پاکستان کے محنت کش ،مظلوم عوام غیر ملکی سامراجیوں اور پاکستان کے بڑے بڑے تاجروں اور جاگیرداروں کے حیا سوز، براہ ِراست اور وحشیانہ استحصال کے خلاف کھڑے ہو کر روٹی، روزگار، زمین اور جمہوری آزادی حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس جدوجہد کو بے اثر اور ناکام بنانے کیلئے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تنخواہ دار مولوی بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ”اسلام بذات خود ایک الگ اور مکمل نظام حیات ہے“۔ اور ”اسلام کے نظامِ حیات اور کمیونزم میں کوئی چیز مشترک نہیں“ ۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ”کمیونزم اور اسلام ایک دوسرے کے دشمن ہیں“۔ اور ”کمیونزم کو مٹائے بغیر نہ اسلام قائم رہ سکتا ہے اور نہ مسلمان زندہ رہ سکتے ہیں“۔ پنجاب کے سرکاری مولوی ابو الحسنات، جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مرزائیوں کے خلیفہ ثانی بشیر الدین محمود تینوں کا اس بات پر اتفاق ہے۔
مگر ان ”علمائے دین“ میں سے کسی نے بھی آج تک یہ وضاحت نہیں کی کہ موجودہ دور میں اس نظام کی اقتصادی، سیاسی اور سماجی شکل کیا ہو گی جسے وہ اسلامی نظام کہتے ہیں۔
رجعت پسند سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی موجودہ برسر ِاقتدار جماعت مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ”علمائے دین“ ایک ہی سانس میں مختلف و متضاد باتیں کہتے ہیں۔ ایک طرف یہ مولوی کمیونزم پر اسلامی مساوات، جمہوریت اور اخوت کی بلندی اور برتری ثابت کرنے کیلئے اس جمہوریت، مساوات اور اخوت کا تذکرہ کرتے ہیں جو رسالت اور خلافت راشدہ کے عہد میں مدینہ میں تھی اور دوسری طرف بنو اُمیہ، بنو عباس اور دوسرے مسلمان شاہی خاندانوں کے مطلق العنان اور جابر بادشاہوں کی مدح سرائی کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان بادشاہوں کی فہرست میں چنگیز اور ہلاکو کو بھی شامل کرلیتے ہیں اور کمیونسٹوں کی اس بناءپر مذمت کرتے ہیں کہ وہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کو ختم کرکے امیر و غریب کی تمیز مٹانے اور سب میں برابری قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔
اور برملا کہتے ہیں کہ اس قسم کی مساوات ”اسلام کے منافی“ اور”قدرت کے تقاضوں کے خلاف جنگ“ کے مترادف ہے۔
ایک طرف وہ خلفاءِراشدین کے عہد میں اس دور کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جب عراق، ایران اور شام میں مسلمانوں کی فتوحات کے سبب مالِ غنیمت کی آمد اور مدینہ میں اس کی تقسیم سے کوئی زکوٰة لینے والا نہ رہا تھا اور دوسری طرف ”کمیونزم کی اسلام دشمنی“ ثابت کرنے کیلئے یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ”زکوٰة اور خیرات مسلمانوں پر فرض ہے اور اگر سب برابر ہو گئے، کوئی امیر و غریب نہ رہا، تو زکوٰة اور خیرات لینے والے نہیں ہوں گے اور اسلام کی رُو سے جو فرض مسلمانوں پر عائد ہے، اُسے مسلمان ادا نہیں کر سکیں گے“۔ مرزائیوں کے اخبار الفضل نے انہی دلائل کو پیش کرتے ہوئے کمیونسٹوں کی جدوجہد کو کئی بار ”مداخلت فی الدین“ قرار دیا ہے۔
یہ علماءاپنے پیش روا انگریز پرست علماءکی طرح جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کے ہر جائز و ناجائز فعل کو اسلام کی رُو سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی، مولوی ابو الحسنات وغیرہ کے جاگیرداری نظام اور پبلک سیفٹی ایکٹ کی حمایت میں فتوے اس بات کے ثبوت ہیں۔
پاکستان کے موجودہ برسر ِاقتدار گروہ مسلم لیگ سے تعلق نہ رکھنے والے علماءمیں سب سے زیادہ منظم جماعت اسلامی کے مولوی ہیں۔ وہ خلافتِ راشدہ تک کے دور کو صرف اسلامی حکومت کا دور تصور کرتے ہیں اور اس کے بعد تمام مسلمان شاہی خاندانوں کی حکومتوں کو غیر اسلامی حکومتیں قرار دیتے ہیں۔ مگر جہاں تک جاگیرداری اور بڑی زمینداری کا تعلق ہے، وہ انہیں اسلامی قانون کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔ اس جماعت کے امیر مولانا ابو اعلیٰ مودودی اپنی کتاب ”مسئلہ ملکیتِ زمین“ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ؛
”قرآن کی آیت وفہعھا الانام سے یہ حکم نکالنا کہ زمین کی شخصی ملکیت یعنی زمینداری ناجائز ہے، صحیح نہیں۔ اسی طرح الارض للہ سے یہ ا متناع کہ زمین خدا کی ہے اور بندے اس کے مالک نہیں ہو سکتے۔ انتہائی مضحکہ خیز ہے!۔ وہ زمین کو بٹائی یا کرائے پر دینے کی ممانعت کے متعلق ان تمام احادیث کو نقل کرتے ہوئے جن کے مروی چھ صحابہ کرام رافع بن خدیجؓ، جابر بن عبد اللہؓ، ابو ہریرہؓ، ابو سعید خذریؓ، زید بن ثابتؓ اور ثابت بن ضحاکؓ اور انہیں صحیح اور مستند تسلیم کرتے ہوئے یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ ”مزارعت کی حُرمت اور یہ خود کاشتی کی قید اور یہ ملکیتِ زمین کیلئے رقبے کی حد بندی اسلام کے مجموعی نظام میں کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتی۔“
وہ بڑی زمینداری اور جا گیرداری کے اس قدر حامی ہیں کہ تاریخی حقیقتوں کو بھی غلط انداز میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بڑی زمینداری اور جاگیرداری جزیرة العرب میں عہد رسالتؐ سے پہلے اور خلافتِ راشدہ کے عہد میں بھی موجود تھی۔ تاریخی اعتبار سے یہ سراسر غلط ہے!۔
