وہ بڑی سی عمارت جو ایک بینک کی عمارت ہوتی ہے اس میں چوکیدار ہے، غربت انسان کو کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کر ہی دیتی ہے، میٹرک پاس کر کے اس نے شہر آنے کو ترجیح دی اور اپنے والدین، بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لیے بینک میں نوکری کر لی۔ یہ دوسرا سال تھا، جون کا مہینا اور لاہور کی گرمی وہ بینک کے باہر بیٹھا رہتا۔ بینک کے اندر ائیر کنڈیشنر میں بیٹھے لوگ فائلیں چھانتے، بینک کسٹمر صوفوں پہ بیٹھے ارام سے اخبار کا مطالعہ کرتے یا پھر اپنی کیش بک بھر رہے ہوتے یا چیک لکھ رہے ہوتے۔ وہ اکثر سوچتا ہے کہ میری اور ان کی تعلیم میں زیادہ سے زیادہ چار پانچ سال کا فرق ہو گا لیکن کیا یہ فرق ساری زندگی کا ہے؟ کیا وہ ہمیشہ بینک کے باہر بیٹھا رہے گا؟ وہ سوچتا کہ بینک میں اتنا زیادہ پیسہ ہے لیکن اس کے پاس بمشکل ہزار روپے بھی نہیں ہیں، مہینہ بھر تنخواہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ جہاں بینک والوں نے اتنا خرچا کیا، کیا وہ ایک پنکھا باہر نہیں لگوا سکتے؟ لیکن خیر وہ چوکیدار ہے کوئی اکاؤنٹنٹ نہیں ہے۔ اس کی تقدیر نے اسے باہر بٹھایا ہے۔ اس کا کیا قصور ہے اس میں کہ وہ ایک غریب کے گھر پیدا ہوا؟ وہ کسی امیر کے گھر بھی تو پیدا ہو سکتا تھا نا؟ یہ خدا کی بنائی دنیا میں بھی عجیب قسم کی تفریق ہے، غریب سمجھتا ہے کہ خدا نے اس کو سزا کے طور پر دنیا میں بھیجا ہے جبکہ امیر اس کو انعام سمجھتا ہے۔
اب بھلا اس میں اس غریب کا کیا قصور جو غریب خاندان میں پیدا ہوا ہے اور اس امیر نے کیا ایسے کرم کیے کہ وہ امیر خاندان میں پیدا ہوا ہے؟
خیر چونکہ وہ ایک چوکیدار ہے تو اس کا ان باتوں سے کیا لینا؟ وہ اکثر یہ باتیں سوچ کر ان کو نظر انداز کر دیتا۔
معاشرے میں موجود یہ تفریق اسے اندر سے جلا کر راکھ کر دیتی تھی۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ محلے کے مولانا صاحب اس کو مشیت ایزدی کہتے ہیں، خداوند کی مرضی کہہ کر غربت کو امتحان کہتے ہیں، لیکن یہ جواب اسے مطمئن نہ کر پاتا، وہ اکٹر سوچتا کہ بقول مولانا صاحب خداوند تو انسان سے بہت پیار کرتا ہے، اس کی ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ بھلا کیا ایک ماں اپنے ایک بیٹے کو طرح طرح کی سہولیات اور پیسے دے اور ایک بیٹے کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرے گی کبھی؟ ہر گز نہیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تو پھر خدا کیونکر ایسا کرے گا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ مولوی کو اس کا جواب معلوم ہے ہی نہیں کیونکہ اس کی باتوں میں بے تحاشہ تضاد ہے۔
یہی باتیں سارا دن رات اس کے ذہن میں گردش کرتی رہتی تھیں، وہ کسی مولوی یا بابے کی تلاش میں تھا جو یہ بتا سکے کہ معاشرے کے اندر یہ تفریق کیوں ہے؟ خدا کی بنائی اس سانجھی زمین پر کسی کا حق زیادہ اور کسی کا کم کیوں ہے؟ خدا کے بنائے اس نظام میں اتنی تفاریق کیوں ہیں؟؟ یہ سوالات اسے ہر وقت سوچنے پر مجبور کرتے۔
