مارکسی نظریات اور خیالات کو ایک مدت سے مارکس کی جمالیات سے نکال کر پیش کیا جارہا ہے، جس کا مقصد مارکسی فکر انگیزی و انقلاب سے عام لوگوں کو ڈرانا اور خوفزدہ کرنا ہے، تاکہ وہ کسی انقلاب کی بات ہی نا کریں۔ عمومی طور پر ایسی کوششیں بھی ہو رہی ہیں کہ تبدیلی کے امکانات کو ہی سرے سے دفن کر دیا جائے۔ لیکن ایڈولفو سانکیز وازکیز کا تعلق ان جدید نقادوں میں سے ہے جنہوں نے ان سارے ادعائی تصورات کو سختی سے رد کرتے ہوئے مارکسی جدلیات، نظریات و جمالیات کو مباحث کی نئی راہیں دی اور ایک استدلالی اور ٹھوس انداز میں ادعائی تصورات کو جو مارکسی نظریات کو سیکٹرین انداز میں پیش کر رہیے تھے سختی سے رد کیا۔
ان نظریات اور خیالات کو ادعائی انداز میں پیش کرنے میں خود مارکسی دانشوروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے ہمیشہ مارکسی جمالیات سے صرف نظر کیا۔
ہر چند کہ اسٹالن انقلابی دستے کا وہ سپاہی تھا جس نے ہر محاز پر بہت جواں مردی سے ہر مقابلہ کیا لیکن پھر بھی کوئی بھی تنقید سے مبرّا نہیں! لہٰذا خصوصاً سٹالن کے دور میں اس طرح کے خیالات کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ یہ سٹالن کا ہی دور تھا کہ جس میں مارکسی جمالیات کو نکال کر ادعائیت اور انتہا پسندی کو بے جا فروغ ملا جو اصل مارکسی تعلیمات کے منافی ہے۔ جس سے خصوصاً فن کو سخت نقصان اور صدمہ پہنچا۔ مارکس کا بشری کردار اور جمالیات سے بہت گہرا تعلق ہے اور انقلاب مارکسی نقطۂ نظر میں سب سے بڑا فن ہے۔
وازکیز مارکسی جمالیات کی صحیح فطرت کی تلاش کے ساتھ ساتھ اس کے تخلیقی ارتقاء پر زور دیتا ہے۔ کیونکہ جمالیات اپنی فطرت میں زندگی کے حیات آفریں تعلق کو بنائے رکھنے کا نام ہے۔
ہر فنی تجربہ بھی زندگی کے اسی تناظر سے نمو پاتا ہے۔ لہٰذا ان معنوں میں مارکسی جمالیات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے! کیونکہ فن اور زندگی کی معاملات ایک زندہ سیاق کی صورت میں موجود ہے۔
مارکس کے ہاں ایک عام سطح پر بھی جمالیات کے تصور کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں دوسری خاص سطح پہ فن ہے!
اور یہ دونوں حوالے اتنے کار آمد ہیں کہ ہم ان حوالوں سے انتہائی پیچیدہ اور فنّی مسائل پر کامیابی سے غورو خوص کر سکتے ہیں۔ وازکیز کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان عصری تجربات اور مسائل کو مارکس کے جمالیاتی تصور اور حوالوں کی روشنی میں جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔
وازکیز کا مطالعہ کئں جہتوں میں مخصوص ہے مگر وہ محدود نہیں! خصوصاً فن اور جدید فن و سوسائٹی کو اس نے اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے۔ فن اور فن کے ابتدائی سر چشموں اور محرکات پر اس کے خیالات مارکس ہی کی توثیق ہیں مگر وہ فن جو مارکس کے بعد پروان چڑھا اور جسے جدید فن سے موسوم کیا جاتا ہے ایک نیا مسئلہ تھا۔
جدید فن کا سرمایہ داری سے تعلق اس کی نام نہاد زوال پسندی فن کی تخلیق اور اس کا مصرف عوامی فن اور جدید تجرباتی اور خانقاہی فن پے جو ایک حقیقت پسندانہ فہم سے غور کرتا ہے۔ اور اس ساری بحث میں
وازکیز کسی تاویل سے کام نہیں لیتا بلکہ مارکس کی جمالیات کے ان تہہ نشیں امکانات کو بہ روئے کار لاتا ہے جن سے انتہا پسندوں سمیت سرمایہ دار دانشوروں اور نام نہاد لبرل نے صرفِ نظر کر رکھا ہے۔
مارکس کا بیگانگی کا تصور اس تجربے پے قائم تھا کہ مزدور اپنی تیار کردہ شئے کا استمال نہیں کر سکتا اور وہ اس شئے سے محروم ہے جس کو وہ خود تیار کرتا ہے اس طرح کی محرومی مزدور اور اس کے کام کے بیچ ایک لکیر کھینچ دیتی ہے اور محنت کے دوران اس وجہ سے اس میں وہ خروش قائم نہیں رہتا جو نئی تخلیقِ کے لیے ضروری ہے۔ اس کی جگہ ایک عدم تعلقی راہ بنا لیتی ہے اور یہی بات مزدور کے اندر اپنی پیدا کردہ شئے اور محنت سے لا تعلقی اور اجنبی پن کے احساس کو اُجاگر کرتی ہے۔
وازکیز مارکس کے اس تصور کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور بڑے حساس طریقے سے جدید فن پر اطلاق کرتا ہے وہ اپنی حساسیت کو فن کے مخصوص کردار اور اس کے اضافی خود کار اُصولوں کے ضمن میں بھی کام میں لاتا ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ فن کے تئیں سرمایہ داری پیداوار کی مخاصمت کی تین سطحیں ہیں پیداوار یا تخلیق صرف یا تفنن اور محنت کی سماجی تقسیم۔
وازکیز نے نسبتاً اس جدید صورتحال کا مارکسی بنیادوں پر تجربہ کیا ہے کہ فن اور سرمایہ داری کے مابین جو تفریق ہے وہ انتہا پسندانہ ہے اور اساسی طور پر اس تضاد کی جڑیں سرمایہ داری اور آدمی کے تضاد کے مابین گہری ہوتی چلی گئی ہیں. مارکس نے یہ تصور 1844ء میں پیش کیا تھا۔
وازکیز کہتا ہے چونکہ فن بنی نوع انسان کا ایک لازمی کرہ ہے اور پس سنگ دلی کے ساتھ وہ سرمایہ داری پیداوار کی مخاصمت برداشت کرتا ہے مارکس کے تھیسس کا یہی بنیادی مؤقف ہے اور وازکیز نے موجودہ عصر پر اس تصور کی گہری معنویت اور ناگزیریت کا اطلاق کیا ہے۔