قدیم عرب اور جاگیر داری
صحرائے عرب بدو قبیلوں کی سرزمین ہے جو عہد رسالتؐ سے پہلے چشموں کے قریب چراگاہوں میں کھجور کے درختوں کے نیچے اونی کپڑے کے خیموں کی بستیوں میں رہتے، رات کے وقت چاند کی چاندنی میں سفر کرتے اور مویشی چراتے، دودھ، گوشت اور کھجور پر زندگی بسر کرتے اور قدیم زمانہ کے تمام صحرائی قبیلوں کی طرح چاند، سورج اور ستاروں نیز چشموں، چراگاہوں، درختوں اور غاروں کو دیوی دیوتا سمجھ کر پرستش کرتے تھے۔ کنوئیں، چشمے، چراگاہیں اور کھجور کے درخت قبیلے کی مشترکہ ملکیت تھے۔ مویشی اور خیمے کے اندر کی چیزیں خاندان کی ملکیت بن چکی تھیں۔ بعض قبیلوں میں مویشی ابھی تک قبیلوں کی مشترکہ ملکیت تھے۔
یمن، حضر موت، عمان اور مغربی اورشمالی حجاز کے ان خطوں میں جو سمندر کے قریب ہیں اور جہاں بارش کبھی کبھی ہوتی ہے، زرعی بستیاں اور تجارتی شہر آباد ہو چکے تھے۔ مکہ جسے زم زم کے چشمے اور کعبہ کی وجہ سے مقدس مقام سمجھا جاتا تھا، قریش تاجروں کا شہر تھا جو کعبہ کے پاسبان بھی گردانے جاتے تھے۔ مدینہ برعکس اس کے زرعی بستی تھا اور کسانوں ،دستکاروں اور چھوٹے تاجروں کا قصبہ تھا۔ اوّل الذکر کی آبادی اس وقت 7، 8 ہزار اور آخر الذکر کی چار ،پانچ ہزار سے اوپر نہیں تھی۔
صحرائے عرب میں جہاں آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی، خوراک نیز چشموں اور چراگاہوں کے کم ہونے سے جائے رہائش کی قلت نے عرب قبیلوں کو یکے بعد دیگرے اپنا آبائی وطن چھوڑنے، مصر، بابل، شام اور فلسطین کو ہجرت کرنے اور وہاں آباد ہو کر پہلی تہذیبوں کی بنیاد رکھنے کےلئے مجبور کیا۔
چنانچہ ولادت مسیح ؑسے تقریباً چار ہزار سال پہلے یمن کے علاقے سے کچھ صحرائی قبیلے خوراک کی تلاش میں جزیرة العرب کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے دریائے نیل کی زرخیز وادی میں پہنچے، جہاں انہوں نے قدیم مصریوں سے کھیتی باڑی سیکھی اور پتھر کی عمارتیں تعمیر کرکے نیز شمسی کیلنڈر رائج کرکے سب سے پہلی تہذیب کی بنیاد رکھی۔
اس خروج کے کچھ عرصہ بعد جنوبی عرب کے مشرقی حصوں سے کچھ یمنی عرب قبیلے دَجلہ اور فرات کی زرخیز وادی میں پہنچے جہاں انہوں نے مہذب و متمدن سمریوں سے مکان بنانا اور اس میں رہنا نیز کھیتی باڑی، آبپاشی اور لکھنا پڑھنا سیکھا۔ بابل کی قدیم تہذیب انہی یمنی عربوں کی تہذیب تھی۔ پہیوں والی گاڑی اور ناپ تول کے پیمانے انہی کی ایجاد ہیں۔
ولادت مسیحؑ سے تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے جنوبی عرب کے اسی خطے سے کچھ قبیلے خوراک اور زرخیز وادی کی تلاش میں سفر کرتے ہوئے شام و کنعان کے زرخیز خطوں میں پہنچے۔ یہ فونیشی تھے جنہوں نے بحیرۂ روم میں سب سے پہلے جہاز رانی اور سمندری تجارت شروع کی۔ اس خروج کے تقریباً چھ ،سات سو سال بعد جنوبی عرب سے کچھ قبیلے دَجلہ و فرات کی زرخیز وادیوں میں آباد ہونے کی ناکام کوششوں کے بعد فلسطین پہنچ کر آباد ہوئے۔ یہ یہودی تھے جنہوں نے مہذب دنیا کے سامنے ایک خدا کا عقیدہ سب سے پہلے رکھا۔
حضرت مسیحؑ کی ولادت سے تقریباً سات سو سال پہلے شمالی عرب سے خروج کا دور شروع ہوا۔ موجودہ شرقِ اُردن کے قریب صحرا سے کچھ قبیلے کوہستان سینا کے شمال مشرق میں پہنچ کر آباد ہوئے اور پہلے مصر اور اس کے بعد روم کی تہذیب سے متعارف اور متاثر ہو کر اپنی ایک الگ تہذیب یعنی قطبی تہذیب کو بام ِعروج پر پہنچایا۔
خوراک اور جائے رہائش کی قلت نے ہر ملک میں نیم وحشی قبیلوں کو مہذب و متمدّن بنانے میں بہت بڑا تاریخی فریضہ ادا کیا ہے۔
یہ خوراک اور جائے رہائش کی قلت ہی تھی جس نے عرب کے ریگستان میں رہنے والے بَدو قبیلوں کو ایک دوسرے سے چشمے، چراگاہیں اور مویشی چھیننے کےلئے قبائلی جنگوں میں مصروف رکھا اور یہی وہ تلخ حقیقت تھی جس نے ساحلِ سمندر کے قریب رہنے والے یمنی عربوں کو مچھلی کا شکار کھیلنے کیلئے جہاز سازی اور جہاز رانی اور پھر سمندری تجارت کی طرف متوجہ کیا۔
چنانچہ یمنی عرب ہی وہ پہلے تاجر تھے جنہو ں نے تہذیب قدیم کے تین بڑے مراکز، یعنی ہندوستان، عراق اور مصر کے درمیان تجارت شروع کرکے اس پر اپنا مکمل اجارہ قائم کیا۔ یمنی عربوں کی یہ اجارہ داری رومیوں نے ختم کی جب ان کے جہاز دریائے نیل اور اس زمانہ کی نہر سویز سے گزر کر بحیرۂ قلزم کے راستے ہندوستان کو آنے جانے لگے۔
عراق اور ایران میں جہاں ساسانیوں کی حکومت تھی اور شام، فلسطین، مصر اور شمالی افریقہ میں جہاں رومیوں کا اقتدار تھا زرعی اور صنعتی پیداوار کا اکثر و بیشتر انحصار غلاموں کی محنت پر تھا اور دیگر تمام آلات ِپیداوار کی طرح غلام بھی پیداوار کے اوزار اور مالکوں کی ذاتی ملکیت تھے۔ مگر صحرائے عرب میں جہاں خوراک اور جائے رہائش کی قلت تھی اور جہاں غلاموں کی محنت سے فائدہ اٹھانے کےلئے عربوں کے پاس نہ زرخیز زمین کے بڑے بڑے قطعات اور نہ ہی کارخانے تھے، عرب قبیلے اپنے دشمن قبیلوں کو شکست دینے کے بعد ان کی چراگاہوں، چشموں اور مویشیوں پر قبضہ کرکے ان کے خیموں کو لوٹ لیتے اور مردوں کو غلام بنا لینے کے بجائے انہیں قتل کر دیتے اور عورتوں کو جن کی تعداد صحرائے عرب میں مردوں کے مقابلے میں کم تھی اپنی لونڈیاں بنا لیتے تھے۔ شہروں میں البتہ حبشی غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ یہ غلام یا تو ان کے گھروں میں کام کاج کرتے تھے یا عرب تاجروں کے جہازوں میں چپو چلانے کی محنت کرتے تھے۔
