آمدنی کے وسیلے اور مالی بحران
عرب جاگیردار زمینوں کے مالک نہیں تھے۔ وہ خراج وصول کرتے تھے اور حکومت کو اس خراج میں سے کچھ نہیں دیتے تھے۔ یہ نظام ایک عبوری دور کا نظام تھا جو جلدی ہی اقتصادی مشکلات کے چنگل میں پھنس گیا۔ کیونکہ اس دور میں عربوں اور ان کی حکومت کی آمدنی کے وسیلے محدود تھے۔
آمدنی کا ایک وسیلہ مال ِغنیمت تھا۔ دشمنوں کا تمام مال و متاع حتیٰ کہ وہ خود، ان کی عورتیں اور فوجی سپاہی سب مال غنیمت تھے۔ اس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے چار حصے مال غنیمت ان مجاہدوں میں تقسیم کیا جاتا تھا جنہوں نے فتح حاصل کرکے سب مال و متاع لوٹا ہو اور باقی ایک حصہ قومی خزانے یعنی عملی طور پر فرمانروا کو بھیجا جاتا تھا۔ حضرت عثمان ؓ کے بعد فتوحات کا سلسلہ رُک جانے سے عربوں اور ان کی حکومت دونوں کی اس وسیلے سے آمدنی گھٹنی شروع ہوئی۔ منڈیوں میں غلاموں اور کنیزوں کی آمد اور خرید و فروخت بھی رُک گئی اور اس سے تجارتی بحران پیدا ہو گیا۔
دوسرا وسیلہ خراج تھا جو مسلم اور غیر مسلم سب کاشکاروں سے حکومت وصول کرتی تھی حضرت عثمان ؓ کے عہد سے عربوں نے بہت بڑے پیمانے پر عرب کے ریگستان سے نکل کر عراق، ایران، شام، فلسطین اور مصر میں آباد ہونا شروع کیا اور بنو اُمیّہ نے خلافت کے دوسرے دعویداروں یعنی اوّل حضرت علیؑ کے فرزندوں اور پھر حضرت زبیرؓ کے فرزند عبد اللہؓ کے مقابلے میں عربوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرکے انہیں شکست دینے کےلئے لاتعداد قبائلی سرداروں اور کئی ایک صحابیوں کو جاگیریں دے کر خراج وصول کرنے کے حق دے دیئے، جس سے اس وسیلے سے حکومت کی آمدنی بھی رفتہ رفتہ گر گئی۔
تیسرا وسیلہ جزیہ کے نام سے وہ سرکاری ٹیکس تھا جو غیر مسلموں سے ان کے جان و مال کی حفاظت کرنے کے صلہ میں وصول کیا جاتا تھا۔ کچھ تبلیغ سے، کچھ جزیہ کی ادائیگی سے معافی حاصل کرنے کی غرض سے اور کچھ وہ حقوق و مراعات حاصل کرنے کےلئے جو مسلمانوں کو حاصل تھے، جب غیر مسلم بہت بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنے لگے تو اس وسیلے سے آمدنی بھی لگاتار گرنے لگی۔
یعقوبی نے ”کتاب البلدان“ میں حکومت کی آمدنی گرنے سے متعلق چند حقائق بیان کئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں؛
”مصر جس کی آمدنی عمرو بن عاص کے زمانہ میں ایک کروڑ چالیس لاکھ دینار تھی صرف پچاس لاکھ دینار رہ گئی۔ حضرت عمر فاروق کے عہدِ خلافت میں عراق کی آمدنی دس کروڑ دینار تھی۔ عبد المالک کے عہد تک گر کر صرف چار کروڑ دینار رہ گئی۔“
غرضیکہ حکومت کی آمدنی کم ہو رہی تھی اور اس کے مقابلے میں فوج اور نظم و نسق کے مصارف میں اضافہ اور اُموی شہزادوں اور شاہی خاندان کے ممبروں، گورنروں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کے وظیفوں اور تنخواہوں کی رقومات نیز وظیفہ لینے والے خاندانوں قبیلوں اور قبائلی سرداروں کی تعداد بڑھنے سے حکومت کے اخراجات بڑھ رہے تھے۔ یہی حال عربوں کی انفرادی آمدنی اور خرچ کا تھا۔
مالِ غنیمت کی آمد رُک جانے سے عربوں کی آمدنی گھٹ رہی تھی اور منڈیوں میں غلاموں اور کنیزوں کی خرید و فروخت کم ہو جانے سے تجارتی بحران بڑھ رہا تھا۔ چنانچہ ساتویں صدی کے آخر میں بنو اُمیہ کے ماتحت عرب سماج تجارتی بحران اور مالی مشکلات میں مبتلا تھی اور ان پر قابو پانے کےلئے اُموی حکمرانوں نے آٹھویں صدی کے شروع میں شام میں آباد یمنی عربوں، عراق میں آباد حجازی عربوں اور شمالی افریقہ کے بَربَر قبیلوں کے افراد پر مشتمل تنخواہ دار فوج کے بل بوتے پر فتوحات کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔
پانچویں اُموی خلیفہ عبد الملک (685ءتا 705ء) کے عہد میں قطیبہ بن مسلم نے 703ءمیں دریائے آموں پار کرکے دس سال کے عرصہ میں دریائے سیحون (دریائے سر) تک تمام وسط ایشیا ءفتح کر لیا۔ محمد بن قاسم نے 710ءمیں بلوچستان اور سندھ کو فتح کیا اور 713ءمیں سلطنت بنو اُمیہ کی حدود ملتان تک وسیع کر دیں۔ اسی طرح موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد کی سرکردگی میں اُموی فوجیں 711ءمیں مغربی افریقہ کو فتح کرکے سپین میں داخل ہوئیں اور 720ءتک تمام ہسپانیہ بنو اُمیہ کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔
مالی مشکلات پر قابو پانے کیلئے دوسرا قدم خلیفہ الولید اوّل (705ءتا 715ء) نے اُٹھایا۔ اس نے عرب جاگیرداروں سے خراج کا کچھ حصہ بطور مالیہ لینا شروع کیا اور جاگیرداروں نے اس ٹیکس کا بوجھ خراج کی شرح بڑھا کر مسلم اور غیر مسلم کاشتکاروں کے کندھوں پر ڈال دیا۔ تیسرا قدم اس خلیفہ کے عہد میں عراق، حجاز اور ایران کے گورنر حجاج بن یوسف نے اٹھایا۔ اس نے عراق اور ایران میں عربوں کے علاوہ باقی سب کو جزیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
خراج کی شرح میں اضافہ سے کاشتکاروں میں بے چینی پھیل رہی تھی۔ جزیہ ادا کرنے کے حکم نے غیر مسلم اور غیر عرب مسلم کی تمیز کو ختم کرکے سب کاشتکاروں کو جزیہ اور خراج دونوں کی ادائیگی سے انکار کر دینے کی بنیادوں پر متحد کر دیا۔
حجاج بن یوسف نے خراج اور جزیہ وصول کرنے کیلئے تعزیری فوج بھیجی جس نے عراقی کاشتکاروں کی بغاوت کو دبانے کیلئے ڈیڑھ لاکھ کاشتکاروں کو ہلاک اور لاکھوں کو گرفتار کرکے جیل میں قید کر دیا۔
تحریک انتہائی تشدد کے باوجود سات، آٹھ سال جاری رہی اور امن اس وقت قائم ہوا جب ساتویں اُموی خلیفہ سلیمان نے عنان حکومت ہاتھ میں لیتے ہی جیل میں قید کاشتکاروں کو رہا کر دیا ۔اور آٹھویں خلیفہ عمر بن عبد العزیز (717ءتا 720ء) نے مسلمانوں سے جزیہ کی وصولی منسوخ کر دی اور کاشتکاروں سے خراج وصول کرنے کے جاگیر نامے اور سندیں اپنے عزیز و اقارب، شاہی خاندان کے ممبروں، درباریوں، فوجی افسروں اور قبائلی سرداروں سے لے کر پھاڑ دیئے۔ اموی شہزادے اور اموی امراءخلیفہ عمرو بن عبد العزیز کی ان سرگرمیوں کو برداشت نہ کر سکے۔ چنانچہ کھانے میں زہر دے کر انہوں نے انہیں ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا اور جاگیرداری سے نجات کا یہ مختصر سا دور ختم ہو گیا۔
9ویں اُموی خلیفہ یزید ثانی (720ءتا 724ء) اور دسویں خلیفہ ہشام (724ءتا 743ء) کے عہد میں جاگیرداروں کو ان کے حقوق اور جاگیر نامے پھر مل گئے۔
فرق صرف یہ ہوا کہ عرب اور غیر عرب،نیز مسلم اور غیر مسلم کاشتکاروں اور جا گیرداروں سے زرعی پیداوار کا جو مقررہ حصہ بطور مالیہ حکومت وصول کرتی تھی وہ خراج کہلانے لگا ۔اور پیداوار کا جو مقررہ حصہ کاشتکاروں سے جاگیردار وصول کرتے تھے، اسے مالکانہ، کرایہ، بٹائی لگان وغیرہ کے نام سے موصول کیا جانے لگا۔ چنانچہ کاشتکاروں سے کرایہ بٹائی وغیرہ لینے کے سوال پر فقیہوں میں بحث کا آغاز ہا۔