لیکن وقت حالات وواقعات کو بدل دیتا ہے اور اسی بدلاوے کو ارتقاء کہا جاتا ہے آج جب ہم مارکسی نظرہات اور وازکیز کے خیالات پہ بات کر رہیے ہیں تو کل تک کے جو حالات تھے وہ یکسر بدل چکے ہیں۔ جہاں سرمایہ داری نے اپنے ابتدائی عہد میں آکر اسامی استاد اور کاریگر کی تمیز کو مٹا دیا تھا آج کے اس دور میں تخلیقات اور تحقیقات کو تقسیم کرتے ہوئے مختلف پارٹس اور شعبوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مثلا اگر آج ایک گاڑی کا انجن جاپان میں بنایا جا رہا ہے تو اس کے دوسرے پارٹس چین میں بنائے جا رہیے ہوں گے۔ گویا کہ ایک تصویر کے کئی حصے بنا دیے گئے ہیں۔ ایک حصے کو کوئی ایک جگہ بنا رہا ہے تو دوسرے حصے کو کوئی دوسری جگہ بنا رہا ہے۔ پھر اس میں ایک رنگ کوئی اور بھر رہا ہے جبکہ دوسرا رنگ کوئی اور بھر رہا ہے۔ یعنی اب فن بھی مخصوص کسی فرد یا فرم کی میراث نہیں رہا۔ اور نا تخلیقات و تحقیقات کسی ایک کی میراث ہیں۔
ایک طرح سے یہ تخلیقات اور تحقیقات سارے عالم کے فن کاروں اور تخلیق کاروں کی مشترکہ میراث بنتی جا رہی ہیں۔ لیکن اس کے ثمرات سے وہ سارے تخلیق کار جہاں کل محروم تھے وہ آج بھی محروم ہیں۔
آج سرمایہ داروں کی مختلف کارپوریشنوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری ہے یعنی سرمایہ داروں کا اتحاد کل کے مقابلے میں اور مضبوط اور پائیدار ہوا ہے جبکہ فن اور محنت کو سرمایہ داروں نے اور بھی برے طریقے سے تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔
یعنی اب دنیا روز بہ روز نت نئے سانچوں میں ڈھلتی جارہی ہے۔ نئی جہتیں بنتی جا رہی ہیں جو دراصل اس عہد کی ضرورت ہیں۔ لیکن اس کا تعلق محض عام سطح تک محدود نہیں ہونا چاہیےتھا۔
جب نئی ایجادات ہوتی ہیں تو آپ کے خیال، نظریات سے لے کر روزمرہ کا ہر عمل بدل جاتا ہے۔
جس طرح کل تک موبائل فون نہیں تھا تو اس کی ضرورت بھی نا تھی۔ لیکن اب یہ موبائل فون ہر شخص کی ضرورت بن چکا ہے۔ اب جو سماج اس نئے عمل سے جُڑ جاتے ہیں پرانی روایات کو بدل کر نئی روایات قائم کرتے ہیں اور وہ زمانے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن جو اُنہی (پرانی و پسماندہ) روایات کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں وہ پھر ہمارے جیسے تیسری دنیا کے سیاہ فام بن کر رہ جاتے ہیں۔
ہر نیا جذبہ، احساس، خیال یا تجربہ کسی نئی ہئیت اور نئے سانچے کا مطالبہ کرتا ہے۔
فن اپنی فطرت میں ایک اختراع ہے ایک بڑا فنکار اس لیے بھی بڑا ہوتا ہے کہ اس نے کس قدر روایت شکنی کی۔ وازکیز اسے صحیح معنوں میں انقلابی تصور کرتا ہے جو شکست و ریخت سے گزر کر نئے عہد کی بنیاد ڈالتا ہے۔ کیونکہ وہ نفی سے گزرتا ہے۔ لیکن یہ نفی محض نفی یا دوسرے کروں کی طرح قطعی یا انتہا پسند نفی نہیں بلکہ اپنی جدلیاتی حس میں وہ ماضی کی قابل قدر اشیاء، اقدار اور تصورات کو رچائے بسائے رہتی ہے۔
لہٰذا جہاں تحقیقات و تخلیقات بدلتی ہیں یقیناً وہاں سماجی شعور دینے اور ایک نئی تبدیلی لانے کے طریقہ کار بھی بدلتے ہیں۔
کچھ بنیادی چیزوں کے سِوا گزشتہ ایک صدی میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اس صدی کے پچاس سال تک کی عمر پانے والے لوگ دراصل دُنیا کی تاریخ میں تیزی سے تحقیقات اور تخلیقات کی اس نئی صدی کے لوگ ہیں جن کی زندگی میں انسانی شعور نے وہ وہ کارگزاریاں کر دِکھائیں جو اس سے پہلے کے انسان کے تصور میں بھی نا تھیں!
ایک تخلیق کار چاہیے وہ کسی مادی چیز کا خالقِ ہو یا ادب کا، ہر فنکار حُسن کے اُصولوں کے تحت بشری جوہر کا اظہار کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کی توثیق بھی اس کی داخلی ضرورت ہے۔ فنکار کا عمل انسانی محنت کے جوہر کی توسیع اور اسے بیش بہا بناتا ہے، لیکن یہ سب ایک آزاد فضاء میں ہی ممکن ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں باوجود تخلیقات کے پھر بھی فنکار کو وہ تخلیقی آزادی میسر نہیں آتی جو ایک آزاد فضاء میں ممکن ہے۔
سرمایہ داری نے فنکار کو کاروباری چیز بنا کہ رکھ دیا ہے۔ مارکس کے فلسفہ بیگانگی کا بنیادی فلسفہ یہی تھا۔ یہیں سے فنکار اور تخلیقی شہ پارے کے درمیان بے تعلقی کا رشتہ پروان چڑھتا ہے اور فن اپنے جوہر سے محروم ہو کر کنگال ہو جاتا ہے۔
وازکیز واضح کرتا ہے کہ ایک زوال پرست معاشرہ زوال پرست فن کو جنم دیتا ہے اور اس فنّی زوال کا سبب تخلیقی قوتوں کی کمزوری اور بے مائیگی ہوتی ہے۔ فنّی زوال پرستی ہر دو سماجی نظاموں میں نمو پا سکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج جہاں فن کو منڈی کی اشیاء بنا کر پیش کرتا ہے وہیں بالکل اسی طرح ایک سوشلسٹ معاشرہ بھی اگر ذہنی تخلیقی قوتوں سے عاری ہے تو اس میں اختراع کی صلاحیت کم سے کم ہو کر غیر متحرک اور بے کار ہو جاتی ہے۔
ترقی پسندی کا ہر گز یہ معیار نہیں کہ وہ جدّت طراز نہ ہو اور اس کی تخلیق کمالِ فن کی جہتوں پر پورا نا اُترے۔ وازکیز کہتا ہے کہ؛
ایک سچا فن کبھی زوال پرست نہیں ہوتا!
