گو کہ پنجابی میری مادری زبان نہیں لیکن میں پنجابی پہاڑی پوٹھواری ہندکو ڈوگری اور کڑوالی سمیت سرائیکی زبان میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں کرتا کیونکہ ان ساری زبانوں کے لفظ تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں۔ دوسرا ایک عہد میں ان زبانوں کا تدریسی ہونے میں ٹکشلا پتھ اور شاردہ پتھ کا بہت بڑا ہاتھ تھا، جو وقت کی نظر ہوئی لیکن مشرقی پنجاب کے بڑے لیکھت اور شاعر آج بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ شادرہ بٹی ہی ان زبانوں کی بنیاد ہے۔
ہرچند کہ پنجابی زبان ادب نے بڑے بڑے ہیرے تراشے بڑے بڑے شاعر اور ادیب پیدا کیے جن کے تخلیق کیے ہوئے لفظ ،تحریریں اور اشعار یوں دل کی نگری میں اُترتے ہیں جیسے سیب کے منہ میں شبنم! پنجابی ادب میں جس قدر مان سمان وارث شاہ، بُلھے شاہ ،خواجہ غلام فرید ، میاں محمد بخش اور مادھو لال حسین کو دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن پنجاب نے ایک اور گوہر ِنایاب کو تراشا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے، جسے لوگ شِو کمار بٹالویؔ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کو ہنجواں یعنی آنسوؤں کا شاعر کہا جاتا ہے۔ میں نے شِو کمار بٹالویؔ کا ایک گیت ”بھٹی والیے چنبے دی اے ڈالیے “جب سُنا جو ان کی کتاب جس کا عنون تھا ”پیڑاں دا پراگا“ جو 1960ء میں شائع ہوئی تو اس کی گہرائیوں میں ڈوب سا گیا اسے بہت غور سے سمجھنے کی کوشش کی اور اس کے ایک ایک لفظ ایک ایک درد کو محسوس کیا ۔ جب اس کے لفظوں کی گہرائی میں پوری طرح ڈھل کے دیکھا تو محسوس ہوا کہ شِو کمار بٹالویؔ کس قدر زندگی کی نذاکتوں اور باریکیوں میں ڈوب کر شعر کہتا ہے۔
یہ محسوسات اس لیے بھی دل کے بہت قریب لگے کہ ہم خود بھی ہجرتوں کے مارے ہوئے لوگ ہیں اور جو ہجرتوں کے مارے ہوئے لوگ ہوتے ہیں وہ اس درد کی شدت کو بہت خوب محسوس کر سکتے ہیں۔
شِو کمار بٹالویؔ کا جنم 23 جولائی 1936ء کو سیالکوٹ کی تحصیل نارووال پنڈھ کادیانہ نابا میں گوپال کرشن گرداور کے گھر ہوا ۔تقسیم ِہند کے بعد وہ بٹالہ ضلع گورداسپور اَرلی پنڈ(گاؤں) جا کر آباد ہوئے۔ اس مناسبت سے وہ شِو کمار بٹالویؔ کہلائے۔ شِو کمار بٹالوی ؔنے ابتدائی تعلیم کادیا نابھا میں حاصل کی، والد کی سفارش پے پٹواری لگے لیکن وہاں کا ماحول بھی راس نہ آیا۔ پھر چندی گڑھ سٹیٹ بنک آف انڈیا میں کلرک بھرتی ہوئے، لیکن جلد ہی وہ نوکری بھی چھوڑ کر آزاد ہو گئے ۔کیونکہ وہ سارے انسانی بندھنوں کی لاج رکھتے ہوئے بھی کبھی ان بندھنوں کے اَسیر نہ بن سکے۔
ان کے والد ایک گرداور تھے وہ بھی اچھی ملازمت میں رہے ، چاہتے تو کروڑوں لوگوں کی طرح ہجرتوں اور محبتوں کے زخموں اور دنیا بھر کے غموں کو بھول کر بے پرواہی کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن وہ شاعر ِبے نوا تھا اور کبھی درد کو نہیں بھول سکا۔ جس کا اظہار وہ اپنی نظم میں اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں، جنہیں وہ بہت دُور چھوڑ آئے تھے ان کو کو یاد کر کہ کہتے ہیں؛
چھیتی چھیتی ٹور میں تے جانا بڑا دُور نی
جِتھے میرے ہانیاں دا ٹُر گیا پُور نی
اوس پنڈ دا سنیندا اے راہ ماڑا
نی پیڑاں دا پراگا بُھن دے
بھٹی والیے چمبے دی اے ڈالیے
پیڑاں دا پراگا بُھن دے
شاید شِو کُمار لوٹ کر اسی نگر اسی کوچۂ جاناں جانا چاہتے تھے جہاں اس کے بچپن کی یادیں بسی ہیں۔ طویل سفر ہے اور راہ ِسفر کے لیے وہ ہجر کے درد کے چھالوں کا پراگا ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، یہ پراگا احساس اور تکلیف کا وہ پراگا ہے جس کو وہ محسوس کرتے اور اس کے کرب سے گزرتے ہیں۔ شِو کمار نے جس نازک خیالی سے اس بند میں اپنی ان یادوں کی تصویر کھینچی ہے اس سے دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں اور اگر انسان ان لفظوں کی وسعتوں میں کھو کر محسوس کرے تو ایک ایک لفظ نگینہ ہے اور دل پے ایک ضرب کی طرح اترتا چلا جاتا ہے۔ اس گیت سے اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ؛
