ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا فرد کے ساتھ ایک مشکل وقت میں بجائے ہمدردی کے اس کے خلاف عداوت بھرے انداز میں پیش آئے۔ لیکن ہمیں یہاں ہمدردی کے معنی اور مفہوم کو سمجھنا ہو گا اور پھر ان اسباب کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہوگی جن وجوہات کی بنا پر سماج ترقی کی اس تیز رفتار دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور پھر قومیں طبقاتی اور قومیتی بنیاد پر سراپا احتجاج ہوتی ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہو گی کہ قومیں کن حالات کی وجہ سے پسماندہ اور پیچھے رہ جاتی ہیں اور یہ بھی کہ کسی بھی قوم کی معاشی سیاسی سماجی ثقافتی اور جغرافیائی حقیقی آزادی کیا ہوتی ہے۔
آج بلوچ قوم کے ہزاروں افراد آج لاپتہ ہیں اور بے شمار مارے گئے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ چھہتر سالوں سے چلا آرہا ہے ہم اگر یہ کہیں گے تو بھی غلط نا ہو گا کہ فقط 76 سال ہی سے نہیں یہ صدیوں پے پھیلی ایک مسلسل جنگ ہے کیونکہ جہاں بھی قبائلی اور جاگیرداری نظام ہو گا وہاں خاندانی دشمنیاں ہونگی، جنگ و جدال ہو گا، پسماندگی و بے کاری ہو گی، آج کے دور میں سماج تیزی سے ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہیے ہیں یہ دنیا میں بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ سماج پلٹ کر اسی پچھلے زمانے میں جانے کے لیے بضد ہوں۔
چونکہ یہ سارا سنسار ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے لہٰذا اس وقت کوئی بھی قوم اگر یہ خیال کرے کہ کسی بھی سرزمین پر وہ تنہاء رہے گی اور قدیم قبائلی نظاموں میں رہ کر ترقی کر لے گی تو یہ ایک سخت رجعت پسندانہ عمل ہو گا اور جدیدیت سے دور رہنے کی ایک ناکام کوشش۔
بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی قوم کی جدوجہد کے مقاصد اگرچہ اور ہوتے ہیں لیکن نتیجے اس سے مختلف برآمد ہوتے ہیں۔ اس وقت بلوچوں کی جدوجہد بھی اسی انداز کی ایک جدوجہد ہے ایک طرف بلوچ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پے نالاں ہیں جو ایک حقیقت ہے اور یہ انکی حقیقی جدوجہد بھی بنتی ہے لیکن دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسند ساتھ ہی ساتھ ایک ایسی سامراجی طاقت سے ہمدردیاں لینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں جس کی سامراجی تاریخ بڑی بھیانک اور بہت استحصالی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ امریکی اور برطانوی سامراج کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے وقتی طور پر ہمدردی جتا کر کمزور قوموں کا ایسے شکار کرتا ہے کہ وہ قومیں جو اس کو نجات دہندہ سمجھتی ہیں بجائے ترقی کے واپس پتھر کے عہد میں چلی جاتی ہیں۔
ان سامراجی ممالک کی تاریخ میں ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں امریکی اور یورپی سامراجیوں نے افریقہ سے لے کر ایشیا اور دوسرے براعظموں تک ایسی بربادیاں پھلائی کہ جسکی مثال نہیں ملتی لہذا بلوچ جدوجہد کی سب سے بڑی وجہ انکے وسائل پے قبضہ گیری سمیت وہاں کے نوجوانوں کا مستقبل اور بار بار حکمران طبقات کی وعدہ خلافیاں ہیں جو یہاں کے عوام کے ساتھ بارہا کی گئی اسکی وجہ وفاقی سطح پر ایک جبری نظام کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں موجود وہ سرداری نظام بھی ہے جو یہاں ترقی نہیں ہونے دیتا سرکاری سطح پر بھی اس نظام کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے ۔
تاہم موجودہ بلوچستان اور کل کی ریاست قلات، ریاست مکران، خاران اور لسبیلہ آج پاکستان کا صوبہ بلوچستان کہلاتا ہے جو ناصرف بلوچ بلکہ مختلف نسلی و لسانی قومیتوں پر مشتمل ہے، ہر قومیت کے اپنے اپنے سردار ہیں اور دوسری طرف وہ غریب اور مفلوک الحال بلوچ ہیں جن کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پے مجبور ہے۔
ہمیں بلوچستان کے متعلق اظہار خیال کرنے سے پہلے ہمیں بلوچستان کے جغرافیے، اس کی تاریخ اور اس میں بسنے والی لسانی و نسلی قومیتوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے اس کے بعد ہی موجودہ تحریک اور اس کے نتیجے کے ممکنہ امکانات کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
ہر چند کہ یہ ایک مملکت کے ٹوٹے ہوئے حصوں کی کھوج ہے جو ایران افغانستان اور پاکستان کے مختلف حصوں پر پھلا ہوا ہے بلوچستان کے خطے کی سیاسی اور ارضی تنازعات کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رہی ہے بلوچستان جسے 1795 سے 1948 کے دوران کئی مختلف حصوں کو مختلف کالونیل پاورز اور ریاستوں کے ذریعے تقسیم یا ضم کیا گیا اور اس کو بلوچستان نام بھی کالونیل پاورز نے ہی دیا، اس تقسیم کے باوجود آج پاکستان کا صوبہ بلوچستان اس وقت رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 347190 مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا 43.6 فیصد حصہ بنتا ہے اور یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے قدرتی گیس ، کوئلہ، سونا، تانبہ اونکس اور دوسری معدنیاتی دولت اس صوبے میں موجود ہے۔ لیکن اس دولت کے باوجود یہاں کے عوام دوسرے تمام صوبوں کے مقابلہ میں بے حد غریب اور پسماندہ ہیں۔
بلوچستان کے شمال میں افغانستان، صوبہ خيبر پختون خواہ جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ اور پنجاب جبکہ مغرب میں ایران واقع ہے۔ اس کی 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ جبکہ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہے
جغرافیائی تاریخی پہلو سے متنازعہ بلوچ علاقوں کو تین معاہدوں کے ذریعے جنوب مغربی اور مشرقی مغربی علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
سب سے پہلا معاہدہ تیسرے فریق کی ثالثی میں کیے جانے والا پیرس معاہدہ تھا جس کو 1857 میں تسلیم کر لیا گیا تھا ، لیکن اس پر عمل درآمد 1872 اور 1935 کے درمیان کیا گیا۔ جبکہ دوسری سرحدی معاہدے کو میک موہن ایوارڈ کہا جاتا ہے اس معاہدے کی شروعات 1872 میں کی گئی تھی لیکن قانونی شکل 1903 اور 1905 میں دی گئی جس کے بعد بلوچ علاقے میں افغانستان ایران سرحد قائم کی گئی۔
