڈیا کا غالب کردار مغربی طاقتوں کے سیاسی مفادات کے مطابق ہوتا ہے، جس کے ذریعے عالمی سطح پر ثقافتی اور سیاسی ہمواری کو فروغ دیا جاتا ہے۔
نوم چومسکی کو آج کون نہیں جانتا۔ انھوں نے بھی مغربی میڈیا کے استعماری کردار پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے کام میں میڈیا کی طاقت اور اس کے سیاسی مقاصد پر تفصیل سے بات کی ہے۔ چومسکی کا ماننا ہے کہ مغربی میڈیا عالمی سطح پر حکومتوں، کارپوریٹ مفادات، اور طاقتور اداروں کے مفادات کو فروغ دیتا ہے اور اس کے ذریعے عوامی رائے کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
چومسکی کی کتاب ”مینوفیکچرنگ کنسینس“ (Manufacturing Consent) میں انہوں نے یہ وضاحت کی ہے کہ کس طرح میڈیا ادارے بڑے تجارتی مفادات کی خدمت کرتے ہیں اور عوامی رائے کو اس طرح تشکیل دیتے ہیں کہ وہ طاقتور طبقات کے مفادات کو تحفظ دے۔ اس میں میڈیا کی سازش، ابلاغی بے ایمانی، اور استعماری اثرات پر زور دیا گیا ہے۔
کمال یہ ہے کہ جب مغربی میڈیا مسلم معاشوں کی بات کرتا ہے تو سٹیریوٹائپنگ کرتے ہوئے داڑھی اور حجاب کو ان کی شناخت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ شناخت اتنی زیادہ پھیلتی ہے کہ جو داڑھی اور حجاب مسلم اکثریتی آبادی میں محض ایک چھوٹی اقلیت کی شناخت تھے، وہ ان ممالک میں بھی تکثیریت کو کم کرتے ہوئے کثیرالثقافتی مسلم معاشروں کی ایک ہی شناخت بن جاتی ہے۔
حالانکہ کئی ممالک جہاں مسلم آبادی کی اکثریت ہے وہاں ایک تنوع ہے، لوگ ایک ہی انداز یا طریقے سے زندگی بسر نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاں لچکدار زندگی سے لے کر قدامت پسند ہر قسم کے مختلف خیالات والے لوگ رہ رہے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا عموماً ایک مسلم معاشرے یا ریاست کو اپنے زاویے سے دیکھتا ہے اور اپنے سٹریٹیجک مفادات کے مطابق ان کی توضیح و توجیح کرتا ہے۔ مثلاً ایران اور سعودی عرب کی کوریج میں فرق۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مغربی میڈیا کے تکبر کی وجہ سے رپورٹنگ میں دوہرے معیارات خودبخود فروغ پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انڈیا میں COVID-19 بحران کے دوران، مغربی میڈیا نے صورتحال کو سنسنی خیز بنا کر پیش کیا، تکلیف دہ تصاویر پر توجہ مرکوز کی جو عام طور پر ان کے اپنے ممالک میں نامناسب سمجھی جاتیں۔ جبکہ برطانیہ کی اپنی اموات کے تناسب کو خبروں کے اندر چھپانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے عمل صحافتی معیارات کے ایک جیسے اور منصفانہ ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔
اس کے علاوہ غزہ جیسے تنازعات کی مغربی میڈیا کی تصویر کشی کو منتخب رپورٹنگ (selective reporting) اور غالب بیانیوں پر تنقید کرنے والی آوازوں کو نظرانداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایسی رپورٹنگ غلط فہمیوں کو بڑھاتی ہے اور متوازن مکالمے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
اس وقت غزّہ بدترین تباہی، بمباری اور قحط کا شکار ہے لیکن مین سٹریم میڈی مغربی میڈیا پر ذکر کم ملے گا۔ سوشل میڈیا کے الگوردھم بھی غزّہ کو مٹا رہے ہیں۔