چانچہ وہ بابوں کی تلاش میں نکل گیا، کوئی تو اسے جواب دے گا، اس نے کتابیں اٹھا کر پڑھنا شروع کیا۔ کتابوں سے بہترین کون اسے جواب دے سکتا تھا، چنانچہ اس نے معاشرے کے اندر ان طبقات اور تفاریق کو پڑھنا تھا۔ اس نے انٹرنیٹ پر کتابوں کی فہرست دیکھی، گوگل کو استعمال کیا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، طبقاتی تقسیم اور اس کی وجوہات پر ایک بابے نے کتاب لکھی ہوئی تھی، بڑے بڑے بال، مونچھیں اور بڑی داڑھی۔ شکل سے کوئی پہنچی ہوئی سرکار لگ رہی تھی۔
اس نے مزید تجسس سے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا یہ تو کوئی گزرے زمانے کا کارل مارکس ہے، اس کو تو آئے ہوئے ڈیڑھ دو صدیاں بیت گئی ہیں۔ مزے کی بات یہ تو کوئی گورا ہے۔ مزید جاننے پر اس کو معلوم ہوا کہ کارل مارکس کی طبقاتی تقسیم پر لکھی گئی تحریریں اور کتابیں اتنی سچ اور مؤثر ثابت ہوئیں ہیں کہ ان کی وجہ سے دو تین ممالک کے محنت کش انقلاب لے کر آئے ہیں۔ اس کی تعلیمات کو آج بھی کروڑوں لوگ مانتے ہیں۔
پہلے تو اسے لگا کہ یہ کارل مارکس کوئی گوروں کا پیغمبر ہو سکتا ہے یا ان کا کوئی بابا۔ جیسے ہمارے ہاں” بابے“ ہیں۔ لیکن یہ بات کچھ اور تھی، کارل مارکس تو ماہر اقتصادیات یا ماہر معاشیات تھا۔
یہ جان کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی، یہی کارل مارکس ہمارے ہندوستان میں ہوتا تو اس کا ایک بڑا سا مزار ہوتا ،جہاں چوبیس گھنٹے لنگر تقسیم ہونا تھا اور مجاور بھنگ پیس کر پی رہے ہوتے۔ عجیب آدمی ہے اس کے تو مجاور چرس اور بھنگ تو پیتے ہی نہیں بلکہ دنیا میں حکومتوں کو چیلنج کرتے پھرتے ہیں، جان ہتھیلی پہ لیے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے طاقتور سامراج اور ان سرمایہ داروں کو آنکھیں دکھا رہے ہوتے ہیں۔ اس نے بہت ڈھونڈا کہ کارل مارکس کا کوئی گدی نشین ہی مل جائے، لیکن اس کو کوئی گدی نشین کیا اس کی اولاد میں بھی کوئی نہ ملا۔ اسے یہ جان کر مزید حیرانی ہوئی۔
اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے، وہ دیر سے اٹھا اور اٹھتے ہی اسے خیال آیا کہ پاکستان میں تو مزدورں کے حقوق کو بلکل ہی نظر انداز کیا جاتا ہے، ہمارے بابے اس پر کیوں نہیں کچھ لکھتے جیسے کارل مارکس نے لکھا ہے؟؟ آخر کیا وجوہات ہیں اس کی کہ یہاں ایسا نہ ہو سکا؟؟
ان سوالوں نے اسے دن بھر الجھائے رکھا۔ اس کا جواب اسے یوں ملا کہ ہم ہندوستان والے عرصے سے محکوم رہے ہیں، ہمارے ذہن ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں۔ یورپ والے کب کے آزاد ہو چکے تھے۔ وہ کب کے حاکم بن چکے تھے۔ جب بھی کوئی قوم حاکم بنتی ہے تو وہاں علمی، سائنسی اور ادبی ترقی ہوتی ہے۔ مسلمان بھی کبھی حاکم تھے اس لیے اس وقت انہوں نے بھی ترقی کی تھی۔
ہم سامراج کے شکنجے میں اس طرح سے قید ہیں کہ ہمیں ہماری غلامی ہی آزادی لگتی ہے، ہم ہر چودہ اگست کو جشن بھی مناتے ہیں۔ ہماری معاشی آزادی پر سو قدغن لگے ہیں، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور باقی ادارے ہمیں آزاد معاشی پالیسی بنانے کا حق ہی نہیں دیتے۔
