دوستو آج ہم ایک ایسے شاعر کو یاد کرنے جارہیے ہیں جنہوں نے جمالیات کو اپنا موضوعِ سُخن بنایا اور اپنی شاعری میں بھرپور طریقے سے جمالیاتی حُسن کا اظہار بھی کیا۔ وہ ترقی پسندی سے کہیں زیادہ کلاسیکی تھے۔ ان کی شاعری میں اپنے اِردگرد کی تفہیم بھی تھی اور اس سے رشتہ اُستوار کرنے کا جذباتی اور نفسیاتی عمل بھی! گویا انہوں نے اپنی جمالیاتی لطافت سے حیات و جمالیات کو ہی اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔
چمن لال چمنؔ 1934ء میں ضلع جالندھر پرتاب پورہ محلہ نونہال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سے حاصل کی اور پھر والد کے بلانے پر ناروبی چلے گئے ان کے والد ہندوستانی برٹش پنجاب سے روزی روٹی کی تلاش میں 1919ء میں کینیا کے شہر نیروبی جا کر آباد ہوئے تھے وہ چمن لال چمنؔ کو ایک مُعّلم بنانا چاہتے تھے۔ تاہم
چمن لال چمنؔ جالندھر رہتے ہوئے شعری ذوق سے سرفراز ہو چکے تھے اور اُردو و ہندی ادب کے ایک بڑے شاعر کالی داس گپتا کی شاگردی میں کئی مشاعروں میں اپنا کلام سُنا چکے تھے۔
نیروبی جانے کے بعد دوران ِتعلیم ہی انہوں نے کہانیاں لکھنا شروع کیں اور ریڈیو ایشین سروس نیروبی سے منسلک ہو کر ایک براڈ کاسٹر بن گئے۔ اس کے بعد وہ مکمل طور پر اسی فیلڈ سے وابستہ رہے۔ بعد ازیں ایشین ٹی وی چینل نیروبی شروع ہونے کے بعد وہ ٹی وی سے منسلک ہو گئے۔ ان کا یہ سفر چلتا رہا اپنے وطن سے دوری کے باوجود وہ ہر وقت اپنے وطن کو یاد کرتے ۔جواہر لعل نہرو کے دور میں جب چین ایگریشن ہوا تب وہ نہرو، کرشنا مہتا اور آر جی ڈیسائی کے بلانے پر ہندوستان آئے اور کئی پروگرام کیے لیکن ہندوستان میں ان کی تب تک کوئی خاص پہچان نہ تھی۔
اسی دوران جب وہ واپس ہندوستان سے نیروبی جارہے تھے تب نیروبی میں جگجیت سنگھ اور چترا جی کا ایک پروگرام ہوا۔ جگجیت سنگھ سیمی کلاسیکی کے ایک بڑے غزل گائیک تھے لیکن یہ پروگرام کوئی خاص کامیاب نہ ہو سکا۔ چمن لال چمنؔ نے یہ پروگرام سُنا ، وہ جگجیت سنگھ اور چترا کی گائیکی سے خاصے مثاثر ہوئے۔
چمن لال چمن ؔنے سوچا ان سے ملا جائے دوسرے ہی دن چمن لال چمنؔ نیروبی کے ایک ہوٹل میں جہاں جگجیت سنگھ اور چترا جی رُکے ہوئے تھے، جا کر ان سے ملے اور جگجیت سنگھ کو بتایا کہ میرا تعلق جالندھر سے ہے آپ بہت اچھا گاتے ہیں گو کہ پروگرام زیادہ کامیاب نہ ہو سکا لیکن بہر حال آپ کی گائیکی نے مجھے بہت متاثر کیا۔
چمن لال چمنؔ نے ان سے کہا کہ اگر ریڈیو پر آپ کا پروگرام کرایا جائے تو پروگرام کرنا پسند کریں گے؟ جگجیت سنگھ جی نے کہا بالکل ضرور! یوں چمن لال چمن ؔنے ان کا پروگرام ریڈیو پر کرایا۔ پروگرام کیا چلا کہ ایشین سروس سُننے والے سامعین نے پروگرام کو سراہنے کے بعد کہا کہ ان کا ایک لائیو پروگرام کرایا جائے۔
اور یوں پھر ایک اور پروگرام ترتیب دیا گیا، جگجیت سنگھ جی نے اس دوران چمن لال چمنؔ سے ان کی شاعری مانگی ۔ساری شاعری میں سے جگجیت سنگھ نے ایک گیت نکالا اس کی طرز بنائی اور منعقد ہونے والے اس پروگرام میں دیگرگیتوں کے ساتھ یہ گیت بھی گایا جو پنجابی میں تھا اور پنجاب کی عام دیہاتی زندگی کا احاطہ کر رہا تھا۔ وہ گیت اس قدر مقبول ہوا کہ جگجیت سنگھ جہاں بھی پروگرام کرتے اس کی فرمائش ضرور کی جاتی۔