شِو کا پہلا درد اس دھرتی کی تقسیم تھی! اس گیت میں ایک طرف یاس ہے اور دوسری طرف ایک اُمید بھی ہے۔ ملنے اور اس ہجر سے نجات کی اُمید شاید اس لیے کہ اُمید زندگی کا سہارا ہے اور ہر خزاں کے دل میں بہار کا دِل دھڑکتا ہے۔
اگلے بند میں شِو کمار نے شام کی منظر کشی کرتے ہوئے اپنے نازک خیال کو اس طرح لفظوں میں پَرو کر پیش کیا ہے جو نہ صرف سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے بلکہ اس کے لیے گاؤں کی زندگی کی ان شیریں اور مسرور کن لمحات کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ جہاں شام بحرِ حیات میں سارا دن غوطہ زن ہونے کے بعد پرندوں کے سنگ اٹھکیلیاں لیتی نظر آتی ہے۔ شِو نے اس شام کے منظر کو ان محبوب دھڑکنوں کو دل کے پورے درد اور رُوح کی تڑپ کے ساتھ یوں پیش کیا ہے؛
ہو گیا کویلا مینوں
ڈھل گئیاں چھانواں نی
بیلیاں چوں مُڑ آئیاں
مجھیاں تے گانواں نی
پایا چڑیاں نے چِیک چہاڑا
نی پِیڑاں دا پراگا بُھن دے
شِو کمار کے رُوم رُوم میں گاؤں کی زندگی رَچی بسی ہے اس کے خیال میں دُور بیلوں میں گھاس چرنے والی گائیں، بھینسیں بھی ہیں جو بغیر کسی کے ہانکے سرِ شام اپنے باڑ میں واپس آجاتی ہیں۔ اس کے وہم و خیال میں وہ منظر بھی ہے جب درختوں کی شاخیں آپس میں گلے ملتی ہیں۔ ہوا کے جھونکے پھولوں سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں اور پرندے اُلفت کے گیت گاتے چہچہاتے ہیں۔ جہاں فطرت اپنی تمام تر نظر فریبیوں کے ساتھ محبت کی تلقین کرتی ہے۔ اس کی منظر کشی جس خوبصورت انداز میں کی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔لیکن ایک طرف ہنجوؤں(آنسوؤں) اور دُکھوں کا پراگا ہے تو دوسری طرف شام کی سُرخی چھائی ہوئی ہے۔ آفتاب درختوں کی اوڑ غروب ہو رہا ہے اور فضاء پے غلبہ سُرور ہے ۔ شعر میں یہ محسوس کرایا گیا ہے کہ کس طرح ہر شے پے لرزشِ حیات طاری ہے اور کس طرح ہوا کے جھونکوں سے پیڑوں کی نرم شاخوں پے پرندے جھومتے اور چہچہاتے ہیں۔
شِو کمار نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرا درد، دردِ فردا نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق کسی ایک دُکھ سے ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ درد سارے انسانوں کا درد ہے ! جو بہت وسیع ہے ۔ ہر چند کہ شِو کمار کو محبت اور آنسوؤں کا شاعر کہا گیا۔
لہٰذا وہ فردا کی محبت کے بھی اَسیر ہوئے لیکن ہنجوؤں کا یہ درد کم نہ ہوا ۔ شِو نے جیسے ہی جوانی کی دہلیز پے قدم رکھا تو انہیں مینا نام کی ایک لڑکی سے محبت ہوئی لیکن افسوسناک بات یہ کہ وہ بھی ساتھ چھوڑ گئی اور دورِ شباب میں ہی اسے موت نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ شِو کی بے چین رُوح اور بے چین ہو گئی! وہ جو پہلے ہی محبت کے حلقۂ بگوش تھے ان آتشی راستوں پے چلتے چلتے ہجر کے شعلوں نے انہیں پھر سے آن لیا۔ اِک کیفِ خیال سے جب انہوں نے آنکھیں کھولیں تو تاریکی کے سوا کچھ نہ تھا۔ بے چینی اور بڑھی ۔۔۔ اس بے چینی کا اظہار شِو کمار نے اپنے گیت ”مائے نی مائے میرے گیتاں دے نیناں وِچ بِرہُوں دی رَڑک پَوے“ ۔۔۔ میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔
ہم اس خوبصورت گیت کو اقصیٰ گیلانی کے اُردو ترجمے کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پیش کرتے ہیں؛
مائے نی مائے!