معاشرے میں ہم کچھ تبدیلی لا ہی نہیں سکتے، مذہبی بنیاد پرست طبقہ ہمارے ہر قدم کی مخالفت کرتا ہے، ہتھیار اور طاقت کے زور پر من چاہے قوانین بنواتا ہے، ہماری پارلیمنٹ تو بس نام کی پارلیمنٹ ہے۔ ساری کی ساری قانون سازی تو سڑکوں پر ہوتی ہے، یا واشنگٹن ڈی سی میں ہوتی ہے۔ آئے روز احتجاجی دھرنے اور توجہ دلاؤ ہڑتالیں صرف ان بہرے گونگے پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کے لیے ہوتی ہیں تاکہ قانون سازی ہو سکے۔
یہ سب باتیں جان کر اسے تقریباً ساری بات سمجھ آنے لگی، وہ جان چکا تھا کہ وہ غریب کیوں ہے؟ اس کے پاس وسائل کم کیوں ہیں؟ اسے سمجھ آچکی تھی کہ وہ بھی ایک بے بس انسان کی طرح زندگی کیوں گزار رہا ہے۔ اسے علم ہو گیا کہ یہاں کارل مارکس کیوں نہیں آیا، یہاں کے لوگ غلامی کی زنجیروں کو کیوں نہیں توڑتے۔ اسے سمجھ آ گیا کہ بینک کے اندر ائیر کنڈیشنر اور باہر پنکھا تک کیوں نہیں لگا ہوا۔ یہ جان کر وہ خیالات کی دنیا میں محنت کشوں کے راہبر کارل مارکس کی تلاش میں نکل پڑا۔
—♦—
اسعد بشیر ، آزاد جموں و کشمیر کے ضلع کوٹلی سے تعلق رکھتے ہیں، آج کل جامعہ کوٹلی آزاد جموں و کشمیر سے بائیو ٹیکنالوجی میں ایم فل کر رہےہیں اوراسی یونیورسٹی میں ہی شعبہ ہیلتھ سائنسز میں بطور وزیٹنگ لیکچرر پڑھا رہے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
وہ بڑی سی عمارت جو ایک بینک کی عمارت ہوتی ہے اس میں چوکیدار ہے، غربت انسان کو کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کر ہی دیتی ہے، میٹرک پاس کر کے اس نے شہر آنے کو ترجیح دی اور اپنے والدین، بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لیے بینک میں نوکری کر لی۔ یہ دوسرا سال تھا، جون کا مہینا اور لاہور کی گرمی وہ بینک کے باہر بیٹھا رہتا۔ بینک کے اندر ائیر کنڈیشنر میں بیٹھے لوگ فائلیں چھانتے، بینک کسٹمر صوفوں پہ بیٹھے ارام سے اخبار کا مطالعہ کرتے یا پھر اپنی کیش بک بھر رہے ہوتے یا چیک لکھ رہے ہوتے۔ وہ اکثر سوچتا ہے کہ میری اور ان کی تعلیم میں زیادہ سے زیادہ چار پانچ سال کا فرق ہو گا لیکن کیا یہ فرق ساری زندگی کا ہے؟ کیا وہ ہمیشہ بینک کے باہر بیٹھا رہے گا؟ وہ سوچتا کہ بینک میں اتنا زیادہ پیسہ ہے لیکن اس کے پاس بمشکل ہزار روپے بھی نہیں ہیں، مہینہ بھر تنخواہ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ جہاں بینک والوں نے اتنا خرچا کیا، کیا وہ ایک پنکھا باہر نہیں لگوا سکتے؟ لیکن خیر وہ چوکیدار ہے کوئی اکاؤنٹنٹ نہیں ہے۔ اس کی تقدیر نے اسے باہر بٹھایا ہے۔ اس کا کیا قصور ہے اس میں کہ وہ ایک غریب کے گھر پیدا ہوا؟ وہ کسی امیر کے گھر بھی تو پیدا ہو سکتا تھا نا؟ یہ خدا کی بنائی دنیا میں بھی عجیب قسم کی تفریق ہے، غریب سمجھتا ہے کہ خدا نے اس کو سزا کے طور پر دنیا میں بھیجا ہے جبکہ امیر اس کو انعام سمجھتا ہے۔