تیسری سرحدی تقسیم ڈیورنڈ لائن 1893 میں قائم کی گئی جو افغانستان اور موجودہ پاکستان کو الگ کرتی ہے، جس کی قانونی حیثیت ابھی تک متنازع ہے۔ 1896 میں، افغان امیر کی جانب سے ڈیورنڈ معاہدے کی عدم تعمیل کی وجہ سے بلوچ علاقوں میں سرحدوں کی تقسیم کے لیے ایک اور معاہدہ کیا گیا، جو افغان بلوچ سرحدی کمیشن میں کیپٹن میک موہن کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی، جو کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بلوچ علاقوں کو الگ کرتی ہے۔ تاہم زیادہ تر بلوچ مؤرخین اور مصنفین میک موہن لائن کو ڈیورنڈ لائن سے الگ سمجھتے ہیں۔
1929میں، بلوچ علاقوں کو فراہ اور قندھار کے صوبوں میں ضم کر دیا گیا، 1968 میں بلوچ علاقوں کو چار صوبوں: نمروز، قندھار، فراہ اور ہلمند میں دوبارہ تقسیم کیا گیا۔ ڈیورنڈ لائن اور میک موہن لائن کی متنازعہ قانونی حیثیت خطے کے استحکام اور سلامتی کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
جہاں تک بلوچستان میں قومیتوں کا سوال ہے تو بلوچستان میں برہوی، بلوچ ،پشتون، سرائیکی، سندھی، پنجابی، شیدی اور ہزارہ قومیتیں آباد ہیں۔
ان میں یہاں کی سب سے پرانی قوم بروہی ہے ۔بروہوی ہڑپہ کی آبادی دراوڑتی قدیم سندھی نسلیں اور براہوی دراوڑو ہیں۔ جبکہ بلوچوں کے بارے میں کچھ کی رائے ہے کہ یہ ایرانی نسل ہیں اور چنگیز خان کے ایران پر حملوں کے بعد بلوچستان میں وارد ہوئے۔ لہٰذا بلوچستان کی سرزمین کے اصل وارث اور قدیم حاکم براہوی ہیں اور انگریزوں کی آمد سے پہلے 17 ویں صدی سے تین سو سال تک قلات میں براہویوں کی حکمرانی رہی ۔
براہوی قوم جس نے مجموعی طور پر 550 سال حکومت کی 20اگست 1749ءکو نصیر خان براہوی قلات میں حاکم تھے اور ان کی سلطنت افغانستان ایران‘ ہندوستان پنجاب‘ سندھ اور پشاور تک تسلیم کی جاتی تھی اور ان کی فوج کو براہوی فوج کہا جاتا تھا جس کے دستہ سراوان کو تین قبائل کے فوجیوں میں تقسیم کیا گیا جن کے نام رئساڑی‘ شاہنواڑی محمدشہی اور بنگلزئی ہیں اوردوسرے دستے کے بھی زہری مینگل اور مگسی قبائل کے جوانوں میں تقسیم کیا گیا۔
براہوی قبیلہ کے بارے میں بہت لکھاریوں نے مختلف اقوال لکھے ہیں مگر تاریخ سیستان و بلوچستان اور بلوچ قوم اور اس کی تاریخ میں مندرجہ بالا جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب سے مستحکم ہے براہوی قوم کے ثبوت مہرگڑھ کے قدیم آثار بھی دیتے ہیں۔
جہاں تک بلوچ قوم کا تعلق ہے ایک طرف ان کو ایرانی نسل کہا جاتا ہے تو دوسری طرف بلوچ قبائل کے بزرگوں کا ماننا ہے کہ بلوچ حضرت امیر حمزہ کے بیٹے میر عمارہ کی اولاد میں سے ہیں حضرت حمزہ حضور نبی کریم کے چچا تھے اور بلوچ حلب سے آئے ہیں۔ کچھ بلوچ اپنے شجرہ میں میر عمارہ کو حضرت امیر حمزہ کا بیٹا مانتے ہیں اور کچھ کا ماننا ہے کہ بلوچ نسلاً عربی ہیں۔ ویسے لفظ بلوچ کو مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے بعل، بلوچ، بلوص بلوس ،بلوش، بعوث، بیلوث ،بیلوس اور بعلوس لکھا اور استعمال کیا ۔ اہل بابل اپنے قومی دیوتا کو بال(بعل) عظیم کہا کرتے تھے ۔یونانیوں نے اسے بیلوس کہا۔ عہد قدیم میں لفظ بلوچ کو بعلوث اور بیلوث لکھا جاتا تھا، اس کے بعد یہ لفظ بیلوس اور بعلوس کے طور پر تحریر و بیان میں آتا رہا، عرب اسے بروج، بلوص اور بلوش ادا کرتے ہیں اور ایرانی اسے بلوچ لکھتے اور بولتے ہیں۔
ہمارے یہاں ایرانی لفظ بلوچ رائج ہے اور بلیدی بیلوص کی شاہی اولاد ہے ایران میں بلوچوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ بلوچوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے نہ صرف کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ دیا تھا بلکہ ان دنوں جب کہ رسول اللہ مکہ میں بے یار مدد گار تھے تو بلوچوں نے اپنے قبائل سے پانچ بہادر منتخب کر کے رسول اللہ کی حفاظت کے لیے بھیجے ،اس بات کا پتہ بھی ہمیں بلوچی کی ایک نظم سے چلتا ہے۔
سارے بلوچستان میں شيدی یا سیدی سمیت ہر لسانی قوم کے سردار ہیں آخیری فیصلہ سردار ہی کرتے ہیں شیدیوں کی بھی اپنی ایک الگ تاریخ ہے یہ سیاہ فام نسلی گروہ شیدی جنکی مختصر تعداد ہے اور تھوڑی بہت بھارت میں بھی ہے جو جنوب مشرقی افریقہ اور ایتھوپیا کے زنج ساحل کے بنتو قبیلے کے لوگ ہیں۔
جن کی اکثریت عرب اور برطانوی غلاموں کی تجارت کے ذریعے برصغیر پاک و ہند میں ممکن ہوئی دوسرا یہ تاجروں، ملاحوں اور کرائے کے سپاہیوں کے طور پر بھی آئے کراچی کی منگھو پیر کی پہاڑی پر واقع درگاہ حضرت خواجہ حسن سخی سلطان عرف منگھو پیر ان سیاہ فاموں کے روحانی پیشوا ہیں۔ ان لوگوں کی مزار کے احاطے میں واقع تالاب میں موجود ایک سو سے زائد مگر مچھوں سے خاص عقیدت ہے میلے کے آغاز پر قبیلے کا سردار سب سے بڑے مگر مچھ مور صاحب کے ماتھے پر سندور کا ٹیکہ لگاتا ہے، حلوہ اور گوشت کھلاتا ہے جس کے لیے خاص طور پر بکرا ذبح کر کے اس کی سری مگر مچھ کو کھلائی جاتی ہے ان شیدیوں کا عقیدہ ہے کہ اگر مور صاحب ان کا دیا ہوا گوشت نہ کھائیں تو وہ سال ان کا اچھا نہیں گزرتا اور اس سال میلہ بھی نہیں ہوگا مزار پر آنے والے زائرین کا عقیدہ ہے کہ یہ مگر مچھ بارہویں صدی عیسوی کے بزرگ خواجہ فرید الدین مسعود شکر گنج کی جوئیں ہیں جو انھوں نے منگھو پیر کو دیں تھیں جو بعد میں معجزے سے مگر مچھ بن گئی۔
بلوچستان میں خاصی تعداد میں ایک ذکری فرقہ بھی موجود ہے جو زکری مہدویت سلسلے‘ کو مانتے ہیں جس کی بنیاد 15ویں صدی عیسوی میں سید محمد جونپوری نے رکھی تھی جن کا تعلق انڈیا سے تھا اور ان کی وفات موجودہ افغانستان میں ہوئی۔
بلوچستان میں مکران ریجن، خضدار، لسبیلہ اور سندھ میں کراچی، حیدرآباد، سانگھڑ اور ایران میں بندر عباس و دیگر علاقوں میں ذکری کمیونٹی کے لوگ موجود ہیں۔