ان تمام پابندیوں اور کاوشوں کے باوجود جب متبادل میڈیا پلیٹ فارمز یعنی سوشل میڈیا پر آوازیں ابھرتی ہیں، تو وہ مرکزی دھارے کے مغربی اداروں کے یکطرفہ بیانیوں کو چیلنج کرتی ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے اکثر پلیٹ فارمز کی گائیڈ لائنز صہیونیت کو پروٹیکٹ کرتی ہیں پھر بھی سوشل میڈ پر جو آوازیں اُٹھتی ہیں یہ میڈیا کے حلقوں کے اندر خود احتسابی کی ضرورت پر زور ڈالتی ہیں۔
مغربی میڈیا کے اس سارے بحران کے دوران جو بات زیادہ مضحکہ خیز لگی وہ یہ کہ ترقی پذیر معاشروں جیسے پاکستان میں نام نہاد لبرل میڈیا اکثر مغربی مین سٹریم میڈیا کی نقالی کرتا ہے، تاکہ وہاں بھی غزّہ جیسے واقعات کی خبروں کی کوریج مغربی معیارات کے مطابق نظر آئے۔ یہاں تک کہ لبرل صحافیوں کے چند گروہ اسرائیل اُس وقت ”خیر سگالی“ کے مشنز پر گئے جب فلسطینیوں کی نسل کشی والی بمباری جاری تھی۔
مزید برآں مغربی میڈیا پر الزام ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کو فروغ دیتا ہے، جس سے مسلمانوں کے خلاف منفی تصورات اور تعصبات کو تقویت ملتی ہے۔
ایک مطالعے کے مطابق، برطانوی میڈیا میں مسلمانوں کے بارے میں زیادہ تر خبریں منفی اور گمراہ کن ہوتی ہیں، جو اسلاموفوبیا میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح، ایک اور ریسرچ میں گزشتہ 20 سالوں میں مغربی میڈیا میں شائع ہونے والے 784,000 مضامین کا تجزیہ کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ یہ مسلمانوں کی منفی تصویر کشی کرتے رہے، جو اسلاموفوبیا کے فروغ میں معاون ثابت ہوئے۔
مثال کے طور پر، مغربی میڈیا میں فلسطینیوں کی تصویر کشی میں تعصب پایا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، برطانوی میڈیا میں اسرائیلیوں کو مظلوم کے طور پر پیش کرنے کا تناسب فلسطینیوں کے مقابلے میں 11 گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح، ایک اور مطالعے میں پایا گیا کہ امریکی میڈیا میں اسرائیلی نقطہ نظر کو فلسطینی نقطہ نظر پر فوقیت دی جاتی ہے، جو غیر متوازن رپورٹنگ ہے۔ یہ منفی تصورات اور تعصبات عالمی سطح پر گمراہ کن ڈسکورس کو جنم دیتے ہیں اور منصفانہ مکالمے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
مزید یہ کہ مغربی میڈیا پر یہ بھی تنقید کی جاتی ہے کہ وہ چین، روس اور ایران کے بارے میں منفی تصورات کو جغرافیائی سیاسی مفادات کے تحت پیش کرتا ہے۔ موجودہ دور کی نئی سرد جنگ یا عالمی سطح پر مفادات کی تقسیم میں روس، چین اور ایران ایک جانب جبکہ امریکی قیادت والے مغرب (نیٹو ابھی قائم ہے اور قائم رہے گا) دوسری جانب موجود ہے، جس میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ اس جیوسٹریٹجک تقسیم کی وجہ سے مغربی میڈیا روس، چین اور ایران کی تسلسل کے ساتھ منفی تصویر کشی کر رہا ہے جو ترقی پذیر معاشروں کے میڈیا میں بھی سرایت کر چکی ہے۔
اس معاملات سے ہٹ کر مغربی میڈیا کے معیارات کے محکوم ترقی پزیر ممالک کے میڈیا کی طرف واپس آتے ہیں جو مغربی نقطہ نظر اور طرز زندگی کو جدیدیت کی معراج سمجھتا ہے۔ یہ بات فرانسیسی مفکر ژاں پال سارتر کے فرانتز فینن کی کتاب ”دی ریچڈ آف دی ارتھ“ کے پیش لفظ میں لکھے گئے مشاہدات سے مطابقت رکھتی ہے، جہاں وہ مغرب زدہ دانشوروں پر تنقید کرتے ہیں جو مغربی استعماریت کی ثقافت پر ایمان لاتے ہوئے اُسے اندرونی طور پر قبول کر چکے ہوتے ہیں، جس سے استعماری غلبہ برقرار رہتا ہے۔