امام مالک (715ءتا 795ء) نے جو مدینہ کے رہنے والے تھے اور جنہوں نے تمام سیاسی اور مذہبی متنازعہ مسائل کو حل کرنے، نیز فقہ کو مرتب کرنے کےلئے رسالت اور خلافتِ راشدہ کے عہد میں اہلِ مدینہ کی عملی زندگی کو سامنے رکھا تھا، کاشتکاروں سے کرایہ یا بٹائی لینے کی مخالفت کی۔
یہی رائے امام ابو حنیفہ (سال وفات 767ء) کی تھی جو ایک ایرانی غلام کے پوتے، کوفہ کے ایک تاجر کے فرزند اور امام حسن بصری کے شاگرد تھے اور جنہوں نے آیات ِقرآنی کی تفسیر و تشریح نیز احادیث کی صداقت کو پرکھنے اور فقہ مرتب کرنے کےلئے عمل اور استدلال پر زیادہ زور دیا تھا۔ کاشتکاروں سے بٹائی لینے کی مخالفت امام شافعی نے بھی کی جو امام مالک کے شاگرد تھے اور جنہوں نے جہاں حدیث مبہم اور غیر واضح ہو، وہاں قیاس و استدلال کو جائز قرار دیا تھا مگر بنو عباس کے عہد میں جاگیرداری نظام اس قدر مضبوط ہو چکا تھا کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد اور پانچویں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں بغداد کے قاضی القضات امام ابو یوسف نے حنفی فقہ میں خدا کو بدستور زمین کا مالک تسلیم کرتے ہوئے کاشتکاروں سے پیداوار کا ایک مقررہ حصہ بطور لگان یا بٹائی لینے کو جائز قرار دیا اور فقہ کی اس پر مہر ثبت کر دی۔
فقہ اور جاگیرداری
غرضیکہ جزیرۃ العرب مین جاگیرداری نظام نہ عہدِ رسالتؐ سے پہلے تھا اور نہ عہدِ رسالتؐ اور بعد کے پہلے دو خلفاءِ راشدین کے عہد میں۔ احادیث میں زمین کو کرائے یا بٹائی پر دینے کی مخالفت کا سبب یہی ہے۔ عربوں میں جاگیرداری کی نشوونما اُس وقت ہوئی جب انہوں نے دوسرے ملکوں کو فتح کرکے عراق، ایران، شام، فلسطین اور مصر وغیرہ کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کیا۔
یونان قدیم میں جب غلام داری ایک حقیقت بن گئی تو افلاطون نے اپنی ”جمہوریت“ میں جس مثالی جمہوریت کا خاکہ پیش کیا، وہ محض غلام داروں کی جمہوریت کا تھا اور اس میں غلاموں کو وہی جگہ دی جو عملی زندگی میں اس وقت انہیں یونان میں حاصل تھی۔
اسی طرح عباسیوں کے دور میں جاگیرداری نظام ابھر کر ایران، عراق، شام، مصر، سپین اور وسط ایشیا ءمیں ایک حقیقت بن گیا، تو نہ صرف امام ابو یوسفؒ بلکہ امام مالکؒ، امام حنبلؒ اور امام شافعی کے پیروکاروں نے بھی اس نظام کو اپنی فقہ میں اپنا لیا۔ انہوں نے زمین کوبدستور خدا کی ملکیت قرار دیا۔ مگر ساتھ ہی اس کے جاگیرداروں کو کاشتکاروں سے کرایہ بٹائی لینے کا حق دے دیا۔
عربوں کے اقتصادی حالات بدلے تو ان کے باہمی تعلقات بدل گئے اور ان کے بدلتے ہی سیاسی، اخلاقی اور مذہبی تصورات اور قانون بدل گئے۔ جاگیرداری نظام ایک خاص اقتصادی، سیاسی اور سماجی نشوونما کا پر تو ہے۔ نہ ہمیشہ سے موجود ہے اور نہ ہمیشہ قائم رہے گا۔
مگر جماعت اسلامی کے مولوی جاگیرداری اور بڑی زمینداری کو قائم رکھنے کیلئے اس بات پر بضد ہیں کہ جاگیرداری نظام ایک ”فطری“ نظام ہے۔ روزِ اوّل سے موجود ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔
عہد رسالتؐ سے پہلے یہ نظام عربوں میں موجود تھا اور رسول اکرمؐ اور خلفاءراشدین نے اسے قائم رکھا۔
ایشیاء میں جاگیرداری نظام کی خصوصیات
مولانا مودودی اپنی کتاب ”مسئلہ ملکیتِ زمین“ میں زمین کی انفرادی ملکیت کو اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ لیکن تاریخ کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائےتو کارل مارکس کے اس نظریے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ؛
”مسلمانوں نے سارے ایشیا ءمیں زمین کو نجی ملکیت نہ بنانے کے اُصول کو وسیع پیمانے پر عملی جامہ پہنایا تھا۔“
مغل شہنشاہ اورنگزیب کے فرانسیسی ڈاکٹر برنیر کے سفر نامہ، ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنروں اور ملازموں کی تحریروں، تاریخِ فرشتہ، ابنِ بطوطہ کے سفر نامہ، نیز کیلورٹ کی کتاب ”ویلتھ اینڈ ویلفیئر آف دی پنجاب“ کا مطالعہ کرنے سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مغربی استعمار پرستوں کے تسلط سے پہلے سارے ایشیا ءمیں زمین کسی کی ملکیت نہیں تھی، اس کی کوئی قیمت نہیں تھی، اس کی کوئی ساکھ نہیں تھی۔
گاؤں کی پنچائت ہر کسان کو اس کے خاندان کی ضرورت کے مطابق زمین دینے، گاؤں کا سارا انتظام کرنے، دستکاروں کو رواج کے مطابق پیداوار کا مقررہ حصہ دینے، گاؤں کے باشندوں کے باہمی جھگڑے نپٹانے اور سارے کے سارے گاؤں کی طرف سے ملک کے فرمانروا کو ملک کے قانون یا رواج کے مطابق پیداوار کا مقررہ حصہ مالیہ کی حیثیت سے ادا کرنے کے فرائض ادا کرتی تھی۔
زمین وسیع تھی، لہٰذا اسے زیر کاشت لانے میں ملک کا کوئی قانون، کوئی رواج، کوئی اخلاق اور کوئی مذہبی عقیدہ مانع نہ تھا۔ پیداوار کے البتہ دو حصہ دار تھے ایک کاشتکار اور دوسرا ملک کافرمانروا جسے سروکار صرف مالیہ وصول کرنے سے تھا۔
حکمران بدلتے رہے۔ کبھی عرب، کبھی ترک، کبھی تاتار اور منگول مگر دیہاتی نظام بنیادی طور پر جوں کاتوں رہا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہندوؤں کے عہد میں مالیہ کل پیداوار کے بارہویں حصے سے چھٹے حصے تک تھا اور شہنشاہ اکبر کے وزیر مال ٹوڈر مل نے کل پیداوار کا ایک تہائی حصہ مقرر کیا تھا۔
مغربی استعمار پرستوں کے تسلط سے پہلے سارے ایشیا ءمیں زمینوں کے مالک بڑے بڑے جاگیردار بھی نہیں تھے۔ کاشتکاروں اور ملک کے فرمانروا کے درمیان البتہ وفادار راجواڑوں، نوابوں، خانوں، شاہ کے خیر خواہ اور پرانے خدمت گار افسروں، دیوانوں اور قبائلی سرداروں کا ایک طبقہ ضرور تھا جو فرمانروا کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے علاقے کی حفاظت اور اس کا انتظام کرتا تھا اور ساتھ ہی اس کے کاشتکاروں سے مالیہ وصول کرکے اس میں کچھ مقامی ضرورتوں (حفاظت نظم و نسق اور تعمیر) کےلئے مقامی خزانہ میں رکھتا اور باقی فرمانروا کو بھیج دیتا تھا۔ ان تینوں میں زمین کا حقیقی مالک کون ہے، اس بات کا تصفیہ جدید سرمایہ داری کے عروج کے ساتھ ہی ساتھ یورپ میں دو تین سو سال پہلے ہو چکا تھا، ایشیاء میں نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ زمین ہندوستان اور تمام ایشیا ءمیں کسی کی ذاتی ملکیت نہیں تھی۔ اس کی کوئی قیمت نہ تھی، اس کی کوئی ساکھ نہ تھی۔
جدید سرمایہ داری اور ایشیاء کے جاگیردار
مگر یورپ کے جدید تاجر پچھلے تمام حکمرانوں سے جدا خصوصیات رکھتے تھے جدید تاجر ہونے کی حیثیت سے ان کا مقصد اپنے ملک کے کارخانوں کےلئے کچھ مال خریدنا اور ان کارخانوں کی تیار کردہ اشیاءکو فروخت کرنا تھا۔ ایشیا ء کا قدیم خود کفیل دیہاتی نظام ان کے اس مقصد کی کامیابی میں حائل ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اسے درہم برہم کرکے اپنے مفاد کے مطابق ایک خاص نظام یعنی نو آبادیاتی نظام قائم کیا۔