وازکیز ایک روشن خیال مارکسی ہے وہ ہر اُس نظریے کو رد کرتا ہے جس کے اندر صداقت نہ ہو۔ اس نے تفصیل کے ساتھ فن جمالیات حقیقت اور نظریے پر بحث کر کے مارکسی جمالیات کو درست سمت دکھانے کی کوشش کی ہے۔
جہاں تک یورپ کے ادب، فن اور تخلیق و تحقیق میں جدیدیت کا تعلق ہے تو وہاں ایلیٹ اور یٹیس جیسے لوگ گزرے ہیں جن کے سامنے یورپ کا ایک ٹوٹا اور بکھرا معاشرہ تھا اور جارج ایلیٹ کی ہیرونیں مغروبی ادب میں اس بکھرے ہوئے معاشرے کی اولین تصویریں تھیں۔ جہاں عام آدمی سے لے کر وکٹوریہ تک زندگی کی نئی کشا کش سے دوچار تھیں۔
اس صنعتی انقلاب سے خاندان اور معاشرہ دونوں بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ جہاں یہ انقلاب نفسیاتی طور پر ہلچل مچا رہا تھا وہیں اس صنعتی انقلاب سے وہاں کے لوگوں کے پیداواری رشتے بھی بدل رہیے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ شعوری طور پر ڈارون کے نظریات، فرائڈ کی نفسیات اور مارکس کی جدلیات نے جہاں تاریخ کی درست تشریح کی وہیں خاندانوں کے دلگداز رشتوں سمیت عقائد و نظریات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ ایسے حالات میں وکٹوریہ خود زبردست کشمکش میں محسوس کر رہی تھی۔
آکسفورڈ میں ٹامس ہکسلے اور پشیب دلبر فورس کے درمیان تاریخ، فلسفہ، دینیات، سماجیات اور معاشرتی علوم پر کئی معرکتہ آراء مناظرے ہوئے جن کی تشہیر عام تھی۔ لیکن یورپ کے اس ٹُوٹے اور بکھرے معاشرے کے مقابلے میں ہمارے ہاں غالبؔ کے آگے پیچھے کعبہ اور کلیساء ہی تھے۔
یورپ میں جہاں ایک طرف یوپ کی کٹر مذہب پرستی اور پرانی اقدار ٹوٹ رہی تھی اور نیا سماج نئی سوچ اور فکر آرہی تھی وہیں افلاس کی میگی کو ایک طرف خون کے رشتے آواز دے رہے تھے تو دوسری طرف اَنا کے رشتے ہلا رہے تھے۔ دل ایک طرف دھڑکتا تھا تو ذہن دوسری طرف جا رہا تھا۔
اس عہد میں جب یورپ میں یہ ساری ہلچل تھی تو ہمارے ہاں قرۃالعین حیدر کا گوتم مجلسی زندگی کو چھوڑ کر جنگلوں میں یوگ لینے جا رہا تھا۔
کیونکہ وہ ایک راجہ ہے جس کا نہ کچھ بدلا اور نا ہی ٹوٹا، نہ اُسے گھر میں کسی کے افلاس زدہ ہونے کا خوف ہے اور نہ ہی معاشی معاملات اس کے پاؤں کی زنجیریں ہیں۔ لیکن یورپ کے لوگ اس صنعتی اور شعوری انقلاب کے بعد کہیں غاروں اور گپھاؤں میں چھپ بھی نہیں سکتے تھے۔ وہاں بھی انٹیلیجنس کے لوگ انہیں ڈھونڈکر نکال سکتے تھے۔ اسی طرح عبداللہ حسین کی اُداس نسلیں اور انتظار حسین کا شہرِ افسوس اس ضمن میں نمایاں تحریریں ہیں۔
مارکیز نے بھی تاریخ کے حوالے کو پرکھنے کی کوشش کی ہے اس نے میکنڈو کی نو آبادی کو اس کی بنیاد بنایا۔ یہ دراصل سو برسوں کی تاریخ ہے جو اس کی کہانی کی بنیاد ہے۔ جہاں ایلیٹ ایک طرف تاریخ پر الزام دھرتا ہے وہیں مارکیز ان سارے حالات کو استحصالی قوتوں کے ہاتھوں مخصوص مفادات کے ہتھیار کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔
مارکیز کے مطابق انقلاب کی راہ میں انفرادی کوششیں جذباتی و ہیجانی اور انانیت پرور ہیں۔
جن کا انجام تذبذب بَد دِلی اور ایک ایسی مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے جو خود غرضی اور ذاتی تسکین تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ انقلابی ہیرو خود اپنے خول میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس خول کو پھر مسلسل تنگ کرتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس خاندان کا آخری جوڑا بے لباس ہو کر دادِ ہوس دیتے ہوئے ختم ہو جاتا ہے۔ نسل با نسل انہیں تنبیہ کی جاتی ہے کہ خاندان کے اختلاف کے نتیجے میں سوروں کی دُموں والے بچے پیدا ہونگے۔ ایک خاندان کی عورتیں دوسرے خاندان سے رشتے نہیں کر سکتیں۔ یہ دراصل ایک ایسی تنہائی تھی جو نا صرف زندگیوں کو متعفن کرتی ہے بلکہ رشتوں کو بھی بے حرمت کر دیتی ہے۔کیونکہ رگوں میں ایک ہی جیسا خون چلنے سے ایک وقت میں وہ خون بھی زہر بن جاتا ہے۔
لہٰذا مارکسی جمالیات میں محض جدیدیت کی ہی بات کرنا مارکس کے نظریات کو مختصر کرنے کے مترادف ہے۔
مارکس کے ہاں جدلیاتی حس میں وہ ماضی کی قابل قدر اشیا ء،اقدار اور تصورات بھی رچائے بسائے ہوئے ہیں جو واقعی قابل ستائش ہیں مارکس کے تصور میں تاریخیت کی چھاپ بھی بہت گہری ہے مارکس فن کو اتفاقی انسانی عمل قرار نہیں دیتا بلکہ مارکس کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ
آدمی کو انسان بنانے کے عمل میں جمالیات اور فن ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مارکس سے قبل مثالیت کی ایک دھند چھائی ہوئی تھی مارکس نے واضح طور پر ایک ٹھوس حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے مارکس نے یہ بات بھی واضح کی کہ حسن کا وجود انسانیت کے باہر نہیں وہ فطری انواع میں بھی ہے اور فنی معروضات میں بھی جسے انسان ہی تخلیق کرتا ہے۔
