آپ بار بار وہی دوا تجویز کرتے آ رہے ہیں جو ہر بار مرض بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں بندوق ہے تو آپ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بندوق کی نال پر ہر ایک کو سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا یہ نسخہ مشرقی بنگال میں بھی الٹا پڑ گیا تھا اور آج بلوچستان کے مرض کی تشخیص میں دانستہ ، نادانستہ کوتاہی ملک ہی کو نہیں خطہ کو بھی نہ ختم ہونے والے کشت و خون میں مبتلا کر دے گی۔
آپ نے ایک جنگ چھیالیس سال پہلے افغانستان میں چھیڑی تھی اس کے نتائج سامنے ہیں۔ جنہیں آپ اسلام کے مجاہد کہتے نہیں تھکتے تھے آج انہیں خارجی قرار دے رہے ہیں۔ یہ آپ ہی تھے جو انہیں دہشت گرد کہنے والوں کو کے جی بی کا ایجنٹ اور غدار قرار دیتے تھے۔
ابھی افغانستان میں لگی آگ ختم نہیں ہوئی کہ بلوچستان میں نیا محاذ کھلنے جا رہے ہیں۔ بلوچستان ایک سیاسی مسئلہ ہے، سیاسی انداز ہی میں حل ہو گا۔ انتظامی و فوجی راستہ نہایت بھیانک نتائج کا حامل ہو گا، سات دہائیوں کا تجربہ تو یہی بتا رہا ہے۔
خاکی بھائیوں اور ان کے گرد جمع سویلین حاشیہ برداروں نے کوئٹہ میں جمع ہو کر ایک دھمکی دی ہے ایسی ہی ایک دھمکی جنرل مشرف بھی دے چکے تھے اور انجام کار سامنے ہے۔ بلوچستان سے برتی مجرمانہ بے اعتنائی کے ذمہ داران نہ صرف بندوق بردار بلکہ ان کے حلقہ بگوش سویلین بھی ہیں۔ بلوچ سردار نوروز خان اور ان کے جواں سال بیٹوں کی پھانسیوں ، نواب اکبر بگٹی کے قتل اور آج تک بلوچ کے بہتے خون کے ذمہ دار جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف اور ان کے درمیان سینیر بھٹو سے لے کر عمران خان اور موجودہ نواز حکومت تک سبھی شامل ہیں۔
ہم میں سے اکثر ریاست کے چھیڑے سُروں پر سر دھنتے بلوچستان کے المیہ پر بلوچ سرداروں کو قصور وار ٹھہرانے میں رطب اللسان ہیں اور بھول جاتے ہیں مری، مینگل اور بگٹی ایسے چند سرداروں کو چھوڑ سبھی سردار ریاست کے گن گاتے رہے ہیں۔ تو اگر یہ ریاست کے دُم چھلا سردار بلوچستان کو ترقی دینے میں ناکام ہیں تو اس کے معنی یہ ہویے کہ ریاست ناکام رہی ہے۔ بلوچوں کے وسائل اور ساحل پر سیاسی جمہوری کنٹرول کی بات کرنے والے بلوچ سرداروں نے قربانیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثل خطہ کے بالا دست طبقات میں خال خال ہی ملے گی۔ سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری ، نواب اکبر بگٹی نے قربانی کی روایت اپنے گھر سے شروع کی تھی۔ خود اپنی اور اپنے پیاروں کو قربان کیا ہے۔
یہ رسم مرے قبیلہ سے چلی ہے
سر چاہیے جس کا سردار بنا دو
خون کے اس خراج کے باوجود بلوچوں کے ایک بڑے حصے نے ہر بار پارلیمنٹ میں اور آئین کے دائرے میں آپ سے زندہ رہنے کا حق مانگا لیکن ہر بار انہیں دھوکا دیا گیا۔ آپ نے اختر جان مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ جیسوں کو دھوکا دیا اور انہیں بے توقیر کیا۔ یہی کچھ آپ نے ماضی میں عطا اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کے ساتھ بھی کیا۔