خود ہمارے اپنے ملک میں پہلے مالیہ کی ادائیگی گاؤں کی مشترکہ ذمہ داری تھی۔ اس اعتبار سے زمین گاؤں یا قبیلہ کی مشترکہ ملکیت تھی۔ نئے حکمرانوں نے مالیہ ادا کرنے کی ذمہ داری افراد کے کاندھوں پر ڈال کر گاؤں یا قبیلہ کی مشترکہ ذمہ داری ختم کر دی۔ زمین کو ذاتی ملکیت بنانے کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔ پہلے مالیہ کل پیداوار کا ایک مقررہ حصہ تھا اور عموماً جنس کی شکل میں ادا کیا جاتا تھا۔ انگریز حکمرانوں نے رقبہ اور زمین کی زرخیزی کو مالیہ کی بنیاد بنایا اور نقد روپوں کی ادائیگی کو قانوناً لازمی اور عدم ادائیگی کو جرم مستوجب ِضبطی زمین قرار دیا۔ روپیہ اس زمانہ میں شاذو نادر ہی نظر آتا تھا۔ اس لئے جو کسان مالیہ ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے، وہ اپنے قبائلی سرداروں اور سابقہ اور نئی حکومت کے سرکاری افسروں کے مزارعہ بن گئے۔
چنانچہ قبیلوں کے قبیلے اور گاؤں کے گاؤں کی مشترکہ زمین ان قبائلی سرداروں سابقہ حکومتوں کے ملازموں اور افسروں، پیروں اور سجادہ نشینوں کے قبضہ میں چلی گئیں، جنہوں نے سابقہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرکے نئے حکمرانوں کو ملک فتح کرنے میں مدد دی یا سرکش قبیلوں کو دبانے میں انگریزوں کا ہاتھ بٹایا، یا عوام کے خلاف حکومت کی بڑی خدمت کی اور یہ حقیقت ہے کہ پنجاب، سندھ اور صوبہ سرحد میں آج جو بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار ہیں انہیں یہ جاگیریں اور زمینیں وطن فروشی اور عوام دشمنی کے صلے میں انگریزوں سے ملی ہیں۔
عوام کو ایک پسماندہ نو آبادیاتی نظام کی زنجیروں میں جکڑنے نیز اپنے اس نظام کو عوامی غصہ کے پُرشور طوفانوں سے محفوظ رکھنے کیلئے انگریزوں کو ہندوستانیوں کے ایک حصہ کی سرگرم اور وفادارانہ حمایت و امداد درکار تھی۔ چنانچہ انہوں نے زمانہ گزشتہ کی باقیات (راجے، نواب، قبائلی سردار، پچھلے حکمرانوں کے افسر، پیر، سجادہ نشین (وغیرہ) نیز اپنے خدمت گاروں، وفاداروں اور عوام دشمن عناصر میں سے جاگیر دار پیدا کرکے انہیں اپنی حکومت اور نو آبادیاتی نظام کا سون بنایا اور زمین (خدمات کے صلہ میں مربعہ جات) مخصوص مراعات (مثلاً ٹوانوں اور نُونوں کو اپنی نہریں جاری رکھنے اور کاشتکاروں سے کل پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ آبیانہ وصول کرنے نیز تمام جاگیرداروں کو اپنے مزارعوں سے مختلف قسم کے جاگیر شاہی ٹیکس وصول کرنے کی مراعات) خطابات اور سندیں (جو مقامی افسروں سے رعایات حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں) اور اختیارات (نمبرداری، ذیلداری، آنریری مجسٹریٹی وغیرہ) دے کر اور ان کے پڑھے لکھے بیٹوں اور بھتیجوں کو فوج، پولیس، مال، نہر اور دیگر سرکاری محکموں میں اونچے اونچے عہدے دے کر مصنوعی طریقہ پر قائم رکھا ہے۔
جاگیرداری اور جماعت اسلامی
مغربی پنجاب اور اسی طرح سندھ، صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختون خوا)، بلوچستان اور مشرقی بنگال (موجودہ بنگلا دیش جو اُس وقت پاکستان کا حصہ تھا)کے حقیقی مالک اور حکمران یہی جا گیردار اور بڑے زمیندار ہیں۔
مثلاً مغربی پنجاب کے ساڑھے تیرہ لاکھ موجودہ پرانے مالک اراضی میں سے دس ایکڑ سے کم زمین کے مالک گیارہ لاکھ 33 ہزار اور پانچ ایکڑ سے کم زمین کے مالک نو لاکھ سے اوپر ہیں۔ مگر اس صوبہ کی زیر کاشت تقریباً دو کروڑ ایکڑ زمین میں سے مجموعی طور پر ان کے قبضہ میں باالترتیب 34 لاکھ اور 18 لاکھ ایکڑ زمین ہے۔ برعکس اس کے پانچ سو ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک ساڑھے سات ہزار سے کم ہیں۔ مگر مجموعی طور پر زمین ا ن کے قبضہ میں 36 لاکھ ایکڑ ہے۔مغربی پنجاب کے حقیقی مالک اور حکمران یہی چھ سات ہزار زمینداروں اور جا گیرداروں کے خاندان ہیں۔
دس ایکڑ سے کم زمین رکھنے والے تقریباً گیارہ لاکھ مالک، مہاجر کاشتکاروں کے تقریباً پانچ لاکھ خاندان جنہیں غیر مسلم کی زمینوں پر آباد کیا گیا ہے، علاوہ ان کے مزارعوں اور کھیت مزدوروں کے تقریباً پانچ لاکھ خاندان یعنی مہاجر اور غیر مہاجر دیہاتی کاشتکاروں کے تیرہ چودہ لاکھ خاندان۔۔ غرضیکہ پوری کی پوری دیہاتی آبادی ان کی غلام ہے۔
پہلے یہ بڑے زمیندار اور جاگیردار یونینسٹ پارٹی کے ممبر اور ستون تھے، اب مسلم لیگ کے ہیں، پہلے وہ صرف زمیندار اور جاگیر تھے اب ان میں سے کئی ایک نے غیر مسلم کی آڑہت کی دُکانوں، تجارتی فرموں اور کارخانوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ہماری دیہاتی اقتصادیات پہلے ہی ان کے قبضہ میں تھی اب قصباتی اقتصادیات پر بھی ان کا قبضہ ہو گیا ہے۔
جس خطۂ زمین کے چند ہزار بڑے زمیندار اور جاگیردار تقریباً چالیس فیصدی زمین کے مالک ہوں اور پیداوار میں کوئی سرمایہ اور کوئی محنت صرف کرنے کے بغیر اپنی زمین کی پیداوار کے تقریباً دو تہائی حصہ کے مالک بن جاتے ہوں، جس خطۂ زمین کے چوبیس لاکھ حقیقی کا شتکار خاندانوں میں سے تقریباً گیارہ بارہ لاکھ مزارعہ اور مہاجر کاشتکار خاندانوں کو خون پسینہ ایک کرنے کے علاوہ اخراجات کا سارا بوجھ برداشت کرکے بھی ایک تہائی پیداوار سے کم نصیب ہوتی ہو۔ جس خطۂ زمین کے تیرہ چودہ لاکھ دیہاتی دستکار بے روزگاروں کی صف میں کھڑے ہوں، جس خطۂ زمین کے زمیندار اور جاگیردار آڑہتی اور تاجر بن کر ذخیرہ اندوزی، چور بازاری اور نفع خوری میں غیر مسلم آڑہتیوں اور تاجروں کو بھی شرمندہ کر رہے ہوں اور جس خطۂ زمین کے زمیندار اور جاگیردار کارخانوں کے مفت میں مالک بن کر صنعت کو فروغ دینے کے بجائے مزدوروں کا خون چوس کر اور مشینیں فروخت کرکے دولت جمع کر رہے ہوں، اس خطۂ زمین کی زراعت، تجارت اور صنعت کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ اس خطۂ زمین کے عوام کبھی خوشحال نہیں ہو سکتے اور فوج رکھنے کے باوجود اپنے ملک کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
چنانچہ جاگیرداری نظام جو ایک ہزار سال پہلے ترقی پسندانہ نظام تھا (اسی وجہ سے اس نے غلامی کے نظام کی جگہ لی تھی) آج اقتصادی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی ترقی کے راستہ میں پہاڑ بن کر کھڑا ہے۔ اس پہاڑ کو گرانے یعنی جاگیرداری اور بڑی زمینداری کو بلا معاوضہ منسوخ کرنے اور زمینوں کو ملک کے حقیقی کاشتکاروں میں مفت تقسیم کرنے کے بغیر ہم ترقی کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتے۔