میرے گِیتاں دے نیناں وِچ
بِرہُوں دی رَڑک پَوے
اَدھی اَدھی راتیں
اُٹھ رون موئے مِتراں نُوں
مائے سانوں نیند نہ پَوے
(ماں او میری پیاری ماں!
میرے گیتوں کی آنکھوں میں
جدائی کی چبھن ہے
آدھی آدھی رات کو
جب یہ (گیت) اُٹھ کر مر چکے محبوب کو روتے ہیں
تو ماں! ہمیں نیند نہیں آتی )
بھیں بھیں، سُگندھیاں چ
بنھاں پھہے چاننی دے
تاں وی ساڈی پیڑ نہ سوے
کوسے کوسے ساہاں دی
میں کراں جے ٹکور مائے
سَگوں سانُوں کھان نُوں پَوے
(خوابوں میں بھگو بھگو کر
چاندنی کے پھاہے باندھے
پھر بھی درد کی ٹیسیں کم نہیں ہو رہیں
گرم گرم سانسوں کی
اگر میں ٹکور کروں تو ماں!
یہ درد اُلٹا مجھے کاٹ کھانے کو لپکتا ہے)
آپے نی میں بالڑی
میں حالے آپ مَتاں جوگی
مَت کیہڑا ایس نُوں دَوے؟
آکھ سُونی مائے ایہنوں
رووے بُلھ چتھ کے نِی
جگ کِتے سُن نہ لَوے!
(ابھی تو میں خود ننھی سی بچی ہوں
ابھی تو میں خود نصیحتوں کی حقدار ہوں
(ایسے میں یہ نادان دل) اِسے کون سمجھائے؟
ماں! تم ہی اسے کہو نا
کہ روتے وقت ہونٹ چبا چبا کے رویا کرے
کہیں دنیا والے سن نہ لیں)
آکھ سُونی کھا لئے ٹُک
ہِجراں دا پکیا
لیکھاں دے نی پُٹھڑے تَوے
چٹ لئے تریل لُونی
غماں دے گلاب توں نی
کالجے نُوں حوصلہ رہوے
(اسے کہو نا کہ ہجر پہ پکی ہوئی روٹی کھا لے
نصیب کے توے تو الٹے پڑے ہیں
غموں کے گلاب سے
نمکین شبنم ہی چاٹ لے
تاکہ کلیجے کو کچھ حوصلہ رہے۔۔)
*اُلٹا تَوا سوگ اور فاقہ زدگی کی علامت ہے.
کیہڑیاں سپیریاں توں
منگاں کُنج میل دی مَیں
میل دی کوئی کُنج دَ وے
کیہڑا ایہناں دماں دیاں
لو بھیاں دے دَراں اُتے
وانگ کھڑا جوگیاں رَہوے
(کونسے جوگیوں سے
وصال کی ڈوری مانگوں
کوئی تو مجھے وصال کی ڈوری دے دے
کون ان ٹوٹتی سانسوں پر
منکوں سے بنی مالا پکڑے
جوگیوں کی طرح کھڑا رہے)
پِیڑے نی پِیڑے
ایہہ پیار ایسی تتلی ہے
جیہڑی سدا سُول تے بہوے
پیار ایسا بھؤر ہے نی
جیہدے کولوں واشنا وی
لکھاں کوہاں دُور ہی رہوے
*1کوس=دو میل
(درد او میرے ضدی درد!