سارتر اس بات پر زور دیتا ہے کہ حقیقی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ استعمار کی اقدار کو مسترد کیا جائے اور مقامی ثقافت اور شناخت کو اپنایا جائے۔ مغربی میڈیا کی نقالی کرکے، پاکستان کا نام نہاد آزاد میڈیا غیر ارادی طور پر سابق استعماری طاقتوں کی ثقافتی اور اقتصادی بالادستی کو برقرار رکھتا ہے، اور استحصال کے تسلسل کی مدد کرتا ہے جو ایک مستند قومی مکالمے کی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔
—♦—

مصنف کے بارے
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ آپ سیاسی، سماجی معاشی اور بین الاقوامی اُمور پر لکھتے رہتے ہیں۔
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ آپ سیاسی، سماجی معاشی اور بین الاقوامی اُمور پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر بالواسطہ تسلط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تسلط اقتصادی اور مالیاتی کنٹرول، پابندیوں، اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے مزید مستحکم ہوا ہے۔ اسے ”نواستعماریت“ کہا جاتا ہے، جہاں ترقی یافتہ ممالک کم ترقی یافتہ ممالک کو بالواسطہ طریقوں سے قابو میں رکھتے ہیں۔
اس تناظر میں، معاشی پابندیاں ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، جو ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو متاثر کرتی ہیں اور انہیں مغربی طاقتوں کے مفادات کے مطابق چلنے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ پابندیاں اکثر ان ممالک کی آبادیوں کو مالی مشکلات میں مبتلا کرتی ہیں، جس سے ان کی خودمختاری محدود ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے جیسے عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ترقی پذیر ممالک پر ایسے قرضوں اور اقتصادی اصلاحات کا دباؤ ڈالتے ہیں جو ان کی معیشتوں کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے تابع کرتے ہیں۔ یہ اقدامات مقامی معیشتوں کو کمزور کرتے ہیں اور انہیں بیرونی طاقتوں کے اثر و رسوخ میں لے آتے ہیں۔
اس سے بڑھ کے ثقافتی اثر و رسوخ اور عالمی میڈیا کے ذریعے مغربی اقدار اور طرز زندگی کو فروغ دیا جاتا ہے، جس سے مقامی ثقافتوں اور شناختوں کی محکومیت برقرار رہتی ہے۔ یہ ثقافتی بالادستی ”نواستعماریت“کی ایک اور شکل ہے، جو ترقی پذیر ممالک کو مغربی معیارات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہے۔
ان تمام عوامل کے نتیجے میں، سابقہ محکوم ممالک کی خودمختاری اور ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، اور وہ معاشی اور ثقافتی طور پر مغربی طاقتوں کے زیر اثر رہتے ہیں۔
مغربی مرکزی میڈیا اکثر ایک قسم کے تکبر—یعنی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی—کا مظاہرہ کرتا ہے، جس کے ذریعے یہ غیر مغربی معاشروں کا جائزہ اپنی نام نہاد” لبرل اقدار “ اور بعض اوقات منافقانہ معیارات کی روشنی میں کرتا ہے۔ یہ رویہ عالمی سطح پر ترقی پذیر معاشروں کے تصور کو مسخ کرکے پیش کرتا ہے جس کا مقصد مغربی ممالک کے جیوسٹریٹیجک اور جیو اکنامک مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔
بہرحال مین سٹریم مغربی میڈیا کا یہ رجحان انگلوسینٹرزم سے منسلک ہے، جہاں دنیا کو بنیادی طور پر اینگلو-امریکی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے، جس سے غیر انگریزی بولنے والی ثقافتیں پس منظر میں چلی جاتی ہیں۔ جس طراح امریکی ڈالر گلوبل کرنسی ہے اُسی طرح انگریزی گلوبل لینگوئج ہے۔ ایسا تعصب غلط ڈسکورسز کا باعث بنتا ہے اور عالمی معاشروں میں موجود تنوع (diversity) کی قدر کو کم کرتا ہے۔