سید عیسیٰ نوری جو سابق رکنِ قومی اسمبلی تھے وہ ذکری کمیونٹی کے روحانی پیشوا بھی ہیں، بتاتے ہیں کہ ’سید محمد مہدی جونپوری جنہیں وہ مہدی مانتے ہیں، انہوں نے مہدویہ تحریک کا آغاز کیا تھا جو ایرانی بلوچستان سے لے کر یہاں تک پھیل گئی۔
1947 تک بلوچستان پانچ حصوں میں منقسم تھا۔ پانچ میں سے چار حصوں میں شاہی ریاستیں تھیں جن کے نام قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ تھا اور ایک برٹش انڈیا کا علاقہ برٹش بلوچستان تھا۔ قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ پر برطانوی ایجنٹ بھی نگران تھے قلات لسبیلہ،خاران اور مکران کا علاقے وہی تھے جو آج بھی اسی نام کی ڈویژن کی صورت میں موجود ہیں۔
برٹش بلوچستان میں موجودہ بلوچستان کی پشتون پٹی لورالائی، پشین، مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبد اللہ، ژوب، چمن کے علاوہ کوئٹہ اور بلوچ علاقہ ضلع چاغی اور بگٹی اور مری ایجنسی کوہلو کے علاقہ شامل تھے۔ اس وقت گوادر خلیجی ریاست عمان کا حصہ تھا جو خان آف قلات نے عمان کو دیا تھا۔ مکران اور لسبیلہ کے پاس سمندری پٹی تھی جبکہ باقی تین علاقہ قلات، خاران اور برٹش بلوچستان خشکی ميں گھرے تھے۔
قیام پاکستان کے وقت تین جون کے منصوبہ کے تحت برٹش بلوچستان نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے اراکین نے کرنا تھا جبکہ باقی چاروں علاقوں لسبیلہ، خاران، قلات اور مکران کے حکمرانوں نے بھی بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا۔ لسبیلہ، خاران اور مکران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا جبکہ قلات نے ایسا نہیں کیا۔ قلات میں گو کہ خان آف قلات حکمران تھے مگر دو منتخب ایوان بھی تھے اور ان دونوں ایوانوں نے پاکستان سے الحاق کی اکثریت سے مخالفت کی تاہم ان ایوانوں کی حیثیت مشاورتی تھی اصل فیصلہ خان آف قلات نے ہی کرنا تھا۔
جب لسبیلہ، مکران اور خاران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کر لیا تو قلات کی ریاست مکمل طور پر پاکستانی علاقہ میں گھر گئی۔ انگریزی میں ایسے علاقہ کو انکلیو کہا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں مارچ 1948 میں قلات نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ خان آف قلات میراحمد یار خان کے اس فیصلے کے خلاف ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے مسلح جدوجہد شروع کردی جس میں انھیں افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس مسلح جدوجہد کا نتیجہ پاکستان کی فوجی کارروائی کی صورت میں نکلا۔ یہ فوجی کارروائی صرف قلات تک محدود تھی۔ کارروائی کے نتیجے میں شہزادہ میر عبدالکریم افغانستان فرار ہو گیا۔ بعد میں برٹش بلوچستان کو بلوچستان کا نام دے دیا گیا۔ جب کہ قلات، مکران، خاران اور لسبیلہ کو ایک اکائی بنا کر بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام دیا گیا۔
1955 میں ون یونٹ کے قیام کے وقت برٹش بلوچستان کا نام کوئٹہ ڈویژن کر دیا گیا اور بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام قلات ڈویژن کر دیا گیا اور یہ دونوں علاقے مغربی پاکستان صوبے کا حصہ بن گئے۔
1958 میں اس وقت کے وزیر اعظم ملک فیروزخان نون جن کا تعلق پنجاب سے تھا انھوں نے عمان سے کامیاب مذاکرات کر کے گوادر کے علاقے کی ملکیت بھی حاصل کر لی۔ 1969 میں ون یونٹ کو توڑا گیا اور چار صوبے بنے تو قلات ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن اور گوادر کو ملا کر موجودہ صوبہ بلوچستان وجود میں آیا۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں بلوچ آبادی زیادہ تھی جیسا کہ مکران خاران اور لسبیلہ ان ریاستوں کے نوابوں نے پاکستان کو پہلے تسلیم کر لیا یاد رہیے کہ یہ علاقے بلوچ اکثریتی علاقے ہیں خان آف قلات جنکا تعلق پرواہی قبیلے سے تھا انھوں نے پاکستان کو بعد میں مجبور ہو کر تسلیم کیا لیکن آج سب سے زیادہ شورش انہی علاقوں میں پائی جاتی ہیں جنھوں نے پاکستان کو فوراً تسلیم کیا تھا جبکہ پرواہی ریاست قلات جس نے مجبوراً پاکستان کو تسلیم کیا وہاں اسقدر شورش نہیں ہے۔
ان سارے حالات نسلی لسانی اور قبائلی سماج کے مسائل جو صدیوں سے ایک ہی جیسا چلے آرہے ہوں، چین نے ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ جسے منصوبے جسے نیو سلک روڈ بھی کہا جاتا ہے 2013ء میں چینی صدر شی جن پنگ نے انفراسٹرکچر کی ترقی کے اس عظیم منصوبے کا آغاز کیا۔ جس کے تحت مشرقی ایشیاء سے لے کر یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ تک کے ترقیاتی اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کی ایک پوری سیریز پر کام کیا جانا ہے جسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو’ یعنی بی آر آئی جسے ‘ون بیلٹ ون روڈ’ کا نام دیا گیا ہے یہ چین کی طرف سے رواں صدی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے جس کے تحت 66 سے زائد ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑا جا رہا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ دنیا کی دو تہائی آبادی کو ملائے گا جس میں کم از کم ایک تہائی مجموعی ملکی پیداوار بھی شامل ہے یہ منصوبہ محض پاکستان یا بلوچستان تک کا ہی نہیں یہ ایک وسیع منصوبہ ہے جو دنیا کو ایک ساتھ ملانے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیے ایک بہترین منصوبہ ہے جو ترقی کے اس دور میں پیچھے رہ جانے والے ملکوں کو بھی ترقی دے گا۔
تقریبا دس سال پہلے سی پیک پے کام شروع ہوا اس سلسلے میں ظاہر ہے پاکستانی ریاست کا سی پیک معاہدے ریاست کے ساتھ ہونے تھے اور ریاستی حکومت میں بلوچستان کے سردار بھی شامل تھے جو کسی نا کسی صورت انتخابات جیت کر آتے ہیں لیکن ظاہر ہے یہ معاہدے کوہلو گیس پائپ لائن کے منصوبے کی طرح کسی سردار کے ساتھ نہیں ہو سکتے تھے جبکہ سرداروں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ اپنے پورے پورے مفادات استحصالی حکمرانوں سے ملکر اٹھاتے ہیں عام بلوچ کو تو اس لڑائی کا ایندھن بناتے ہیں، لیکن عام بلوچ کبھی بھی ان ثمرات کا حصہ دار نہیں بن سکا۔