یہ پیار ایسی تتلی ہے
جو ہمیشہ پھول کی چاہ میں کانٹے پہ بیٹھتی ہے
پیار ایسا بھنورا ہے
جس سے خوشبو بھی
لاکھوں مِیل دور بھاگتی ہے)
پیار اوہ محل ہے نی
جیہدے چ پکھیرواں دے
باجھ کُجھ ہور نہ رَہوے
پیار ایسا آنگناں ہے
جیہدے چ نی وَصلاں دا
رتڑا نہ پلنگ ڈہوے
(پیار وہ محل ہے
جس میں چمگادڑوں کے سوا
کوئی اور بسیرا نہیں کرتا
پیار ایسا آشیانہ ہے
جس میں ملن کا
سرخ پلنگ کبھی نہیں بچھتا)
آکھ مائے، ادھی ادھی
راتِیں موئے مِتراں دے
اُچی اُچی ناں نہ لَوے
مَتے ساڈے موئیاں پِچھوں
جگ ایہہ شریکڑا نی
گیتاں نُوں وی چَندرا کہوے
(ماں! اسے سمجھاؤ نا یوں آدھی آدھی رات کو
ہمیشہ کے لیے چلے جانے والوں کا
چیخ چیخ کر نام نہ لے
کہیں ہمارے مرنے کے بعد
یہ حاسد زمانے والے
ان (ماتمی) گیتوں کو بھی برا نہ کہیں)
مائے نی مائے! ۔۔۔۔
شِو کمار نے روایتی تعلیمی کے لحاظ سے کئی ڈگریوں کا آغاز بھی کیا لیکن تکمیل سے قبل ہی خیرباد کہہ دیا کیونکہ وہ ایسی کیفیت میں چلے گئے تھے جہاں زندگی کے دُکھ سب سے بڑی ڈگریاں ہوا کرتے ہیں ان کا ماننا تھا کہ؛
”مجھے پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ لوگ مجھ پہ پی ایچ ڈی کیا کریں گے۔“
اور وقت نے ثابت کیا کہ واقعی مشرقی پنجاب میں ان کی شاعری پر آج پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کے جاتی ہے ۔شِوکمار نے سیاسی طور پر ایک وقت میں نکسل باڑی تحریک کی حمایت بھی کی، ان کی نظم” غدار“ اس کا اظہار ہے۔ اس کے علاوہ” گگن دے تھال“ ایک بہت مقبول ناٹک تھا جس کے گیت بھی شِو کمار نے لکھے۔
مینا کی موت کے بعد شِو کمار نے دوسری محبت بھی کی لیکن وہ بھی ناکام رہی اور محبوبہ شادی کر کے امریکہ چلی گئی۔
مائے نی میں اک شِکرا یار بنایا
اوہدے سِر تے کلگی
تے اوہدے پَیریں جھانجھر
چُوری کُٹاں تے کھاندا نا ہی
تے میں دِل دا ماس کھوایا
آخر شِو کمار نے ارونا نامی لڑکی سے شادی کر لی اور تا عمر اس کے ساتھی رہے۔ محبت میں ناکامیوں، کثرتِ شراب نوشی، غربت اور بے جا تنقید کے بعد رہی سہی کسر بیماری نے پوری کر دی۔ بعض شاعر اس سے شدید جیلس تھے ان کی شاعری پربھی سوال اُٹھائے گئے لیکن اس عہد کے بڑے پنجابی شاعر جن میں بابا بوجا سنگھ ،میلہ رام طاہر ،دیوار سنگھ ،میرم اور کئی بڑے ناموں میں شِو کمار سے لوگوں کی محبت سب سے اُونچے پائیدان پرتھی۔
پنجابی ادب کے بڑے لکھاریوں اَمرتا پریتم ،ند لال رام پوری اور دیوار سنگھ میرم جیسے شاعروں نے ان کی شاعری کی برملا تعریف کی۔
شِو کمار نے یورپ کا دورہ کیا وہاں لوگ انہیں شراب پلاتے اور ان کا کلام سُنتے۔ بالآخر ایک وقت آیا جب ان کا پورا شریر نشے سے شرابور ہو گیا۔ علاج بھی نہ ہو سکا۔ غربت نے آن لیا، ان کی بیوی ان کے علاج کے اخراجات برداشت نہ کر سکی تو ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا ۔ جہاں 6 مئی 1973ء کو محض 37 برس کی عمر میں یہ جوہرِ نایاب ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔
اَساں تاں جوبن رُتے مرنا
مُڑ جانا اَساں بھرے بھرائے
کہا جاتا ہے کہ زندگی کے دو حصے ہیں ایک انجماد و سکون اور دوسرا سوزش و اضطراب! اور محبت سوزش و اضطراب کا دوسرا نام ہے۔ انسان اگر مختصر زندگی میں بھی اپنی قدر وقیمت جان سکے تو وہ کبھی فنا نہیں ہوتا ! کیونکہ فہم ایک روشنی ہے۔ شِو مرنے کے باوجود آج بھی ہمارے درمیان ہے۔ اس کے گیتوں کی چنگاریاں آج بھی محبت کے پیاسوں کو جگمگائے رکھتی ہیں۔ اس کے گیت ہمیشہ کے لیے اَمر ہیں۔ شِو کمار نے سب سے چھوٹی عمر میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ لیکن اس کا سب سے بڑا ایوارڈ لوگوں کی وہ محبت ہے جو ہمیشہ اَمر ہے ان کے گیت ان کی نظمیں آج بھی من کے تار بجاتی اور شِو کے ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
