یونہی ہمیشہ اُلجھتی رہی ہے ظُلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی رِ یت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
فیض احمد فیضؔ ہماری دھرتی کے ایک ایسے ہونہار شاعر، ادیب، صحافی اور سیاست دان تھے، جنہوں نے برصغیر میں انقلابی شعور کو جنم دینے، تحریکِ آزادی میں ایک نیا ولولہ پیدا کرنے اور ادھوری آزادی کی تکمیل کے لیے مزاحمتی سیاست کی راہیں ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے عظیم عالمی شعراء میں ہوتا ہے۔
فیض کی نظمیں اور تحریریں آج بھی آمریت، معاشی استحصال، سماجی جبر اور سامراجی بربریت کے خلاف ایک غیر متزلزل مزاحمت کی نمائندگی کرتی ہیں۔
ترکی کے ناظم حکمت، چلی کے پابلو نیرودا، فلسطین سے محمود درویش، اور ہمارے پیارے فیض احمد فیض کی شاعری جغرافیائی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے آفاقی اثر رکھتی ہے، غلامی کی زنجیروں کو توڑتی ہے اور سماجی تبدیلی کا ولولہ پیدا کرتی ہے۔
نارووال، سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والے فیض احمد فیض کی ابتدائی تعلیم ایک مسجد کے سکول میں ہوئی اور پھر سیالکوٹ کے اسکاٹ اینڈ مرے مشن سکول میں داخل ہو گئے۔ بعد ازاں وہ انگریزی ادب میں گریجویشن اور عربی زبان میں ماسٹر کرنے کے لیے لاہور چلے گئے۔ فیض صاحب نے تعلیم سے فارغ ہو کر 1935ء میں امرتسر کالج میں بطور لیکچرار ملازمت کی تو کالج کے وائس پرنسپل اور اُن کی اہلیہ ڈاکٹر رشید جہاں کے افکار و خیالات اور فکری تعلیم سے متاثر ہو کر انقلابی بن گئے۔ ان کی چار زبانوں، عربی، انگریزی، فارسی اور اردو میں مہارت نے انہیں آنے والے سالوں میں اپنی شاعری کو خوبصورتی سے تخلیق کرنے کے قابل بنایا۔
جب 1936ء میں متحدہ ہندوستان میں، انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی گئی تو وہ انجمن پنجاب کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ انجمن کا بنیادی مقصد ادب کے میدان میں ترقی پسندانہ شعور اُجاگر کرنا اور اسے فروغ دینا تھا۔ وہ انجمن کی ملک بھر میں تنظیم سازی میں سرگرم ہو گئے، جو جلد ہی قلم کو ہتھیار بنا کر ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہدِآزادی میں ایک طاقتور ثقافتی تحریک بن کر ابھری۔ بعد ازاں انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کر لی۔
فیض صاحب شاعری کے ایک نئے دبستان کے بانی ہیں، جس نے جدید اُردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت سے ہمکنا ر کیا۔
ان کی آواز، دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حُسن و عشق کے دلنواز گیتوں اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں، اپنے عہد کے انسان اور اُس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر اُبھرتے ہیں۔ فیض ایسے شاعر تھے، جو لکھتے تھے اور جیل میں ڈال دیے جاتے تھے، پھر لکھتے تھے اور پھر جیل جاتے تھے، پھر وہ جیل میں بھی لکھتے تھے۔
پاکستان کے قیام سے ہی ملک پرمسلط استحصالی نظام کو دوام بخشے کے لیے ایک مخصوص قسم کی ذہن سازی کی گئی تھی۔
سازشی ہتھکنڈوں کے تحت سوشلزم کو، جو کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مشتمل ایک معاشی نظام ہے، لادیینت کے معنی پہنائے گئے، تا کہ ملکی اشرافیہ، جاگیرداروں اور اسٹیبلشمنٹ کی ساز باز سے مسلط کردہ استحصالی نظام کو دوام بخشا جا سکے۔
حالانکہ مذہب کے بارے میں سوشلزم اور جمہوریت دونوں ہی سیکولرزم پر بنیاد رکھتے ہیں، جس کا مطلب مذہب اپنا اپنا اور ریاست سب کی سانجھی۔ ریاست تو اپنے شہریوں کی ماں ہوتی ہے، اور ماں بھلا ایک شہری کی سگی اور دوسرے کی سوتیلی کیسے ہو سکتی ہے۔