حال ہی میں 26 اگست 2024ء کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بلوچستان کے 10 اضلاع میں حملہ کرکے تقریباً 70 افراد کو مار دیا۔ یہ تشدد کی نئی لہر بلوچ قوم کے ایک قبیلے کے سربراہ اور مختلف اوقات میں اہم سیاسی سرکاری عہدوں پر رہنے والے نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کی 18 ویں برسی کے موقع پر پیش آئی ان مربوط حملوں کے دوران بی ایل اے نے بلوچستان کی کئی اہم مرکزی شاہراہوں کو بند کر دیا جسکا مقصد یہ تھا کہ سکیورٹی فورسز کو پہنچنے والی مدد کو روکا جا سکے اور میڈیا میں یہ تاثر پھیلایا جا سکے کہ پاکستانی حکومت کی رٹ کمزور ہو گئی ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں سے پیدا ہونے والی عدم تحفظ کی فضا نے سی پیک منصوبوں اور بلوچستان کی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ چینی کمپنیوں کے ساتھ پاکستان کے وعدے بیوروکریسی کی ناکامی، مالیاتی بحران اور غیر یقینی سیاسی ماحول نے بھی ترقی کی رفتار کو سست کیا ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کا یہ کہنا ہے کہ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کے وسائل پے قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے ان بلوچ علیحدگی پسندوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا آپ اگر کل آزاد بھی ہو جاتے ہیں تو ان وسائل کو تن تنہا زمین کی تہوں سے نکال لیں گے؟ کہیں نا کہیں تو آپ کو جدید ٹیکنالوجی کے حامل ممالک سے معاہدہ کرنا ہو گا۔
اگر ایک پسماندہ اور ترقی سے بچھڑی ہوئی قوم یہ سب کچھ خود کر لیتی تو عرب کبھی بھی یورپ یا امریکہ کا سہارا نا لیتے لیکن یہاں مسلہ یہ نہیں ہے دراصل یہاں کے سرداروں کا مسلہ چین ہے کیونکہ امریکی اور یورپی سامراج کی کڑی نظر ہے ان وسائل پر اور پھر امریکہ اور یورپ جسطرح افریقہ میں ہوتو وغیرہ قبائل کو لڑا کر انکے وسائل لوٹتے ہیں دراصل بلوچستان کے سرداروں کو بھی ایسے ہی معاہدے چائیں یہ جدوجہد کسی طرح بھی طبقاتی بنیاد پر کسی عام بلوچ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور نا ہی عام بلوچ کو اس سے کچھ حاصل ہونا ہے کیونکہ امریکی اور یورپی آشرباد سے کسی محنت کش غریب ہاری یا کسان کو آج تک کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔
ہم اگر پورپ کی تاریخ میں اسکی خود ترقی کو دیکھیں تو ایسے ہی جاگیرداری اور قبائلی نظاموں کو توڑ کر وہ آج اس مقام پر پہنچا ہے لیکن انھوں نے اسکی ترغیب دوسرے سماجوں کو دینے کے بجائے انکو نوآبادیاتی نظاموں کا شکار کر کہ ان پے قبضہ کیا اور انکے وسائل کو لوٹا۔
انہی شورشوں کی وجہ سے جون میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے بین الاقوامی شعبے کی مرکزی کمیٹی کے وزیر لیو جیان چاؤ نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ سکیورٹی کے خطرات چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تعاون میں بنیادی خطرات ہیں چین کے انجنیئر اور ورکرز جب کراچی اور گودر میں مارے جاتے ہیں تو بی ایل اے اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے جب یہ داسو اور کوہستان میں مارے جاتے ہیں تو ٹی ٹی پی اسکی زمہ داری قبول کرتی ہے یہ اتفاق بھی عجیب اتفاق ہے آخر اس طرح کے اتفاقات کے پیچھے کیا ہے۔
اس سارے ہنگامے میں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاہدوں میں ہمارے نظام کی بہت زیادہ خامیاں ہیں اور اس میں چھوٹی قومیتوں کا استحصال بالکل سو فیصد ہو رہا ہے لیکن یہ ہمارے اندرونی معاملات ہیں ویسے بھی ہمارے ملک کے عام آدمی نے کب اپنے لیے جدوجہد کی ہر بار ہماری عوام کہیں نا کہیں کسی وڈیرے قبائلی سردار کسی فرقے پرست یا کسی سرمایہ دار سیاسی پارٹی و اسکے سربراہ کے لیے لڑتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہ چین نا ہی ایسے جانے والا ہے اور نا ہی یہ سب امریکی سامراج کے آشرباد سے ممکن ہے اور نا ہی بلوچستان یا کہ پاکستان چین کے لیے بہت اہم ہیں چین نے اپنے لیے اور راستے بنا لیے ہیں دراصل یہ منصوبہ ہمارے لیے فائدے مند تھا جس کی سمجھ شاید ہمیں بہت بعد میں آئے گی۔
ہمارا سماج آج اس جدید دور میں بھی قبائلی اور جاگیرداری عہد میں زندہ ہے ہمارے ہاں 76 سالہا آزادی کا حاصل یہ ہے کہ سرکاری سطح پر غریب مفلوک الحال ہے عوام سے ٹیکس وصول کر کے یہاں کی مخصوص اشرفیہ کو پالا گیا ہے اور خوامخواہ کی مداخلتوں سے اس ملک کی خراب حال معیشت کو تباہی کے دھانے پے لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے اسکے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور مالیاتی اداروں نے ہمارے ملک کے محنت کار کی درگت بنا کہ رکھ دی ہے یہاں نا ہی عوامی جمہوری انقلاب کے تقاضے پورے ہو سکے اور نا ہی انڈسٹری کا قیام اور جاگیروں کی تقسیم ہو سکی۔
ان نا مساعد حالات میں اگر کوئی ملک ایسے پروجیکٹ پے کام کر رہا ہے جو ہماری دھرتی کی تعمیر ترقی میں اہم پیش رفت ہے تو شعوری تقاضہ یہ ہے کہ آپ اپنی مراعات کے لیے جدوجہد کریں نا کہ شورش برپا کر کہ نسلی بنیاد پر کنویں کا مینڈک بنے کی کوشش کریں جس سے آپکی دھرتی کی ترقی رک جائے یہ دھرتی صدیوں سے اسی مقام اسی جگہ پر ہے یہ اٹھا کر چین بجنگ نہیں لے جا رہا قومیں جب سچی آزادی لے لیتی ہیں تو یہ پروجیکٹ کوئی ساتھ نہیں لے جاتا کل برطانیہ نے جو ریلوے لائنیں بچھائی تھی آج ہمارے ہی کام آرہی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہماری حکومتوں نے بجائے اور ترقی دینے کے اسی کو کھا لیا ہے یاد رکھیں کہ آپ جس سامراج کے سہارے یہ سارا ہنگامہ کر رہیے ہیں ہماری ریاست اسی کے لیے کام کرتی رہی ہے کم از کم یہ ایک بڑی مثال آپکے سامنے ہے اسی سے سبق سیکھ کر سچی آزادی کی جدوجہد کریں اور معاشی آزادی سے بڑی آزادی کوئی نہیں ہے اگر عطار کے لونڈے سے ہی دوا لینی ہے تو آپ پتھر کے عہد میں پہنچ تو سکتے ہیں لیکن آگے نہیں جا سکتے۔