گو کہ پنجابی میری مادری زبان نہیں لیکن میں پنجابی پہاڑی پوٹھواری ہندکو ڈوگری اور کڑوالی سمیت سرائیکی زبان میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں کرتا کیونکہ ان ساری زبانوں کے لفظ تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں۔ دوسرا ایک عہد میں ان زبانوں کا تدریسی ہونے میں ٹکشلا پتھ اور شاردہ پتھ کا بہت بڑا ہاتھ تھا، جو وقت کی نظر ہوئی لیکن مشرقی پنجاب کے بڑے لیکھت اور شاعر آج بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ شادرہ بٹی ہی ان زبانوں کی بنیاد ہے۔
ہرچند کہ پنجابی زبان ادب نے بڑے بڑے ہیرے تراشے بڑے بڑے شاعر اور ادیب پیدا کیے جن کے تخلیق کیے ہوئے لفظ ،تحریریں اور اشعار یوں دل کی نگری میں اُترتے ہیں جیسے سیب کے منہ میں شبنم! پنجابی ادب میں جس قدر مان سمان وارث شاہ، بُلھے شاہ ،خواجہ غلام فرید ، میاں محمد بخش اور مادھو لال حسین کو دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن پنجاب نے ایک اور گوہر ِنایاب کو تراشا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے، جسے لوگ شِو کمار بٹالویؔ کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کو ہنجواں یعنی آنسوؤں کا شاعر کہا جاتا ہے۔ میں نے شِو کمار بٹالویؔ کا ایک گیت ”بھٹی والیے چنبے دی اے ڈالیے “جب سُنا جو ان کی کتاب جس کا عنون تھا ”پیڑاں دا پراگا“ جو 1960ء میں شائع ہوئی تو اس کی گہرائیوں میں ڈوب سا گیا اسے بہت غور سے سمجھنے کی کوشش کی اور اس کے ایک ایک لفظ ایک ایک درد کو محسوس کیا ۔ جب اس کے لفظوں کی گہرائی میں پوری طرح ڈھل کے دیکھا تو محسوس ہوا کہ شِو کمار بٹالویؔ کس قدر زندگی کی نذاکتوں اور باریکیوں میں ڈوب کر شعر کہتا ہے۔
یہ محسوسات اس لیے بھی دل کے بہت قریب لگے کہ ہم خود بھی ہجرتوں کے مارے ہوئے لوگ ہیں اور جو ہجرتوں کے مارے ہوئے لوگ ہوتے ہیں وہ اس درد کی شدت کو بہت خوب محسوس کر سکتے ہیں۔
شِو کمار بٹالویؔ کا جنم 23 جولائی 1936ء کو سیالکوٹ کی تحصیل نارووال پنڈھ کادیانہ نابا میں گوپال کرشن گرداور کے گھر ہوا ۔تقسیم ِہند کے بعد وہ بٹالہ ضلع گورداسپور اَرلی پنڈ(گاؤں) جا کر آباد ہوئے۔ اس مناسبت سے وہ شِو کمار بٹالویؔ کہلائے۔ شِو کمار بٹالوی ؔنے ابتدائی تعلیم کادیا نابھا میں حاصل کی، والد کی سفارش پے پٹواری لگے لیکن وہاں کا ماحول بھی راس نہ آیا۔ پھر چندی گڑھ سٹیٹ بنک آف انڈیا میں کلرک بھرتی ہوئے، لیکن جلد ہی وہ نوکری بھی چھوڑ کر آزاد ہو گئے ۔کیونکہ وہ سارے انسانی بندھنوں کی لاج رکھتے ہوئے بھی کبھی ان بندھنوں کے اَسیر نہ بن سکے۔
ان کے والد ایک گرداور تھے وہ بھی اچھی ملازمت میں رہے ، چاہتے تو کروڑوں لوگوں کی طرح ہجرتوں اور محبتوں کے زخموں اور دنیا بھر کے غموں کو بھول کر بے پرواہی کی زندگی گزار سکتے تھے لیکن وہ شاعر ِبے نوا تھا اور کبھی درد کو نہیں بھول سکا۔ جس کا اظہار وہ اپنی نظم میں اپنے بچھڑے ہوئے دوستوں، جنہیں وہ بہت دُور چھوڑ آئے تھے ان کو کو یاد کر کہ کہتے ہیں؛
چھیتی چھیتی ٹور میں تے جانا بڑا دُور نی
جِتھے میرے ہانیاں دا ٹُر گیا پُور نی
اوس پنڈ دا سنیندا اے راہ ماڑا
نی پیڑاں دا پراگا بُھن دے
بھٹی والیے چمبے دی اے ڈالیے
پیڑاں دا پراگا بُھن دے
شاید شِو کُمار لوٹ کر اسی نگر اسی کوچۂ جاناں جانا چاہتے تھے جہاں اس کے بچپن کی یادیں بسی ہیں۔ طویل سفر ہے اور راہ ِسفر کے لیے وہ ہجر کے درد کے چھالوں کا پراگا ساتھ رکھنا چاہتے ہیں، یہ پراگا احساس اور تکلیف کا وہ پراگا ہے جس کو وہ محسوس کرتے اور اس کے کرب سے گزرتے ہیں۔ شِو کمار نے جس نازک خیالی سے اس بند میں اپنی ان یادوں کی تصویر کھینچی ہے اس سے دل کی نازک رگیں ٹوٹتی ہیں اور اگر انسان ان لفظوں کی وسعتوں میں کھو کر محسوس کرے تو ایک ایک لفظ نگینہ ہے اور دل پے ایک ضرب کی طرح اترتا چلا جاتا ہے۔ اس گیت سے اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ؛