جہاں تک ملک کی زرعی اور صنعتی پیداوار کا تعلق ہے شہروں میں بھی ان کا انحصار غلاموں کی محنت پر نہیں تھا۔ جزیرة العرب کے تینوں طرف ساحل سمندر کے قریب بارش والے خطوں میں جہاں زرعی بستیاں وجود میں آ چکی تھیں، قابل کاشت زمین کے ٹکڑے بہت چھوٹے چھوٹے تھے اور وہ چھوٹے چھوٹے اور آزاد مالک کاشتکاروں میں بٹ چکے تھے۔ مگر جہاں تک جاگیرداری یا بڑی زمینداری کا تعلق ہے، وہ وجود میں نہیں آئی تھی۔ جاگیرداری کی نشوونما یمن، حضر موت اور عمان کے خطوں میں بھی نہیں ہوئی تھی۔ البتہ وہ چھوٹے چھوٹے کاشتکار جنہوں نے تجارت یا دستکاری کا پیشہ اختیار کر لیا تھا، ان میں سے بعض اپنی زمین کو کرایہ یا بٹائی پر دوسرے کاشتکاروں کو دے دیتے تھے۔
خلفائے راشدین اور زرعی اصلاحات
آنحضرت رسول اکرمؐ کے عہد میں زمین کا مسئلہ بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے نہیں آیا اور وہ اس لئے کہ تقریباً سارے کا سارا عرب صحرا ہے اور زرعی بستیوں کی اس صحرا میں حیثیت ساحل سمندر کے قریب چھوٹے چھوٹے جزیروں ایسی ہے۔ آنحضرتؐ کے عہد میں مدینہ ہی صرف چار پانچ ہزار چھوٹے تاجروں، دستکاروں اور کاشتکاروں کی ایک بستی تھی جہاں زمین کا مسئلہ حل کرنے کےلئے پیش ہوا۔
اسلام نے چشموں، کنوؤں، چراگاہوں، کانوں وغیرہ کی طرح زمین کو بھی نظری اعتبار سے خدا کی ملکیت اور حقیقی اعتبار سے سب کی مشترکہ ملکیت قرار دیا ، اور رسول کریمؐ نے جیسا کہ چھ صحابہ کرام رافع بن خدیجؓ، جابر بن عبد اللہؓ، ابو ہریرہؓ، ابو سعید خذریؓ، زید بن ثابتؓ اور ثابت بن ضحاکؓ سے مروی ہے، زمین کو قابل کاشت بنانے والوں کے حقِ ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ اپنے پاس صرف اتنی زمین رکھیں جتنی کاشت کر سکتے ہیں اور باقی زمین اپنے بھائی کو مفت کاشت کےلئے دے دیں مگر بٹائی یا کرایہ پر نہ دیں۔ غرضیکہ مدینہ میں پیغمبر اسلام ؐنے زمین کو خدا کی ملکیت قرار دیتے ہوئے اسے قابل کاشت بنانے والے کے حقِ ملکیت کوتسلیم کیا اور ساتھ ہی اس کے حقیقی کاشتکار کو زمین کی پیداوار کا مالک قرار دیا۔
زمین کا مسئلہ حقیقی طور پر بہت بڑا مسئلہ بن کر عربوں کے سامنے اُس وقت آیا جب انہوں نے صحرائے عرب سے نکل کر دنیا کے زرخیز ترین خطوں، مثلاً عراق، شام، فلسطین، مصر اور خراسان پر قبضہ کیا۔
پہلے دو خلفاءِراشدین نے مسلمانوں کو جو اس وقت تک عموماً عرب تھے ایک فوجی تنظیم میں منظم رکھنے اور زمینوں پر قبضہ کرکے آباد ہونے سے روکنے کےلئے مفتوحہ ممالک میں زمینوں پر قبضہ کرنے کی خاص طور پر مخالفت کی۔ چنانچہ پہلے دو خلفاءِراشدین کے عہد میں حضرت عمر فاروقؓ کی سخت ہدایات کے مطابق عربوں نے پرانی بستیوں اور شہروں سے باہر خیموں کے اپنے الگ شہر آباد کئے اور کسی زمین پر قبضہ نہیں کیا۔
عربوں کی فتوحات سے پہلے ساسانیوں اور رومیوں کی سلطنت کے زرخیز ترین خطوں میں زمین ساسانی اور رومی شاہی خاندان کے ممبروں، ان کے رشتہ داروں، درباریوں اور فوجی افسروں کی ملکیت تھی اور اس کی کاشت ان کے غلام کرتے تھے۔
قدیم زمانے میں غلام داروں کی سلطنتیں اس وقت تک مضبوط و مستحکم رہیں، جب تک ان کے سپہ سالار دوسرے ملکوں کو فتح کرکے وہاں سے دولت اور غلام حکمرانوں کیلئے لاتے رہے۔ مگر فتوحات کا دور ختم ہونے سے جب دولت اور غلاموں کی آمد رُک گئی تو غلام شاہی سماج زرعی و صنعتی تنزل اور تجارتی و مالی بحران کے دور میں داخل ہوئی، اور غلاموں اور ان کے آقاؤں کے درمیان طبقاتی جنگ تیز ہو جانے سے ہچکیاں لینے لگی۔ عہد رسالتؐ سے پہلے روم و ایران کی قدیم غلام شاہی سلطنتوں کی یہی کیفیت تھی۔ وہ مرض الموت میں مبتلا اور چند دن کی مہمان تھیں۔
جس طرح بربر قبیلوں نے شمال اور شمال مشرق سے حملے کرکے روم قدیم کی غلام شاہی سماج کو یورپ میں درہم برہم کیا تھا، اسی طرح عربوں نے عراق و ایران میں ساسانیوں اور شام، فلسطین، لبنان اور مصر میں رومیوں کے غلام شاہی نظام ِحکومت کو ختم کیا۔
ایک طرف ایران و روم کی زوال پذیر غلام شاہی حکومتوں کی شکست اور دوسری طرف عربوں کے مفتوح ممالک میں زمینوں اور غلاموں کے مالک ساسانی اور رومی حکمرانوں کے مارے جانے، مغلوب ہونے یا بھاگ جانے سے حقیقی کاشتکار غلام اور زرعی غلام آزاد ہو کر زمینوں کے مالک بن گئے۔ پہلے دو خلفاءِراشدین کے عہد میں عربوں کے مقابلے میں روم و ایران کی قدیم سلطنتوں کے ریت کی طرح گرنے کا سبب یہی زرعی اصلاحات تھیں۔
جاگیرداری کی نشوونما