—♦—
ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا فرد کے ساتھ ایک مشکل وقت میں بجائے ہمدردی کے اس کے خلاف عداوت بھرے انداز میں پیش آئے۔ لیکن ہمیں یہاں ہمدردی کے معنی اور مفہوم کو سمجھنا ہو گا اور پھر ان اسباب کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہوگی جن وجوہات کی بنا پر سماج ترقی کی اس تیز رفتار دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور پھر قومیں طبقاتی اور قومیتی بنیاد پر سراپا احتجاج ہوتی ہیں۔ اور ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہو گی کہ قومیں کن حالات کی وجہ سے پسماندہ اور پیچھے رہ جاتی ہیں اور یہ بھی کہ کسی بھی قوم کی معاشی سیاسی سماجی ثقافتی اور جغرافیائی حقیقی آزادی کیا ہوتی ہے۔
آج بلوچ قوم کے ہزاروں افراد آج لاپتہ ہیں اور بے شمار مارے گئے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ چھہتر سالوں سے چلا آرہا ہے ہم اگر یہ کہیں گے تو بھی غلط نا ہو گا کہ فقط 76 سال ہی سے نہیں یہ صدیوں پے پھیلی ایک مسلسل جنگ ہے کیونکہ جہاں بھی قبائلی اور جاگیرداری نظام ہو گا وہاں خاندانی دشمنیاں ہونگی، جنگ و جدال ہو گا، پسماندگی و بے کاری ہو گی، آج کے دور میں سماج تیزی سے ایک دوسرے سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہیے ہیں یہ دنیا میں بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ سماج پلٹ کر اسی پچھلے زمانے میں جانے کے لیے بضد ہوں۔
چونکہ یہ سارا سنسار ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے لہٰذا اس وقت کوئی بھی قوم اگر یہ خیال کرے کہ کسی بھی سرزمین پر وہ تنہاء رہے گی اور قدیم قبائلی نظاموں میں رہ کر ترقی کر لے گی تو یہ ایک سخت رجعت پسندانہ عمل ہو گا اور جدیدیت سے دور رہنے کی ایک ناکام کوشش۔
بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی قوم کی جدوجہد کے مقاصد اگرچہ اور ہوتے ہیں لیکن نتیجے اس سے مختلف برآمد ہوتے ہیں۔ اس وقت بلوچوں کی جدوجہد بھی اسی انداز کی ایک جدوجہد ہے ایک طرف بلوچ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پے نالاں ہیں جو ایک حقیقت ہے اور یہ انکی حقیقی جدوجہد بھی بنتی ہے لیکن دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسند ساتھ ہی ساتھ ایک ایسی سامراجی طاقت سے ہمدردیاں لینے کی کوشش بھی کر رہے ہیں جس کی سامراجی تاریخ بڑی بھیانک اور بہت استحصالی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ امریکی اور برطانوی سامراج کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے لیے وقتی طور پر ہمدردی جتا کر کمزور قوموں کا ایسے شکار کرتا ہے کہ وہ قومیں جو اس کو نجات دہندہ سمجھتی ہیں بجائے ترقی کے واپس پتھر کے عہد میں چلی جاتی ہیں۔
ان سامراجی ممالک کی تاریخ میں ہزاروں ایسی مثالیں موجود ہیں امریکی اور یورپی سامراجیوں نے افریقہ سے لے کر ایشیا اور دوسرے براعظموں تک ایسی بربادیاں پھلائی کہ جسکی مثال نہیں ملتی لہذا بلوچ جدوجہد کی سب سے بڑی وجہ انکے وسائل پے قبضہ گیری سمیت وہاں کے نوجوانوں کا مستقبل اور بار بار حکمران طبقات کی وعدہ خلافیاں ہیں جو یہاں کے عوام کے ساتھ بارہا کی گئی اسکی وجہ وفاقی سطح پر ایک جبری نظام کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں موجود وہ سرداری نظام بھی ہے جو یہاں ترقی نہیں ہونے دیتا سرکاری سطح پر بھی اس نظام کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے ۔
تاہم موجودہ بلوچستان اور کل کی ریاست قلات، ریاست مکران، خاران اور لسبیلہ آج پاکستان کا صوبہ بلوچستان کہلاتا ہے جو ناصرف بلوچ بلکہ مختلف نسلی و لسانی قومیتوں پر مشتمل ہے، ہر قومیت کے اپنے اپنے سردار ہیں اور دوسری طرف وہ غریب اور مفلوک الحال بلوچ ہیں جن کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پے مجبور ہے۔
ہمیں بلوچستان کے متعلق اظہار خیال کرنے سے پہلے ہمیں بلوچستان کے جغرافیے، اس کی تاریخ اور اس میں بسنے والی لسانی و نسلی قومیتوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے اس کے بعد ہی موجودہ تحریک اور اس کے نتیجے کے ممکنہ امکانات کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
ہر چند کہ یہ ایک مملکت کے ٹوٹے ہوئے حصوں کی کھوج ہے جو ایران افغانستان اور پاکستان کے مختلف حصوں پر پھلا ہوا ہے بلوچستان کے خطے کی سیاسی اور ارضی تنازعات کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رہی ہے بلوچستان جسے 1795 سے 1948 کے دوران کئی مختلف حصوں کو مختلف کالونیل پاورز اور ریاستوں کے ذریعے تقسیم یا ضم کیا گیا اور اس کو بلوچستان نام بھی کالونیل پاورز نے ہی دیا، اس تقسیم کے باوجود آج پاکستان کا صوبہ بلوچستان اس وقت رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 347190 مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا 43.6 فیصد حصہ بنتا ہے اور یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے قدرتی گیس ، کوئلہ، سونا، تانبہ اونکس اور دوسری معدنیاتی دولت اس صوبے میں موجود ہے۔ لیکن اس دولت کے باوجود یہاں کے عوام دوسرے تمام صوبوں کے مقابلہ میں بے حد غریب اور پسماندہ ہیں۔
بلوچستان کے شمال میں افغانستان، صوبہ خيبر پختون خواہ جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ اور پنجاب جبکہ مغرب میں ایران واقع ہے۔ اس کی 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ جبکہ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہے
جغرافیائی تاریخی پہلو سے متنازعہ بلوچ علاقوں کو تین معاہدوں کے ذریعے جنوب مغربی اور مشرقی مغربی علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
سب سے پہلا معاہدہ تیسرے فریق کی ثالثی میں کیے جانے والا پیرس معاہدہ تھا جس کو 1857 میں تسلیم کر لیا گیا تھا ، لیکن اس پر عمل درآمد 1872 اور 1935 کے درمیان کیا گیا۔ جبکہ دوسری سرحدی معاہدے کو میک موہن ایوارڈ کہا جاتا ہے اس معاہدے کی شروعات 1872 میں کی گئی تھی لیکن قانونی شکل 1903 اور 1905 میں دی گئی جس کے بعد بلوچ علاقے میں افغانستان ایران سرحد قائم کی گئی۔