شِو کا پہلا درد اس دھرتی کی تقسیم تھی! اس گیت میں ایک طرف یاس ہے اور دوسری طرف ایک اُمید بھی ہے۔ ملنے اور اس ہجر سے نجات کی اُمید شاید اس لیے کہ اُمید زندگی کا سہارا ہے اور ہر خزاں کے دل میں بہار کا دِل دھڑکتا ہے۔
اگلے بند میں شِو کمار نے شام کی منظر کشی کرتے ہوئے اپنے نازک خیال کو اس طرح لفظوں میں پَرو کر پیش کیا ہے جو نہ صرف سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے بلکہ اس کے لیے گاؤں کی زندگی کی ان شیریں اور مسرور کن لمحات کو دیکھنے اور محسوس کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ جہاں شام بحرِ حیات میں سارا دن غوطہ زن ہونے کے بعد پرندوں کے سنگ اٹھکیلیاں لیتی نظر آتی ہے۔ شِو نے اس شام کے منظر کو ان محبوب دھڑکنوں کو دل کے پورے درد اور رُوح کی تڑپ کے ساتھ یوں پیش کیا ہے؛
ہو گیا کویلا مینوں
ڈھل گئیاں چھانواں نی
بیلیاں چوں مُڑ آئیاں
مجھیاں تے گانواں نی
پایا چڑیاں نے چِیک چہاڑا
نی پِیڑاں دا پراگا بُھن دے
شِو کمار کے رُوم رُوم میں گاؤں کی زندگی رَچی بسی ہے اس کے خیال میں دُور بیلوں میں گھاس چرنے والی گائیں، بھینسیں بھی ہیں جو بغیر کسی کے ہانکے سرِ شام اپنے باڑ میں واپس آجاتی ہیں۔ اس کے وہم و خیال میں وہ منظر بھی ہے جب درختوں کی شاخیں آپس میں گلے ملتی ہیں۔ ہوا کے جھونکے پھولوں سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں اور پرندے اُلفت کے گیت گاتے چہچہاتے ہیں۔ جہاں فطرت اپنی تمام تر نظر فریبیوں کے ساتھ محبت کی تلقین کرتی ہے۔ اس کی منظر کشی جس خوبصورت انداز میں کی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔لیکن ایک طرف ہنجوؤں(آنسوؤں) اور دُکھوں کا پراگا ہے تو دوسری طرف شام کی سُرخی چھائی ہوئی ہے۔ آفتاب درختوں کی اوڑ غروب ہو رہا ہے اور فضاء پے غلبہ سُرور ہے ۔ شعر میں یہ محسوس کرایا گیا ہے کہ کس طرح ہر شے پے لرزشِ حیات طاری ہے اور کس طرح ہوا کے جھونکوں سے پیڑوں کی نرم شاخوں پے پرندے جھومتے اور چہچہاتے ہیں۔
شِو کمار نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرا درد، دردِ فردا نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق کسی ایک دُکھ سے ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ درد سارے انسانوں کا درد ہے ! جو بہت وسیع ہے ۔ ہر چند کہ شِو کمار کو محبت اور آنسوؤں کا شاعر کہا گیا۔
لہٰذا وہ فردا کی محبت کے بھی اَسیر ہوئے لیکن ہنجوؤں کا یہ درد کم نہ ہوا ۔ شِو نے جیسے ہی جوانی کی دہلیز پے قدم رکھا تو انہیں مینا نام کی ایک لڑکی سے محبت ہوئی لیکن افسوسناک بات یہ کہ وہ بھی ساتھ چھوڑ گئی اور دورِ شباب میں ہی اسے موت نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ شِو کی بے چین رُوح اور بے چین ہو گئی! وہ جو پہلے ہی محبت کے حلقۂ بگوش تھے ان آتشی راستوں پے چلتے چلتے ہجر کے شعلوں نے انہیں پھر سے آن لیا۔ اِک کیفِ خیال سے جب انہوں نے آنکھیں کھولیں تو تاریکی کے سوا کچھ نہ تھا۔ بے چینی اور بڑھی ۔۔۔ اس بے چینی کا اظہار شِو کمار نے اپنے گیت ”مائے نی مائے میرے گیتاں دے نیناں وِچ بِرہُوں دی رَڑک پَوے“ ۔۔۔ میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔
ہم اس خوبصورت گیت کو اقصیٰ گیلانی کے اُردو ترجمے کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پیش کرتے ہیں؛
مائے نی مائے!
میرے گِیتاں دے نیناں وِچ
بِرہُوں دی رَڑک پَوے
اَدھی اَدھی راتیں
اُٹھ رون موئے مِتراں نُوں
مائے سانوں نیند نہ پَوے
(ماں او میری پیاری ماں!