مگر مولانا مودودی کسی حکومت یا کسی مجلس قانون ساز کو اجتماعی بہتری کیلئے بھی جاگیرداروں کے مالکانہ حقوق کو چھیننے یا ان میں کمی بیشی کرنے کو شرعاً ناجائز اور ظلم قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں؛
”جو لوگ جاگیرداری کو ناجائز ٹھہرا کر اس کے انسداد پر زور دیتے ہیں وہ اسلامی قانون کی حدود سے باہر قدم رکھتے ہیں۔“
(تسنیم 26 جون 50ء)
مولانا مودودی نہ صرف بڑی زمینداری اور جاگیرداری کو اسلامی قانون کے عین مطابق سمجھتے ہیں، بلکہ قدیم زمانہ کے جاگیرداری نظام کی دوسری ”برکتوں“ مثلاً جنگی قیدیوں کو لونڈی ،غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے اور بلا تعداد لونڈیوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے متعلق جماعت اسلامی کے اس تصور اور مطمع نظر پر روشنی مولانا مودودی نے ایک چِٹھی میں ڈالی ہے جو نومبر 1948ءکے ”طلوع ِاسلام“ اور 26 جولائی 1950ءکے روزنامہ ”امروز“ میں شائع ہوئی تھی۔
غرضیکہ جماعتِ اسلامی کے قائم کردہ ”اسلامی نظام ِحکومت “ میں بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کو نہ صرف کسانوں اور مزارعوں کی گاڑھے پسینے کی کمائی کو ہڑپ کرنے بلکہ لونڈی، غلام خریدنے اور فروخت کرنے اور بلا تعداد لونڈیوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے کا بھی حق ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار مسلم لیگی ہونے کے باوجود جماعت اسلامی کے پرستار ہیں۔وہ جماعتِ اسلامی کی مالی امداد کرتے ہیں۔ لٹریچر خریدتے ہیں۔ کاشتکاروں میں تقسیم کرتے ہیں اور زرعی اصلاحات کے خلاف پنجاب کے جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے نمائندے سید نور بہار شاہ مولانا مودودی کی کتابوں کاحوالہ دیتے ہیں۔
سرمایہ داری اور جماعت اسلامی کی ”متوسط راہ“
جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الا اعلیٰ مودودی جاگیرداری کو اسلامی قانون کی رُو سے جائز قرار دیتے ہوئے اشراکیت اور سرمایہ داری دونوں کی مذمت کرتے ہیں۔ مگر جو اقتصادی، سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی نظام ”اسلام کے نظام ِحیات“ کے نام سے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک ”متوسط راہ“ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں، وہ کوئی دوسری راہ نہیں، وہی راہ ہے جس پر کہ سرمایہ دار اور جاگیردار موجودہ دور میں گامزن ہیں۔ آپ فرماتے ہیں؛
”تمدن و معیشت میں انسان کو جو چیز اپنی انتہائی قوت کے ساتھ سعی و عمل کرنے پر ابھارتی ہے، وہ دراصل اس کا ذاتی مفاد ہے۔ یہ انسان کی فطری خود غرضی ہے جس کو کوئی منطق اس کے دل و دماغ کے ریشوں سے نہیں نکال سکتی، غیر معمولی افراد کو چھوڑ کر ایک اوسط درجہ کا آدمی اپنے دل و دماغ اور دست و بازو کی تمام طاقتیں صرف اسی کام میں خرچ کرتا ہے اور کر سکتا ہے جس سے اس کو خود اپنے مفاد کیلئے ذاتی دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر سرے سے یہ دلچسپی ہی باقی نہ رہے اور اس کو معلوم ہو کہ اس کیلئے فوائد و منافع کی جو حد مقرر کر دی گئی ہے اس سے بڑھ کر وہ اپنی جدوجہد سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے گا، تو اس کے قویٰ فکر و عمل ٹھٹھر کر رہ جائیں گے۔“
(سود۔ مصنفہ:۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ صفحات 12 اور 13)
مولانا مودودی کے خیال میں انسان فطری طور پر خود غرض ہے اور وہ اپنے دل و دماغ اور قوت و بازو کی طاقتوں کو صرف اسی کام پر خرچ کرتا ہے جس سے اس کو ذاتی فائدہ ہو۔ چنانچہ شخصی ملکیت اور دولت کمانے کی آزادی کو انسان کے فطری حقوق میں شمار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں؛
”اشتراکیت اور سرمایہ داری ایک دوسرے کے خلاف دو انتہائی نقطوں پر ہیں۔ سرمایہ داری افراد کو ان کے فطری حقوق ضرور دیتی ہے مگر اس کے اُصول و نظریات میں کوئی ایسی چیز نہیں جو افراد کو جماعت کے مشترک مفاد کی خدمت کیلئے آمادہ کرنے والی اور تابحد ضرورت اس پر مجبور کرنے والی ہو۔ بلکہ درحقیقت وہ افراد میں ایک ایسی خود غرضانہ ذہنیت پیدا کرتی ہے، جس سے ہر شخص اپنے شخصی مفاد کیلئے جماعت کے خلاف عملاً جنگ کرتا ہے، یہاں تک کہ تقسیم ِثروت کا توازن بالکل بگڑ جاتا ہے۔ ایک طرف چند خوش نصیب افراد پوری جماعت کے وسائلِ ثروت کو سمیٹ کر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جاتے ہیں اور اپنے سرمایہ کی قوت سے مزید دولت کھینچے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف جمہور کی معاشی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے اور دولت کی تقسیم میں ان کا حصہ گھٹتے گھٹتے بمنزلہ صفر رہ جاتا ہے۔ اشتراکیت اس خرابی کا علاج کرنا چاہتی ہے مگر وہ ایک صحیح مقصد کےلئے غلط راستہ اختیار کرتی ہے۔ اس کا مقصد تقسیم ثروت میں توازن قائم کرنا ہے اور یہ بلاشبہ صحیح مقصد ہے مگر اس کیلئے وہ ذریعہ ایسا اختیار کرتی ہے جو درحقیقت انسانی فطرت سے جنگ ہے۔ افراد کو شخصی ملکیت سے محروم کرکے بالکل جماعت کا خادم بنا دینا نہ صرف معیشت کےلئے تباہ کن ہے بلکہ زیادہ وسیع پیمانے پر انسان کی پوری تمّدنی زندگی کےلئے مہلک ہے۔ کیونکہ یہ چیز معاشی کاروبار اور نظام تمّدن سے اس کی روحِ رواں اس کی اصلی قوتِ محرکہ کو نکال دیتی ہے۔ اسلام ان دو متضاد معاشی نظاموں کے درمیان ایک معتدل نظام قائم کرتا ہے جس کا اصل الاصول یہ ہے کہ فرد کو اس کے پورے پورے شخصی اور فطری حقوق بھی دیئے جائیں اور اس کے ساتھ تقسیم ثروت کا توازن بھی نہ بگڑنے دیا جائے۔ ایک طرف وہ فرد کو شخصی ملکیت کا حق اور اپنے مال میں تصرف کرنے کے اختیارات دیتا ہے اور دوسری طرف وہ ان سب حقوق و اختیارات پر باطن کی راہ سے کچھ ایسی اخلاقی پابندیاں اور ظاہر کی راہ سے کچھ ایسی قانونی پابندیاں عائد کر دیتا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ کسی جگہ وسائلِ ثروت کا غیر معمولی اجتماع نہ ہو سکے۔ ثروت اور اس کے وسائل ہمیشہ گردش کرتے رہتے ہیں اور گردش ایسی ہو کہ جماعت کے ہر فرد کو اس کا مناسب حصہ مل سکے۔ اس قسم کا طرزِ معیشت اگرچہ کسی کو کروڑ پتی بننے سے نہیں روک سکتا مگر اس کے ماتحت یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کروڑ پتی کی دولت اس کے ہزاروں ابنائے نوع کی فاقہ کشی کا نتیجہ ہو۔ دوسری طرف یہ طرز ِمعیشت تمام افراد کو خدا کی پیدا کی ہوئی دولت میں سے حصہ ضرور دلانا چاہتا ہے مگر ایسی مصنوعی بندشیں لگانا جائز نہیں رکھتا جس کی وجہ سے کوئی شخص اپنی قوت و قابلیت کے مطابق اکتسابِ مال نہ کر سکتا ہو۔“
(سود، مصنفہ ابو الا اعلیٰ مودودی، صفحات 11تا 15)