تیسری سرحدی تقسیم ڈیورنڈ لائن 1893 میں قائم کی گئی جو افغانستان اور موجودہ پاکستان کو الگ کرتی ہے، جس کی قانونی حیثیت ابھی تک متنازع ہے۔ 1896 میں، افغان امیر کی جانب سے ڈیورنڈ معاہدے کی عدم تعمیل کی وجہ سے بلوچ علاقوں میں سرحدوں کی تقسیم کے لیے ایک اور معاہدہ کیا گیا، جو افغان بلوچ سرحدی کمیشن میں کیپٹن میک موہن کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی، جو کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بلوچ علاقوں کو الگ کرتی ہے۔ تاہم زیادہ تر بلوچ مؤرخین اور مصنفین میک موہن لائن کو ڈیورنڈ لائن سے الگ سمجھتے ہیں۔
1929میں، بلوچ علاقوں کو فراہ اور قندھار کے صوبوں میں ضم کر دیا گیا، 1968 میں بلوچ علاقوں کو چار صوبوں: نمروز، قندھار، فراہ اور ہلمند میں دوبارہ تقسیم کیا گیا۔ ڈیورنڈ لائن اور میک موہن لائن کی متنازعہ قانونی حیثیت خطے کے استحکام اور سلامتی کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
جہاں تک بلوچستان میں قومیتوں کا سوال ہے تو بلوچستان میں برہوی، بلوچ ،پشتون، سرائیکی، سندھی، پنجابی، شیدی اور ہزارہ قومیتیں آباد ہیں۔
ان میں یہاں کی سب سے پرانی قوم بروہی ہے ۔بروہوی ہڑپہ کی آبادی دراوڑتی قدیم سندھی نسلیں اور براہوی دراوڑو ہیں۔ جبکہ بلوچوں کے بارے میں کچھ کی رائے ہے کہ یہ ایرانی نسل ہیں اور چنگیز خان کے ایران پر حملوں کے بعد بلوچستان میں وارد ہوئے۔ لہٰذا بلوچستان کی سرزمین کے اصل وارث اور قدیم حاکم براہوی ہیں اور انگریزوں کی آمد سے پہلے 17 ویں صدی سے تین سو سال تک قلات میں براہویوں کی حکمرانی رہی ۔
براہوی قوم جس نے مجموعی طور پر 550 سال حکومت کی 20اگست 1749ءکو نصیر خان براہوی قلات میں حاکم تھے اور ان کی سلطنت افغانستان ایران‘ ہندوستان پنجاب‘ سندھ اور پشاور تک تسلیم کی جاتی تھی اور ان کی فوج کو براہوی فوج کہا جاتا تھا جس کے دستہ سراوان کو تین قبائل کے فوجیوں میں تقسیم کیا گیا جن کے نام رئساڑی‘ شاہنواڑی محمدشہی اور بنگلزئی ہیں اوردوسرے دستے کے بھی زہری مینگل اور مگسی قبائل کے جوانوں میں تقسیم کیا گیا۔
براہوی قبیلہ کے بارے میں بہت لکھاریوں نے مختلف اقوال لکھے ہیں مگر تاریخ سیستان و بلوچستان اور بلوچ قوم اور اس کی تاریخ میں مندرجہ بالا جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب سے مستحکم ہے براہوی قوم کے ثبوت مہرگڑھ کے قدیم آثار بھی دیتے ہیں۔
جہاں تک بلوچ قوم کا تعلق ہے ایک طرف ان کو ایرانی نسل کہا جاتا ہے تو دوسری طرف بلوچ قبائل کے بزرگوں کا ماننا ہے کہ بلوچ حضرت امیر حمزہ کے بیٹے میر عمارہ کی اولاد میں سے ہیں حضرت حمزہ حضور نبی کریم کے چچا تھے اور بلوچ حلب سے آئے ہیں۔ کچھ بلوچ اپنے شجرہ میں میر عمارہ کو حضرت امیر حمزہ کا بیٹا مانتے ہیں اور کچھ کا ماننا ہے کہ بلوچ نسلاً عربی ہیں۔ ویسے لفظ بلوچ کو مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے بعل، بلوچ، بلوص بلوس ،بلوش، بعوث، بیلوث ،بیلوس اور بعلوس لکھا اور استعمال کیا ۔ اہل بابل اپنے قومی دیوتا کو بال(بعل) عظیم کہا کرتے تھے ۔یونانیوں نے اسے بیلوس کہا۔ عہد قدیم میں لفظ بلوچ کو بعلوث اور بیلوث لکھا جاتا تھا، اس کے بعد یہ لفظ بیلوس اور بعلوس کے طور پر تحریر و بیان میں آتا رہا، عرب اسے بروج، بلوص اور بلوش ادا کرتے ہیں اور ایرانی اسے بلوچ لکھتے اور بولتے ہیں۔
ہمارے یہاں ایرانی لفظ بلوچ رائج ہے اور بلیدی بیلوص کی شاہی اولاد ہے ایران میں بلوچوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ بلوچوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے نہ صرف کربلا میں حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ دیا تھا بلکہ ان دنوں جب کہ رسول اللہ مکہ میں بے یار مدد گار تھے تو بلوچوں نے اپنے قبائل سے پانچ بہادر منتخب کر کے رسول اللہ کی حفاظت کے لیے بھیجے ،اس بات کا پتہ بھی ہمیں بلوچی کی ایک نظم سے چلتا ہے۔
سارے بلوچستان میں شيدی یا سیدی سمیت ہر لسانی قوم کے سردار ہیں آخیری فیصلہ سردار ہی کرتے ہیں شیدیوں کی بھی اپنی ایک الگ تاریخ ہے یہ سیاہ فام نسلی گروہ شیدی جنکی مختصر تعداد ہے اور تھوڑی بہت بھارت میں بھی ہے جو جنوب مشرقی افریقہ اور ایتھوپیا کے زنج ساحل کے بنتو قبیلے کے لوگ ہیں۔
جن کی اکثریت عرب اور برطانوی غلاموں کی تجارت کے ذریعے برصغیر پاک و ہند میں ممکن ہوئی دوسرا یہ تاجروں، ملاحوں اور کرائے کے سپاہیوں کے طور پر بھی آئے کراچی کی منگھو پیر کی پہاڑی پر واقع درگاہ حضرت خواجہ حسن سخی سلطان عرف منگھو پیر ان سیاہ فاموں کے روحانی پیشوا ہیں۔ ان لوگوں کی مزار کے احاطے میں واقع تالاب میں موجود ایک سو سے زائد مگر مچھوں سے خاص عقیدت ہے میلے کے آغاز پر قبیلے کا سردار سب سے بڑے مگر مچھ مور صاحب کے ماتھے پر سندور کا ٹیکہ لگاتا ہے، حلوہ اور گوشت کھلاتا ہے جس کے لیے خاص طور پر بکرا ذبح کر کے اس کی سری مگر مچھ کو کھلائی جاتی ہے ان شیدیوں کا عقیدہ ہے کہ اگر مور صاحب ان کا دیا ہوا گوشت نہ کھائیں تو وہ سال ان کا اچھا نہیں گزرتا اور اس سال میلہ بھی نہیں ہوگا مزار پر آنے والے زائرین کا عقیدہ ہے کہ یہ مگر مچھ بارہویں صدی عیسوی کے بزرگ خواجہ فرید الدین مسعود شکر گنج کی جوئیں ہیں جو انھوں نے منگھو پیر کو دیں تھیں جو بعد میں معجزے سے مگر مچھ بن گئی۔
بلوچستان میں خاصی تعداد میں ایک ذکری فرقہ بھی موجود ہے جو زکری مہدویت سلسلے‘ کو مانتے ہیں جس کی بنیاد 15ویں صدی عیسوی میں سید محمد جونپوری نے رکھی تھی جن کا تعلق انڈیا سے تھا اور ان کی وفات موجودہ افغانستان میں ہوئی۔
بلوچستان میں مکران ریجن، خضدار، لسبیلہ اور سندھ میں کراچی، حیدرآباد، سانگھڑ اور ایران میں بندر عباس و دیگر علاقوں میں ذکری کمیونٹی کے لوگ موجود ہیں۔