فیض صاحب اور اُن کے ساتھیوں پر وطن دُشمن ہونے کے الزامات بھی لگتے تھے۔برمنگھم سے تعلق رکھنے والے نامور ترقی پسند ادیب اور ہمارے ساتھی بدرالدین بدر جی نے ایک مرتبہ ہمیں فیض صاحب سے پہلی ملاقات اور اُن کی حب الوطنی کا دلچسپ قصہ سنایا۔ پچاس کی دہائی میں فیض صاحب نے کراچی سے لندن کا سفر کرنا تھا، اور پی آئی اے کی فلائیٹ کینسل ہو گئی تھی۔ بدر جی اُن دنوں کراچی کی بڑی ٹریول ایجنسی کے مینجر تھے۔ اُنہیں اُس وقت کے وزیرِ خارجہ کا ذاتی فون آیا کہ فیض احمد فیض کی فلائیٹ کینسل ہو گئی ہے اور ان سے رابطہ کر کے اُن کے سفر کے لیے کسی متبال فلائیٹ پر انتظام کر دیں، تا کہ وہ کسی پریشانی کے بغیر اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ جب اُنہوں نے فیض صاحب سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ بھائی میں تو اپنی قومی ائیرلائن پر ہی جاؤں گا، خواہ مجھے کئی ہفتے ہی انتظار کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فیض احمد فیض حب الوطنی کے کس اعلیٰ مقام پر تھے، یا پھر اُن کے نظریات وطن سے محبت کے کس لاجواب رشتے سے بندھے ہوئے ہیں۔
جب 1977ء میں ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو فیض صاحب کے لئے پاکستان میں رہنا ناممکن بنا دیا گیا۔ ان کی سخت نگرانی کی جاتی تھی، اور کڑا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا۔ ایک دن وہ ہاتھ میں سگریٹ تھام کر گھر سے یوں نکلے جیسے کہیں چہل قدمی کے لئے جا رہے ہوں، اور سیدھے بیروت پہنچ گئے۔ اس وقت فلسطینی تنظیم آزادی کا مرکز بیروت میں تھا، اور یاسر عرفات سے ان کا یارانہ تھا۔
بیروت میں وہ فلسطین کی تحریکِ آزادی کے علمبردار رسالہ ”لوٹس“ کے مدیر بنا دئے گئے۔ بعد ازاں 1982ء میں خرابیٔ صحت اور لبنان جنگ کی وجہ سے فیض صاحب پاکستان واپس آ گئے۔
وہ دمہ اور لو بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ 1984ء میں انہیں ادب کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا گیا تھا، لیکن کسی فیصلے سے پہلے ہی وہ 20 نومبر 1984ء کو انتقال کر گئے۔
جب 20 نومبر 1984ء کو فیض صاحب کا انتقال ہوا تو میں اُن کے جنازے میں شامل تھا۔ میں اُن دنوں انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور طلباء سیاست میں سرگرم۔
♦ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اُستاد دامن جی اُن کی میت کے پاس بیٹھے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔
♦ لوگوں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف سے سرخ پرچم لہراتے مزدوروں کے جتھے آ رہے تھے۔
♦ کسی کی قیادت راؤ طارق لطیف کر رہے تھے، کسی کی گلزار چوہدری، کسی کی میاں بشیر ظفر اور کسی کی صفدر حسین سندھو۔
♦ جب جنازہ اُٹھا تو اس کے ساتھ ساتھ شلوار قمیض میں ملبوس اور ہوائی چپل پہنے سوویت یونین کے سفیر عبدالرحمان خلیل سمرنوف نے بغیر کسی سکیورٹی اور ٹرانسپورٹ کے 3 میل پیدل سفر کیا تھا۔
آج پاکستان میں کینسر کی طرح پھیلی ہوئی مذہبی انتہا پسندی، عالمی امن، قوموں کے درمیان اعتماد، دوستی، ہم آہنگی اور انصا ف کے لیے فیض کا پیغام اور افکار ایک مکمل اور بنیادی حیثیت کے حامل بن چکے ہیں۔ فیض کے کلام، نظریات اور جدوجہد کا مخاطب پوری دُنیا کے مظلوم و محکوم عوام ہیں۔
فیضؔ نے ہر ملک، ہر مذہب اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے آزادی، حُریت، عدل و انصاف اور مساوی بنیادوں پر ترقی، خوشحالی اور تابناک مستقبل کی جدوجہد کی ہے۔
میرے جیسے ایک عام سے ترقی پسند کارکن کے لیے یہ بات انتہائی قابل فخر ہے کہ فیض احمد فیضؔ ہمارے ہم وطن تھے۔ آج کی اس تقریب کا بنیادی مقصد بھی فیضؔ صاحب کے پیغام اور افکار کے ذریعے انسانی شعور کو اُجاگر کرنا اور ایک بہتر متبادل کو پروان چڑھانا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ہفتہ 2 مارچ 2024ء کو برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں منعقد ہونے والے فیض ڈے کی تقریب کا آغاز کرتے ہوئے راقم کے ابتدائیہ کلمات پر مشتمل ہے۔
—♦—
پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