(جاری ہے۔)
—♦—
دادا فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
آمدنی کے وسیلے اور مالی بحران
عرب جاگیردار زمینوں کے مالک نہیں تھے۔ وہ خراج وصول کرتے تھے اور حکومت کو اس خراج میں سے کچھ نہیں دیتے تھے۔ یہ نظام ایک عبوری دور کا نظام تھا جو جلدی ہی اقتصادی مشکلات کے چنگل میں پھنس گیا۔ کیونکہ اس دور میں عربوں اور ان کی حکومت کی آمدنی کے وسیلے محدود تھے۔
آمدنی کا ایک وسیلہ مال ِغنیمت تھا۔ دشمنوں کا تمام مال و متاع حتیٰ کہ وہ خود، ان کی عورتیں اور فوجی سپاہی سب مال غنیمت تھے۔ اس مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کرکے چار حصے مال غنیمت ان مجاہدوں میں تقسیم کیا جاتا تھا جنہوں نے فتح حاصل کرکے سب مال و متاع لوٹا ہو اور باقی ایک حصہ قومی خزانے یعنی عملی طور پر فرمانروا کو بھیجا جاتا تھا۔ حضرت عثمان ؓ کے بعد فتوحات کا سلسلہ رُک جانے سے عربوں اور ان کی حکومت دونوں کی اس وسیلے سے آمدنی گھٹنی شروع ہوئی۔ منڈیوں میں غلاموں اور کنیزوں کی آمد اور خرید و فروخت بھی رُک گئی اور اس سے تجارتی بحران پیدا ہو گیا۔
دوسرا وسیلہ خراج تھا جو مسلم اور غیر مسلم سب کاشکاروں سے حکومت وصول کرتی تھی حضرت عثمان ؓ کے عہد سے عربوں نے بہت بڑے پیمانے پر عرب کے ریگستان سے نکل کر عراق، ایران، شام، فلسطین اور مصر میں آباد ہونا شروع کیا اور بنو اُمیّہ نے خلافت کے دوسرے دعویداروں یعنی اوّل حضرت علیؑ کے فرزندوں اور پھر حضرت زبیرؓ کے فرزند عبد اللہؓ کے مقابلے میں عربوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرکے انہیں شکست دینے کےلئے لاتعداد قبائلی سرداروں اور کئی ایک صحابیوں کو جاگیریں دے کر خراج وصول کرنے کے حق دے دیئے، جس سے اس وسیلے سے حکومت کی آمدنی بھی رفتہ رفتہ گر گئی۔
تیسرا وسیلہ جزیہ کے نام سے وہ سرکاری ٹیکس تھا جو غیر مسلموں سے ان کے جان و مال کی حفاظت کرنے کے صلہ میں وصول کیا جاتا تھا۔ کچھ تبلیغ سے، کچھ جزیہ کی ادائیگی سے معافی حاصل کرنے کی غرض سے اور کچھ وہ حقوق و مراعات حاصل کرنے کےلئے جو مسلمانوں کو حاصل تھے، جب غیر مسلم بہت بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنے لگے تو اس وسیلے سے آمدنی بھی لگاتار گرنے لگی۔
یعقوبی نے ”کتاب البلدان“ میں حکومت کی آمدنی گرنے سے متعلق چند حقائق بیان کئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں؛
”مصر جس کی آمدنی عمرو بن عاص کے زمانہ میں ایک کروڑ چالیس لاکھ دینار تھی صرف پچاس لاکھ دینار رہ گئی۔ حضرت عمر فاروق کے عہدِ خلافت میں عراق کی آمدنی دس کروڑ دینار تھی۔ عبد المالک کے عہد تک گر کر صرف چار کروڑ دینار رہ گئی۔“
غرضیکہ حکومت کی آمدنی کم ہو رہی تھی اور اس کے مقابلے میں فوج اور نظم و نسق کے مصارف میں اضافہ اور اُموی شہزادوں اور شاہی خاندان کے ممبروں، گورنروں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کے وظیفوں اور تنخواہوں کی رقومات نیز وظیفہ لینے والے خاندانوں قبیلوں اور قبائلی سرداروں کی تعداد بڑھنے سے حکومت کے اخراجات بڑھ رہے تھے۔ یہی حال عربوں کی انفرادی آمدنی اور خرچ کا تھا۔
مالِ غنیمت کی آمد رُک جانے سے عربوں کی آمدنی گھٹ رہی تھی اور منڈیوں میں غلاموں اور کنیزوں کی خرید و فروخت کم ہو جانے سے تجارتی بحران بڑھ رہا تھا۔ چنانچہ ساتویں صدی کے آخر میں بنو اُمیہ کے ماتحت عرب سماج تجارتی بحران اور مالی مشکلات میں مبتلا تھی اور ان پر قابو پانے کےلئے اُموی حکمرانوں نے آٹھویں صدی کے شروع میں شام میں آباد یمنی عربوں، عراق میں آباد حجازی عربوں اور شمالی افریقہ کے بَربَر قبیلوں کے افراد پر مشتمل تنخواہ دار فوج کے بل بوتے پر فتوحات کے دوسرے دور کا آغاز کیا۔
پانچویں اُموی خلیفہ عبد الملک (685ءتا 705ء) کے عہد میں قطیبہ بن مسلم نے 703ءمیں دریائے آموں پار کرکے دس سال کے عرصہ میں دریائے سیحون (دریائے سر) تک تمام وسط ایشیا ءفتح کر لیا۔ محمد بن قاسم نے 710ءمیں بلوچستان اور سندھ کو فتح کیا اور 713ءمیں سلطنت بنو اُمیہ کی حدود ملتان تک وسیع کر دیں۔ اسی طرح موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد کی سرکردگی میں اُموی فوجیں 711ءمیں مغربی افریقہ کو فتح کرکے سپین میں داخل ہوئیں اور 720ءتک تمام ہسپانیہ بنو اُمیہ کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔
مالی مشکلات پر قابو پانے کیلئے دوسرا قدم خلیفہ الولید اوّل (705ءتا 715ء) نے اُٹھایا۔ اس نے عرب جاگیرداروں سے خراج کا کچھ حصہ بطور مالیہ لینا شروع کیا اور جاگیرداروں نے اس ٹیکس کا بوجھ خراج کی شرح بڑھا کر مسلم اور غیر مسلم کاشتکاروں کے کندھوں پر ڈال دیا۔ تیسرا قدم اس خلیفہ کے عہد میں عراق، حجاز اور ایران کے گورنر حجاج بن یوسف نے اٹھایا۔ اس نے عراق اور ایران میں عربوں کے علاوہ باقی سب کو جزیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
خراج کی شرح میں اضافہ سے کاشتکاروں میں بے چینی پھیل رہی تھی۔ جزیہ ادا کرنے کے حکم نے غیر مسلم اور غیر عرب مسلم کی تمیز کو ختم کرکے سب کاشتکاروں کو جزیہ اور خراج دونوں کی ادائیگی سے انکار کر دینے کی بنیادوں پر متحد کر دیا۔
حجاج بن یوسف نے خراج اور جزیہ وصول کرنے کیلئے تعزیری فوج بھیجی جس نے عراقی کاشتکاروں کی بغاوت کو دبانے کیلئے ڈیڑھ لاکھ کاشتکاروں کو ہلاک اور لاکھوں کو گرفتار کرکے جیل میں قید کر دیا۔
تحریک انتہائی تشدد کے باوجود سات، آٹھ سال جاری رہی اور امن اس وقت قائم ہوا جب ساتویں اُموی خلیفہ سلیمان نے عنان حکومت ہاتھ میں لیتے ہی جیل میں قید کاشتکاروں کو رہا کر دیا ۔اور آٹھویں خلیفہ عمر بن عبد العزیز (717ءتا 720ء) نے مسلمانوں سے جزیہ کی وصولی منسوخ کر دی اور کاشتکاروں سے خراج وصول کرنے کے جاگیر نامے اور سندیں اپنے عزیز و اقارب، شاہی خاندان کے ممبروں، درباریوں، فوجی افسروں اور قبائلی سرداروں سے لے کر پھاڑ دیئے۔ اموی شہزادے اور اموی امراءخلیفہ عمرو بن عبد العزیز کی ان سرگرمیوں کو برداشت نہ کر سکے۔ چنانچہ کھانے میں زہر دے کر انہوں نے انہیں ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا اور جاگیرداری سے نجات کا یہ مختصر سا دور ختم ہو گیا۔
9ویں اُموی خلیفہ یزید ثانی (720ءتا 724ء) اور دسویں خلیفہ ہشام (724ءتا 743ء) کے عہد میں جاگیرداروں کو ان کے حقوق اور جاگیر نامے پھر مل گئے۔
فرق صرف یہ ہوا کہ عرب اور غیر عرب،نیز مسلم اور غیر مسلم کاشتکاروں اور جا گیرداروں سے زرعی پیداوار کا جو مقررہ حصہ بطور مالیہ حکومت وصول کرتی تھی وہ خراج کہلانے لگا ۔اور پیداوار کا جو مقررہ حصہ کاشتکاروں سے جاگیردار وصول کرتے تھے، اسے مالکانہ، کرایہ، بٹائی لگان وغیرہ کے نام سے موصول کیا جانے لگا۔ چنانچہ کاشتکاروں سے کرایہ بٹائی وغیرہ لینے کے سوال پر فقیہوں میں بحث کا آغاز ہا۔