اب بھلا اس میں اس غریب کا کیا قصور جو غریب خاندان میں پیدا ہوا ہے اور اس امیر نے کیا ایسے کرم کیے کہ وہ امیر خاندان میں پیدا ہوا ہے؟
خیر چونکہ وہ ایک چوکیدار ہے تو اس کا ان باتوں سے کیا لینا؟ وہ اکثر یہ باتیں سوچ کر ان کو نظر انداز کر دیتا۔
معاشرے میں موجود یہ تفریق اسے اندر سے جلا کر راکھ کر دیتی تھی۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ محلے کے مولانا صاحب اس کو مشیت ایزدی کہتے ہیں، خداوند کی مرضی کہہ کر غربت کو امتحان کہتے ہیں، لیکن یہ جواب اسے مطمئن نہ کر پاتا، وہ اکٹر سوچتا کہ بقول مولانا صاحب خداوند تو انسان سے بہت پیار کرتا ہے، اس کی ماں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے۔ بھلا کیا ایک ماں اپنے ایک بیٹے کو طرح طرح کی سہولیات اور پیسے دے اور ایک بیٹے کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرے گی کبھی؟ ہر گز نہیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تو پھر خدا کیونکر ایسا کرے گا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ مولوی کو اس کا جواب معلوم ہے ہی نہیں کیونکہ اس کی باتوں میں بے تحاشہ تضاد ہے۔
یہی باتیں سارا دن رات اس کے ذہن میں گردش کرتی رہتی تھیں، وہ کسی مولوی یا بابے کی تلاش میں تھا جو یہ بتا سکے کہ معاشرے کے اندر یہ تفریق کیوں ہے؟ خدا کی بنائی اس سانجھی زمین پر کسی کا حق زیادہ اور کسی کا کم کیوں ہے؟ خدا کے بنائے اس نظام میں اتنی تفاریق کیوں ہیں؟؟ یہ سوالات اسے ہر وقت سوچنے پر مجبور کرتے۔
چانچہ وہ بابوں کی تلاش میں نکل گیا، کوئی تو اسے جواب دے گا، اس نے کتابیں اٹھا کر پڑھنا شروع کیا۔ کتابوں سے بہترین کون اسے جواب دے سکتا تھا، چنانچہ اس نے معاشرے کے اندر ان طبقات اور تفاریق کو پڑھنا تھا۔ اس نے انٹرنیٹ پر کتابوں کی فہرست دیکھی، گوگل کو استعمال کیا لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، طبقاتی تقسیم اور اس کی وجوہات پر ایک بابے نے کتاب لکھی ہوئی تھی، بڑے بڑے بال، مونچھیں اور بڑی داڑھی۔ شکل سے کوئی پہنچی ہوئی سرکار لگ رہی تھی۔
اس نے مزید تجسس سے اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا یہ تو کوئی گزرے زمانے کا کارل مارکس ہے، اس کو تو آئے ہوئے ڈیڑھ دو صدیاں بیت گئی ہیں۔ مزے کی بات یہ تو کوئی گورا ہے۔ مزید جاننے پر اس کو معلوم ہوا کہ کارل مارکس کی طبقاتی تقسیم پر لکھی گئی تحریریں اور کتابیں اتنی سچ اور مؤثر ثابت ہوئیں ہیں کہ ان کی وجہ سے دو تین ممالک کے محنت کش انقلاب لے کر آئے ہیں۔ اس کی تعلیمات کو آج بھی کروڑوں لوگ مانتے ہیں۔
پہلے تو اسے لگا کہ یہ کارل مارکس کوئی گوروں کا پیغمبر ہو سکتا ہے یا ان کا کوئی بابا۔ جیسے ہمارے ہاں” بابے“ ہیں۔ لیکن یہ بات کچھ اور تھی، کارل مارکس تو ماہر اقتصادیات یا ماہر معاشیات تھا۔