لہٰذا جب ہم کسی ادبی فن پارے کو تنقیدی نقطۂ نظر سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ تنقید نگار کو تنقیدی قدروں کا بھی علم ہو۔ ہر چند کہ پسند یا نا پسند ہر ایک کی ہوتی ہے لیکن پسند نا پسند کا انحصار بھی تنقیدی علمی اقدار پر قائم ہونا بہت اہم ہے۔
مارکس کے ہاں سب سے پہلی فکر ہمیں یہ ملتی ہے کہ ادب و فن اور جمالیاتی تصور کی قدریں زندگی سے ملتی ہیں۔ کیا ادب فن کی وہی قدریں ہیں جو زندگی کی قدریں ہیں یا ادب فن کی اقدار زندگی سے مختلف ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یہ طے کرنا کہ ادب و فن اور اس سے وابستہ جمالیات زندگی کا ہی ایک عمل ہے یا اس سے ماورا کوئی حقیقت ہے۔
مارکسی فکر سوال کرتی ہے کہ ادب زبان کے پیرائے میں ڈھلا ہوا ایک جمالیاتی اظہار ہے یا پھر ادب یا فن کوئی الہام ہے یا پھر وہ غیر معمولی بصیرت سے زندگی کے رازوں کو فاش کرتا ہے یا ایک آئینہ ہے جو زندگی کے تاریک پہلو کو روشن کرتا ہے یا کہ کوئی ایسا کیمیائی عمل ہے کہ زندگی کی اجزائے ترکیبی سے نئی دنیائیں تخلیق کرتا ہے یا پھر کوئی آہنگ ہے جو مختلف اوزاروں سے مل کر ایک نغمہ بنتا ہے یا فن ایک ایسی نظر ہے جو جوہر نظارہ کو حسین بنا دیتی ہے؟ مارکسی نقطۂ نظر یہ ہے کہ فن اور جمالیات کا زندگی سے کوئی تعلق ضرور ہے وہ چاہیے منفی ہو یا مثبت۔
لہٰذا مارکسی جمالیات اس کرۂ ارض میں زندگی کی حسین حقیقتوں کی تلاش کرتی ہے وہ حسین حقیقتیں جن سے سماج کا کوئی رنگ بدنما نہ ہو وہ ظاہری حقیقتوں سے لے کر فکر خیال تک!
مارکسی نظریات ہر جوہر نظارہ تک زندگی کے سب رنگوں کو حسن خیال سے معیّن اور لبریز کرتے ہیں جس طرح کائنات میں ہر ایک چیز اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے بالکل اسی طرح ہر فرد اہم ہے جسے طبقاتی تفریق نے بے رنگ بنا رکھا ہے۔
مارکس انقلاب کو اس جمالیاتی گلشن کی وہ تیاری اور کھیتی قرار دیتا ہے جو بے شمار رنگوں کے پھولوں کی بوائی کرتا ہے۔ ہاں اس بوائی کے دوران کُھردری زمین کو ذرخیز بنانے میں کچھ مشکلات ضرور آتی ہیں لیکن انقلاب خوف و دہشت کا نام نہیں انسان کے حسین خوابوں کی وہ تیاری ہے جسے تصورات میں جنت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مارکسی نظریات و جمالیات اسی دنیا کو جنت بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 4
جواب دیں جواب منسوخ کریں
مارکسی نظریات اور خیالات کو ایک مدت سے مارکس کی جمالیات سے نکال کر پیش کیا جارہا ہے، جس کا مقصد مارکسی فکر انگیزی و انقلاب سے عام لوگوں کو ڈرانا اور خوفزدہ کرنا ہے، تاکہ وہ کسی انقلاب کی بات ہی نا کریں۔ عمومی طور پر ایسی کوششیں بھی ہو رہی ہیں کہ تبدیلی کے امکانات کو ہی سرے سے دفن کر دیا جائے۔ لیکن ایڈولفو سانکیز وازکیز کا تعلق ان جدید نقادوں میں سے ہے جنہوں نے ان سارے ادعائی تصورات کو سختی سے رد کرتے ہوئے مارکسی جدلیات، نظریات و جمالیات کو مباحث کی نئی راہیں دی اور ایک استدلالی اور ٹھوس انداز میں ادعائی تصورات کو جو مارکسی نظریات کو سیکٹرین انداز میں پیش کر رہیے تھے سختی سے رد کیا۔
ان نظریات اور خیالات کو ادعائی انداز میں پیش کرنے میں خود مارکسی دانشوروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے جنہوں نے ہمیشہ مارکسی جمالیات سے صرف نظر کیا۔
ہر چند کہ اسٹالن انقلابی دستے کا وہ سپاہی تھا جس نے ہر محاز پر بہت جواں مردی سے ہر مقابلہ کیا لیکن پھر بھی کوئی بھی تنقید سے مبرّا نہیں! لہٰذا خصوصاً سٹالن کے دور میں اس طرح کے خیالات کو بہت زیادہ فروغ ملا۔ یہ سٹالن کا ہی دور تھا کہ جس میں مارکسی جمالیات کو نکال کر ادعائیت اور انتہا پسندی کو بے جا فروغ ملا جو اصل مارکسی تعلیمات کے منافی ہے۔ جس سے خصوصاً فن کو سخت نقصان اور صدمہ پہنچا۔ مارکس کا بشری کردار اور جمالیات سے بہت گہرا تعلق ہے اور انقلاب مارکسی نقطۂ نظر میں سب سے بڑا فن ہے۔
وازکیز مارکسی جمالیات کی صحیح فطرت کی تلاش کے ساتھ ساتھ اس کے تخلیقی ارتقاء پر زور دیتا ہے۔ کیونکہ جمالیات اپنی فطرت میں زندگی کے حیات آفریں تعلق کو بنائے رکھنے کا نام ہے۔
ہر فنی تجربہ بھی زندگی کے اسی تناظر سے نمو پاتا ہے۔ لہٰذا ان معنوں میں مارکسی جمالیات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے! کیونکہ فن اور زندگی کی معاملات ایک زندہ سیاق کی صورت میں موجود ہے۔
مارکس کے ہاں ایک عام سطح پر بھی جمالیات کے تصور کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں دوسری خاص سطح پہ فن ہے!