ہربرٹ شِلر، جو ایک معروف امریکی میڈیا سکالر ہیں، جنھوں”میڈیا امپیریلزم “ پر کئی کتابیں اور مقالے لکھے، اُنھوں نے لکھا ہے کہ عالمی میڈیا کے نظام، خاص طور پر وہ جو مغربی طاقتوں کے زیر اثر ہیں، کس طرح استعماری ڈھانچوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کو دوام دیتے ہیں۔ موجودہ مضمون کے ساتھ ہم آہنگ اُن کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے جو مغربی میڈیا پر کہتے ہیں کہ:
”معلومات کا بہاؤ ایک غیر جانبدار عمل نہیں ہے بلکہ یہ اقتصادی اور سیاسی طاقت کو چند ہاتھوں میں برقرار رکھنے کے لیے ایک اہم فیکٹر ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس سے ایک ایسا نظام تشکیل پاتا ہے جو ماضی کے استعماری تعلقات کو مستحکم کرتا ہے، جس سے ترقی پذیر دنیا مغرب کی معلومات پر انحصار کرنے والا سامع بن کر رہ جاتی ہے۔“
یہ معاملہ محض مین سٹریم میڈیا تک محدود نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کی اپنی اپنی گائیڈ لائینز ہیں جنھیں بنیادی طور پر انہی ”انگلوسینٹرزم“ پر استوار کیا گیا ہے جو مین سٹریم میڈیا کے رہنما اصول ہیں۔ اس لیے اس خوش فہمی میں نہ رہا جائے کہ سوشل میڈیا پر وہ تمام باتیں کہی جا سکتی ہیں جو مین سٹریم میں نظر نہیں آتی ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر کسی حد تک ایک گنجائش ہے۔
ہربرٹ شلر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عالمی سطح پر طاقتور میڈیا ادارے کمزور ممالک میں ثقافتی اور سیاسی بیانیوں پر غلبہ حاصل کرتے ہیں۔ شلر کے مطابق، یہ غالب میڈیا ادارے، خاص طور پر مغربی ممالک کے، نہ صرف معلومات کی ترسیل کے طریقوں پر قابو پاتے ہیں، بلکہ یہ ان کی اقدار، نظریات اور ثقافت کو دوسرے ممالک میں مسلط کرتے ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے مقامی ثقافتوں اور آوازوں کو دبایا جاتا ہے اور ان کے اپنے بیانیے میں کمی آتی ہے
ہربرٹ شلر کے علاوہ بھی کئی دیگر سکالرز نے مغربی میڈیا کے استعماری کردار پر لکھا ہے۔ ان میں سے چند اہم شخصیات یہ ہیں:-
ایڈورڈ سعید: ان کی مشہور کتاب “اورینٹلزم” (Orientalism) میں مغربی میڈیا اور اکیڈمیا کے ذریعے مشرقی ثقافتوں کی توہین اور انہیں غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ طور پر پیش کرنے کی بحث کی گئی ہے۔ سعید کے مطابق، مغربی میڈیا نے مشرق کوایک”غیرمتمدن “ اور” وحشی“ طور پر دکھایا ہے تاکہ استعمار کے جواز کے طور پر اس کی تصویر پیش کی جا سکے۔
نائلہ کبیر: انہوں نے بھی اس موضوع پر کام کیا ہے اور خاص طور پر یہ بیان کیا کہ مغربی میڈیا، خاص طور پر نیوز چینلز، دنیا کے مختلف حصوں کو ایک مخصوص تناظر سے دکھاتے ہیں جو ان کے استعماریت اور ثقافتی غلبے کو تقویت دیتا ہے۔
رابرٹ ہاکنس: انہوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ عالمی میڈیا کا غالب کردار مغربی طاقتوں کے سیاسی مفادات کے مطابق ہوتا ہے، جس کے ذریعے عالمی سطح پر ثقافتی اور سیاسی ہمواری کو فروغ دیا جاتا ہے۔
نوم چومسکی کو آج کون نہیں جانتا۔ انھوں نے بھی مغربی میڈیا کے استعماری کردار پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے کام میں میڈیا کی طاقت اور اس کے سیاسی مقاصد پر تفصیل سے بات کی ہے۔ چومسکی کا ماننا ہے کہ مغربی میڈیا عالمی سطح پر حکومتوں، کارپوریٹ مفادات، اور طاقتور اداروں کے مفادات کو فروغ دیتا ہے اور اس کے ذریعے عوامی رائے کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔
چومسکی کی کتاب ”مینوفیکچرنگ کنسینس“ (Manufacturing Consent) میں انہوں نے یہ وضاحت کی ہے کہ کس طرح میڈیا ادارے بڑے تجارتی مفادات کی خدمت کرتے ہیں اور عوامی رائے کو اس طرح تشکیل دیتے ہیں کہ وہ طاقتور طبقات کے مفادات کو تحفظ دے۔ اس میں میڈیا کی سازش، ابلاغی بے ایمانی، اور استعماری اثرات پر زور دیا گیا ہے۔
کمال یہ ہے کہ جب مغربی میڈیا مسلم معاشوں کی بات کرتا ہے تو سٹیریوٹائپنگ کرتے ہوئے داڑھی اور حجاب کو ان کی شناخت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ شناخت اتنی زیادہ پھیلتی ہے کہ جو داڑھی اور حجاب مسلم اکثریتی آبادی میں محض ایک چھوٹی اقلیت کی شناخت تھے، وہ ان ممالک میں بھی تکثیریت کو کم کرتے ہوئے کثیرالثقافتی مسلم معاشروں کی ایک ہی شناخت بن جاتی ہے۔
حالانکہ کئی ممالک جہاں مسلم آبادی کی اکثریت ہے وہاں ایک تنوع ہے، لوگ ایک ہی انداز یا طریقے سے زندگی بسر نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاں لچکدار زندگی سے لے کر قدامت پسند ہر قسم کے مختلف خیالات والے لوگ رہ رہے ہیں۔ لیکن مغربی میڈیا عموماً ایک مسلم معاشرے یا ریاست کو اپنے زاویے سے دیکھتا ہے اور اپنے سٹریٹیجک مفادات کے مطابق ان کی توضیح و توجیح کرتا ہے۔ مثلاً ایران اور سعودی عرب کی کوریج میں فرق۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مغربی میڈیا کے تکبر کی وجہ سے رپورٹنگ میں دوہرے معیارات خودبخود فروغ پاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انڈیا میں COVID-19 بحران کے دوران، مغربی میڈیا نے صورتحال کو سنسنی خیز بنا کر پیش کیا، تکلیف دہ تصاویر پر توجہ مرکوز کی جو عام طور پر ان کے اپنے ممالک میں نامناسب سمجھی جاتیں۔ جبکہ برطانیہ کی اپنی اموات کے تناسب کو خبروں کے اندر چھپانے کی کوشش کی گئی۔ ایسے عمل صحافتی معیارات کے ایک جیسے اور منصفانہ ہونے پر سوال اٹھاتے ہیں۔
اس کے علاوہ غزہ جیسے تنازعات کی مغربی میڈیا کی تصویر کشی کو منتخب رپورٹنگ (selective reporting) اور غالب بیانیوں پر تنقید کرنے والی آوازوں کو نظرانداز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایسی رپورٹنگ غلط فہمیوں کو بڑھاتی ہے اور متوازن مکالمے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
اس وقت غزّہ بدترین تباہی، بمباری اور قحط کا شکار ہے لیکن مین سٹریم میڈی مغربی میڈیا پر ذکر کم ملے گا۔ سوشل میڈیا کے الگوردھم بھی غزّہ کو مٹا رہے ہیں۔
ان تمام پابندیوں اور کاوشوں کے باوجود جب متبادل میڈیا پلیٹ فارمز یعنی سوشل میڈیا پر آوازیں ابھرتی ہیں، تو وہ مرکزی دھارے کے مغربی اداروں کے یکطرفہ بیانیوں کو چیلنج کرتی ہیں۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے اکثر پلیٹ فارمز کی گائیڈ لائنز صہیونیت کو پروٹیکٹ کرتی ہیں پھر بھی سوشل میڈ پر جو آوازیں اُٹھتی ہیں یہ میڈیا کے حلقوں کے اندر خود احتسابی کی ضرورت پر زور ڈالتی ہیں۔
مغربی میڈیا کے اس سارے بحران کے دوران جو بات زیادہ مضحکہ خیز لگی وہ یہ کہ ترقی پذیر معاشروں جیسے پاکستان میں نام نہاد لبرل میڈیا اکثر مغربی مین سٹریم میڈیا کی نقالی کرتا ہے، تاکہ وہاں بھی غزّہ جیسے واقعات کی خبروں کی کوریج مغربی معیارات کے مطابق نظر آئے۔ یہاں تک کہ لبرل صحافیوں کے چند گروہ اسرائیل اُس وقت ”خیر سگالی“ کے مشنز پر گئے جب فلسطینیوں کی نسل کشی والی بمباری جاری تھی۔