اب ڈاکٹر مہہ رنگ بلوچ ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے پاکستان کے دارالحکومت میں آئینی درخواست لئے پہنچی کہ بلوچوں کے آئین میں لکھے شہری حقوق دئیے جائیں، سیاسی قوتوں، عدالت، پارلیمنٹ اور ریاست نے اس جری لڑکی کی تحقیر کی، جواباً اس نے بلوچوں خصوصاً بلوچ نوجوانوں کا اعتماد جیت لیا۔
اس ملک میں بلوچستان ہی ایسا مسئلہ ہے جس پر متحارب سیاسی گروہوں، پارلیمنٹ، عدلیہ اور چھاؤنی کا اتفاق ہے کہ طاقت کے زور پر بلوچستان میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیا جائے۔ اسی لیے طاقت ور حلقے جہاں طاقت کے زور پر صفایا کرنے کا اعلان کر رہے ہیں وہیں پارلیمنٹ میں بلوچوں کی تنہا شناسا آواز کو کوئی سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ اس بوڑھے ہوتے سردار کی آواز ہے جس کی موجودگی بے توقیر اسمبلی کو کچھ توقیر بخش رہی تھی۔
یہ وہ بلوچ راہنما ہے جس نے ریاست کے ہاتھوں اپنا جواں سال بھائی کھویا جس کا آج تک پتہ نہیں چل سکا، وہ آئین اور جغرافیہ کی حدود میں حقوق بات کرنا چاہتا ہے آپ نے اسے بھی مہہ رنگ کی طرح اسلام آباد کے ایوان سے بے دخل ہونے پر مجبور کر دیا۔
آپ نے جواباً بلوچستان میں مجرموں کے ٹولے کو مسلط کر رکھا ہے وہ افراد جو گلی محلہ کی نمائندگی کے لائق نہیں آپ نے انہیں سفید و سیاہ کا مالک بنا دیا ہے۔اور اب پی پی اور نواز لیگ کو دیکھیں کہ کس بے شرمی اور ڈھٹائی سے طاقت کے سامنے جھکے جا رہی ہیں۔ آپ کی حرکتیں بلوچوں کو تیزی سے نئے راستوں پر ڈال رہی ہیں۔ آپ نے پہاڑوں پر چڑھے مسلح مزاحمت کاروں اور فوجی دستوں کے درمیان موجود تمام سیاسی قوتوں کو نابود کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ آپ نے جمہوری مطالبات کو وطن دشمنی اور غداری کے معنی پہنا دیئے ہیں تو اب غداری کا طعنہ کسی اعزاز سے کم نہیں رہا۔ جمہوری راہیں مفقود ہوں تو پھر متشدد طرز عمل کو تقویت پہنچتی ہے۔ جن جمہوری مطالبات کو آج آپ غداری کے زمرے میں ڈال رہے ہیں کل آپ تسلیم کرنے کے لیے تیار بھی ہوں گے لیکن حالات طوفان و سیلاب کی سی صورت اختیار کر چکے ہوں گے جو سب کچھ اڑا اور بہا لے جائے گا۔ چھ نکات سے مکتی باہنی تک کا سفر ہماری تاریخ کا الم ناک باب ہے۔
کل تک ممکن ہے میں بھی بھرپور بغاوت کر بیٹھوں
آج اگرچہ شِکوے باطرزِ جَمہوری کرتا ہوں
پرانی کہاوت ہے کہ ایک بخیہ وقت پر نہ سیا جایے تو پورا لباس سینا پڑتا ہے۔ ابھی بخیہ ہی ادھڑا ہے ، سی لیا جائے۔ جالب نے ایک بار شاید مشرقی بنگال کی صورت حال کے بارے کہا تھا جو بلوچستان کی صورت حال پر صادر آ رہا ہے۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گمان تم کو کہ راستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
—♦—
ناصر منصور نیشنل ٹریڈ یونینز فیڈریشن پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔بائیں بازو کے متحرک ساتھی ہیں، پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے محنت کشوں کو منظم کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