عراق، ایران، شام اور فلسطین میں زرعی اصلاحات کا یہ دور بہت ہی جلد ختم ہو گیا۔ ایک طرف دولت اور لونڈی غلاموں کی کثرت نے اور دوسری طرف عراق، ایران، شام، فلسطین اور لبنان کی خوبصورتی اور زرخیزی نے عرب مجاہدوں کے جوش جہاد کو رفتہ رفتہ ٹھنڈا کرکے ان میں دنیا کے ان زرخیز ترین خطوں میں آباد ہونے کی خواہش کو بڑھا دیا۔ عرب شیوخ اور سرکردہ مجاہدین نے حضرت عمرؓ کے عہد میں ہی مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ مفتوحہ ممالک میں عربوں کو زمینوں پر قبضہ کرنے اور انہیں خریدنے کی اجازت دی جائے مگر وہ اپنے انکار پر ہمیشہ مصر رہے۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان ؓنے جو مکہ کے اُموی امراءسے تعلق رکھتے تھے، جہاں کلیدی محکمے اور عہدے اپنے قریبی رشتہ دار اموی امراءکے حوالے کر دیئے وہاں ان کے زور دینے سے عربوں کو مفتوحہ ممالک میں زمینوں پر قبضہ جمانے اور عالیشان محلوں میں رہنے کی بھی اجازت دے دی۔ کئی ایک صحابہ کرامؓ بالخصوص حضرت ابو ذر غفاری نے اس بات کی شدید مخالفت کی۔ مگر حضرت عثمان ؓ نے اس مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت ابو ذر غفاری کو مدینہ سے کچھ دور ربزہ میں نظر بند کر دیا۔
زمینیں اور جاگیریں حاصل کرکے زرخیز ترین علاقوں میں آباد ہونے کی طرف رجحان بڑھنے سے فتوحات کا پہلا دور حضرت عمرؓ کی وفات (644ھ )کے تین چار سال بعد ہی ختم ہو گیا۔ صحرائے عرب سے جہاں خوراک اور جائے رہائش کی قلت اور آبادی بڑھ رہی تھی، یکے بعد دیگرے قبیلے نکل کر دوسرے علاقوں میں آباد ہونے لگے اور چالیس پچاس سال کے عرصے میں صحرائے عرب میں آبادی بہت کم رہ گئی۔
زمین اور جاگیریں عطا کرنے کا سلسلہ حضرت عثمان ؓ کے عہد میں شروع ہوا۔ ابنِ خلدون مقدمۂ تاریخ جلد دوم صفحہ 60 پر بحوالہ مسعودی لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں ہی صحابہ کرام اور اُموی امراءجاگیریں اور مال غنیمت حاصل کرنے کے سبب سے امیر و کبیر ہو گئے تھے۔ خود حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد ان کے خزانے میں ایک لاکھ دینار اور دس ہزار درہم موجود تھے۔ حضرت زبیرؓ کے انتقال کے بعد ان کے ترکے کی قیمت پچاس ہزار دینار تھی۔ علاوہ اس کے ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار لونڈی غلام بھی تھے۔ حضرت طلحہؓ کی عراق میں غلہ کی تجارت تھی اور اس سے ان کی آمدنی ایک ہزار دینار یومیہ تھی۔ حضرت عبد الرحمانؓ بن عوفؓ کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے، ایک ہزار اونٹ اور دس ہزار بکریاں تھیں اور ان کی وفات کے بعد ان کا ترکہ 84ہزار دینار تھا۔ زید بن ثابتؓ نے ایک لاکھ دینار کی جاگیر اور بہت کچھ نقدی چھوڑی تھی۔ چاندی اور سونے کی اینٹیں اس کے علاوہ تھیں۔
غرضیکہ حضرت عثمان ؓ کی وفات سے پہلے اُموی گورنروں اور فوجی افسروں نے خود زمینوں پر قبضہ کرکے اور قبائلی سرداروں اور سرکردہ مجاہدین کو زمینیں اور جاگیریں عطا کرکے تھوڑے ہی عرصہ میں جاگیرداروں، جاہ پسند گورنروں اور فوجی افسروں کا ایک ایسا بااثر اور مضبوط طبقہ پیدا کر دیا جس کا علویوں اور زبیریوں کے خلاف بنو اُمیہ کو برسرِ اقتدار لانے میں بہت بڑا حصہ ہے۔
پہلے دو خلفاءِراشدین نے عراق، ایران، شام اور فلسطین کے کاشتکاروں اور زرعی غلاموں کو ان کے ساسانی یا رومی آقاؤں کی غلامی سے آزاد کرکے زمینوں کا مالک بنا دیا اور ان سے وہی خراج (مالیہ زمین جو پیداوار کے ایک مقررہ حصہ کی شکل میں حکومت وصول کرتی تھی) وصول کرنے کا فرمان جاری کیا جو ان علاقوں کے مالک کاشتکار رومی یا ساسانی حکومتوں کو ادا کرتے تھے۔ حضرت عثمان ؓ کے عہد سے زمینیں اور جا گیریں ملنے سے عربوں میں جاگیردار پیدا ہوئے وہ مالک نہیں تھے۔ حکومت نے صرف انہیں مخصوص علاقوں یا ضلعوں میں کاشتکاروں سے خراج وصول کرکے اپنے ذاتی استعمال میں لانے اور حکومت کو اس میں سے کوئی حصہ نہ دینے کا حق دیا تھا۔ نظری اعتبار سے زمین خدا کی ملکیت رہی۔ تبدیلی صرف یہ ہوئی کہ پیغمبر اسلام کے خلیفہ اور ملک کے فرمانروا کی حیثیت سے خدا کی طرف سے زمینوں کا مالک خلیفہ وقت قرار پایا۔ چنانچہ خلیفہ وقت آج کسی کو اگر کسی علاقہ یا ضلع کا خراج وصول کرنے کا حق عطا کرتا تھا تو کل ناراض ہو کر اس سے یہ حق چھین بھی لیتا تھا۔ مثلاً امام حسنؑ پچاس لاکھ درہم سالانہ وظیفہ اور ایران کے ایک ضلع کا خراج وصول کرنے کا حق قبول کرکے امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے مگر یہ حق اُموی تاجداروں نے بعد میں امام حسنؓ کے خاندان سے چھین لیا۔
(جاری ہے۔)
—♦—
دادا فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔
Comments 3
جواب دیں جواب منسوخ کریں
پاکستان کے محنت کش ،مظلوم عوام غیر ملکی سامراجیوں اور پاکستان کے بڑے بڑے تاجروں اور جاگیرداروں کے حیا سوز، براہ ِراست اور وحشیانہ استحصال کے خلاف کھڑے ہو کر روٹی، روزگار، زمین اور جمہوری آزادی حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس جدوجہد کو بے اثر اور ناکام بنانے کیلئے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تنخواہ دار مولوی بڑے زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ”اسلام بذات خود ایک الگ اور مکمل نظام حیات ہے“۔ اور ”اسلام کے نظامِ حیات اور کمیونزم میں کوئی چیز مشترک نہیں“ ۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ”کمیونزم اور اسلام ایک دوسرے کے دشمن ہیں“۔ اور ”کمیونزم کو مٹائے بغیر نہ اسلام قائم رہ سکتا ہے اور نہ مسلمان زندہ رہ سکتے ہیں“۔ پنجاب کے سرکاری مولوی ابو الحسنات، جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مرزائیوں کے خلیفہ ثانی بشیر الدین محمود تینوں کا اس بات پر اتفاق ہے۔