ساون دا مہینہ یارو ساون دا مہینہ اے
اَمبراں اچ وال کوئی جھاڑدی حسینہ اے
اِک اِک بوند کوئی موتی دے نگینہ اے
بِھجی بِھجی سِلی سِلی پَون دا مہینہ اے
ساون دا مہینہ یارو ساون دا مہینہ اے
پھر کیا تھا جگجیت سنگھ جہاں بھی جاتے پروگرام کرتے اس گیت کی فرمائش ضرور کی جاتی اس گیت کی وجہ سے ہندوستان بھر میں جہاں بھی پنجابی ہندی اور اُردو کے سامعین تھے ان سب میں یہ گیت یکساں مقبول ہوا۔
چمن لال چمنؔ نے نہ صرف پنجابی بلکہ اُردو اور ہندی ادب کی بھی بے حد خدمت کی۔ ان کی ایک خوبصورت ہندی نظم؛
ہلکی ہلکی بُوندیں برسیں پنچھی کریں کلول
اس رُت میں ہیں امرت سے بھی میٹھے پی کے بول
جس دن ان سے ملن ہوا تھا جیون میں رس برسا
اب بِرہا نے جیون رَس میں زہر دیا ہے گھول
مہنگائی میں ہر اِک شے کے دام ہوئے ہیں دونے
مجبوری میں بِکے جوانی دو کوڑی کے مول
پریم نگر کی سمت چلا ہے کویتا کا اِک راہی
من میں آشا دیپ جلا کر گھونگھٹ کے پٹ کھول
جس دن محشر برپا ہوگا کُھل جائیں گی آنکھیں
عقل کے اندھے گانٹھ کے پورے من کی آنکھیں کھول
وقتِ سحر ہے اور چمن میں شبنم چمکے ایسے
جیسے کِرنوں کے دھاگوں میں موتی ہوں انمول
چمن لال چمنؔ دراصل حُسن، جوانی اور پیکر لطف و سُرور و مہ نوش کا خُمار تھے۔
زندگی کو سنوار دے مولا
حسن اسکا نکھار دے مولا
تیری دنیا کو لگ گئی ہے نظر
اسکا صدقہ اُتار دے مولا
سُونی آنکھوں کو اوڑنے کے لیے
کوئی کجرے کی دھار دے مولا
راہِ غالب پے چل رہا ہے چمن
کوئی بوتل اُدھار دے مولا
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
دوستو آج ہم ایک ایسے شاعر کو یاد کرنے جارہیے ہیں جنہوں نے جمالیات کو اپنا موضوعِ سُخن بنایا اور اپنی شاعری میں بھرپور طریقے سے جمالیاتی حُسن کا اظہار بھی کیا۔ وہ ترقی پسندی سے کہیں زیادہ کلاسیکی تھے۔ ان کی شاعری میں اپنے اِردگرد کی تفہیم بھی تھی اور اس سے رشتہ اُستوار کرنے کا جذباتی اور نفسیاتی عمل بھی! گویا انہوں نے اپنی جمالیاتی لطافت سے حیات و جمالیات کو ہی اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔
چمن لال چمنؔ 1934ء میں ضلع جالندھر پرتاب پورہ محلہ نونہال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سے حاصل کی اور پھر والد کے بلانے پر ناروبی چلے گئے ان کے والد ہندوستانی برٹش پنجاب سے روزی روٹی کی تلاش میں 1919ء میں کینیا کے شہر نیروبی جا کر آباد ہوئے تھے وہ چمن لال چمنؔ کو ایک مُعّلم بنانا چاہتے تھے۔ تاہم
چمن لال چمنؔ جالندھر رہتے ہوئے شعری ذوق سے سرفراز ہو چکے تھے اور اُردو و ہندی ادب کے ایک بڑے شاعر کالی داس گپتا کی شاگردی میں کئی مشاعروں میں اپنا کلام سُنا چکے تھے۔
نیروبی جانے کے بعد دوران ِتعلیم ہی انہوں نے کہانیاں لکھنا شروع کیں اور ریڈیو ایشین سروس نیروبی سے منسلک ہو کر ایک براڈ کاسٹر بن گئے۔ اس کے بعد وہ مکمل طور پر اسی فیلڈ سے وابستہ رہے۔ بعد ازیں ایشین ٹی وی چینل نیروبی شروع ہونے کے بعد وہ ٹی وی سے منسلک ہو گئے۔ ان کا یہ سفر چلتا رہا اپنے وطن سے دوری کے باوجود وہ ہر وقت اپنے وطن کو یاد کرتے ۔جواہر لعل نہرو کے دور میں جب چین ایگریشن ہوا تب وہ نہرو، کرشنا مہتا اور آر جی ڈیسائی کے بلانے پر ہندوستان آئے اور کئی پروگرام کیے لیکن ہندوستان میں ان کی تب تک کوئی خاص پہچان نہ تھی۔