آپ بار بار وہی دوا تجویز کرتے آ رہے ہیں جو ہر بار مرض بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ آپ کے ہاتھ میں بندوق ہے تو آپ سمجھ بیٹھے ہیں کہ بندوق کی نال پر ہر ایک کو سیدھا کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا یہ نسخہ مشرقی بنگال میں بھی الٹا پڑ گیا تھا اور آج بلوچستان کے مرض کی تشخیص میں دانستہ ، نادانستہ کوتاہی ملک ہی کو نہیں خطہ کو بھی نہ ختم ہونے والے کشت و خون میں مبتلا کر دے گی۔
آپ نے ایک جنگ چھیالیس سال پہلے افغانستان میں چھیڑی تھی اس کے نتائج سامنے ہیں۔ جنہیں آپ اسلام کے مجاہد کہتے نہیں تھکتے تھے آج انہیں خارجی قرار دے رہے ہیں۔ یہ آپ ہی تھے جو انہیں دہشت گرد کہنے والوں کو کے جی بی کا ایجنٹ اور غدار قرار دیتے تھے۔
ابھی افغانستان میں لگی آگ ختم نہیں ہوئی کہ بلوچستان میں نیا محاذ کھلنے جا رہے ہیں۔ بلوچستان ایک سیاسی مسئلہ ہے، سیاسی انداز ہی میں حل ہو گا۔ انتظامی و فوجی راستہ نہایت بھیانک نتائج کا حامل ہو گا، سات دہائیوں کا تجربہ تو یہی بتا رہا ہے۔
خاکی بھائیوں اور ان کے گرد جمع سویلین حاشیہ برداروں نے کوئٹہ میں جمع ہو کر ایک دھمکی دی ہے ایسی ہی ایک دھمکی جنرل مشرف بھی دے چکے تھے اور انجام کار سامنے ہے۔ بلوچستان سے برتی مجرمانہ بے اعتنائی کے ذمہ داران نہ صرف بندوق بردار بلکہ ان کے حلقہ بگوش سویلین بھی ہیں۔ بلوچ سردار نوروز خان اور ان کے جواں سال بیٹوں کی پھانسیوں ، نواب اکبر بگٹی کے قتل اور آج تک بلوچ کے بہتے خون کے ذمہ دار جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف اور ان کے درمیان سینیر بھٹو سے لے کر عمران خان اور موجودہ نواز حکومت تک سبھی شامل ہیں۔
ہم میں سے اکثر ریاست کے چھیڑے سُروں پر سر دھنتے بلوچستان کے المیہ پر بلوچ سرداروں کو قصور وار ٹھہرانے میں رطب اللسان ہیں اور بھول جاتے ہیں مری، مینگل اور بگٹی ایسے چند سرداروں کو چھوڑ سبھی سردار ریاست کے گن گاتے رہے ہیں۔ تو اگر یہ ریاست کے دُم چھلا سردار بلوچستان کو ترقی دینے میں ناکام ہیں تو اس کے معنی یہ ہویے کہ ریاست ناکام رہی ہے۔ بلوچوں کے وسائل اور ساحل پر سیاسی جمہوری کنٹرول کی بات کرنے والے بلوچ سرداروں نے قربانیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثل خطہ کے بالا دست طبقات میں خال خال ہی ملے گی۔ سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری ، نواب اکبر بگٹی نے قربانی کی روایت اپنے گھر سے شروع کی تھی۔ خود اپنی اور اپنے پیاروں کو قربان کیا ہے۔
یہ رسم مرے قبیلہ سے چلی ہے
سر چاہیے جس کا سردار بنا دو
خون کے اس خراج کے باوجود بلوچوں کے ایک بڑے حصے نے ہر بار پارلیمنٹ میں اور آئین کے دائرے میں آپ سے زندہ رہنے کا حق مانگا لیکن ہر بار انہیں دھوکا دیا گیا۔ آپ نے اختر جان مینگل، ڈاکٹر مالک بلوچ جیسوں کو دھوکا دیا اور انہیں بے توقیر کیا۔ یہی کچھ آپ نے ماضی میں عطا اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کے ساتھ بھی کیا۔