سید عیسیٰ نوری جو سابق رکنِ قومی اسمبلی تھے وہ ذکری کمیونٹی کے روحانی پیشوا بھی ہیں، بتاتے ہیں کہ ’سید محمد مہدی جونپوری جنہیں وہ مہدی مانتے ہیں، انہوں نے مہدویہ تحریک کا آغاز کیا تھا جو ایرانی بلوچستان سے لے کر یہاں تک پھیل گئی۔
1947 تک بلوچستان پانچ حصوں میں منقسم تھا۔ پانچ میں سے چار حصوں میں شاہی ریاستیں تھیں جن کے نام قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ تھا اور ایک برٹش انڈیا کا علاقہ برٹش بلوچستان تھا۔ قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ پر برطانوی ایجنٹ بھی نگران تھے قلات لسبیلہ،خاران اور مکران کا علاقے وہی تھے جو آج بھی اسی نام کی ڈویژن کی صورت میں موجود ہیں۔
برٹش بلوچستان میں موجودہ بلوچستان کی پشتون پٹی لورالائی، پشین، مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبد اللہ، ژوب، چمن کے علاوہ کوئٹہ اور بلوچ علاقہ ضلع چاغی اور بگٹی اور مری ایجنسی کوہلو کے علاقہ شامل تھے۔ اس وقت گوادر خلیجی ریاست عمان کا حصہ تھا جو خان آف قلات نے عمان کو دیا تھا۔ مکران اور لسبیلہ کے پاس سمندری پٹی تھی جبکہ باقی تین علاقہ قلات، خاران اور برٹش بلوچستان خشکی ميں گھرے تھے۔
قیام پاکستان کے وقت تین جون کے منصوبہ کے تحت برٹش بلوچستان نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے اراکین نے کرنا تھا جبکہ باقی چاروں علاقوں لسبیلہ، خاران، قلات اور مکران کے حکمرانوں نے بھی بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کرنا تھا۔ لسبیلہ، خاران اور مکران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا جبکہ قلات نے ایسا نہیں کیا۔ قلات میں گو کہ خان آف قلات حکمران تھے مگر دو منتخب ایوان بھی تھے اور ان دونوں ایوانوں نے پاکستان سے الحاق کی اکثریت سے مخالفت کی تاہم ان ایوانوں کی حیثیت مشاورتی تھی اصل فیصلہ خان آف قلات نے ہی کرنا تھا۔
جب لسبیلہ، مکران اور خاران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کر لیا تو قلات کی ریاست مکمل طور پر پاکستانی علاقہ میں گھر گئی۔ انگریزی میں ایسے علاقہ کو انکلیو کہا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں مارچ 1948 میں قلات نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ خان آف قلات میراحمد یار خان کے اس فیصلے کے خلاف ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے مسلح جدوجہد شروع کردی جس میں انھیں افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس مسلح جدوجہد کا نتیجہ پاکستان کی فوجی کارروائی کی صورت میں نکلا۔ یہ فوجی کارروائی صرف قلات تک محدود تھی۔ کارروائی کے نتیجے میں شہزادہ میر عبدالکریم افغانستان فرار ہو گیا۔ بعد میں برٹش بلوچستان کو بلوچستان کا نام دے دیا گیا۔ جب کہ قلات، مکران، خاران اور لسبیلہ کو ایک اکائی بنا کر بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام دیا گیا۔
1955 میں ون یونٹ کے قیام کے وقت برٹش بلوچستان کا نام کوئٹہ ڈویژن کر دیا گیا اور بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام قلات ڈویژن کر دیا گیا اور یہ دونوں علاقے مغربی پاکستان صوبے کا حصہ بن گئے۔
1958 میں اس وقت کے وزیر اعظم ملک فیروزخان نون جن کا تعلق پنجاب سے تھا انھوں نے عمان سے کامیاب مذاکرات کر کے گوادر کے علاقے کی ملکیت بھی حاصل کر لی۔ 1969 میں ون یونٹ کو توڑا گیا اور چار صوبے بنے تو قلات ڈویژن، کوئٹہ ڈویژن اور گوادر کو ملا کر موجودہ صوبہ بلوچستان وجود میں آیا۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں بلوچ آبادی زیادہ تھی جیسا کہ مکران خاران اور لسبیلہ ان ریاستوں کے نوابوں نے پاکستان کو پہلے تسلیم کر لیا یاد رہیے کہ یہ علاقے بلوچ اکثریتی علاقے ہیں خان آف قلات جنکا تعلق پرواہی قبیلے سے تھا انھوں نے پاکستان کو بعد میں مجبور ہو کر تسلیم کیا لیکن آج سب سے زیادہ شورش انہی علاقوں میں پائی جاتی ہیں جنھوں نے پاکستان کو فوراً تسلیم کیا تھا جبکہ پرواہی ریاست قلات جس نے مجبوراً پاکستان کو تسلیم کیا وہاں اسقدر شورش نہیں ہے۔
ان سارے حالات نسلی لسانی اور قبائلی سماج کے مسائل جو صدیوں سے ایک ہی جیسا چلے آرہے ہوں، چین نے ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ جسے منصوبے جسے نیو سلک روڈ بھی کہا جاتا ہے 2013ء میں چینی صدر شی جن پنگ نے انفراسٹرکچر کی ترقی کے اس عظیم منصوبے کا آغاز کیا۔ جس کے تحت مشرقی ایشیاء سے لے کر یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکہ تک کے ترقیاتی اور سرمایہ کاری کے منصوبوں کی ایک پوری سیریز پر کام کیا جانا ہے جسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو’ یعنی بی آر آئی جسے ‘ون بیلٹ ون روڈ’ کا نام دیا گیا ہے یہ چین کی طرف سے رواں صدی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے جس کے تحت 66 سے زائد ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑا جا رہا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ دنیا کی دو تہائی آبادی کو ملائے گا جس میں کم از کم ایک تہائی مجموعی ملکی پیداوار بھی شامل ہے یہ منصوبہ محض پاکستان یا بلوچستان تک کا ہی نہیں یہ ایک وسیع منصوبہ ہے جو دنیا کو ایک ساتھ ملانے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیے ایک بہترین منصوبہ ہے جو ترقی کے اس دور میں پیچھے رہ جانے والے ملکوں کو بھی ترقی دے گا۔
تقریبا دس سال پہلے سی پیک پے کام شروع ہوا اس سلسلے میں ظاہر ہے پاکستانی ریاست کا سی پیک معاہدے ریاست کے ساتھ ہونے تھے اور ریاستی حکومت میں بلوچستان کے سردار بھی شامل تھے جو کسی نا کسی صورت انتخابات جیت کر آتے ہیں لیکن ظاہر ہے یہ معاہدے کوہلو گیس پائپ لائن کے منصوبے کی طرح کسی سردار کے ساتھ نہیں ہو سکتے تھے جبکہ سرداروں کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ اپنے پورے پورے مفادات استحصالی حکمرانوں سے ملکر اٹھاتے ہیں عام بلوچ کو تو اس لڑائی کا ایندھن بناتے ہیں، لیکن عام بلوچ کبھی بھی ان ثمرات کا حصہ دار نہیں بن سکا۔