امام مالک (715ءتا 795ء) نے جو مدینہ کے رہنے والے تھے اور جنہوں نے تمام سیاسی اور مذہبی متنازعہ مسائل کو حل کرنے، نیز فقہ کو مرتب کرنے کےلئے رسالت اور خلافتِ راشدہ کے عہد میں اہلِ مدینہ کی عملی زندگی کو سامنے رکھا تھا، کاشتکاروں سے کرایہ یا بٹائی لینے کی مخالفت کی۔
یہی رائے امام ابو حنیفہ (سال وفات 767ء) کی تھی جو ایک ایرانی غلام کے پوتے، کوفہ کے ایک تاجر کے فرزند اور امام حسن بصری کے شاگرد تھے اور جنہوں نے آیات ِقرآنی کی تفسیر و تشریح نیز احادیث کی صداقت کو پرکھنے اور فقہ مرتب کرنے کےلئے عمل اور استدلال پر زیادہ زور دیا تھا۔ کاشتکاروں سے بٹائی لینے کی مخالفت امام شافعی نے بھی کی جو امام مالک کے شاگرد تھے اور جنہوں نے جہاں حدیث مبہم اور غیر واضح ہو، وہاں قیاس و استدلال کو جائز قرار دیا تھا مگر بنو عباس کے عہد میں جاگیرداری نظام اس قدر مضبوط ہو چکا تھا کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد اور پانچویں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں بغداد کے قاضی القضات امام ابو یوسف نے حنفی فقہ میں خدا کو بدستور زمین کا مالک تسلیم کرتے ہوئے کاشتکاروں سے پیداوار کا ایک مقررہ حصہ بطور لگان یا بٹائی لینے کو جائز قرار دیا اور فقہ کی اس پر مہر ثبت کر دی۔
فقہ اور جاگیرداری
غرضیکہ جزیرۃ العرب مین جاگیرداری نظام نہ عہدِ رسالتؐ سے پہلے تھا اور نہ عہدِ رسالتؐ اور بعد کے پہلے دو خلفاءِ راشدین کے عہد میں۔ احادیث میں زمین کو کرائے یا بٹائی پر دینے کی مخالفت کا سبب یہی ہے۔ عربوں میں جاگیرداری کی نشوونما اُس وقت ہوئی جب انہوں نے دوسرے ملکوں کو فتح کرکے عراق، ایران، شام، فلسطین اور مصر وغیرہ کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کیا۔
یونان قدیم میں جب غلام داری ایک حقیقت بن گئی تو افلاطون نے اپنی ”جمہوریت“ میں جس مثالی جمہوریت کا خاکہ پیش کیا، وہ محض غلام داروں کی جمہوریت کا تھا اور اس میں غلاموں کو وہی جگہ دی جو عملی زندگی میں اس وقت انہیں یونان میں حاصل تھی۔
اسی طرح عباسیوں کے دور میں جاگیرداری نظام ابھر کر ایران، عراق، شام، مصر، سپین اور وسط ایشیا ءمیں ایک حقیقت بن گیا، تو نہ صرف امام ابو یوسفؒ بلکہ امام مالکؒ، امام حنبلؒ اور امام شافعی کے پیروکاروں نے بھی اس نظام کو اپنی فقہ میں اپنا لیا۔ انہوں نے زمین کوبدستور خدا کی ملکیت قرار دیا۔ مگر ساتھ ہی اس کے جاگیرداروں کو کاشتکاروں سے کرایہ بٹائی لینے کا حق دے دیا۔
عربوں کے اقتصادی حالات بدلے تو ان کے باہمی تعلقات بدل گئے اور ان کے بدلتے ہی سیاسی، اخلاقی اور مذہبی تصورات اور قانون بدل گئے۔ جاگیرداری نظام ایک خاص اقتصادی، سیاسی اور سماجی نشوونما کا پر تو ہے۔ نہ ہمیشہ سے موجود ہے اور نہ ہمیشہ قائم رہے گا۔
مگر جماعت اسلامی کے مولوی جاگیرداری اور بڑی زمینداری کو قائم رکھنے کیلئے اس بات پر بضد ہیں کہ جاگیرداری نظام ایک ”فطری“ نظام ہے۔ روزِ اوّل سے موجود ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔
عہد رسالتؐ سے پہلے یہ نظام عربوں میں موجود تھا اور رسول اکرمؐ اور خلفاءراشدین نے اسے قائم رکھا۔
ایشیاء میں جاگیرداری نظام کی خصوصیات
مولانا مودودی اپنی کتاب ”مسئلہ ملکیتِ زمین“ میں زمین کی انفرادی ملکیت کو اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ لیکن تاریخ کا اگر غور سے مطالعہ کیا جائےتو کارل مارکس کے اس نظریے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ؛
”مسلمانوں نے سارے ایشیا ءمیں زمین کو نجی ملکیت نہ بنانے کے اُصول کو وسیع پیمانے پر عملی جامہ پہنایا تھا۔“
مغل شہنشاہ اورنگزیب کے فرانسیسی ڈاکٹر برنیر کے سفر نامہ، ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنروں اور ملازموں کی تحریروں، تاریخِ فرشتہ، ابنِ بطوطہ کے سفر نامہ، نیز کیلورٹ کی کتاب ”ویلتھ اینڈ ویلفیئر آف دی پنجاب“ کا مطالعہ کرنے سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مغربی استعمار پرستوں کے تسلط سے پہلے سارے ایشیا ءمیں زمین کسی کی ملکیت نہیں تھی، اس کی کوئی قیمت نہیں تھی، اس کی کوئی ساکھ نہیں تھی۔
گاؤں کی پنچائت ہر کسان کو اس کے خاندان کی ضرورت کے مطابق زمین دینے، گاؤں کا سارا انتظام کرنے، دستکاروں کو رواج کے مطابق پیداوار کا مقررہ حصہ دینے، گاؤں کے باشندوں کے باہمی جھگڑے نپٹانے اور سارے کے سارے گاؤں کی طرف سے ملک کے فرمانروا کو ملک کے قانون یا رواج کے مطابق پیداوار کا مقررہ حصہ مالیہ کی حیثیت سے ادا کرنے کے فرائض ادا کرتی تھی۔
زمین وسیع تھی، لہٰذا اسے زیر کاشت لانے میں ملک کا کوئی قانون، کوئی رواج، کوئی اخلاق اور کوئی مذہبی عقیدہ مانع نہ تھا۔ پیداوار کے البتہ دو حصہ دار تھے ایک کاشتکار اور دوسرا ملک کافرمانروا جسے سروکار صرف مالیہ وصول کرنے سے تھا۔
حکمران بدلتے رہے۔ کبھی عرب، کبھی ترک، کبھی تاتار اور منگول مگر دیہاتی نظام بنیادی طور پر جوں کاتوں رہا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہندوؤں کے عہد میں مالیہ کل پیداوار کے بارہویں حصے سے چھٹے حصے تک تھا اور شہنشاہ اکبر کے وزیر مال ٹوڈر مل نے کل پیداوار کا ایک تہائی حصہ مقرر کیا تھا۔
مغربی استعمار پرستوں کے تسلط سے پہلے سارے ایشیا ءمیں زمینوں کے مالک بڑے بڑے جاگیردار بھی نہیں تھے۔ کاشتکاروں اور ملک کے فرمانروا کے درمیان البتہ وفادار راجواڑوں، نوابوں، خانوں، شاہ کے خیر خواہ اور پرانے خدمت گار افسروں، دیوانوں اور قبائلی سرداروں کا ایک طبقہ ضرور تھا جو فرمانروا کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے علاقے کی حفاظت اور اس کا انتظام کرتا تھا اور ساتھ ہی اس کے کاشتکاروں سے مالیہ وصول کرکے اس میں کچھ مقامی ضرورتوں (حفاظت نظم و نسق اور تعمیر) کےلئے مقامی خزانہ میں رکھتا اور باقی فرمانروا کو بھیج دیتا تھا۔ ان تینوں میں زمین کا حقیقی مالک کون ہے، اس بات کا تصفیہ جدید سرمایہ داری کے عروج کے ساتھ ہی ساتھ یورپ میں دو تین سو سال پہلے ہو چکا تھا، ایشیاء میں نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ زمین ہندوستان اور تمام ایشیا ءمیں کسی کی ذاتی ملکیت نہیں تھی۔ اس کی کوئی قیمت نہ تھی، اس کی کوئی ساکھ نہ تھی۔
جدید سرمایہ داری اور ایشیاء کے جاگیردار