اب ڈاکٹر مہہ رنگ بلوچ ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے پاکستان کے دارالحکومت میں آئینی درخواست لئے پہنچی کہ بلوچوں کے آئین میں لکھے شہری حقوق دئیے جائیں، سیاسی قوتوں، عدالت، پارلیمنٹ اور ریاست نے اس جری لڑکی کی تحقیر کی، جواباً اس نے بلوچوں خصوصاً بلوچ نوجوانوں کا اعتماد جیت لیا۔
اس ملک میں بلوچستان ہی ایسا مسئلہ ہے جس پر متحارب سیاسی گروہوں، پارلیمنٹ، عدلیہ اور چھاؤنی کا اتفاق ہے کہ طاقت کے زور پر بلوچستان میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبا دیا جائے۔ اسی لیے طاقت ور حلقے جہاں طاقت کے زور پر صفایا کرنے کا اعلان کر رہے ہیں وہیں پارلیمنٹ میں بلوچوں کی تنہا شناسا آواز کو کوئی سننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ اس بوڑھے ہوتے سردار کی آواز ہے جس کی موجودگی بے توقیر اسمبلی کو کچھ توقیر بخش رہی تھی۔
یہ وہ بلوچ راہنما ہے جس نے ریاست کے ہاتھوں اپنا جواں سال بھائی کھویا جس کا آج تک پتہ نہیں چل سکا، وہ آئین اور جغرافیہ کی حدود میں حقوق بات کرنا چاہتا ہے آپ نے اسے بھی مہہ رنگ کی طرح اسلام آباد کے ایوان سے بے دخل ہونے پر مجبور کر دیا۔
آپ نے جواباً بلوچستان میں مجرموں کے ٹولے کو مسلط کر رکھا ہے وہ افراد جو گلی محلہ کی نمائندگی کے لائق نہیں آپ نے انہیں سفید و سیاہ کا مالک بنا دیا ہے۔اور اب پی پی اور نواز لیگ کو دیکھیں کہ کس بے شرمی اور ڈھٹائی سے طاقت کے سامنے جھکے جا رہی ہیں۔ آپ کی حرکتیں بلوچوں کو تیزی سے نئے راستوں پر ڈال رہی ہیں۔ آپ نے پہاڑوں پر چڑھے مسلح مزاحمت کاروں اور فوجی دستوں کے درمیان موجود تمام سیاسی قوتوں کو نابود کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ آپ نے جمہوری مطالبات کو وطن دشمنی اور غداری کے معنی پہنا دیئے ہیں تو اب غداری کا طعنہ کسی اعزاز سے کم نہیں رہا۔ جمہوری راہیں مفقود ہوں تو پھر متشدد طرز عمل کو تقویت پہنچتی ہے۔ جن جمہوری مطالبات کو آج آپ غداری کے زمرے میں ڈال رہے ہیں کل آپ تسلیم کرنے کے لیے تیار بھی ہوں گے لیکن حالات طوفان و سیلاب کی سی صورت اختیار کر چکے ہوں گے جو سب کچھ اڑا اور بہا لے جائے گا۔ چھ نکات سے مکتی باہنی تک کا سفر ہماری تاریخ کا الم ناک باب ہے۔
کل تک ممکن ہے میں بھی بھرپور بغاوت کر بیٹھوں
آج اگرچہ شِکوے باطرزِ جَمہوری کرتا ہوں
پرانی کہاوت ہے کہ ایک بخیہ وقت پر نہ سیا جایے تو پورا لباس سینا پڑتا ہے۔ ابھی بخیہ ہی ادھڑا ہے ، سی لیا جائے۔ جالب نے ایک بار شاید مشرقی بنگال کی صورت حال کے بارے کہا تھا جو بلوچستان کی صورت حال پر صادر آ رہا ہے۔
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گمان تم کو کہ راستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
—♦—
ناصر منصور نیشنل ٹریڈ یونینز فیڈریشن پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔بائیں بازو کے متحرک ساتھی ہیں، پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کے محنت کشوں کو منظم کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی ، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