میرے گیتوں کی آنکھوں میں
جدائی کی چبھن ہے
آدھی آدھی رات کو
جب یہ (گیت) اُٹھ کر مر چکے محبوب کو روتے ہیں
تو ماں! ہمیں نیند نہیں آتی )
بھیں بھیں، سُگندھیاں چ
بنھاں پھہے چاننی دے
تاں وی ساڈی پیڑ نہ سوے
کوسے کوسے ساہاں دی
میں کراں جے ٹکور مائے
سَگوں سانُوں کھان نُوں پَوے
(خوابوں میں بھگو بھگو کر
چاندنی کے پھاہے باندھے
پھر بھی درد کی ٹیسیں کم نہیں ہو رہیں
گرم گرم سانسوں کی
اگر میں ٹکور کروں تو ماں!
یہ درد اُلٹا مجھے کاٹ کھانے کو لپکتا ہے)
آپے نی میں بالڑی
میں حالے آپ مَتاں جوگی
مَت کیہڑا ایس نُوں دَوے؟
آکھ سُونی مائے ایہنوں
رووے بُلھ چتھ کے نِی
جگ کِتے سُن نہ لَوے!
(ابھی تو میں خود ننھی سی بچی ہوں
ابھی تو میں خود نصیحتوں کی حقدار ہوں
(ایسے میں یہ نادان دل) اِسے کون سمجھائے؟
ماں! تم ہی اسے کہو نا
کہ روتے وقت ہونٹ چبا چبا کے رویا کرے
کہیں دنیا والے سن نہ لیں)
آکھ سُونی کھا لئے ٹُک
ہِجراں دا پکیا
لیکھاں دے نی پُٹھڑے تَوے
چٹ لئے تریل لُونی
غماں دے گلاب توں نی
کالجے نُوں حوصلہ رہوے
(اسے کہو نا کہ ہجر پہ پکی ہوئی روٹی کھا لے
نصیب کے توے تو الٹے پڑے ہیں
غموں کے گلاب سے
نمکین شبنم ہی چاٹ لے
تاکہ کلیجے کو کچھ حوصلہ رہے۔۔)
*اُلٹا تَوا سوگ اور فاقہ زدگی کی علامت ہے.
کیہڑیاں سپیریاں توں
منگاں کُنج میل دی مَیں
میل دی کوئی کُنج دَ وے
کیہڑا ایہناں دماں دیاں
لو بھیاں دے دَراں اُتے
وانگ کھڑا جوگیاں رَہوے
(کونسے جوگیوں سے
وصال کی ڈوری مانگوں
کوئی تو مجھے وصال کی ڈوری دے دے
کون ان ٹوٹتی سانسوں پر
منکوں سے بنی مالا پکڑے
جوگیوں کی طرح کھڑا رہے)
پِیڑے نی پِیڑے
ایہہ پیار ایسی تتلی ہے
جیہڑی سدا سُول تے بہوے
پیار ایسا بھؤر ہے نی
جیہدے کولوں واشنا وی
لکھاں کوہاں دُور ہی رہوے
*1کوس=دو میل
(درد او میرے ضدی درد!
یہ پیار ایسی تتلی ہے
جو ہمیشہ پھول کی چاہ میں کانٹے پہ بیٹھتی ہے
پیار ایسا بھنورا ہے
جس سے خوشبو بھی
لاکھوں مِیل دور بھاگتی ہے)
پیار اوہ محل ہے نی
جیہدے چ پکھیرواں دے
باجھ کُجھ ہور نہ رَہوے
پیار ایسا آنگناں ہے
جیہدے چ نی وَصلاں دا
رتڑا نہ پلنگ ڈہوے
(پیار وہ محل ہے
جس میں چمگادڑوں کے سوا
کوئی اور بسیرا نہیں کرتا
پیار ایسا آشیانہ ہے
جس میں ملن کا
سرخ پلنگ کبھی نہیں بچھتا)
آکھ مائے، ادھی ادھی
راتِیں موئے مِتراں دے
اُچی اُچی ناں نہ لَوے
مَتے ساڈے موئیاں پِچھوں
جگ ایہہ شریکڑا نی
گیتاں نُوں وی چَندرا کہوے
(ماں! اسے سمجھاؤ نا یوں آدھی آدھی رات کو
ہمیشہ کے لیے چلے جانے والوں کا
چیخ چیخ کر نام نہ لے
کہیں ہمارے مرنے کے بعد
یہ حاسد زمانے والے
ان (ماتمی) گیتوں کو بھی برا نہ کہیں)
مائے نی مائے! ۔۔۔۔
شِو کمار نے روایتی تعلیمی کے لحاظ سے کئی ڈگریوں کا آغاز بھی کیا لیکن تکمیل سے قبل ہی خیرباد کہہ دیا کیونکہ وہ ایسی کیفیت میں چلے گئے تھے جہاں زندگی کے دُکھ سب سے بڑی ڈگریاں ہوا کرتے ہیں ان کا ماننا تھا کہ؛
”مجھے پی ایچ ڈی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ لوگ مجھ پہ پی ایچ ڈی کیا کریں گے۔“
اور وقت نے ثابت کیا کہ واقعی مشرقی پنجاب میں ان کی شاعری پر آج پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کے جاتی ہے ۔شِوکمار نے سیاسی طور پر ایک وقت میں نکسل باڑی تحریک کی حمایت بھی کی، ان کی نظم” غدار“ اس کا اظہار ہے۔ اس کے علاوہ” گگن دے تھال“ ایک بہت مقبول ناٹک تھا جس کے گیت بھی شِو کمار نے لکھے۔