مگر یورپ کے جدید تاجر پچھلے تمام حکمرانوں سے جدا خصوصیات رکھتے تھے جدید تاجر ہونے کی حیثیت سے ان کا مقصد اپنے ملک کے کارخانوں کےلئے کچھ مال خریدنا اور ان کارخانوں کی تیار کردہ اشیاءکو فروخت کرنا تھا۔ ایشیا ء کا قدیم خود کفیل دیہاتی نظام ان کے اس مقصد کی کامیابی میں حائل ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اسے درہم برہم کرکے اپنے مفاد کے مطابق ایک خاص نظام یعنی نو آبادیاتی نظام قائم کیا۔
خود ہمارے اپنے ملک میں پہلے مالیہ کی ادائیگی گاؤں کی مشترکہ ذمہ داری تھی۔ اس اعتبار سے زمین گاؤں یا قبیلہ کی مشترکہ ملکیت تھی۔ نئے حکمرانوں نے مالیہ ادا کرنے کی ذمہ داری افراد کے کاندھوں پر ڈال کر گاؤں یا قبیلہ کی مشترکہ ذمہ داری ختم کر دی۔ زمین کو ذاتی ملکیت بنانے کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔ پہلے مالیہ کل پیداوار کا ایک مقررہ حصہ تھا اور عموماً جنس کی شکل میں ادا کیا جاتا تھا۔ انگریز حکمرانوں نے رقبہ اور زمین کی زرخیزی کو مالیہ کی بنیاد بنایا اور نقد روپوں کی ادائیگی کو قانوناً لازمی اور عدم ادائیگی کو جرم مستوجب ِضبطی زمین قرار دیا۔ روپیہ اس زمانہ میں شاذو نادر ہی نظر آتا تھا۔ اس لئے جو کسان مالیہ ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتے تھے، وہ اپنے قبائلی سرداروں اور سابقہ اور نئی حکومت کے سرکاری افسروں کے مزارعہ بن گئے۔
چنانچہ قبیلوں کے قبیلے اور گاؤں کے گاؤں کی مشترکہ زمین ان قبائلی سرداروں سابقہ حکومتوں کے ملازموں اور افسروں، پیروں اور سجادہ نشینوں کے قبضہ میں چلی گئیں، جنہوں نے سابقہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرکے نئے حکمرانوں کو ملک فتح کرنے میں مدد دی یا سرکش قبیلوں کو دبانے میں انگریزوں کا ہاتھ بٹایا، یا عوام کے خلاف حکومت کی بڑی خدمت کی اور یہ حقیقت ہے کہ پنجاب، سندھ اور صوبہ سرحد میں آج جو بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار ہیں انہیں یہ جاگیریں اور زمینیں وطن فروشی اور عوام دشمنی کے صلے میں انگریزوں سے ملی ہیں۔
عوام کو ایک پسماندہ نو آبادیاتی نظام کی زنجیروں میں جکڑنے نیز اپنے اس نظام کو عوامی غصہ کے پُرشور طوفانوں سے محفوظ رکھنے کیلئے انگریزوں کو ہندوستانیوں کے ایک حصہ کی سرگرم اور وفادارانہ حمایت و امداد درکار تھی۔ چنانچہ انہوں نے زمانہ گزشتہ کی باقیات (راجے، نواب، قبائلی سردار، پچھلے حکمرانوں کے افسر، پیر، سجادہ نشین (وغیرہ) نیز اپنے خدمت گاروں، وفاداروں اور عوام دشمن عناصر میں سے جاگیر دار پیدا کرکے انہیں اپنی حکومت اور نو آبادیاتی نظام کا سون بنایا اور زمین (خدمات کے صلہ میں مربعہ جات) مخصوص مراعات (مثلاً ٹوانوں اور نُونوں کو اپنی نہریں جاری رکھنے اور کاشتکاروں سے کل پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ آبیانہ وصول کرنے نیز تمام جاگیرداروں کو اپنے مزارعوں سے مختلف قسم کے جاگیر شاہی ٹیکس وصول کرنے کی مراعات) خطابات اور سندیں (جو مقامی افسروں سے رعایات حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں) اور اختیارات (نمبرداری، ذیلداری، آنریری مجسٹریٹی وغیرہ) دے کر اور ان کے پڑھے لکھے بیٹوں اور بھتیجوں کو فوج، پولیس، مال، نہر اور دیگر سرکاری محکموں میں اونچے اونچے عہدے دے کر مصنوعی طریقہ پر قائم رکھا ہے۔
جاگیرداری اور جماعت اسلامی
مغربی پنجاب اور اسی طرح سندھ، صوبہ سرحد(موجودہ خیبرپختون خوا)، بلوچستان اور مشرقی بنگال (موجودہ بنگلا دیش جو اُس وقت پاکستان کا حصہ تھا)کے حقیقی مالک اور حکمران یہی جا گیردار اور بڑے زمیندار ہیں۔
مثلاً مغربی پنجاب کے ساڑھے تیرہ لاکھ موجودہ پرانے مالک اراضی میں سے دس ایکڑ سے کم زمین کے مالک گیارہ لاکھ 33 ہزار اور پانچ ایکڑ سے کم زمین کے مالک نو لاکھ سے اوپر ہیں۔ مگر اس صوبہ کی زیر کاشت تقریباً دو کروڑ ایکڑ زمین میں سے مجموعی طور پر ان کے قبضہ میں باالترتیب 34 لاکھ اور 18 لاکھ ایکڑ زمین ہے۔ برعکس اس کے پانچ سو ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک ساڑھے سات ہزار سے کم ہیں۔ مگر مجموعی طور پر زمین ا ن کے قبضہ میں 36 لاکھ ایکڑ ہے۔مغربی پنجاب کے حقیقی مالک اور حکمران یہی چھ سات ہزار زمینداروں اور جا گیرداروں کے خاندان ہیں۔
دس ایکڑ سے کم زمین رکھنے والے تقریباً گیارہ لاکھ مالک، مہاجر کاشتکاروں کے تقریباً پانچ لاکھ خاندان جنہیں غیر مسلم کی زمینوں پر آباد کیا گیا ہے، علاوہ ان کے مزارعوں اور کھیت مزدوروں کے تقریباً پانچ لاکھ خاندان یعنی مہاجر اور غیر مہاجر دیہاتی کاشتکاروں کے تیرہ چودہ لاکھ خاندان۔۔ غرضیکہ پوری کی پوری دیہاتی آبادی ان کی غلام ہے۔
پہلے یہ بڑے زمیندار اور جاگیردار یونینسٹ پارٹی کے ممبر اور ستون تھے، اب مسلم لیگ کے ہیں، پہلے وہ صرف زمیندار اور جاگیر تھے اب ان میں سے کئی ایک نے غیر مسلم کی آڑہت کی دُکانوں، تجارتی فرموں اور کارخانوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ہماری دیہاتی اقتصادیات پہلے ہی ان کے قبضہ میں تھی اب قصباتی اقتصادیات پر بھی ان کا قبضہ ہو گیا ہے۔
جس خطۂ زمین کے چند ہزار بڑے زمیندار اور جاگیردار تقریباً چالیس فیصدی زمین کے مالک ہوں اور پیداوار میں کوئی سرمایہ اور کوئی محنت صرف کرنے کے بغیر اپنی زمین کی پیداوار کے تقریباً دو تہائی حصہ کے مالک بن جاتے ہوں، جس خطۂ زمین کے چوبیس لاکھ حقیقی کا شتکار خاندانوں میں سے تقریباً گیارہ بارہ لاکھ مزارعہ اور مہاجر کاشتکار خاندانوں کو خون پسینہ ایک کرنے کے علاوہ اخراجات کا سارا بوجھ برداشت کرکے بھی ایک تہائی پیداوار سے کم نصیب ہوتی ہو۔ جس خطۂ زمین کے تیرہ چودہ لاکھ دیہاتی دستکار بے روزگاروں کی صف میں کھڑے ہوں، جس خطۂ زمین کے زمیندار اور جاگیردار آڑہتی اور تاجر بن کر ذخیرہ اندوزی، چور بازاری اور نفع خوری میں غیر مسلم آڑہتیوں اور تاجروں کو بھی شرمندہ کر رہے ہوں اور جس خطۂ زمین کے زمیندار اور جاگیردار کارخانوں کے مفت میں مالک بن کر صنعت کو فروغ دینے کے بجائے مزدوروں کا خون چوس کر اور مشینیں فروخت کرکے دولت جمع کر رہے ہوں، اس خطۂ زمین کی زراعت، تجارت اور صنعت کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ اس خطۂ زمین کے عوام کبھی خوشحال نہیں ہو سکتے اور فوج رکھنے کے باوجود اپنے ملک کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
چنانچہ جاگیرداری نظام جو ایک ہزار سال پہلے ترقی پسندانہ نظام تھا (اسی وجہ سے اس نے غلامی کے نظام کی جگہ لی تھی) آج اقتصادی، سیاسی، سماجی اور تہذیبی ترقی کے راستہ میں پہاڑ بن کر کھڑا ہے۔ اس پہاڑ کو گرانے یعنی جاگیرداری اور بڑی زمینداری کو بلا معاوضہ منسوخ کرنے اور زمینوں کو ملک کے حقیقی کاشتکاروں میں مفت تقسیم کرنے کے بغیر ہم ترقی کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتے۔