اور یہ دونوں حوالے اتنے کار آمد ہیں کہ ہم ان حوالوں سے انتہائی پیچیدہ اور فنّی مسائل پر کامیابی سے غورو خوص کر سکتے ہیں۔ وازکیز کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان عصری تجربات اور مسائل کو مارکس کے جمالیاتی تصور اور حوالوں کی روشنی میں جانچنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔
وازکیز کا مطالعہ کئں جہتوں میں مخصوص ہے مگر وہ محدود نہیں! خصوصاً فن اور جدید فن و سوسائٹی کو اس نے اپنی بحث کا موضوع بنایا ہے۔ فن اور فن کے ابتدائی سر چشموں اور محرکات پر اس کے خیالات مارکس ہی کی توثیق ہیں مگر وہ فن جو مارکس کے بعد پروان چڑھا اور جسے جدید فن سے موسوم کیا جاتا ہے ایک نیا مسئلہ تھا۔
جدید فن کا سرمایہ داری سے تعلق اس کی نام نہاد زوال پسندی فن کی تخلیق اور اس کا مصرف عوامی فن اور جدید تجرباتی اور خانقاہی فن پے جو ایک حقیقت پسندانہ فہم سے غور کرتا ہے۔ اور اس ساری بحث میں
وازکیز کسی تاویل سے کام نہیں لیتا بلکہ مارکس کی جمالیات کے ان تہہ نشیں امکانات کو بہ روئے کار لاتا ہے جن سے انتہا پسندوں سمیت سرمایہ دار دانشوروں اور نام نہاد لبرل نے صرفِ نظر کر رکھا ہے۔
مارکس کا بیگانگی کا تصور اس تجربے پے قائم تھا کہ مزدور اپنی تیار کردہ شئے کا استمال نہیں کر سکتا اور وہ اس شئے سے محروم ہے جس کو وہ خود تیار کرتا ہے اس طرح کی محرومی مزدور اور اس کے کام کے بیچ ایک لکیر کھینچ دیتی ہے اور محنت کے دوران اس وجہ سے اس میں وہ خروش قائم نہیں رہتا جو نئی تخلیقِ کے لیے ضروری ہے۔ اس کی جگہ ایک عدم تعلقی راہ بنا لیتی ہے اور یہی بات مزدور کے اندر اپنی پیدا کردہ شئے اور محنت سے لا تعلقی اور اجنبی پن کے احساس کو اُجاگر کرتی ہے۔
وازکیز مارکس کے اس تصور کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور بڑے حساس طریقے سے جدید فن پر اطلاق کرتا ہے وہ اپنی حساسیت کو فن کے مخصوص کردار اور اس کے اضافی خود کار اُصولوں کے ضمن میں بھی کام میں لاتا ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ فن کے تئیں سرمایہ داری پیداوار کی مخاصمت کی تین سطحیں ہیں پیداوار یا تخلیق صرف یا تفنن اور محنت کی سماجی تقسیم۔
وازکیز نے نسبتاً اس جدید صورتحال کا مارکسی بنیادوں پر تجربہ کیا ہے کہ فن اور سرمایہ داری کے مابین جو تفریق ہے وہ انتہا پسندانہ ہے اور اساسی طور پر اس تضاد کی جڑیں سرمایہ داری اور آدمی کے تضاد کے مابین گہری ہوتی چلی گئی ہیں. مارکس نے یہ تصور 1844ء میں پیش کیا تھا۔
وازکیز کہتا ہے چونکہ فن بنی نوع انسان کا ایک لازمی کرہ ہے اور پس سنگ دلی کے ساتھ وہ سرمایہ داری پیداوار کی مخاصمت برداشت کرتا ہے مارکس کے تھیسس کا یہی بنیادی مؤقف ہے اور وازکیز نے موجودہ عصر پر اس تصور کی گہری معنویت اور ناگزیریت کا اطلاق کیا ہے۔
لیکن وقت حالات وواقعات کو بدل دیتا ہے اور اسی بدلاوے کو ارتقاء کہا جاتا ہے آج جب ہم مارکسی نظرہات اور وازکیز کے خیالات پہ بات کر رہیے ہیں تو کل تک کے جو حالات تھے وہ یکسر بدل چکے ہیں۔ جہاں سرمایہ داری نے اپنے ابتدائی عہد میں آکر اسامی استاد اور کاریگر کی تمیز کو مٹا دیا تھا آج کے اس دور میں تخلیقات اور تحقیقات کو تقسیم کرتے ہوئے مختلف پارٹس اور شعبوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مثلا اگر آج ایک گاڑی کا انجن جاپان میں بنایا جا رہا ہے تو اس کے دوسرے پارٹس چین میں بنائے جا رہیے ہوں گے۔ گویا کہ ایک تصویر کے کئی حصے بنا دیے گئے ہیں۔ ایک حصے کو کوئی ایک جگہ بنا رہا ہے تو دوسرے حصے کو کوئی دوسری جگہ بنا رہا ہے۔ پھر اس میں ایک رنگ کوئی اور بھر رہا ہے جبکہ دوسرا رنگ کوئی اور بھر رہا ہے۔ یعنی اب فن بھی مخصوص کسی فرد یا فرم کی میراث نہیں رہا۔ اور نا تخلیقات و تحقیقات کسی ایک کی میراث ہیں۔
ایک طرح سے یہ تخلیقات اور تحقیقات سارے عالم کے فن کاروں اور تخلیق کاروں کی مشترکہ میراث بنتی جا رہی ہیں۔ لیکن اس کے ثمرات سے وہ سارے تخلیق کار جہاں کل محروم تھے وہ آج بھی محروم ہیں۔