مینا کی موت کے بعد شِو کمار نے دوسری محبت بھی کی لیکن وہ بھی ناکام رہی اور محبوبہ شادی کر کے امریکہ چلی گئی۔
مائے نی میں اک شِکرا یار بنایا
اوہدے سِر تے کلگی
تے اوہدے پَیریں جھانجھر
چُوری کُٹاں تے کھاندا نا ہی
تے میں دِل دا ماس کھوایا
آخر شِو کمار نے ارونا نامی لڑکی سے شادی کر لی اور تا عمر اس کے ساتھی رہے۔ محبت میں ناکامیوں، کثرتِ شراب نوشی، غربت اور بے جا تنقید کے بعد رہی سہی کسر بیماری نے پوری کر دی۔ بعض شاعر اس سے شدید جیلس تھے ان کی شاعری پربھی سوال اُٹھائے گئے لیکن اس عہد کے بڑے پنجابی شاعر جن میں بابا بوجا سنگھ ،میلہ رام طاہر ،دیوار سنگھ ،میرم اور کئی بڑے ناموں میں شِو کمار سے لوگوں کی محبت سب سے اُونچے پائیدان پرتھی۔
پنجابی ادب کے بڑے لکھاریوں اَمرتا پریتم ،ند لال رام پوری اور دیوار سنگھ میرم جیسے شاعروں نے ان کی شاعری کی برملا تعریف کی۔
شِو کمار نے یورپ کا دورہ کیا وہاں لوگ انہیں شراب پلاتے اور ان کا کلام سُنتے۔ بالآخر ایک وقت آیا جب ان کا پورا شریر نشے سے شرابور ہو گیا۔ علاج بھی نہ ہو سکا۔ غربت نے آن لیا، ان کی بیوی ان کے علاج کے اخراجات برداشت نہ کر سکی تو ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا ۔ جہاں 6 مئی 1973ء کو محض 37 برس کی عمر میں یہ جوہرِ نایاب ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔
اَساں تاں جوبن رُتے مرنا
مُڑ جانا اَساں بھرے بھرائے
کہا جاتا ہے کہ زندگی کے دو حصے ہیں ایک انجماد و سکون اور دوسرا سوزش و اضطراب! اور محبت سوزش و اضطراب کا دوسرا نام ہے۔ انسان اگر مختصر زندگی میں بھی اپنی قدر وقیمت جان سکے تو وہ کبھی فنا نہیں ہوتا ! کیونکہ فہم ایک روشنی ہے۔ شِو مرنے کے باوجود آج بھی ہمارے درمیان ہے۔ اس کے گیتوں کی چنگاریاں آج بھی محبت کے پیاسوں کو جگمگائے رکھتی ہیں۔ اس کے گیت ہمیشہ کے لیے اَمر ہیں۔ شِو کمار نے سب سے چھوٹی عمر میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حاصل کیا تھا۔ لیکن اس کا سب سے بڑا ایوارڈ لوگوں کی وہ محبت ہے جو ہمیشہ اَمر ہے ان کے گیت ان کی نظمیں آج بھی من کے تار بجاتی اور شِو کے ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
-
Shahid Meh mood says:
بہترین کالم پنجابی زبان کے عظیم شاعر کے بارے میں میری معلومات میں اضافہ ہوا
-
للکار نیوز says:
جناب شاہد محمود صاحب مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔یقیناً شِو کمار بٹالوی اس دھرتی کے بڑے شاعر تھے، اور اپنی شاعری کی بدولت وہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ قارئیں تک معیاری اور فکرو نظر کو وسعت دینے والا مواد پہنچائیں۔
-
بہترین کالم پنجابی زبان کے عظیم شاعر کے بارے میں میری معلومات میں اضافہ ہوا
جناب شاہد محمود صاحب مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔یقیناً شِو کمار بٹالوی اس دھرتی کے بڑے شاعر تھے، اور اپنی شاعری کی بدولت وہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ ہماری کوشش یہی رہتی ہے کہ قارئیں تک معیاری اور فکرو نظر کو وسعت دینے والا مواد پہنچائیں۔