یونہی ہمیشہ اُلجھتی رہی ہے ظُلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی رِ یت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
فیض احمد فیضؔ ہماری دھرتی کے ایک ایسے ہونہار شاعر، ادیب، صحافی اور سیاست دان تھے، جنہوں نے برصغیر میں انقلابی شعور کو جنم دینے، تحریکِ آزادی میں ایک نیا ولولہ پیدا کرنے اور ادھوری آزادی کی تکمیل کے لیے مزاحمتی سیاست کی راہیں ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے عظیم عالمی شعراء میں ہوتا ہے۔
فیض کی نظمیں اور تحریریں آج بھی آمریت، معاشی استحصال، سماجی جبر اور سامراجی بربریت کے خلاف ایک غیر متزلزل مزاحمت کی نمائندگی کرتی ہیں۔
ترکی کے ناظم حکمت، چلی کے پابلو نیرودا، فلسطین سے محمود درویش، اور ہمارے پیارے فیض احمد فیض کی شاعری جغرافیائی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے آفاقی اثر رکھتی ہے، غلامی کی زنجیروں کو توڑتی ہے اور سماجی تبدیلی کا ولولہ پیدا کرتی ہے۔
نارووال، سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والے فیض احمد فیض کی ابتدائی تعلیم ایک مسجد کے سکول میں ہوئی اور پھر سیالکوٹ کے اسکاٹ اینڈ مرے مشن سکول میں داخل ہو گئے۔ بعد ازاں وہ انگریزی ادب میں گریجویشن اور عربی زبان میں ماسٹر کرنے کے لیے لاہور چلے گئے۔ فیض صاحب نے تعلیم سے فارغ ہو کر 1935ء میں امرتسر کالج میں بطور لیکچرار ملازمت کی تو کالج کے وائس پرنسپل اور اُن کی اہلیہ ڈاکٹر رشید جہاں کے افکار و خیالات اور فکری تعلیم سے متاثر ہو کر انقلابی بن گئے۔ ان کی چار زبانوں، عربی، انگریزی، فارسی اور اردو میں مہارت نے انہیں آنے والے سالوں میں اپنی شاعری کو خوبصورتی سے تخلیق کرنے کے قابل بنایا۔
جب 1936ء میں متحدہ ہندوستان میں، انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی گئی تو وہ انجمن پنجاب کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ انجمن کا بنیادی مقصد ادب کے میدان میں ترقی پسندانہ شعور اُجاگر کرنا اور اسے فروغ دینا تھا۔ وہ انجمن کی ملک بھر میں تنظیم سازی میں سرگرم ہو گئے، جو جلد ہی قلم کو ہتھیار بنا کر ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہدِآزادی میں ایک طاقتور ثقافتی تحریک بن کر ابھری۔ بعد ازاں انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کر لی۔
فیض صاحب شاعری کے ایک نئے دبستان کے بانی ہیں، جس نے جدید اُردو شاعری کو بین الاقوامی شناخت سے ہمکنا ر کیا۔
ان کی آواز، دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حُسن و عشق کے دلنواز گیتوں اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں، اپنے عہد کے انسان اور اُس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر اُبھرتے ہیں۔ فیض ایسے شاعر تھے، جو لکھتے تھے اور جیل میں ڈال دیے جاتے تھے، پھر لکھتے تھے اور پھر جیل جاتے تھے، پھر وہ جیل میں بھی لکھتے تھے۔
پاکستان کے قیام سے ہی ملک پرمسلط استحصالی نظام کو دوام بخشے کے لیے ایک مخصوص قسم کی ذہن سازی کی گئی تھی۔
سازشی ہتھکنڈوں کے تحت سوشلزم کو، جو کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مشتمل ایک معاشی نظام ہے، لادیینت کے معنی پہنائے گئے، تا کہ ملکی اشرافیہ، جاگیرداروں اور اسٹیبلشمنٹ کی ساز باز سے مسلط کردہ استحصالی نظام کو دوام بخشا جا سکے۔
حالانکہ مذہب کے بارے میں سوشلزم اور جمہوریت دونوں ہی سیکولرزم پر بنیاد رکھتے ہیں، جس کا مطلب مذہب اپنا اپنا اور ریاست سب کی سانجھی۔ ریاست تو اپنے شہریوں کی ماں ہوتی ہے، اور ماں بھلا ایک شہری کی سگی اور دوسرے کی سوتیلی کیسے ہو سکتی ہے۔