مگر ان ”علمائے دین“ میں سے کسی نے بھی آج تک یہ وضاحت نہیں کی کہ موجودہ دور میں اس نظام کی اقتصادی، سیاسی اور سماجی شکل کیا ہو گی جسے وہ اسلامی نظام کہتے ہیں۔
رجعت پسند سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی موجودہ برسر ِاقتدار جماعت مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ”علمائے دین“ ایک ہی سانس میں مختلف و متضاد باتیں کہتے ہیں۔ ایک طرف یہ مولوی کمیونزم پر اسلامی مساوات، جمہوریت اور اخوت کی بلندی اور برتری ثابت کرنے کیلئے اس جمہوریت، مساوات اور اخوت کا تذکرہ کرتے ہیں جو رسالت اور خلافت راشدہ کے عہد میں مدینہ میں تھی اور دوسری طرف بنو اُمیہ، بنو عباس اور دوسرے مسلمان شاہی خاندانوں کے مطلق العنان اور جابر بادشاہوں کی مدح سرائی کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان بادشاہوں کی فہرست میں چنگیز اور ہلاکو کو بھی شامل کرلیتے ہیں اور کمیونسٹوں کی اس بناءپر مذمت کرتے ہیں کہ وہ جاگیرداری اور سرمایہ داری کو ختم کرکے امیر و غریب کی تمیز مٹانے اور سب میں برابری قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ۔
اور برملا کہتے ہیں کہ اس قسم کی مساوات ”اسلام کے منافی“ اور”قدرت کے تقاضوں کے خلاف جنگ“ کے مترادف ہے۔
ایک طرف وہ خلفاءِراشدین کے عہد میں اس دور کا تذکرہ کرتے ہیں کہ جب عراق، ایران اور شام میں مسلمانوں کی فتوحات کے سبب مالِ غنیمت کی آمد اور مدینہ میں اس کی تقسیم سے کوئی زکوٰة لینے والا نہ رہا تھا اور دوسری طرف ”کمیونزم کی اسلام دشمنی“ ثابت کرنے کیلئے یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ”زکوٰة اور خیرات مسلمانوں پر فرض ہے اور اگر سب برابر ہو گئے، کوئی امیر و غریب نہ رہا، تو زکوٰة اور خیرات لینے والے نہیں ہوں گے اور اسلام کی رُو سے جو فرض مسلمانوں پر عائد ہے، اُسے مسلمان ادا نہیں کر سکیں گے“۔ مرزائیوں کے اخبار الفضل نے انہی دلائل کو پیش کرتے ہوئے کمیونسٹوں کی جدوجہد کو کئی بار ”مداخلت فی الدین“ قرار دیا ہے۔
یہ علماءاپنے پیش روا انگریز پرست علماءکی طرح جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے کے ہر جائز و ناجائز فعل کو اسلام کی رُو سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبد الحامد بدایونی، مولوی ابو الحسنات وغیرہ کے جاگیرداری نظام اور پبلک سیفٹی ایکٹ کی حمایت میں فتوے اس بات کے ثبوت ہیں۔
پاکستان کے موجودہ برسر ِاقتدار گروہ مسلم لیگ سے تعلق نہ رکھنے والے علماءمیں سب سے زیادہ منظم جماعت اسلامی کے مولوی ہیں۔ وہ خلافتِ راشدہ تک کے دور کو صرف اسلامی حکومت کا دور تصور کرتے ہیں اور اس کے بعد تمام مسلمان شاہی خاندانوں کی حکومتوں کو غیر اسلامی حکومتیں قرار دیتے ہیں۔ مگر جہاں تک جاگیرداری اور بڑی زمینداری کا تعلق ہے، وہ انہیں اسلامی قانون کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔ اس جماعت کے امیر مولانا ابو اعلیٰ مودودی اپنی کتاب ”مسئلہ ملکیتِ زمین“ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ؛
”قرآن کی آیت وفہعھا الانام سے یہ حکم نکالنا کہ زمین کی شخصی ملکیت یعنی زمینداری ناجائز ہے، صحیح نہیں۔ اسی طرح الارض للہ سے یہ ا متناع کہ زمین خدا کی ہے اور بندے اس کے مالک نہیں ہو سکتے۔ انتہائی مضحکہ خیز ہے!۔ وہ زمین کو بٹائی یا کرائے پر دینے کی ممانعت کے متعلق ان تمام احادیث کو نقل کرتے ہوئے جن کے مروی چھ صحابہ کرام رافع بن خدیجؓ، جابر بن عبد اللہؓ، ابو ہریرہؓ، ابو سعید خذریؓ، زید بن ثابتؓ اور ثابت بن ضحاکؓ اور انہیں صحیح اور مستند تسلیم کرتے ہوئے یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ ”مزارعت کی حُرمت اور یہ خود کاشتی کی قید اور یہ ملکیتِ زمین کیلئے رقبے کی حد بندی اسلام کے مجموعی نظام میں کسی طرح ٹھیک نہیں بیٹھتی۔“
وہ بڑی زمینداری اور جا گیرداری کے اس قدر حامی ہیں کہ تاریخی حقیقتوں کو بھی غلط انداز میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بڑی زمینداری اور جاگیرداری جزیرة العرب میں عہد رسالتؐ سے پہلے اور خلافتِ راشدہ کے عہد میں بھی موجود تھی۔ تاریخی اعتبار سے یہ سراسر غلط ہے!۔
قدیم عرب اور جاگیر داری
صحرائے عرب بدو قبیلوں کی سرزمین ہے جو عہد رسالتؐ سے پہلے چشموں کے قریب چراگاہوں میں کھجور کے درختوں کے نیچے اونی کپڑے کے خیموں کی بستیوں میں رہتے، رات کے وقت چاند کی چاندنی میں سفر کرتے اور مویشی چراتے، دودھ، گوشت اور کھجور پر زندگی بسر کرتے اور قدیم زمانہ کے تمام صحرائی قبیلوں کی طرح چاند، سورج اور ستاروں نیز چشموں، چراگاہوں، درختوں اور غاروں کو دیوی دیوتا سمجھ کر پرستش کرتے تھے۔ کنوئیں، چشمے، چراگاہیں اور کھجور کے درخت قبیلے کی مشترکہ ملکیت تھے۔ مویشی اور خیمے کے اندر کی چیزیں خاندان کی ملکیت بن چکی تھیں۔ بعض قبیلوں میں مویشی ابھی تک قبیلوں کی مشترکہ ملکیت تھے۔