آج سرمایہ داروں کی مختلف کارپوریشنوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری ہے یعنی سرمایہ داروں کا اتحاد کل کے مقابلے میں اور مضبوط اور پائیدار ہوا ہے جبکہ فن اور محنت کو سرمایہ داروں نے اور بھی برے طریقے سے تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔
یعنی اب دنیا روز بہ روز نت نئے سانچوں میں ڈھلتی جارہی ہے۔ نئی جہتیں بنتی جا رہی ہیں جو دراصل اس عہد کی ضرورت ہیں۔ لیکن اس کا تعلق محض عام سطح تک محدود نہیں ہونا چاہیےتھا۔
جب نئی ایجادات ہوتی ہیں تو آپ کے خیال، نظریات سے لے کر روزمرہ کا ہر عمل بدل جاتا ہے۔
جس طرح کل تک موبائل فون نہیں تھا تو اس کی ضرورت بھی نا تھی۔ لیکن اب یہ موبائل فون ہر شخص کی ضرورت بن چکا ہے۔ اب جو سماج اس نئے عمل سے جُڑ جاتے ہیں پرانی روایات کو بدل کر نئی روایات قائم کرتے ہیں اور وہ زمانے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ لیکن جو اُنہی (پرانی و پسماندہ) روایات کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں وہ پھر ہمارے جیسے تیسری دنیا کے سیاہ فام بن کر رہ جاتے ہیں۔
ہر نیا جذبہ، احساس، خیال یا تجربہ کسی نئی ہئیت اور نئے سانچے کا مطالبہ کرتا ہے۔
فن اپنی فطرت میں ایک اختراع ہے ایک بڑا فنکار اس لیے بھی بڑا ہوتا ہے کہ اس نے کس قدر روایت شکنی کی۔ وازکیز اسے صحیح معنوں میں انقلابی تصور کرتا ہے جو شکست و ریخت سے گزر کر نئے عہد کی بنیاد ڈالتا ہے۔ کیونکہ وہ نفی سے گزرتا ہے۔ لیکن یہ نفی محض نفی یا دوسرے کروں کی طرح قطعی یا انتہا پسند نفی نہیں بلکہ اپنی جدلیاتی حس میں وہ ماضی کی قابل قدر اشیاء، اقدار اور تصورات کو رچائے بسائے رہتی ہے۔
لہٰذا جہاں تحقیقات و تخلیقات بدلتی ہیں یقیناً وہاں سماجی شعور دینے اور ایک نئی تبدیلی لانے کے طریقہ کار بھی بدلتے ہیں۔
کچھ بنیادی چیزوں کے سِوا گزشتہ ایک صدی میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اس صدی کے پچاس سال تک کی عمر پانے والے لوگ دراصل دُنیا کی تاریخ میں تیزی سے تحقیقات اور تخلیقات کی اس نئی صدی کے لوگ ہیں جن کی زندگی میں انسانی شعور نے وہ وہ کارگزاریاں کر دِکھائیں جو اس سے پہلے کے انسان کے تصور میں بھی نا تھیں!
ایک تخلیق کار چاہیے وہ کسی مادی چیز کا خالقِ ہو یا ادب کا، ہر فنکار حُسن کے اُصولوں کے تحت بشری جوہر کا اظہار کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اپنے وجود کی توثیق بھی اس کی داخلی ضرورت ہے۔ فنکار کا عمل انسانی محنت کے جوہر کی توسیع اور اسے بیش بہا بناتا ہے، لیکن یہ سب ایک آزاد فضاء میں ہی ممکن ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج میں باوجود تخلیقات کے پھر بھی فنکار کو وہ تخلیقی آزادی میسر نہیں آتی جو ایک آزاد فضاء میں ممکن ہے۔
سرمایہ داری نے فنکار کو کاروباری چیز بنا کہ رکھ دیا ہے۔ مارکس کے فلسفہ بیگانگی کا بنیادی فلسفہ یہی تھا۔ یہیں سے فنکار اور تخلیقی شہ پارے کے درمیان بے تعلقی کا رشتہ پروان چڑھتا ہے اور فن اپنے جوہر سے محروم ہو کر کنگال ہو جاتا ہے۔
وازکیز واضح کرتا ہے کہ ایک زوال پرست معاشرہ زوال پرست فن کو جنم دیتا ہے اور اس فنّی زوال کا سبب تخلیقی قوتوں کی کمزوری اور بے مائیگی ہوتی ہے۔ فنّی زوال پرستی ہر دو سماجی نظاموں میں نمو پا سکتی ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج جہاں فن کو منڈی کی اشیاء بنا کر پیش کرتا ہے وہیں بالکل اسی طرح ایک سوشلسٹ معاشرہ بھی اگر ذہنی تخلیقی قوتوں سے عاری ہے تو اس میں اختراع کی صلاحیت کم سے کم ہو کر غیر متحرک اور بے کار ہو جاتی ہے۔
ترقی پسندی کا ہر گز یہ معیار نہیں کہ وہ جدّت طراز نہ ہو اور اس کی تخلیق کمالِ فن کی جہتوں پر پورا نا اُترے۔ وازکیز کہتا ہے کہ؛
ایک سچا فن کبھی زوال پرست نہیں ہوتا!
وازکیز ایک روشن خیال مارکسی ہے وہ ہر اُس نظریے کو رد کرتا ہے جس کے اندر صداقت نہ ہو۔ اس نے تفصیل کے ساتھ فن جمالیات حقیقت اور نظریے پر بحث کر کے مارکسی جمالیات کو درست سمت دکھانے کی کوشش کی ہے۔
جہاں تک یورپ کے ادب، فن اور تخلیق و تحقیق میں جدیدیت کا تعلق ہے تو وہاں ایلیٹ اور یٹیس جیسے لوگ گزرے ہیں جن کے سامنے یورپ کا ایک ٹوٹا اور بکھرا معاشرہ تھا اور جارج ایلیٹ کی ہیرونیں مغروبی ادب میں اس بکھرے ہوئے معاشرے کی اولین تصویریں تھیں۔ جہاں عام آدمی سے لے کر وکٹوریہ تک زندگی کی نئی کشا کش سے دوچار تھیں۔
اس صنعتی انقلاب سے خاندان اور معاشرہ دونوں بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ جہاں یہ انقلاب نفسیاتی طور پر ہلچل مچا رہا تھا وہیں اس صنعتی انقلاب سے وہاں کے لوگوں کے پیداواری رشتے بھی بدل رہیے تھے۔ اسی کے ساتھ ساتھ شعوری طور پر ڈارون کے نظریات، فرائڈ کی نفسیات اور مارکس کی جدلیات نے جہاں تاریخ کی درست تشریح کی وہیں خاندانوں کے دلگداز رشتوں سمیت عقائد و نظریات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ ایسے حالات میں وکٹوریہ خود زبردست کشمکش میں محسوس کر رہی تھی۔
آکسفورڈ میں ٹامس ہکسلے اور پشیب دلبر فورس کے درمیان تاریخ، فلسفہ، دینیات، سماجیات اور معاشرتی علوم پر کئی معرکتہ آراء مناظرے ہوئے جن کی تشہیر عام تھی۔ لیکن یورپ کے اس ٹُوٹے اور بکھرے معاشرے کے مقابلے میں ہمارے ہاں غالبؔ کے آگے پیچھے کعبہ اور کلیساء ہی تھے۔
یورپ میں جہاں ایک طرف یوپ کی کٹر مذہب پرستی اور پرانی اقدار ٹوٹ رہی تھی اور نیا سماج نئی سوچ اور فکر آرہی تھی وہیں افلاس کی میگی کو ایک طرف خون کے رشتے آواز دے رہے تھے تو دوسری طرف اَنا کے رشتے ہلا رہے تھے۔ دل ایک طرف دھڑکتا تھا تو ذہن دوسری طرف جا رہا تھا۔
اس عہد میں جب یورپ میں یہ ساری ہلچل تھی تو ہمارے ہاں قرۃالعین حیدر کا گوتم مجلسی زندگی کو چھوڑ کر جنگلوں میں یوگ لینے جا رہا تھا۔
کیونکہ وہ ایک راجہ ہے جس کا نہ کچھ بدلا اور نا ہی ٹوٹا، نہ اُسے گھر میں کسی کے افلاس زدہ ہونے کا خوف ہے اور نہ ہی معاشی معاملات اس کے پاؤں کی زنجیریں ہیں۔ لیکن یورپ کے لوگ اس صنعتی اور شعوری انقلاب کے بعد کہیں غاروں اور گپھاؤں میں چھپ بھی نہیں سکتے تھے۔ وہاں بھی انٹیلیجنس کے لوگ انہیں ڈھونڈکر نکال سکتے تھے۔ اسی طرح عبداللہ حسین کی اُداس نسلیں اور انتظار حسین کا شہرِ افسوس اس ضمن میں نمایاں تحریریں ہیں۔
مارکیز نے بھی تاریخ کے حوالے کو پرکھنے کی کوشش کی ہے اس نے میکنڈو کی نو آبادی کو اس کی بنیاد بنایا۔ یہ دراصل سو برسوں کی تاریخ ہے جو اس کی کہانی کی بنیاد ہے۔ جہاں ایلیٹ ایک طرف تاریخ پر الزام دھرتا ہے وہیں مارکیز ان سارے حالات کو استحصالی قوتوں کے ہاتھوں مخصوص مفادات کے ہتھیار کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔
مارکیز کے مطابق انقلاب کی راہ میں انفرادی کوششیں جذباتی و ہیجانی اور انانیت پرور ہیں۔
جن کا انجام تذبذب بَد دِلی اور ایک ایسی مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے جو خود غرضی اور ذاتی تسکین تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ انقلابی ہیرو خود اپنے خول میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں اور اس خول کو پھر مسلسل تنگ کرتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس خاندان کا آخری جوڑا بے لباس ہو کر دادِ ہوس دیتے ہوئے ختم ہو جاتا ہے۔ نسل با نسل انہیں تنبیہ کی جاتی ہے کہ خاندان کے اختلاف کے نتیجے میں سوروں کی دُموں والے بچے پیدا ہونگے۔ ایک خاندان کی عورتیں دوسرے خاندان سے رشتے نہیں کر سکتیں۔ یہ دراصل ایک ایسی تنہائی تھی جو نا صرف زندگیوں کو متعفن کرتی ہے بلکہ رشتوں کو بھی بے حرمت کر دیتی ہے۔کیونکہ رگوں میں ایک ہی جیسا خون چلنے سے ایک وقت میں وہ خون بھی زہر بن جاتا ہے۔
لہٰذا مارکسی جمالیات میں محض جدیدیت کی ہی بات کرنا مارکس کے نظریات کو مختصر کرنے کے مترادف ہے۔
مارکس کے ہاں جدلیاتی حس میں وہ ماضی کی قابل قدر اشیا ء،اقدار اور تصورات بھی رچائے بسائے ہوئے ہیں جو واقعی قابل ستائش ہیں مارکس کے تصور میں تاریخیت کی چھاپ بھی بہت گہری ہے مارکس فن کو اتفاقی انسانی عمل قرار نہیں دیتا بلکہ مارکس کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ
آدمی کو انسان بنانے کے عمل میں جمالیات اور فن ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
مارکس سے قبل مثالیت کی ایک دھند چھائی ہوئی تھی مارکس نے واضح طور پر ایک ٹھوس حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے مارکس نے یہ بات بھی واضح کی کہ حسن کا وجود انسانیت کے باہر نہیں وہ فطری انواع میں بھی ہے اور فنی معروضات میں بھی جسے انسان ہی تخلیق کرتا ہے۔
لہٰذا جب ہم کسی ادبی فن پارے کو تنقیدی نقطۂ نظر سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ تنقید نگار کو تنقیدی قدروں کا بھی علم ہو۔ ہر چند کہ پسند یا نا پسند ہر ایک کی ہوتی ہے لیکن پسند نا پسند کا انحصار بھی تنقیدی علمی اقدار پر قائم ہونا بہت اہم ہے۔
مارکس کے ہاں سب سے پہلی فکر ہمیں یہ ملتی ہے کہ ادب و فن اور جمالیاتی تصور کی قدریں زندگی سے ملتی ہیں۔ کیا ادب فن کی وہی قدریں ہیں جو زندگی کی قدریں ہیں یا ادب فن کی اقدار زندگی سے مختلف ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یہ طے کرنا کہ ادب و فن اور اس سے وابستہ جمالیات زندگی کا ہی ایک عمل ہے یا اس سے ماورا کوئی حقیقت ہے۔
مارکسی فکر سوال کرتی ہے کہ ادب زبان کے پیرائے میں ڈھلا ہوا ایک جمالیاتی اظہار ہے یا پھر ادب یا فن کوئی الہام ہے یا پھر وہ غیر معمولی بصیرت سے زندگی کے رازوں کو فاش کرتا ہے یا ایک آئینہ ہے جو زندگی کے تاریک پہلو کو روشن کرتا ہے یا کہ کوئی ایسا کیمیائی عمل ہے کہ زندگی کی اجزائے ترکیبی سے نئی دنیائیں تخلیق کرتا ہے یا پھر کوئی آہنگ ہے جو مختلف اوزاروں سے مل کر ایک نغمہ بنتا ہے یا فن ایک ایسی نظر ہے جو جوہر نظارہ کو حسین بنا دیتی ہے؟ مارکسی نقطۂ نظر یہ ہے کہ فن اور جمالیات کا زندگی سے کوئی تعلق ضرور ہے وہ چاہیے منفی ہو یا مثبت۔
لہٰذا مارکسی جمالیات اس کرۂ ارض میں زندگی کی حسین حقیقتوں کی تلاش کرتی ہے وہ حسین حقیقتیں جن سے سماج کا کوئی رنگ بدنما نہ ہو وہ ظاہری حقیقتوں سے لے کر فکر خیال تک!
مارکسی نظریات ہر جوہر نظارہ تک زندگی کے سب رنگوں کو حسن خیال سے معیّن اور لبریز کرتے ہیں جس طرح کائنات میں ہر ایک چیز اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے بالکل اسی طرح ہر فرد اہم ہے جسے طبقاتی تفریق نے بے رنگ بنا رکھا ہے۔
مارکس انقلاب کو اس جمالیاتی گلشن کی وہ تیاری اور کھیتی قرار دیتا ہے جو بے شمار رنگوں کے پھولوں کی بوائی کرتا ہے۔ ہاں اس بوائی کے دوران کُھردری زمین کو ذرخیز بنانے میں کچھ مشکلات ضرور آتی ہیں لیکن انقلاب خوف و دہشت کا نام نہیں انسان کے حسین خوابوں کی وہ تیاری ہے جسے تصورات میں جنت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ مارکسی نظریات و جمالیات اسی دنیا کو جنت بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 4
-
riaz ahmed says:
موضوع اہم ہے اور بروقت بھی۔ البتہ بہت ہی مشکل الفاظ کا چناو شاید ادیبوں کو تو متاثر کرے لیکن عام قاری اور خاص کر طلبہ جو انگریزی میڈیم کی وجہ سے اردو کم پڑھتے ہیں ان کے لیے یہ تحریر مشکل ہو گی۔ مارکس ازم مبہم نہیں رہنا چاہئیے چاہے اس کے لیے مفہوم کی قربانی بھی نہ دینی پڑے۔
-
للکار نیوز says:
جناب سب سے پہلے تو مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ، دوسرا یہ کہ موضوع کو سہل زبان میں لکھنے کا معاملہ ہے تو ہر لکھاری کا اپنا اسلوب ہوتا ہے، اور یقیناً لکھاری کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی تحریر سے مستفید ہو سکیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہر ممکن حد تک سادہ زبان استعمال ہو، مگر کچھ موضوعات کا تقاضا مختلف ہوتا ہے اور پھر اردو میں موزوں الفاظ کے ذخیرے کا مسئلہ بھی کئی بار در آتا ہے۔
-
-
Sarah Ahmed says:
خوبصورت تحریر۔ مجھے ایڈولفو سانکیز وازکیز کے خیالات سے متعارف کرانے کا بہت شکریہ۔ ان کے بارے میں مزید پڑھنا چاہوں گی۔ آپ کی اگلی تحریر کا انتظار رہے گا۔
-
للکار نیوز says:
مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔ اُمید ہے کہ جلد ایڈولفو سانکیز وازکیز پر ایک جامع مضمون قارئین کے پیشِ خدمت ہوگا۔
-
موضوع اہم ہے اور بروقت بھی۔ البتہ بہت ہی مشکل الفاظ کا چناو شاید ادیبوں کو تو متاثر کرے لیکن عام قاری اور خاص کر طلبہ جو انگریزی میڈیم کی وجہ سے اردو کم پڑھتے ہیں ان کے لیے یہ تحریر مشکل ہو گی۔ مارکس ازم مبہم نہیں رہنا چاہئیے چاہے اس کے لیے مفہوم کی قربانی بھی نہ دینی پڑے۔
جناب سب سے پہلے تو مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ، دوسرا یہ کہ موضوع کو سہل زبان میں لکھنے کا معاملہ ہے تو ہر لکھاری کا اپنا اسلوب ہوتا ہے، اور یقیناً لکھاری کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی تحریر سے مستفید ہو سکیں۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہر ممکن حد تک سادہ زبان استعمال ہو، مگر کچھ موضوعات کا تقاضا مختلف ہوتا ہے اور پھر اردو میں موزوں الفاظ کے ذخیرے کا مسئلہ بھی کئی بار در آتا ہے۔
خوبصورت تحریر۔ مجھے ایڈولفو سانکیز وازکیز کے خیالات سے متعارف کرانے کا بہت شکریہ۔ ان کے بارے میں مزید پڑھنا چاہوں گی۔ آپ کی اگلی تحریر کا انتظار رہے گا۔
مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔ اُمید ہے کہ جلد ایڈولفو سانکیز وازکیز پر ایک جامع مضمون قارئین کے پیشِ خدمت ہوگا۔