حال ہی میں 26 اگست 2024ء کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے بلوچستان کے 10 اضلاع میں حملہ کرکے تقریباً 70 افراد کو مار دیا۔ یہ تشدد کی نئی لہر بلوچ قوم کے ایک قبیلے کے سربراہ اور مختلف اوقات میں اہم سیاسی سرکاری عہدوں پر رہنے والے نواب اکبر خان بگٹی کی ہلاکت کی 18 ویں برسی کے موقع پر پیش آئی ان مربوط حملوں کے دوران بی ایل اے نے بلوچستان کی کئی اہم مرکزی شاہراہوں کو بند کر دیا جسکا مقصد یہ تھا کہ سکیورٹی فورسز کو پہنچنے والی مدد کو روکا جا سکے اور میڈیا میں یہ تاثر پھیلایا جا سکے کہ پاکستانی حکومت کی رٹ کمزور ہو گئی ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں سے پیدا ہونے والی عدم تحفظ کی فضا نے سی پیک منصوبوں اور بلوچستان کی ترقی کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ چینی کمپنیوں کے ساتھ پاکستان کے وعدے بیوروکریسی کی ناکامی، مالیاتی بحران اور غیر یقینی سیاسی ماحول نے بھی ترقی کی رفتار کو سست کیا ہے۔
بلوچ علیحدگی پسندوں کا یہ کہنا ہے کہ سی پیک کے ذریعے بلوچستان کے وسائل پے قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے ان بلوچ علیحدگی پسندوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا آپ اگر کل آزاد بھی ہو جاتے ہیں تو ان وسائل کو تن تنہا زمین کی تہوں سے نکال لیں گے؟ کہیں نا کہیں تو آپ کو جدید ٹیکنالوجی کے حامل ممالک سے معاہدہ کرنا ہو گا۔
اگر ایک پسماندہ اور ترقی سے بچھڑی ہوئی قوم یہ سب کچھ خود کر لیتی تو عرب کبھی بھی یورپ یا امریکہ کا سہارا نا لیتے لیکن یہاں مسلہ یہ نہیں ہے دراصل یہاں کے سرداروں کا مسلہ چین ہے کیونکہ امریکی اور یورپی سامراج کی کڑی نظر ہے ان وسائل پر اور پھر امریکہ اور یورپ جسطرح افریقہ میں ہوتو وغیرہ قبائل کو لڑا کر انکے وسائل لوٹتے ہیں دراصل بلوچستان کے سرداروں کو بھی ایسے ہی معاہدے چائیں یہ جدوجہد کسی طرح بھی طبقاتی بنیاد پر کسی عام بلوچ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور نا ہی عام بلوچ کو اس سے کچھ حاصل ہونا ہے کیونکہ امریکی اور یورپی آشرباد سے کسی محنت کش غریب ہاری یا کسان کو آج تک کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکا۔
ہم اگر پورپ کی تاریخ میں اسکی خود ترقی کو دیکھیں تو ایسے ہی جاگیرداری اور قبائلی نظاموں کو توڑ کر وہ آج اس مقام پر پہنچا ہے لیکن انھوں نے اسکی ترغیب دوسرے سماجوں کو دینے کے بجائے انکو نوآبادیاتی نظاموں کا شکار کر کہ ان پے قبضہ کیا اور انکے وسائل کو لوٹا۔
انہی شورشوں کی وجہ سے جون میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے بین الاقوامی شعبے کی مرکزی کمیٹی کے وزیر لیو جیان چاؤ نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ سکیورٹی کے خطرات چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تعاون میں بنیادی خطرات ہیں چین کے انجنیئر اور ورکرز جب کراچی اور گودر میں مارے جاتے ہیں تو بی ایل اے اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے جب یہ داسو اور کوہستان میں مارے جاتے ہیں تو ٹی ٹی پی اسکی زمہ داری قبول کرتی ہے یہ اتفاق بھی عجیب اتفاق ہے آخر اس طرح کے اتفاقات کے پیچھے کیا ہے۔
اس سارے ہنگامے میں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاہدوں میں ہمارے نظام کی بہت زیادہ خامیاں ہیں اور اس میں چھوٹی قومیتوں کا استحصال بالکل سو فیصد ہو رہا ہے لیکن یہ ہمارے اندرونی معاملات ہیں ویسے بھی ہمارے ملک کے عام آدمی نے کب اپنے لیے جدوجہد کی ہر بار ہماری عوام کہیں نا کہیں کسی وڈیرے قبائلی سردار کسی فرقے پرست یا کسی سرمایہ دار سیاسی پارٹی و اسکے سربراہ کے لیے لڑتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہ چین نا ہی ایسے جانے والا ہے اور نا ہی یہ سب امریکی سامراج کے آشرباد سے ممکن ہے اور نا ہی بلوچستان یا کہ پاکستان چین کے لیے بہت اہم ہیں چین نے اپنے لیے اور راستے بنا لیے ہیں دراصل یہ منصوبہ ہمارے لیے فائدے مند تھا جس کی سمجھ شاید ہمیں بہت بعد میں آئے گی۔
ہمارا سماج آج اس جدید دور میں بھی قبائلی اور جاگیرداری عہد میں زندہ ہے ہمارے ہاں 76 سالہا آزادی کا حاصل یہ ہے کہ سرکاری سطح پر غریب مفلوک الحال ہے عوام سے ٹیکس وصول کر کے یہاں کی مخصوص اشرفیہ کو پالا گیا ہے اور خوامخواہ کی مداخلتوں سے اس ملک کی خراب حال معیشت کو تباہی کے دھانے پے لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے اسکے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور مالیاتی اداروں نے ہمارے ملک کے محنت کار کی درگت بنا کہ رکھ دی ہے یہاں نا ہی عوامی جمہوری انقلاب کے تقاضے پورے ہو سکے اور نا ہی انڈسٹری کا قیام اور جاگیروں کی تقسیم ہو سکی۔
ان نا مساعد حالات میں اگر کوئی ملک ایسے پروجیکٹ پے کام کر رہا ہے جو ہماری دھرتی کی تعمیر ترقی میں اہم پیش رفت ہے تو شعوری تقاضہ یہ ہے کہ آپ اپنی مراعات کے لیے جدوجہد کریں نا کہ شورش برپا کر کہ نسلی بنیاد پر کنویں کا مینڈک بنے کی کوشش کریں جس سے آپکی دھرتی کی ترقی رک جائے یہ دھرتی صدیوں سے اسی مقام اسی جگہ پر ہے یہ اٹھا کر چین بجنگ نہیں لے جا رہا قومیں جب سچی آزادی لے لیتی ہیں تو یہ پروجیکٹ کوئی ساتھ نہیں لے جاتا کل برطانیہ نے جو ریلوے لائنیں بچھائی تھی آج ہمارے ہی کام آرہی ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہماری حکومتوں نے بجائے اور ترقی دینے کے اسی کو کھا لیا ہے یاد رکھیں کہ آپ جس سامراج کے سہارے یہ سارا ہنگامہ کر رہیے ہیں ہماری ریاست اسی کے لیے کام کرتی رہی ہے کم از کم یہ ایک بڑی مثال آپکے سامنے ہے اسی سے سبق سیکھ کر سچی آزادی کی جدوجہد کریں اور معاشی آزادی سے بڑی آزادی کوئی نہیں ہے اگر عطار کے لونڈے سے ہی دوا لینی ہے تو آپ پتھر کے عہد میں پہنچ تو سکتے ہیں لیکن آگے نہیں جا سکتے۔
—♦—
ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