مگر مولانا مودودی کسی حکومت یا کسی مجلس قانون ساز کو اجتماعی بہتری کیلئے بھی جاگیرداروں کے مالکانہ حقوق کو چھیننے یا ان میں کمی بیشی کرنے کو شرعاً ناجائز اور ظلم قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں؛
”جو لوگ جاگیرداری کو ناجائز ٹھہرا کر اس کے انسداد پر زور دیتے ہیں وہ اسلامی قانون کی حدود سے باہر قدم رکھتے ہیں۔“
(تسنیم 26 جون 50ء)
مولانا مودودی نہ صرف بڑی زمینداری اور جاگیرداری کو اسلامی قانون کے عین مطابق سمجھتے ہیں، بلکہ قدیم زمانہ کے جاگیرداری نظام کی دوسری ”برکتوں“ مثلاً جنگی قیدیوں کو لونڈی ،غلام بنانے، ان کی خرید و فروخت کرنے اور بلا تعداد لونڈیوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے متعلق جماعت اسلامی کے اس تصور اور مطمع نظر پر روشنی مولانا مودودی نے ایک چِٹھی میں ڈالی ہے جو نومبر 1948ءکے ”طلوع ِاسلام“ اور 26 جولائی 1950ءکے روزنامہ ”امروز“ میں شائع ہوئی تھی۔
غرضیکہ جماعتِ اسلامی کے قائم کردہ ”اسلامی نظام ِحکومت “ میں بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کو نہ صرف کسانوں اور مزارعوں کی گاڑھے پسینے کی کمائی کو ہڑپ کرنے بلکہ لونڈی، غلام خریدنے اور فروخت کرنے اور بلا تعداد لونڈیوں سے جنسی تعلقات قائم کرنے کا بھی حق ہو گا۔
یہی وجہ ہے کہ پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار مسلم لیگی ہونے کے باوجود جماعت اسلامی کے پرستار ہیں۔وہ جماعتِ اسلامی کی مالی امداد کرتے ہیں۔ لٹریچر خریدتے ہیں۔ کاشتکاروں میں تقسیم کرتے ہیں اور زرعی اصلاحات کے خلاف پنجاب کے جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کے نمائندے سید نور بہار شاہ مولانا مودودی کی کتابوں کاحوالہ دیتے ہیں۔
سرمایہ داری اور جماعت اسلامی کی ”متوسط راہ“
جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الا اعلیٰ مودودی جاگیرداری کو اسلامی قانون کی رُو سے جائز قرار دیتے ہوئے اشراکیت اور سرمایہ داری دونوں کی مذمت کرتے ہیں۔ مگر جو اقتصادی، سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی نظام ”اسلام کے نظام ِحیات“ کے نام سے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان ایک ”متوسط راہ“ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں، وہ کوئی دوسری راہ نہیں، وہی راہ ہے جس پر کہ سرمایہ دار اور جاگیردار موجودہ دور میں گامزن ہیں۔ آپ فرماتے ہیں؛
”تمدن و معیشت میں انسان کو جو چیز اپنی انتہائی قوت کے ساتھ سعی و عمل کرنے پر ابھارتی ہے، وہ دراصل اس کا ذاتی مفاد ہے۔ یہ انسان کی فطری خود غرضی ہے جس کو کوئی منطق اس کے دل و دماغ کے ریشوں سے نہیں نکال سکتی، غیر معمولی افراد کو چھوڑ کر ایک اوسط درجہ کا آدمی اپنے دل و دماغ اور دست و بازو کی تمام طاقتیں صرف اسی کام میں خرچ کرتا ہے اور کر سکتا ہے جس سے اس کو خود اپنے مفاد کیلئے ذاتی دلچسپی ہوتی ہے۔ اگر سرے سے یہ دلچسپی ہی باقی نہ رہے اور اس کو معلوم ہو کہ اس کیلئے فوائد و منافع کی جو حد مقرر کر دی گئی ہے اس سے بڑھ کر وہ اپنی جدوجہد سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے گا، تو اس کے قویٰ فکر و عمل ٹھٹھر کر رہ جائیں گے۔“
(سود۔ مصنفہ:۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی۔ صفحات 12 اور 13)
مولانا مودودی کے خیال میں انسان فطری طور پر خود غرض ہے اور وہ اپنے دل و دماغ اور قوت و بازو کی طاقتوں کو صرف اسی کام پر خرچ کرتا ہے جس سے اس کو ذاتی فائدہ ہو۔ چنانچہ شخصی ملکیت اور دولت کمانے کی آزادی کو انسان کے فطری حقوق میں شمار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں؛
”اشتراکیت اور سرمایہ داری ایک دوسرے کے خلاف دو انتہائی نقطوں پر ہیں۔ سرمایہ داری افراد کو ان کے فطری حقوق ضرور دیتی ہے مگر اس کے اُصول و نظریات میں کوئی ایسی چیز نہیں جو افراد کو جماعت کے مشترک مفاد کی خدمت کیلئے آمادہ کرنے والی اور تابحد ضرورت اس پر مجبور کرنے والی ہو۔ بلکہ درحقیقت وہ افراد میں ایک ایسی خود غرضانہ ذہنیت پیدا کرتی ہے، جس سے ہر شخص اپنے شخصی مفاد کیلئے جماعت کے خلاف عملاً جنگ کرتا ہے، یہاں تک کہ تقسیم ِثروت کا توازن بالکل بگڑ جاتا ہے۔ ایک طرف چند خوش نصیب افراد پوری جماعت کے وسائلِ ثروت کو سمیٹ کر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جاتے ہیں اور اپنے سرمایہ کی قوت سے مزید دولت کھینچے چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف جمہور کی معاشی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے اور دولت کی تقسیم میں ان کا حصہ گھٹتے گھٹتے بمنزلہ صفر رہ جاتا ہے۔ اشتراکیت اس خرابی کا علاج کرنا چاہتی ہے مگر وہ ایک صحیح مقصد کےلئے غلط راستہ اختیار کرتی ہے۔ اس کا مقصد تقسیم ثروت میں توازن قائم کرنا ہے اور یہ بلاشبہ صحیح مقصد ہے مگر اس کیلئے وہ ذریعہ ایسا اختیار کرتی ہے جو درحقیقت انسانی فطرت سے جنگ ہے۔ افراد کو شخصی ملکیت سے محروم کرکے بالکل جماعت کا خادم بنا دینا نہ صرف معیشت کےلئے تباہ کن ہے بلکہ زیادہ وسیع پیمانے پر انسان کی پوری تمّدنی زندگی کےلئے مہلک ہے۔ کیونکہ یہ چیز معاشی کاروبار اور نظام تمّدن سے اس کی روحِ رواں اس کی اصلی قوتِ محرکہ کو نکال دیتی ہے۔ اسلام ان دو متضاد معاشی نظاموں کے درمیان ایک معتدل نظام قائم کرتا ہے جس کا اصل الاصول یہ ہے کہ فرد کو اس کے پورے پورے شخصی اور فطری حقوق بھی دیئے جائیں اور اس کے ساتھ تقسیم ثروت کا توازن بھی نہ بگڑنے دیا جائے۔ ایک طرف وہ فرد کو شخصی ملکیت کا حق اور اپنے مال میں تصرف کرنے کے اختیارات دیتا ہے اور دوسری طرف وہ ان سب حقوق و اختیارات پر باطن کی راہ سے کچھ ایسی اخلاقی پابندیاں اور ظاہر کی راہ سے کچھ ایسی قانونی پابندیاں عائد کر دیتا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ کسی جگہ وسائلِ ثروت کا غیر معمولی اجتماع نہ ہو سکے۔ ثروت اور اس کے وسائل ہمیشہ گردش کرتے رہتے ہیں اور گردش ایسی ہو کہ جماعت کے ہر فرد کو اس کا مناسب حصہ مل سکے۔ اس قسم کا طرزِ معیشت اگرچہ کسی کو کروڑ پتی بننے سے نہیں روک سکتا مگر اس کے ماتحت یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی کروڑ پتی کی دولت اس کے ہزاروں ابنائے نوع کی فاقہ کشی کا نتیجہ ہو۔ دوسری طرف یہ طرز ِمعیشت تمام افراد کو خدا کی پیدا کی ہوئی دولت میں سے حصہ ضرور دلانا چاہتا ہے مگر ایسی مصنوعی بندشیں لگانا جائز نہیں رکھتا جس کی وجہ سے کوئی شخص اپنی قوت و قابلیت کے مطابق اکتسابِ مال نہ کر سکتا ہو۔“
(سود، مصنفہ ابو الا اعلیٰ مودودی، صفحات 11تا 15)
(جاری ہے۔)
—♦—
دادا فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