مزید برآں مغربی میڈیا پر الزام ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کو فروغ دیتا ہے، جس سے مسلمانوں کے خلاف منفی تصورات اور تعصبات کو تقویت ملتی ہے۔
ایک مطالعے کے مطابق، برطانوی میڈیا میں مسلمانوں کے بارے میں زیادہ تر خبریں منفی اور گمراہ کن ہوتی ہیں، جو اسلاموفوبیا میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح، ایک اور ریسرچ میں گزشتہ 20 سالوں میں مغربی میڈیا میں شائع ہونے والے 784,000 مضامین کا تجزیہ کیا گیا جس سے پتہ چلا کہ یہ مسلمانوں کی منفی تصویر کشی کرتے رہے، جو اسلاموفوبیا کے فروغ میں معاون ثابت ہوئے۔
مثال کے طور پر، مغربی میڈیا میں فلسطینیوں کی تصویر کشی میں تعصب پایا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، برطانوی میڈیا میں اسرائیلیوں کو مظلوم کے طور پر پیش کرنے کا تناسب فلسطینیوں کے مقابلے میں 11 گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح، ایک اور مطالعے میں پایا گیا کہ امریکی میڈیا میں اسرائیلی نقطہ نظر کو فلسطینی نقطہ نظر پر فوقیت دی جاتی ہے، جو غیر متوازن رپورٹنگ ہے۔ یہ منفی تصورات اور تعصبات عالمی سطح پر گمراہ کن ڈسکورس کو جنم دیتے ہیں اور منصفانہ مکالمے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
مزید یہ کہ مغربی میڈیا پر یہ بھی تنقید کی جاتی ہے کہ وہ چین، روس اور ایران کے بارے میں منفی تصورات کو جغرافیائی سیاسی مفادات کے تحت پیش کرتا ہے۔ موجودہ دور کی نئی سرد جنگ یا عالمی سطح پر مفادات کی تقسیم میں روس، چین اور ایران ایک جانب جبکہ امریکی قیادت والے مغرب (نیٹو ابھی قائم ہے اور قائم رہے گا) دوسری جانب موجود ہے، جس میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ اس جیوسٹریٹجک تقسیم کی وجہ سے مغربی میڈیا روس، چین اور ایران کی تسلسل کے ساتھ منفی تصویر کشی کر رہا ہے جو ترقی پذیر معاشروں کے میڈیا میں بھی سرایت کر چکی ہے۔
اس معاملات سے ہٹ کر مغربی میڈیا کے معیارات کے محکوم ترقی پزیر ممالک کے میڈیا کی طرف واپس آتے ہیں جو مغربی نقطہ نظر اور طرز زندگی کو جدیدیت کی معراج سمجھتا ہے۔ یہ بات فرانسیسی مفکر ژاں پال سارتر کے فرانتز فینن کی کتاب ”دی ریچڈ آف دی ارتھ“ کے پیش لفظ میں لکھے گئے مشاہدات سے مطابقت رکھتی ہے، جہاں وہ مغرب زدہ دانشوروں پر تنقید کرتے ہیں جو مغربی استعماریت کی ثقافت پر ایمان لاتے ہوئے اُسے اندرونی طور پر قبول کر چکے ہوتے ہیں، جس سے استعماری غلبہ برقرار رہتا ہے۔
سارتر اس بات پر زور دیتا ہے کہ حقیقی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ استعمار کی اقدار کو مسترد کیا جائے اور مقامی ثقافت اور شناخت کو اپنایا جائے۔ مغربی میڈیا کی نقالی کرکے، پاکستان کا نام نہاد آزاد میڈیا غیر ارادی طور پر سابق استعماری طاقتوں کی ثقافتی اور اقتصادی بالادستی کو برقرار رکھتا ہے، اور استحصال کے تسلسل کی مدد کرتا ہے جو ایک مستند قومی مکالمے کی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔
—♦—

مصنف کے بارے
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ آپ سیاسی، سماجی معاشی اور بین الاقوامی اُمور پر لکھتے رہتے ہیں۔
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ آپ سیاسی، سماجی معاشی اور بین الاقوامی اُمور پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT