آؤ مل کر بلوچستان کے حالات/سوالات پر غور کریں۔ جب ہم آؤ مل کر کہتے ہیں تو ہم ان دوستوں کو دعوت دے رہے ہیں، جو قومی سوال کو سائنسی بنیادوں پر recognise کرتے ہوئے محنت کش عوام کی سیاست کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں۔ سماجی وسیاسی سائنس کا مسلمہ اُصول ہے کہ سوشیواکنامک تبدیلیوں کے ساتھ قومی سوال کی connotation بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے لئے ہم تاریخ میں نہیں جائیں گے۔ آپ خیبر پختون خوا میں دیکھیں جیسے تیسے بھی پیسہ آیا، چاہے اس سے صارف سوسائٹی ہی بنی مڈل کلاس کی نظام میں کھپت ہوگئی۔ قوم پرست ہاتھ جھاڑ کر گھروں کو لوٹ گئے۔ قوم پرست قوتوں اور ہمارے درمیان چونکہ فاصلے بہت ہیں۔ ہم دو مختلف pedestals پر کھڑے ہیں۔ ہاں ہمارے، ان کے درمیان کئی ایک مشترکہ نکات بھی ہیں۔ ہم ان کے ساتھ کم از کم یا زیادہ سے زیادہ نکات پر یونائٹڈ فرنٹ کی سیاست کر سکتے ہیں۔ اب آج کے سوال کی طرف آتے ہیں۔
قیام پاکستان کے پہلے دن سے بلوچستان ہر طرح کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ بلوچ عوام کے لوح ازل پر چرواہا ہونا لکھ دیا گیا تھا۔ بلوچستان کے عوام کو باعزت روٹی روزگار، تعلیم، صحت و زندگی کے دیگر چھوٹے سے چھوٹے لوازمات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ تمام تر وسائل کے باوجود اتنی کسمپرسی کی زندگی کیوں؟
بلوچ عوام گذشتہ 77 سال سے سراپا احتجاج ہیں۔ کبھی اسلام آباد/مرکز کی طرف سے عدم اونرشپ، خاص طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کے عوام پر ہر وقت جنگ مسلط کیے رکھتی ہے۔ مسنگ پرسنز کے لواحقین در بدر رُل رہے ہیں کوئی شنوائی نہیں۔ دوسری چھوٹی قوموں کے ساتھ ساتھ بلوچ بھی پنجاب پر ان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ خیر اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد وسائل کی صورت حال بدلی ہے۔ ہم بلوچ عوام کے تمام مطالبات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم قوموں کے حق علیحدگی تک کو تسلیم کرنے والے لوگوں میں سے ہیں۔ ہم اپنی سیاسی نظریاتی پوزیشن واضع کرتے ہوئے آگے بڑھ کر کچھ اور باتیں کرنا چاہتے ہیں۔
بلوچ سرداروں کو تو چھوڑیئے۔ ہم بلوچستان کی مڈل کلاس لیڈرشپ، طالب علم تنظیموں جب کبھی بی ایس او وغیرہ موجود تھیں۔ وہ وقت ہمارا بھی طالب علمی کا تھا۔ ہم بھی بائیں بازو کی سٹوڈنٹس سیاست میں ملکی سطح پر خاصے سرگرم تھے۔ سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکریٹری تھے۔ تب بھی کبھی ہم نے بلوچ مڈل کلاس لیڈرشپ، طلباء تنظیموں کی طرف سے قبائلی نظام کے خاتمہ کا کوئی نعرہ نہیں سنا تھا۔ اس وقت ہم ترقی پسند بلوچ دانشوروں، لکھاریوں یا دیگر رائے عامہ بنانے والوں، عام پڑھے لکھے نوجوانوں سے مخاطب ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ ان تمام حلقوں کی طرف سے جس طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ، اسلام آباد/مرکز اور پنجاب پر دو ٹوک انداز میں سوال اٹھاتے ہیں۔ کیوں کبھی بلوچستان میں قبائلی نظام، برطانوی سامراج سے لے کر امریکی سامراج تک کے تاریخی کردار، ان کی پیدا کردہ خباثتیں، قبائلی نظام کی سکل میں باقیات اور اب تک جاری سامراجی لوٹ کھسوٹ پر سوال نہیں اٹھایا جاتا؟۔
بلوچ مڈل کلاس جتنی بھی ہے، کیا ان کے نزدیک بلوچ سماج میں قبائلیت، سامراجی مداخلتوں اور لوٹ کھسوٹ سے پاک ہے یا وہ انہیں اپنی غربت و افلاس و دیگر مسائل کے سبب کے طور پر لیتے ہی نہیں ؟
ہمارے نزدیک قبائلی سرداروں، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سامراجی ناپاک گٹھ جوڑ( Nexus) نے بلوچ نوجوانوں کا مسلح جدوجہد کی طرف شعوری طور پر رُخ موڑا ہوا ہے۔ تاکہ قبائلی نظام و دیگر بیان کردہ خباثتوں کے خاتمہ کے لئے سیاسی جمہوری راستہ نہ اپنا لیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے لئے محدود پیمانے پر مسلح جدوجہد کو کنٹرول کرنے کے لئے کارروائیاں، خواہ اس کے لئے نوجوانوں کا لاپتہ کرنا یا دیگر اقدامات اٹھانا ان کے لئے کوئی بڑا درد سر نہیں ہے۔
ریاست کے نزدیک جیسے کل برطانوی سامراج کے لئے اس خطہ بشمول فاٹا میں قبائلی نظام کو قائم رکھنا ضروری تھا، آج بھی امریکی سامراج اور ہماری ریاست کے لئے جیو پالیٹکس کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمارے جیسی منظم طاقتور مسلح ریاست کے لئے محدود پیمانے پر مسلح insurgency کو کنٹرول کرنا کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہے۔ بس ان کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ یہ جدوجہد کوئی سیاسی، فکری تحریکوں کاراستہ نہ اختیار کر لے۔ محدود کا لفظ ہم خاص طور پر بلوچستان کی محدود آبادی، وسیع رقبہ، چھوٹی سی مڈل کلاس، جن میں احساس بیگانگی پایا جاتا ہے، کے پس منظر میں استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سامراج کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ سیاسی و سماجی حقوق کی تحریکوں کو سیاسی راستہ سے بھٹکا کر militancy کی طرف موڑ دینا۔
ہم اپنی تحریروں میں جس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری سمجھتے ہیں، وہ متعلقہ خطہ کی سوشیواکنامک حالات کی جانکاری اور اسے بنیاد بنایا جانا اولیت رکھتا ہے۔ بلوچستان، سندھ اور دیگر کے قومی سوال کے Resolution کی جدوجہد کے ہم شانہ بشانہ ہیں ۔ اس وقت موضوع بلوچستان ہے ہمارے نزدیک بلوچ عوام کی غربت و افلاس ، تعلیم ،صحت و دیگر ضروریات زندگی اور آسائشات جو کہ ان کا بنیادی حق ہے ۔ اس کے راستے کی رُکاوٹ، سب سے بڑا عذاب قبائلی نظام ہے ۔
قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں سردار، جاگیردار ہی نظام کا مرکز و محور ہوتے ہیں اور یہی سب سےبڑے مقامی beneficiary بھی ہوتے ہیں۔
ایسے قبائلی جاگیردارانہ نظام میں کوئی تھوڑی بہت مڈل کلاس پیدا ہو بھی جا ئے ، تو سسٹم میں ان کھپت کی جگہ ( space ) ہی نہیں ہوتی ۔ جگہ نہ ہونے کے باعث اس مڈل کلاس کی اپنے معاشرے سے جڑت نہیں بن پاتی ۔ بدیں وجہ وہ بیگانگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسے معاشروں میں سیاسی جمہوری قوتیں پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں ۔ جو انہیں مین سٹریم کا حصہ بنا پائیں، اور ان کے احساس بیگانگی کے اسباب کی نشاندہی کر سکیں۔ اگر چند ایسے grains پائے بھی جاتے ہوں تو وہ اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں کا رخ بدلنے کی سکت نہیں رکھتے ہوتے۔
یہ بیگانگی مڈل کلاس کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ تب اسٹیبلشمنٹ اپنی اتحادی مقامی اور سامراجی قوتوں کے ساتھ نظام بچانے میدان میں کود پڑتی ہیں۔ نظام کیا ہے وہی قبائلیت اور جاگیرداری ۔ بے شک ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں اسٹیبلشمنٹ وسائل پیداوار پر قابض ہونے کی بنا پر خود بھی نظام کی ایک بڑی سٹیک ہولڈر کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے ۔ ایسے نظام کو بچانا سب مفاد پرست قوتوں کا مشترکہ فریضہ بن جاتا ہے ۔ ہم ہمیشہ لکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی جاگیردارانہ شال اوڑھ لی ہے۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
آؤ مل کر بلوچستان کے حالات/سوالات پر غور کریں۔ جب ہم آؤ مل کر کہتے ہیں تو ہم ان دوستوں کو دعوت دے رہے ہیں، جو قومی سوال کو سائنسی بنیادوں پر recognise کرتے ہوئے محنت کش عوام کی سیاست کرنا چاہتے ہیں یا کر رہے ہیں۔ سماجی وسیاسی سائنس کا مسلمہ اُصول ہے کہ سوشیواکنامک تبدیلیوں کے ساتھ قومی سوال کی connotation بھی تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے لئے ہم تاریخ میں نہیں جائیں گے۔ آپ خیبر پختون خوا میں دیکھیں جیسے تیسے بھی پیسہ آیا، چاہے اس سے صارف سوسائٹی ہی بنی مڈل کلاس کی نظام میں کھپت ہوگئی۔ قوم پرست ہاتھ جھاڑ کر گھروں کو لوٹ گئے۔ قوم پرست قوتوں اور ہمارے درمیان چونکہ فاصلے بہت ہیں۔ ہم دو مختلف pedestals پر کھڑے ہیں۔ ہاں ہمارے، ان کے درمیان کئی ایک مشترکہ نکات بھی ہیں۔ ہم ان کے ساتھ کم از کم یا زیادہ سے زیادہ نکات پر یونائٹڈ فرنٹ کی سیاست کر سکتے ہیں۔ اب آج کے سوال کی طرف آتے ہیں۔
قیام پاکستان کے پہلے دن سے بلوچستان ہر طرح کے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ بلوچ عوام کے لوح ازل پر چرواہا ہونا لکھ دیا گیا تھا۔ بلوچستان کے عوام کو باعزت روٹی روزگار، تعلیم، صحت و زندگی کے دیگر چھوٹے سے چھوٹے لوازمات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ تمام تر وسائل کے باوجود اتنی کسمپرسی کی زندگی کیوں؟
بلوچ عوام گذشتہ 77 سال سے سراپا احتجاج ہیں۔ کبھی اسلام آباد/مرکز کی طرف سے عدم اونرشپ، خاص طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ بلوچستان کے عوام پر ہر وقت جنگ مسلط کیے رکھتی ہے۔ مسنگ پرسنز کے لواحقین در بدر رُل رہے ہیں کوئی شنوائی نہیں۔ دوسری چھوٹی قوموں کے ساتھ ساتھ بلوچ بھی پنجاب پر ان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ خیر اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد وسائل کی صورت حال بدلی ہے۔ ہم بلوچ عوام کے تمام مطالبات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم قوموں کے حق علیحدگی تک کو تسلیم کرنے والے لوگوں میں سے ہیں۔ ہم اپنی سیاسی نظریاتی پوزیشن واضع کرتے ہوئے آگے بڑھ کر کچھ اور باتیں کرنا چاہتے ہیں۔
بلوچ سرداروں کو تو چھوڑیئے۔ ہم بلوچستان کی مڈل کلاس لیڈرشپ، طالب علم تنظیموں جب کبھی بی ایس او وغیرہ موجود تھیں۔ وہ وقت ہمارا بھی طالب علمی کا تھا۔ ہم بھی بائیں بازو کی سٹوڈنٹس سیاست میں ملکی سطح پر خاصے سرگرم تھے۔ سوشلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے جنرل سیکریٹری تھے۔ تب بھی کبھی ہم نے بلوچ مڈل کلاس لیڈرشپ، طلباء تنظیموں کی طرف سے قبائلی نظام کے خاتمہ کا کوئی نعرہ نہیں سنا تھا۔ اس وقت ہم ترقی پسند بلوچ دانشوروں، لکھاریوں یا دیگر رائے عامہ بنانے والوں، عام پڑھے لکھے نوجوانوں سے مخاطب ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ ان تمام حلقوں کی طرف سے جس طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ، اسلام آباد/مرکز اور پنجاب پر دو ٹوک انداز میں سوال اٹھاتے ہیں۔ کیوں کبھی بلوچستان میں قبائلی نظام، برطانوی سامراج سے لے کر امریکی سامراج تک کے تاریخی کردار، ان کی پیدا کردہ خباثتیں، قبائلی نظام کی سکل میں باقیات اور اب تک جاری سامراجی لوٹ کھسوٹ پر سوال نہیں اٹھایا جاتا؟۔
بلوچ مڈل کلاس جتنی بھی ہے، کیا ان کے نزدیک بلوچ سماج میں قبائلیت، سامراجی مداخلتوں اور لوٹ کھسوٹ سے پاک ہے یا وہ انہیں اپنی غربت و افلاس و دیگر مسائل کے سبب کے طور پر لیتے ہی نہیں ؟
ہمارے نزدیک قبائلی سرداروں، ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سامراجی ناپاک گٹھ جوڑ( Nexus) نے بلوچ نوجوانوں کا مسلح جدوجہد کی طرف شعوری طور پر رُخ موڑا ہوا ہے۔ تاکہ قبائلی نظام و دیگر بیان کردہ خباثتوں کے خاتمہ کے لئے سیاسی جمہوری راستہ نہ اپنا لیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے لئے محدود پیمانے پر مسلح جدوجہد کو کنٹرول کرنے کے لئے کارروائیاں، خواہ اس کے لئے نوجوانوں کا لاپتہ کرنا یا دیگر اقدامات اٹھانا ان کے لئے کوئی بڑا درد سر نہیں ہے۔
ریاست کے نزدیک جیسے کل برطانوی سامراج کے لئے اس خطہ بشمول فاٹا میں قبائلی نظام کو قائم رکھنا ضروری تھا، آج بھی امریکی سامراج اور ہماری ریاست کے لئے جیو پالیٹکس کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمارے جیسی منظم طاقتور مسلح ریاست کے لئے محدود پیمانے پر مسلح insurgency کو کنٹرول کرنا کوئی مشکل ٹاسک نہیں ہے۔ بس ان کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ یہ جدوجہد کوئی سیاسی، فکری تحریکوں کاراستہ نہ اختیار کر لے۔ محدود کا لفظ ہم خاص طور پر بلوچستان کی محدود آبادی، وسیع رقبہ، چھوٹی سی مڈل کلاس، جن میں احساس بیگانگی پایا جاتا ہے، کے پس منظر میں استعمال کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سامراج کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ سیاسی و سماجی حقوق کی تحریکوں کو سیاسی راستہ سے بھٹکا کر militancy کی طرف موڑ دینا۔
ہم اپنی تحریروں میں جس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری سمجھتے ہیں، وہ متعلقہ خطہ کی سوشیواکنامک حالات کی جانکاری اور اسے بنیاد بنایا جانا اولیت رکھتا ہے۔ بلوچستان، سندھ اور دیگر کے قومی سوال کے Resolution کی جدوجہد کے ہم شانہ بشانہ ہیں ۔ اس وقت موضوع بلوچستان ہے ہمارے نزدیک بلوچ عوام کی غربت و افلاس ، تعلیم ،صحت و دیگر ضروریات زندگی اور آسائشات جو کہ ان کا بنیادی حق ہے ۔ اس کے راستے کی رُکاوٹ، سب سے بڑا عذاب قبائلی نظام ہے ۔
قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں سردار، جاگیردار ہی نظام کا مرکز و محور ہوتے ہیں اور یہی سب سےبڑے مقامی beneficiary بھی ہوتے ہیں۔
ایسے قبائلی جاگیردارانہ نظام میں کوئی تھوڑی بہت مڈل کلاس پیدا ہو بھی جا ئے ، تو سسٹم میں ان کھپت کی جگہ ( space ) ہی نہیں ہوتی ۔ جگہ نہ ہونے کے باعث اس مڈل کلاس کی اپنے معاشرے سے جڑت نہیں بن پاتی ۔ بدیں وجہ وہ بیگانگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایسے معاشروں میں سیاسی جمہوری قوتیں پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں ۔ جو انہیں مین سٹریم کا حصہ بنا پائیں، اور ان کے احساس بیگانگی کے اسباب کی نشاندہی کر سکیں۔ اگر چند ایسے grains پائے بھی جاتے ہوں تو وہ اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں کا رخ بدلنے کی سکت نہیں رکھتے ہوتے۔
یہ بیگانگی مڈل کلاس کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ تب اسٹیبلشمنٹ اپنی اتحادی مقامی اور سامراجی قوتوں کے ساتھ نظام بچانے میدان میں کود پڑتی ہیں۔ نظام کیا ہے وہی قبائلیت اور جاگیرداری ۔ بے شک ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں اسٹیبلشمنٹ وسائل پیداوار پر قابض ہونے کی بنا پر خود بھی نظام کی ایک بڑی سٹیک ہولڈر کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے ۔ ایسے نظام کو بچانا سب مفاد پرست قوتوں کا مشترکہ فریضہ بن جاتا ہے ۔ ہم ہمیشہ لکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی جاگیردارانہ شال اوڑھ لی ہے۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