یہ جان کر اس کی ہنسی چھوٹ گئی، یہی کارل مارکس ہمارے ہندوستان میں ہوتا تو اس کا ایک بڑا سا مزار ہوتا ،جہاں چوبیس گھنٹے لنگر تقسیم ہونا تھا اور مجاور بھنگ پیس کر پی رہے ہوتے۔ عجیب آدمی ہے اس کے تو مجاور چرس اور بھنگ تو پیتے ہی نہیں بلکہ دنیا میں حکومتوں کو چیلنج کرتے پھرتے ہیں، جان ہتھیلی پہ لیے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کے طاقتور سامراج اور ان سرمایہ داروں کو آنکھیں دکھا رہے ہوتے ہیں۔ اس نے بہت ڈھونڈا کہ کارل مارکس کا کوئی گدی نشین ہی مل جائے، لیکن اس کو کوئی گدی نشین کیا اس کی اولاد میں بھی کوئی نہ ملا۔ اسے یہ جان کر مزید حیرانی ہوئی۔
اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے، وہ دیر سے اٹھا اور اٹھتے ہی اسے خیال آیا کہ پاکستان میں تو مزدورں کے حقوق کو بلکل ہی نظر انداز کیا جاتا ہے، ہمارے بابے اس پر کیوں نہیں کچھ لکھتے جیسے کارل مارکس نے لکھا ہے؟؟ آخر کیا وجوہات ہیں اس کی کہ یہاں ایسا نہ ہو سکا؟؟
ان سوالوں نے اسے دن بھر الجھائے رکھا۔ اس کا جواب اسے یوں ملا کہ ہم ہندوستان والے عرصے سے محکوم رہے ہیں، ہمارے ذہن ابھی تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں۔ یورپ والے کب کے آزاد ہو چکے تھے۔ وہ کب کے حاکم بن چکے تھے۔ جب بھی کوئی قوم حاکم بنتی ہے تو وہاں علمی، سائنسی اور ادبی ترقی ہوتی ہے۔ مسلمان بھی کبھی حاکم تھے اس لیے اس وقت انہوں نے بھی ترقی کی تھی۔
ہم سامراج کے شکنجے میں اس طرح سے قید ہیں کہ ہمیں ہماری غلامی ہی آزادی لگتی ہے، ہم ہر چودہ اگست کو جشن بھی مناتے ہیں۔ ہماری معاشی آزادی پر سو قدغن لگے ہیں، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور باقی ادارے ہمیں آزاد معاشی پالیسی بنانے کا حق ہی نہیں دیتے۔
معاشرے میں ہم کچھ تبدیلی لا ہی نہیں سکتے، مذہبی بنیاد پرست طبقہ ہمارے ہر قدم کی مخالفت کرتا ہے، ہتھیار اور طاقت کے زور پر من چاہے قوانین بنواتا ہے، ہماری پارلیمنٹ تو بس نام کی پارلیمنٹ ہے۔ ساری کی ساری قانون سازی تو سڑکوں پر ہوتی ہے، یا واشنگٹن ڈی سی میں ہوتی ہے۔ آئے روز احتجاجی دھرنے اور توجہ دلاؤ ہڑتالیں صرف ان بہرے گونگے پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کے لیے ہوتی ہیں تاکہ قانون سازی ہو سکے۔
یہ سب باتیں جان کر اسے تقریباً ساری بات سمجھ آنے لگی، وہ جان چکا تھا کہ وہ غریب کیوں ہے؟ اس کے پاس وسائل کم کیوں ہیں؟ اسے سمجھ آچکی تھی کہ وہ بھی ایک بے بس انسان کی طرح زندگی کیوں گزار رہا ہے۔ اسے علم ہو گیا کہ یہاں کارل مارکس کیوں نہیں آیا، یہاں کے لوگ غلامی کی زنجیروں کو کیوں نہیں توڑتے۔ اسے سمجھ آ گیا کہ بینک کے اندر ائیر کنڈیشنر اور باہر پنکھا تک کیوں نہیں لگا ہوا۔ یہ جان کر وہ خیالات کی دنیا میں محنت کشوں کے راہبر کارل مارکس کی تلاش میں نکل پڑا۔
—♦—
اسعد بشیر ، آزاد جموں و کشمیر کے ضلع کوٹلی سے تعلق رکھتے ہیں، آج کل جامعہ کوٹلی آزاد جموں و کشمیر سے بائیو ٹیکنالوجی میں ایم فل کر رہےہیں اوراسی یونیورسٹی میں ہی شعبہ ہیلتھ سائنسز میں بطور وزیٹنگ لیکچرر پڑھا رہے ہیں۔