یمن، حضر موت، عمان اور مغربی اورشمالی حجاز کے ان خطوں میں جو سمندر کے قریب ہیں اور جہاں بارش کبھی کبھی ہوتی ہے، زرعی بستیاں اور تجارتی شہر آباد ہو چکے تھے۔ مکہ جسے زم زم کے چشمے اور کعبہ کی وجہ سے مقدس مقام سمجھا جاتا تھا، قریش تاجروں کا شہر تھا جو کعبہ کے پاسبان بھی گردانے جاتے تھے۔ مدینہ برعکس اس کے زرعی بستی تھا اور کسانوں ،دستکاروں اور چھوٹے تاجروں کا قصبہ تھا۔ اوّل الذکر کی آبادی اس وقت 7، 8 ہزار اور آخر الذکر کی چار ،پانچ ہزار سے اوپر نہیں تھی۔
صحرائے عرب میں جہاں آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی، خوراک نیز چشموں اور چراگاہوں کے کم ہونے سے جائے رہائش کی قلت نے عرب قبیلوں کو یکے بعد دیگرے اپنا آبائی وطن چھوڑنے، مصر، بابل، شام اور فلسطین کو ہجرت کرنے اور وہاں آباد ہو کر پہلی تہذیبوں کی بنیاد رکھنے کےلئے مجبور کیا۔
چنانچہ ولادت مسیح ؑسے تقریباً چار ہزار سال پہلے یمن کے علاقے سے کچھ صحرائی قبیلے خوراک کی تلاش میں جزیرة العرب کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے دریائے نیل کی زرخیز وادی میں پہنچے، جہاں انہوں نے قدیم مصریوں سے کھیتی باڑی سیکھی اور پتھر کی عمارتیں تعمیر کرکے نیز شمسی کیلنڈر رائج کرکے سب سے پہلی تہذیب کی بنیاد رکھی۔
اس خروج کے کچھ عرصہ بعد جنوبی عرب کے مشرقی حصوں سے کچھ یمنی عرب قبیلے دَجلہ اور فرات کی زرخیز وادی میں پہنچے جہاں انہوں نے مہذب و متمدن سمریوں سے مکان بنانا اور اس میں رہنا نیز کھیتی باڑی، آبپاشی اور لکھنا پڑھنا سیکھا۔ بابل کی قدیم تہذیب انہی یمنی عربوں کی تہذیب تھی۔ پہیوں والی گاڑی اور ناپ تول کے پیمانے انہی کی ایجاد ہیں۔
ولادت مسیحؑ سے تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے جنوبی عرب کے اسی خطے سے کچھ قبیلے خوراک اور زرخیز وادی کی تلاش میں سفر کرتے ہوئے شام و کنعان کے زرخیز خطوں میں پہنچے۔ یہ فونیشی تھے جنہوں نے بحیرۂ روم میں سب سے پہلے جہاز رانی اور سمندری تجارت شروع کی۔ اس خروج کے تقریباً چھ ،سات سو سال بعد جنوبی عرب سے کچھ قبیلے دَجلہ و فرات کی زرخیز وادیوں میں آباد ہونے کی ناکام کوششوں کے بعد فلسطین پہنچ کر آباد ہوئے۔ یہ یہودی تھے جنہوں نے مہذب دنیا کے سامنے ایک خدا کا عقیدہ سب سے پہلے رکھا۔
حضرت مسیحؑ کی ولادت سے تقریباً سات سو سال پہلے شمالی عرب سے خروج کا دور شروع ہوا۔ موجودہ شرقِ اُردن کے قریب صحرا سے کچھ قبیلے کوہستان سینا کے شمال مشرق میں پہنچ کر آباد ہوئے اور پہلے مصر اور اس کے بعد روم کی تہذیب سے متعارف اور متاثر ہو کر اپنی ایک الگ تہذیب یعنی قطبی تہذیب کو بام ِعروج پر پہنچایا۔
خوراک اور جائے رہائش کی قلت نے ہر ملک میں نیم وحشی قبیلوں کو مہذب و متمدّن بنانے میں بہت بڑا تاریخی فریضہ ادا کیا ہے۔
یہ خوراک اور جائے رہائش کی قلت ہی تھی جس نے عرب کے ریگستان میں رہنے والے بَدو قبیلوں کو ایک دوسرے سے چشمے، چراگاہیں اور مویشی چھیننے کےلئے قبائلی جنگوں میں مصروف رکھا اور یہی وہ تلخ حقیقت تھی جس نے ساحلِ سمندر کے قریب رہنے والے یمنی عربوں کو مچھلی کا شکار کھیلنے کیلئے جہاز سازی اور جہاز رانی اور پھر سمندری تجارت کی طرف متوجہ کیا۔
چنانچہ یمنی عرب ہی وہ پہلے تاجر تھے جنہو ں نے تہذیب قدیم کے تین بڑے مراکز، یعنی ہندوستان، عراق اور مصر کے درمیان تجارت شروع کرکے اس پر اپنا مکمل اجارہ قائم کیا۔ یمنی عربوں کی یہ اجارہ داری رومیوں نے ختم کی جب ان کے جہاز دریائے نیل اور اس زمانہ کی نہر سویز سے گزر کر بحیرۂ قلزم کے راستے ہندوستان کو آنے جانے لگے۔
عراق اور ایران میں جہاں ساسانیوں کی حکومت تھی اور شام، فلسطین، مصر اور شمالی افریقہ میں جہاں رومیوں کا اقتدار تھا زرعی اور صنعتی پیداوار کا اکثر و بیشتر انحصار غلاموں کی محنت پر تھا اور دیگر تمام آلات ِپیداوار کی طرح غلام بھی پیداوار کے اوزار اور مالکوں کی ذاتی ملکیت تھے۔ مگر صحرائے عرب میں جہاں خوراک اور جائے رہائش کی قلت تھی اور جہاں غلاموں کی محنت سے فائدہ اٹھانے کےلئے عربوں کے پاس نہ زرخیز زمین کے بڑے بڑے قطعات اور نہ ہی کارخانے تھے، عرب قبیلے اپنے دشمن قبیلوں کو شکست دینے کے بعد ان کی چراگاہوں، چشموں اور مویشیوں پر قبضہ کرکے ان کے خیموں کو لوٹ لیتے اور مردوں کو غلام بنا لینے کے بجائے انہیں قتل کر دیتے اور عورتوں کو جن کی تعداد صحرائے عرب میں مردوں کے مقابلے میں کم تھی اپنی لونڈیاں بنا لیتے تھے۔ شہروں میں البتہ حبشی غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ یہ غلام یا تو ان کے گھروں میں کام کاج کرتے تھے یا عرب تاجروں کے جہازوں میں چپو چلانے کی محنت کرتے تھے۔
جہاں تک ملک کی زرعی اور صنعتی پیداوار کا تعلق ہے شہروں میں بھی ان کا انحصار غلاموں کی محنت پر نہیں تھا۔ جزیرة العرب کے تینوں طرف ساحل سمندر کے قریب بارش والے خطوں میں جہاں زرعی بستیاں وجود میں آ چکی تھیں، قابل کاشت زمین کے ٹکڑے بہت چھوٹے چھوٹے تھے اور وہ چھوٹے چھوٹے اور آزاد مالک کاشتکاروں میں بٹ چکے تھے۔ مگر جہاں تک جاگیرداری یا بڑی زمینداری کا تعلق ہے، وہ وجود میں نہیں آئی تھی۔ جاگیرداری کی نشوونما یمن، حضر موت اور عمان کے خطوں میں بھی نہیں ہوئی تھی۔ البتہ وہ چھوٹے چھوٹے کاشتکار جنہوں نے تجارت یا دستکاری کا پیشہ اختیار کر لیا تھا، ان میں سے بعض اپنی زمین کو کرایہ یا بٹائی پر دوسرے کاشتکاروں کو دے دیتے تھے۔
خلفائے راشدین اور زرعی اصلاحات
آنحضرت رسول اکرمؐ کے عہد میں زمین کا مسئلہ بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے نہیں آیا اور وہ اس لئے کہ تقریباً سارے کا سارا عرب صحرا ہے اور زرعی بستیوں کی اس صحرا میں حیثیت ساحل سمندر کے قریب چھوٹے چھوٹے جزیروں ایسی ہے۔ آنحضرتؐ کے عہد میں مدینہ ہی صرف چار پانچ ہزار چھوٹے تاجروں، دستکاروں اور کاشتکاروں کی ایک بستی تھی جہاں زمین کا مسئلہ حل کرنے کےلئے پیش ہوا۔
اسلام نے چشموں، کنوؤں، چراگاہوں، کانوں وغیرہ کی طرح زمین کو بھی نظری اعتبار سے خدا کی ملکیت اور حقیقی اعتبار سے سب کی مشترکہ ملکیت قرار دیا ، اور رسول کریمؐ نے جیسا کہ چھ صحابہ کرام رافع بن خدیجؓ، جابر بن عبد اللہؓ، ابو ہریرہؓ، ابو سعید خذریؓ، زید بن ثابتؓ اور ثابت بن ضحاکؓ سے مروی ہے، زمین کو قابل کاشت بنانے والوں کے حقِ ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ اپنے پاس صرف اتنی زمین رکھیں جتنی کاشت کر سکتے ہیں اور باقی زمین اپنے بھائی کو مفت کاشت کےلئے دے دیں مگر بٹائی یا کرایہ پر نہ دیں۔ غرضیکہ مدینہ میں پیغمبر اسلام ؐنے زمین کو خدا کی ملکیت قرار دیتے ہوئے اسے قابل کاشت بنانے والے کے حقِ ملکیت کوتسلیم کیا اور ساتھ ہی اس کے حقیقی کاشتکار کو زمین کی پیداوار کا مالک قرار دیا۔
زمین کا مسئلہ حقیقی طور پر بہت بڑا مسئلہ بن کر عربوں کے سامنے اُس وقت آیا جب انہوں نے صحرائے عرب سے نکل کر دنیا کے زرخیز ترین خطوں، مثلاً عراق، شام، فلسطین، مصر اور خراسان پر قبضہ کیا۔
پہلے دو خلفاءِراشدین نے مسلمانوں کو جو اس وقت تک عموماً عرب تھے ایک فوجی تنظیم میں منظم رکھنے اور زمینوں پر قبضہ کرکے آباد ہونے سے روکنے کےلئے مفتوحہ ممالک میں زمینوں پر قبضہ کرنے کی خاص طور پر مخالفت کی۔ چنانچہ پہلے دو خلفاءِراشدین کے عہد میں حضرت عمر فاروقؓ کی سخت ہدایات کے مطابق عربوں نے پرانی بستیوں اور شہروں سے باہر خیموں کے اپنے الگ شہر آباد کئے اور کسی زمین پر قبضہ نہیں کیا۔
عربوں کی فتوحات سے پہلے ساسانیوں اور رومیوں کی سلطنت کے زرخیز ترین خطوں میں زمین ساسانی اور رومی شاہی خاندان کے ممبروں، ان کے رشتہ داروں، درباریوں اور فوجی افسروں کی ملکیت تھی اور اس کی کاشت ان کے غلام کرتے تھے۔
قدیم زمانے میں غلام داروں کی سلطنتیں اس وقت تک مضبوط و مستحکم رہیں، جب تک ان کے سپہ سالار دوسرے ملکوں کو فتح کرکے وہاں سے دولت اور غلام حکمرانوں کیلئے لاتے رہے۔ مگر فتوحات کا دور ختم ہونے سے جب دولت اور غلاموں کی آمد رُک گئی تو غلام شاہی سماج زرعی و صنعتی تنزل اور تجارتی و مالی بحران کے دور میں داخل ہوئی، اور غلاموں اور ان کے آقاؤں کے درمیان طبقاتی جنگ تیز ہو جانے سے ہچکیاں لینے لگی۔ عہد رسالتؐ سے پہلے روم و ایران کی قدیم غلام شاہی سلطنتوں کی یہی کیفیت تھی۔ وہ مرض الموت میں مبتلا اور چند دن کی مہمان تھیں۔
جس طرح بربر قبیلوں نے شمال اور شمال مشرق سے حملے کرکے روم قدیم کی غلام شاہی سماج کو یورپ میں درہم برہم کیا تھا، اسی طرح عربوں نے عراق و ایران میں ساسانیوں اور شام، فلسطین، لبنان اور مصر میں رومیوں کے غلام شاہی نظام ِحکومت کو ختم کیا۔
ایک طرف ایران و روم کی زوال پذیر غلام شاہی حکومتوں کی شکست اور دوسری طرف عربوں کے مفتوح ممالک میں زمینوں اور غلاموں کے مالک ساسانی اور رومی حکمرانوں کے مارے جانے، مغلوب ہونے یا بھاگ جانے سے حقیقی کاشتکار غلام اور زرعی غلام آزاد ہو کر زمینوں کے مالک بن گئے۔ پہلے دو خلفاءِراشدین کے عہد میں عربوں کے مقابلے میں روم و ایران کی قدیم سلطنتوں کے ریت کی طرح گرنے کا سبب یہی زرعی اصلاحات تھیں۔
جاگیرداری کی نشوونما
عراق، ایران، شام اور فلسطین میں زرعی اصلاحات کا یہ دور بہت ہی جلد ختم ہو گیا۔ ایک طرف دولت اور لونڈی غلاموں کی کثرت نے اور دوسری طرف عراق، ایران، شام، فلسطین اور لبنان کی خوبصورتی اور زرخیزی نے عرب مجاہدوں کے جوش جہاد کو رفتہ رفتہ ٹھنڈا کرکے ان میں دنیا کے ان زرخیز ترین خطوں میں آباد ہونے کی خواہش کو بڑھا دیا۔ عرب شیوخ اور سرکردہ مجاہدین نے حضرت عمرؓ کے عہد میں ہی مطالبہ کرنا شروع کر دیا تھا کہ مفتوحہ ممالک میں عربوں کو زمینوں پر قبضہ کرنے اور انہیں خریدنے کی اجازت دی جائے مگر وہ اپنے انکار پر ہمیشہ مصر رہے۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان ؓنے جو مکہ کے اُموی امراءسے تعلق رکھتے تھے، جہاں کلیدی محکمے اور عہدے اپنے قریبی رشتہ دار اموی امراءکے حوالے کر دیئے وہاں ان کے زور دینے سے عربوں کو مفتوحہ ممالک میں زمینوں پر قبضہ جمانے اور عالیشان محلوں میں رہنے کی بھی اجازت دے دی۔ کئی ایک صحابہ کرامؓ بالخصوص حضرت ابو ذر غفاری نے اس بات کی شدید مخالفت کی۔ مگر حضرت عثمان ؓ نے اس مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت ابو ذر غفاری کو مدینہ سے کچھ دور ربزہ میں نظر بند کر دیا۔
زمینیں اور جاگیریں حاصل کرکے زرخیز ترین علاقوں میں آباد ہونے کی طرف رجحان بڑھنے سے فتوحات کا پہلا دور حضرت عمرؓ کی وفات (644ھ )کے تین چار سال بعد ہی ختم ہو گیا۔ صحرائے عرب سے جہاں خوراک اور جائے رہائش کی قلت اور آبادی بڑھ رہی تھی، یکے بعد دیگرے قبیلے نکل کر دوسرے علاقوں میں آباد ہونے لگے اور چالیس پچاس سال کے عرصے میں صحرائے عرب میں آبادی بہت کم رہ گئی۔
زمین اور جاگیریں عطا کرنے کا سلسلہ حضرت عثمان ؓ کے عہد میں شروع ہوا۔ ابنِ خلدون مقدمۂ تاریخ جلد دوم صفحہ 60 پر بحوالہ مسعودی لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں ہی صحابہ کرام اور اُموی امراءجاگیریں اور مال غنیمت حاصل کرنے کے سبب سے امیر و کبیر ہو گئے تھے۔ خود حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد ان کے خزانے میں ایک لاکھ دینار اور دس ہزار درہم موجود تھے۔ حضرت زبیرؓ کے انتقال کے بعد ان کے ترکے کی قیمت پچاس ہزار دینار تھی۔ علاوہ اس کے ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار لونڈی غلام بھی تھے۔ حضرت طلحہؓ کی عراق میں غلہ کی تجارت تھی اور اس سے ان کی آمدنی ایک ہزار دینار یومیہ تھی۔ حضرت عبد الرحمانؓ بن عوفؓ کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے، ایک ہزار اونٹ اور دس ہزار بکریاں تھیں اور ان کی وفات کے بعد ان کا ترکہ 84ہزار دینار تھا۔ زید بن ثابتؓ نے ایک لاکھ دینار کی جاگیر اور بہت کچھ نقدی چھوڑی تھی۔ چاندی اور سونے کی اینٹیں اس کے علاوہ تھیں۔
غرضیکہ حضرت عثمان ؓ کی وفات سے پہلے اُموی گورنروں اور فوجی افسروں نے خود زمینوں پر قبضہ کرکے اور قبائلی سرداروں اور سرکردہ مجاہدین کو زمینیں اور جاگیریں عطا کرکے تھوڑے ہی عرصہ میں جاگیرداروں، جاہ پسند گورنروں اور فوجی افسروں کا ایک ایسا بااثر اور مضبوط طبقہ پیدا کر دیا جس کا علویوں اور زبیریوں کے خلاف بنو اُمیہ کو برسرِ اقتدار لانے میں بہت بڑا حصہ ہے۔
پہلے دو خلفاءِراشدین نے عراق، ایران، شام اور فلسطین کے کاشتکاروں اور زرعی غلاموں کو ان کے ساسانی یا رومی آقاؤں کی غلامی سے آزاد کرکے زمینوں کا مالک بنا دیا اور ان سے وہی خراج (مالیہ زمین جو پیداوار کے ایک مقررہ حصہ کی شکل میں حکومت وصول کرتی تھی) وصول کرنے کا فرمان جاری کیا جو ان علاقوں کے مالک کاشتکار رومی یا ساسانی حکومتوں کو ادا کرتے تھے۔ حضرت عثمان ؓ کے عہد سے زمینیں اور جا گیریں ملنے سے عربوں میں جاگیردار پیدا ہوئے وہ مالک نہیں تھے۔ حکومت نے صرف انہیں مخصوص علاقوں یا ضلعوں میں کاشتکاروں سے خراج وصول کرکے اپنے ذاتی استعمال میں لانے اور حکومت کو اس میں سے کوئی حصہ نہ دینے کا حق دیا تھا۔ نظری اعتبار سے زمین خدا کی ملکیت رہی۔ تبدیلی صرف یہ ہوئی کہ پیغمبر اسلام کے خلیفہ اور ملک کے فرمانروا کی حیثیت سے خدا کی طرف سے زمینوں کا مالک خلیفہ وقت قرار پایا۔ چنانچہ خلیفہ وقت آج کسی کو اگر کسی علاقہ یا ضلع کا خراج وصول کرنے کا حق عطا کرتا تھا تو کل ناراض ہو کر اس سے یہ حق چھین بھی لیتا تھا۔ مثلاً امام حسنؑ پچاس لاکھ درہم سالانہ وظیفہ اور ایران کے ایک ضلع کا خراج وصول کرنے کا حق قبول کرکے امیر معاویہ کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے مگر یہ حق اُموی تاجداروں نے بعد میں امام حسنؓ کے خاندان سے چھین لیا۔
(جاری ہے۔)
—♦—
دادا فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔
Comments 3
-
Robin Fisher says:
I have been browsing on-line greater than 3 hours as of late, yet I by no means discovered any attention-grabbing article like yours.
It is lovely worth enough for me. Personally, if all site owners and bloggers made excellent
content as you probably did, the net shall be much more helpful than ever before.-
للکار نیوز says:
Dear Robin Thank your for your appreciation. We are ideology driven progressive platform, rather than just a commercial initiative. we always strive to provide substance through our platform.
This is a series you can follow this for continuous reading on this.
-
-
John Lee says:
I will right away grab your rss feed as I can not find your e-mail subscription hyperlink
or e-newsletter service. Do you have any?
Kindly permit me recognise in order that I could subscribe.
Thanks.
I have been browsing on-line greater than 3 hours as of late, yet I by no means discovered any attention-grabbing article like yours.
It is lovely worth enough for me. Personally, if all site owners and bloggers made excellent
content as you probably did, the net shall be much more helpful than ever before.
Dear Robin Thank your for your appreciation. We are ideology driven progressive platform, rather than just a commercial initiative. we always strive to provide substance through our platform.
This is a series you can follow this for continuous reading on this.
I will right away grab your rss feed as I can not find your e-mail subscription hyperlink
or e-newsletter service. Do you have any?
Kindly permit me recognise in order that I could subscribe.
Thanks.