اسی دوران جب وہ واپس ہندوستان سے نیروبی جارہے تھے تب نیروبی میں جگجیت سنگھ اور چترا جی کا ایک پروگرام ہوا۔ جگجیت سنگھ سیمی کلاسیکی کے ایک بڑے غزل گائیک تھے لیکن یہ پروگرام کوئی خاص کامیاب نہ ہو سکا۔ چمن لال چمنؔ نے یہ پروگرام سُنا ، وہ جگجیت سنگھ اور چترا کی گائیکی سے خاصے مثاثر ہوئے۔
چمن لال چمن ؔنے سوچا ان سے ملا جائے دوسرے ہی دن چمن لال چمنؔ نیروبی کے ایک ہوٹل میں جہاں جگجیت سنگھ اور چترا جی رُکے ہوئے تھے، جا کر ان سے ملے اور جگجیت سنگھ کو بتایا کہ میرا تعلق جالندھر سے ہے آپ بہت اچھا گاتے ہیں گو کہ پروگرام زیادہ کامیاب نہ ہو سکا لیکن بہر حال آپ کی گائیکی نے مجھے بہت متاثر کیا۔
چمن لال چمنؔ نے ان سے کہا کہ اگر ریڈیو پر آپ کا پروگرام کرایا جائے تو پروگرام کرنا پسند کریں گے؟ جگجیت سنگھ جی نے کہا بالکل ضرور! یوں چمن لال چمن ؔنے ان کا پروگرام ریڈیو پر کرایا۔ پروگرام کیا چلا کہ ایشین سروس سُننے والے سامعین نے پروگرام کو سراہنے کے بعد کہا کہ ان کا ایک لائیو پروگرام کرایا جائے۔
اور یوں پھر ایک اور پروگرام ترتیب دیا گیا، جگجیت سنگھ جی نے اس دوران چمن لال چمنؔ سے ان کی شاعری مانگی ۔ساری شاعری میں سے جگجیت سنگھ نے ایک گیت نکالا اس کی طرز بنائی اور منعقد ہونے والے اس پروگرام میں دیگرگیتوں کے ساتھ یہ گیت بھی گایا جو پنجابی میں تھا اور پنجاب کی عام دیہاتی زندگی کا احاطہ کر رہا تھا۔ وہ گیت اس قدر مقبول ہوا کہ جگجیت سنگھ جہاں بھی پروگرام کرتے اس کی فرمائش ضرور کی جاتی۔
ساون دا مہینہ یارو ساون دا مہینہ اے
اَمبراں اچ وال کوئی جھاڑدی حسینہ اے
اِک اِک بوند کوئی موتی دے نگینہ اے
بِھجی بِھجی سِلی سِلی پَون دا مہینہ اے
ساون دا مہینہ یارو ساون دا مہینہ اے
پھر کیا تھا جگجیت سنگھ جہاں بھی جاتے پروگرام کرتے اس گیت کی فرمائش ضرور کی جاتی اس گیت کی وجہ سے ہندوستان بھر میں جہاں بھی پنجابی ہندی اور اُردو کے سامعین تھے ان سب میں یہ گیت یکساں مقبول ہوا۔
چمن لال چمنؔ نے نہ صرف پنجابی بلکہ اُردو اور ہندی ادب کی بھی بے حد خدمت کی۔ ان کی ایک خوبصورت ہندی نظم؛
ہلکی ہلکی بُوندیں برسیں پنچھی کریں کلول
اس رُت میں ہیں امرت سے بھی میٹھے پی کے بول
جس دن ان سے ملن ہوا تھا جیون میں رس برسا
اب بِرہا نے جیون رَس میں زہر دیا ہے گھول
مہنگائی میں ہر اِک شے کے دام ہوئے ہیں دونے
مجبوری میں بِکے جوانی دو کوڑی کے مول
پریم نگر کی سمت چلا ہے کویتا کا اِک راہی
من میں آشا دیپ جلا کر گھونگھٹ کے پٹ کھول
جس دن محشر برپا ہوگا کُھل جائیں گی آنکھیں
عقل کے اندھے گانٹھ کے پورے من کی آنکھیں کھول
وقتِ سحر ہے اور چمن میں شبنم چمکے ایسے
جیسے کِرنوں کے دھاگوں میں موتی ہوں انمول
چمن لال چمنؔ دراصل حُسن، جوانی اور پیکر لطف و سُرور و مہ نوش کا خُمار تھے۔
زندگی کو سنوار دے مولا
حسن اسکا نکھار دے مولا
تیری دنیا کو لگ گئی ہے نظر
اسکا صدقہ اُتار دے مولا
سُونی آنکھوں کو اوڑنے کے لیے
کوئی کجرے کی دھار دے مولا
راہِ غالب پے چل رہا ہے چمن
کوئی بوتل اُدھار دے مولا
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