• Latest

” مولانا مودودی کے تصورات“ ! (قسط-1) – تحریر: دادا فیروز الدین منصور

مارچ 9, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
بدھ, جون 25, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

” مولانا مودودی کے تصورات“ ! (قسط-1) – تحریر: دادا فیروز الدین منصور

ایران، مصر اور مراکش کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ عوامی جدوجہد کے سیلاب نے مسلمانوں کے خطوں میں بھی سامراجی نظام کے مضبوط قلعوں کو پاش پاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ تقریباً تمام مسلم ممالک کے رجعت پسند جاگیردار اور سرمایہ دار اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کے خلاف صف باندھ کر کھڑے ہو رہے ہیں۔

للکار نیوز by للکار نیوز
مارچ 9, 2024
in پاکستان, سماجی مسائل, سیاسی معیشت, مضامین
A A
1
برِصغیر کے نامور انقلابی راہنما و دانشور دادا فیروز الدین منصور کی شہرۂ آفاق تصنیف ”مولانا مودودی کے تصورات“ کو قسط وار ڈیلی للکار میں شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب نصف صدی بعد آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ نصف صدی قبل اپنی اشاعت کے وقت تھی کیونکہ آج بھی حکمران اشرافیہ سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے لئے مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ قارئین اس سلسلے سے مستفید ہوں گے۔
Tariq Final
ایڈیٹر
ڈیلی للکار

دوسرے ایڈیشن کا دیباچہ

انسانی تاریخ شاہد ہے کہ وسائل ثروت کے مالک حکمرانوں نے اپنے مخالف عوامی تحریکوں کو دبانے کیلئے مذہب کو ہمیشہ ایک ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کیا ہے۔ عیسائیت کے خلاف اس کے ابتدائی دور میں جب وہ غلاموں، غریب کاشتکاروں، دست کاروں اور مفلوک الحال بے روزگاروں کی تحریک تھی، دولتمند یہودیوں اور غلام دار رومی حکمرانوں نے اسے دبانے کیلئے اپنے اپنے قدیم مذاہب کو ہتھیار بنا کر استعمال کیا۔ کم و بیش انہی حالات کا مقابلہ رسول اکرمؐ کو مکہ میں کرنا پڑا۔ قریش امراء نے قدیم قبائلی مذہب کے ہتھیار سے اسلام کا مقابلہ کرنے کی انتہائی کوشش کی اور جب یورپ میں مطلق العنان جاگیرداری بادشاہت کے خلاف جدید سرمایہ داری نے جدوجہد شروع کی تو اسے دبانے کیلئے مطلق العنان بادشاہوں نے کیتھولک کلیسا کو استعمال کیا۔

آج سرمایہ داری نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ سوویت یونین، عوامی چین اور مشرقی یورپ کی عوامی جمہوریتوں کے 80 کروڑ انسان (1952ء میں) سرمایہ داری نظام کے چنگل سے آزاد ہو چکے ہیں اور باقی ساری دنیا کے مزدور، کسان، مزارع، کھیت مزدور اور نچلے اور درمیانہ طبقوں کے عوام آزادی حاصل کرنے کیلئے اٹھ رہے ہیں، جدوجہد کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں دبانے کیلئے حکمران طبقے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہیں کئی قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں آ گئے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار مذہب بھی ہے۔

پہلے سرمایہ داروں کی سیاسی پارٹیاں مذہب یا فرقہ کی بنا پر منظم نہیں تھیں۔ اب مغربی جرمنی میں کرسچین ڈیمو کریٹک یونین، اٹلی میں کرسچین ڈیمو کریٹک پارٹی، ہالینڈ اور بلجئیم میں کیتھولک ڈیموکریٹک پارٹیاں اور فرانس میں کیتھو لک ری پبلک پاپولر موومنٹ (ایم۔ آر۔ پی) رجعت پسند جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سب سے زیادہ مضبوط سیاسی پارٹیاں ہیں۔ اسی پر اکتفا نہی، اطالوی پارلیمنٹ کے انتخاب میں پاپائے روم نے تمام پادریوں، راہبوں اور کلیسا کے مدارس کے اساتذہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ کمیونسٹوں، سوشلسٹوں وغیرہ کے متحدہ محاذ، پاپولر فرنٹ کو ناکام بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور میلان کے آرچ بشپ کارڈینل شٹر نے اعلان کیا تھا کہ؛

”پاپولر فرنٹ کو ووٹ دینے والوں کو خدا کی بادشاہت میں کوئی جگہ نہیں ملے گی“

اور

”آسمانی باپ ان سے اپنی تمام رحمتیں چھین لے گی۔“

انگریز، امریکی، فرانسیسی اور ڈچ سامراجیوں کے قائم کردہ نیم سرمایہ داری اور نیم جاگیرداری نو آبادیاتی نظام کے خلاف عوامی جدوجہد سارے ایشیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایران، مصر اور مراکش کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ عوامی جدوجہد کے سیلاب نے مسلمانوں کے خطوں میں بھی سامراجی نظام کے مضبوط قلعوں کو پاش پاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ تقریباً تمام مسلم ممالک کے رجعت پسند جاگیردار اور سرمایہ دار اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کے خلاف صف باندھ کر کھڑے ہو رہے ہیں۔

کل دنیا کے سامراجی حکمران اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کے خلاف صف آرائی کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت کیتھولک کلیسا کی تبلیغی انجمن کا ایک بیان ہے جو روم میں 25 نومبر 1949ء کو دیا گیا تھا اور جو 26 نومبر کے سول ملٹری گزٹ میں شائع ہوا تھا۔ اس بیان میں تبلیغی انجمن نے فوجی اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے اسلامی ممالک کی مرکزی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کیتھولک عیسائیوں کو بالخصوص یہ مژدہ سنایا تھا کہ ”اس وقت مسلمانوں میں نہایت ہی صحت مند قسم کی مذہبی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور یورپ کے باشندوں سے کہیں زیادہ مسلمان علماء کمیونزم سے اپنے مذہب کو خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔“ چنانچہ ”خدا کی حمایت میں کمیونزم کے خلاف عیسائیوں اور مسلمانوں کے متحدہ محاذ“ پر زور دیتے ہوئے تبلیغی انجمن نے کیتھولک عیسائیوں کو ہدایت کی کہ وہ ”پہل قدمی کریں اور متحدہ محاذ قائم کرنے کیلئے موثر قدم اٹھائیں۔“

ہمارے اپنے وطن پاکستان میں رجعت پسند جاگیرداروں اور بڑے سرمایہ داروں نے اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کی مخالفت کو ایک فیشن یا پیشہ بنا رکھا ہے۔ تحریک خواہ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی ہو، خواہ اجرتیں بڑھانے، مہنگائی بھتہ حاصل کرنے یا چھانٹی کی روک تھام کرنے کیلئے مزدوروں، چپڑاسیوں یا کلرکوں کی ہو، خواہ مہاجروں کی بحالی سے تعلق رکھتی ہو، خواہ زرعی اصلاح کیلئے مزارعوں اور غریب کسانوں کی ہو اور خواہ تحریک کا مقصد قومی صنعت کی حفاظت ہو، پاکستان میں اسلام کو اس کے خلاف ایک حربے کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یوں تو مسلم لیگی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے تعلق رکھنے والے علماء بھی اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کی مخالفت کر رہے ہیں، مگر جماعت اسلامی سب سے پیش پیش ہے۔

اس کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی جاگیرداری اور سرمایہ داری کی حمایت میں فاشسٹوں کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی فکر و عمل اور کمیونسٹوں کے خلاف سامراجی حکمرانوں کے پروپیگنڈا کو ایک نظام کو شکل دے کر اسے ”اسلام کے نظام حیات“ کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔

ایک سال کا عرصہ ہوا مولانا مودودی کے پیش کردہ ”اسلام کے نظام حیات“ کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کیلئے میں نے ایک کتابچہ نہایت عجلت میں ”مودودیات“ کے نام سے لکھا تھا جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا اور دوبارہ اشاعت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ملک کے چاروں طرف سے پبلشرز کے پاس مزید مانگ کے خطوط آتے رہے ہیں اور ان کے اصرار سے میں نے اس مختصر پمفلٹ پر نظرثانی ضروری سمجھی اور ضروری اضافہ محض اس لئے کہ ناظرین کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
پچھلے پمفلٹ میں جو 74 صفحات اور دو ابواب پر مشتمل تھا اب ”مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے اخلاقی تصورات“ کے عنوان سے ایک اور باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔

فیروز الدین منصور
مورخہ 20 جنوری 1952ء

 —♦—

 

دادا
مصنف کے بارے

دادا  فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔

Comments 1

  1. پنگ بیک: مولانا مودودی کے معاشی تصورات: فکر و عمل میں تضاد!- تحریر: دادا فیروزالدین منصور - Daily Lalkaar

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
برِصغیر کے نامور انقلابی راہنما و دانشور دادا فیروز الدین منصور کی شہرۂ آفاق تصنیف ”مولانا مودودی کے تصورات“ کو قسط وار ڈیلی للکار میں شائع کیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب نصف صدی بعد آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ نصف صدی قبل اپنی اشاعت کے وقت تھی کیونکہ آج بھی حکمران اشرافیہ سٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے لئے مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ قارئین اس سلسلے سے مستفید ہوں گے۔
Tariq Final
ایڈیٹر
ڈیلی للکار

دوسرے ایڈیشن کا دیباچہ

انسانی تاریخ شاہد ہے کہ وسائل ثروت کے مالک حکمرانوں نے اپنے مخالف عوامی تحریکوں کو دبانے کیلئے مذہب کو ہمیشہ ایک ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کیا ہے۔ عیسائیت کے خلاف اس کے ابتدائی دور میں جب وہ غلاموں، غریب کاشتکاروں، دست کاروں اور مفلوک الحال بے روزگاروں کی تحریک تھی، دولتمند یہودیوں اور غلام دار رومی حکمرانوں نے اسے دبانے کیلئے اپنے اپنے قدیم مذاہب کو ہتھیار بنا کر استعمال کیا۔ کم و بیش انہی حالات کا مقابلہ رسول اکرمؐ کو مکہ میں کرنا پڑا۔ قریش امراء نے قدیم قبائلی مذہب کے ہتھیار سے اسلام کا مقابلہ کرنے کی انتہائی کوشش کی اور جب یورپ میں مطلق العنان جاگیرداری بادشاہت کے خلاف جدید سرمایہ داری نے جدوجہد شروع کی تو اسے دبانے کیلئے مطلق العنان بادشاہوں نے کیتھولک کلیسا کو استعمال کیا۔

آج سرمایہ داری نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ سوویت یونین، عوامی چین اور مشرقی یورپ کی عوامی جمہوریتوں کے 80 کروڑ انسان (1952ء میں) سرمایہ داری نظام کے چنگل سے آزاد ہو چکے ہیں اور باقی ساری دنیا کے مزدور، کسان، مزارع، کھیت مزدور اور نچلے اور درمیانہ طبقوں کے عوام آزادی حاصل کرنے کیلئے اٹھ رہے ہیں، جدوجہد کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں دبانے کیلئے حکمران طبقے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہیں کئی قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں آ گئے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار مذہب بھی ہے۔

پہلے سرمایہ داروں کی سیاسی پارٹیاں مذہب یا فرقہ کی بنا پر منظم نہیں تھیں۔ اب مغربی جرمنی میں کرسچین ڈیمو کریٹک یونین، اٹلی میں کرسچین ڈیمو کریٹک پارٹی، ہالینڈ اور بلجئیم میں کیتھولک ڈیموکریٹک پارٹیاں اور فرانس میں کیتھو لک ری پبلک پاپولر موومنٹ (ایم۔ آر۔ پی) رجعت پسند جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سب سے زیادہ مضبوط سیاسی پارٹیاں ہیں۔ اسی پر اکتفا نہی، اطالوی پارلیمنٹ کے انتخاب میں پاپائے روم نے تمام پادریوں، راہبوں اور کلیسا کے مدارس کے اساتذہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ کمیونسٹوں، سوشلسٹوں وغیرہ کے متحدہ محاذ، پاپولر فرنٹ کو ناکام بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور میلان کے آرچ بشپ کارڈینل شٹر نے اعلان کیا تھا کہ؛

”پاپولر فرنٹ کو ووٹ دینے والوں کو خدا کی بادشاہت میں کوئی جگہ نہیں ملے گی“

اور

”آسمانی باپ ان سے اپنی تمام رحمتیں چھین لے گی۔“

انگریز، امریکی، فرانسیسی اور ڈچ سامراجیوں کے قائم کردہ نیم سرمایہ داری اور نیم جاگیرداری نو آبادیاتی نظام کے خلاف عوامی جدوجہد سارے ایشیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایران، مصر اور مراکش کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ عوامی جدوجہد کے سیلاب نے مسلمانوں کے خطوں میں بھی سامراجی نظام کے مضبوط قلعوں کو پاش پاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ تقریباً تمام مسلم ممالک کے رجعت پسند جاگیردار اور سرمایہ دار اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کے خلاف صف باندھ کر کھڑے ہو رہے ہیں۔

کل دنیا کے سامراجی حکمران اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کے خلاف صف آرائی کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت کیتھولک کلیسا کی تبلیغی انجمن کا ایک بیان ہے جو روم میں 25 نومبر 1949ء کو دیا گیا تھا اور جو 26 نومبر کے سول ملٹری گزٹ میں شائع ہوا تھا۔ اس بیان میں تبلیغی انجمن نے فوجی اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے اسلامی ممالک کی مرکزی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کیتھولک عیسائیوں کو بالخصوص یہ مژدہ سنایا تھا کہ ”اس وقت مسلمانوں میں نہایت ہی صحت مند قسم کی مذہبی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور یورپ کے باشندوں سے کہیں زیادہ مسلمان علماء کمیونزم سے اپنے مذہب کو خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔“ چنانچہ ”خدا کی حمایت میں کمیونزم کے خلاف عیسائیوں اور مسلمانوں کے متحدہ محاذ“ پر زور دیتے ہوئے تبلیغی انجمن نے کیتھولک عیسائیوں کو ہدایت کی کہ وہ ”پہل قدمی کریں اور متحدہ محاذ قائم کرنے کیلئے موثر قدم اٹھائیں۔“

ہمارے اپنے وطن پاکستان میں رجعت پسند جاگیرداروں اور بڑے سرمایہ داروں نے اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کی مخالفت کو ایک فیشن یا پیشہ بنا رکھا ہے۔ تحریک خواہ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی ہو، خواہ اجرتیں بڑھانے، مہنگائی بھتہ حاصل کرنے یا چھانٹی کی روک تھام کرنے کیلئے مزدوروں، چپڑاسیوں یا کلرکوں کی ہو، خواہ مہاجروں کی بحالی سے تعلق رکھتی ہو، خواہ زرعی اصلاح کیلئے مزارعوں اور غریب کسانوں کی ہو اور خواہ تحریک کا مقصد قومی صنعت کی حفاظت ہو، پاکستان میں اسلام کو اس کے خلاف ایک حربے کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

یوں تو مسلم لیگی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے تعلق رکھنے والے علماء بھی اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کی مخالفت کر رہے ہیں، مگر جماعت اسلامی سب سے پیش پیش ہے۔

اس کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی جاگیرداری اور سرمایہ داری کی حمایت میں فاشسٹوں کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی فکر و عمل اور کمیونسٹوں کے خلاف سامراجی حکمرانوں کے پروپیگنڈا کو ایک نظام کو شکل دے کر اسے ”اسلام کے نظام حیات“ کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔

ایک سال کا عرصہ ہوا مولانا مودودی کے پیش کردہ ”اسلام کے نظام حیات“ کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کیلئے میں نے ایک کتابچہ نہایت عجلت میں ”مودودیات“ کے نام سے لکھا تھا جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا اور دوبارہ اشاعت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ملک کے چاروں طرف سے پبلشرز کے پاس مزید مانگ کے خطوط آتے رہے ہیں اور ان کے اصرار سے میں نے اس مختصر پمفلٹ پر نظرثانی ضروری سمجھی اور ضروری اضافہ محض اس لئے کہ ناظرین کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
پچھلے پمفلٹ میں جو 74 صفحات اور دو ابواب پر مشتمل تھا اب ”مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے اخلاقی تصورات“ کے عنوان سے ایک اور باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔

فیروز الدین منصور
مورخہ 20 جنوری 1952ء

 —♦—

 

دادا
مصنف کے بارے

دادا  فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔

Comments 1

  1. پنگ بیک: مولانا مودودی کے معاشی تصورات: فکر و عمل میں تضاد!- تحریر: دادا فیروزالدین منصور - Daily Lalkaar

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: Ameer JamaatCapitalismClass SocietyFeudalismJamat I IslamiJamiatMolana ModudiMovementsPoliticsReligion
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.