فیض صاحب اور اُن کے ساتھیوں پر وطن دُشمن ہونے کے الزامات بھی لگتے تھے۔برمنگھم سے تعلق رکھنے والے نامور ترقی پسند ادیب اور ہمارے ساتھی بدرالدین بدر جی نے ایک مرتبہ ہمیں فیض صاحب سے پہلی ملاقات اور اُن کی حب الوطنی کا دلچسپ قصہ سنایا۔ پچاس کی دہائی میں فیض صاحب نے کراچی سے لندن کا سفر کرنا تھا، اور پی آئی اے کی فلائیٹ کینسل ہو گئی تھی۔ بدر جی اُن دنوں کراچی کی بڑی ٹریول ایجنسی کے مینجر تھے۔ اُنہیں اُس وقت کے وزیرِ خارجہ کا ذاتی فون آیا کہ فیض احمد فیض کی فلائیٹ کینسل ہو گئی ہے اور ان سے رابطہ کر کے اُن کے سفر کے لیے کسی متبال فلائیٹ پر انتظام کر دیں، تا کہ وہ کسی پریشانی کے بغیر اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ جب اُنہوں نے فیض صاحب سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ بھائی میں تو اپنی قومی ائیرلائن پر ہی جاؤں گا، خواہ مجھے کئی ہفتے ہی انتظار کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فیض احمد فیض حب الوطنی کے کس اعلیٰ مقام پر تھے، یا پھر اُن کے نظریات وطن سے محبت کے کس لاجواب رشتے سے بندھے ہوئے ہیں۔
جب 1977ء میں ڈکٹیٹر ضیاءالحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تو فیض صاحب کے لئے پاکستان میں رہنا ناممکن بنا دیا گیا۔ ان کی سخت نگرانی کی جاتی تھی، اور کڑا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا۔ ایک دن وہ ہاتھ میں سگریٹ تھام کر گھر سے یوں نکلے جیسے کہیں چہل قدمی کے لئے جا رہے ہوں، اور سیدھے بیروت پہنچ گئے۔ اس وقت فلسطینی تنظیم آزادی کا مرکز بیروت میں تھا، اور یاسر عرفات سے ان کا یارانہ تھا۔
بیروت میں وہ فلسطین کی تحریکِ آزادی کے علمبردار رسالہ ”لوٹس“ کے مدیر بنا دئے گئے۔ بعد ازاں 1982ء میں خرابیٔ صحت اور لبنان جنگ کی وجہ سے فیض صاحب پاکستان واپس آ گئے۔
وہ دمہ اور لو بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ 1984ء میں انہیں ادب کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا گیا تھا، لیکن کسی فیصلے سے پہلے ہی وہ 20 نومبر 1984ء کو انتقال کر گئے۔
جب 20 نومبر 1984ء کو فیض صاحب کا انتقال ہوا تو میں اُن کے جنازے میں شامل تھا۔ میں اُن دنوں انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیرِ تعلیم تھا اور طلباء سیاست میں سرگرم۔
♦ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اُستاد دامن جی اُن کی میت کے پاس بیٹھے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔
♦ لوگوں کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف سے سرخ پرچم لہراتے مزدوروں کے جتھے آ رہے تھے۔
♦ کسی کی قیادت راؤ طارق لطیف کر رہے تھے، کسی کی گلزار چوہدری، کسی کی میاں بشیر ظفر اور کسی کی صفدر حسین سندھو۔
♦ جب جنازہ اُٹھا تو اس کے ساتھ ساتھ شلوار قمیض میں ملبوس اور ہوائی چپل پہنے سوویت یونین کے سفیر عبدالرحمان خلیل سمرنوف نے بغیر کسی سکیورٹی اور ٹرانسپورٹ کے 3 میل پیدل سفر کیا تھا۔
آج پاکستان میں کینسر کی طرح پھیلی ہوئی مذہبی انتہا پسندی، عالمی امن، قوموں کے درمیان اعتماد، دوستی، ہم آہنگی اور انصا ف کے لیے فیض کا پیغام اور افکار ایک مکمل اور بنیادی حیثیت کے حامل بن چکے ہیں۔ فیض کے کلام، نظریات اور جدوجہد کا مخاطب پوری دُنیا کے مظلوم و محکوم عوام ہیں۔
فیضؔ نے ہر ملک، ہر مذہب اور ہر رنگ و نسل کے لوگوں کے لیے آزادی، حُریت، عدل و انصاف اور مساوی بنیادوں پر ترقی، خوشحالی اور تابناک مستقبل کی جدوجہد کی ہے۔
میرے جیسے ایک عام سے ترقی پسند کارکن کے لیے یہ بات انتہائی قابل فخر ہے کہ فیض احمد فیضؔ ہمارے ہم وطن تھے۔ آج کی اس تقریب کا بنیادی مقصد بھی فیضؔ صاحب کے پیغام اور افکار کے ذریعے انسانی شعور کو اُجاگر کرنا اور ایک بہتر متبادل کو پروان چڑھانا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ہفتہ 2 مارچ 2024ء کو برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں منعقد ہونے والے فیض ڈے کی تقریب کا آغاز کرتے ہوئے راقم کے ابتدائیہ کلمات پر مشتمل ہے۔
—♦—
پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