دوسرے ایڈیشن کا دیباچہ
انسانی تاریخ شاہد ہے کہ وسائل ثروت کے مالک حکمرانوں نے اپنے مخالف عوامی تحریکوں کو دبانے کیلئے مذہب کو ہمیشہ ایک ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کیا ہے۔ عیسائیت کے خلاف اس کے ابتدائی دور میں جب وہ غلاموں، غریب کاشتکاروں، دست کاروں اور مفلوک الحال بے روزگاروں کی تحریک تھی، دولتمند یہودیوں اور غلام دار رومی حکمرانوں نے اسے دبانے کیلئے اپنے اپنے قدیم مذاہب کو ہتھیار بنا کر استعمال کیا۔ کم و بیش انہی حالات کا مقابلہ رسول اکرمؐ کو مکہ میں کرنا پڑا۔ قریش امراء نے قدیم قبائلی مذہب کے ہتھیار سے اسلام کا مقابلہ کرنے کی انتہائی کوشش کی اور جب یورپ میں مطلق العنان جاگیرداری بادشاہت کے خلاف جدید سرمایہ داری نے جدوجہد شروع کی تو اسے دبانے کیلئے مطلق العنان بادشاہوں نے کیتھولک کلیسا کو استعمال کیا۔
آج سرمایہ داری نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ سوویت یونین، عوامی چین اور مشرقی یورپ کی عوامی جمہوریتوں کے 80 کروڑ انسان (1952ء میں) سرمایہ داری نظام کے چنگل سے آزاد ہو چکے ہیں اور باقی ساری دنیا کے مزدور، کسان، مزارع، کھیت مزدور اور نچلے اور درمیانہ طبقوں کے عوام آزادی حاصل کرنے کیلئے اٹھ رہے ہیں، جدوجہد کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں دبانے کیلئے حکمران طبقے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہیں کئی قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں آ گئے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار مذہب بھی ہے۔
پہلے سرمایہ داروں کی سیاسی پارٹیاں مذہب یا فرقہ کی بنا پر منظم نہیں تھیں۔ اب مغربی جرمنی میں کرسچین ڈیمو کریٹک یونین، اٹلی میں کرسچین ڈیمو کریٹک پارٹی، ہالینڈ اور بلجئیم میں کیتھولک ڈیموکریٹک پارٹیاں اور فرانس میں کیتھو لک ری پبلک پاپولر موومنٹ (ایم۔ آر۔ پی) رجعت پسند جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سب سے زیادہ مضبوط سیاسی پارٹیاں ہیں۔ اسی پر اکتفا نہی، اطالوی پارلیمنٹ کے انتخاب میں پاپائے روم نے تمام پادریوں، راہبوں اور کلیسا کے مدارس کے اساتذہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ کمیونسٹوں، سوشلسٹوں وغیرہ کے متحدہ محاذ، پاپولر فرنٹ کو ناکام بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور میلان کے آرچ بشپ کارڈینل شٹر نے اعلان کیا تھا کہ؛
”پاپولر فرنٹ کو ووٹ دینے والوں کو خدا کی بادشاہت میں کوئی جگہ نہیں ملے گی“
اور
”آسمانی باپ ان سے اپنی تمام رحمتیں چھین لے گی۔“
انگریز، امریکی، فرانسیسی اور ڈچ سامراجیوں کے قائم کردہ نیم سرمایہ داری اور نیم جاگیرداری نو آبادیاتی نظام کے خلاف عوامی جدوجہد سارے ایشیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایران، مصر اور مراکش کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ عوامی جدوجہد کے سیلاب نے مسلمانوں کے خطوں میں بھی سامراجی نظام کے مضبوط قلعوں کو پاش پاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ تقریباً تمام مسلم ممالک کے رجعت پسند جاگیردار اور سرمایہ دار اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کے خلاف صف باندھ کر کھڑے ہو رہے ہیں۔
کل دنیا کے سامراجی حکمران اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کے خلاف صف آرائی کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت کیتھولک کلیسا کی تبلیغی انجمن کا ایک بیان ہے جو روم میں 25 نومبر 1949ء کو دیا گیا تھا اور جو 26 نومبر کے سول ملٹری گزٹ میں شائع ہوا تھا۔ اس بیان میں تبلیغی انجمن نے فوجی اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے اسلامی ممالک کی مرکزی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کیتھولک عیسائیوں کو بالخصوص یہ مژدہ سنایا تھا کہ ”اس وقت مسلمانوں میں نہایت ہی صحت مند قسم کی مذہبی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور یورپ کے باشندوں سے کہیں زیادہ مسلمان علماء کمیونزم سے اپنے مذہب کو خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔“ چنانچہ ”خدا کی حمایت میں کمیونزم کے خلاف عیسائیوں اور مسلمانوں کے متحدہ محاذ“ پر زور دیتے ہوئے تبلیغی انجمن نے کیتھولک عیسائیوں کو ہدایت کی کہ وہ ”پہل قدمی کریں اور متحدہ محاذ قائم کرنے کیلئے موثر قدم اٹھائیں۔“
ہمارے اپنے وطن پاکستان میں رجعت پسند جاگیرداروں اور بڑے سرمایہ داروں نے اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کی مخالفت کو ایک فیشن یا پیشہ بنا رکھا ہے۔ تحریک خواہ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی ہو، خواہ اجرتیں بڑھانے، مہنگائی بھتہ حاصل کرنے یا چھانٹی کی روک تھام کرنے کیلئے مزدوروں، چپڑاسیوں یا کلرکوں کی ہو، خواہ مہاجروں کی بحالی سے تعلق رکھتی ہو، خواہ زرعی اصلاح کیلئے مزارعوں اور غریب کسانوں کی ہو اور خواہ تحریک کا مقصد قومی صنعت کی حفاظت ہو، پاکستان میں اسلام کو اس کے خلاف ایک حربے کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یوں تو مسلم لیگی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے تعلق رکھنے والے علماء بھی اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کی مخالفت کر رہے ہیں، مگر جماعت اسلامی سب سے پیش پیش ہے۔
اس کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی جاگیرداری اور سرمایہ داری کی حمایت میں فاشسٹوں کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی فکر و عمل اور کمیونسٹوں کے خلاف سامراجی حکمرانوں کے پروپیگنڈا کو ایک نظام کو شکل دے کر اسے ”اسلام کے نظام حیات“ کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔
ایک سال کا عرصہ ہوا مولانا مودودی کے پیش کردہ ”اسلام کے نظام حیات“ کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کیلئے میں نے ایک کتابچہ نہایت عجلت میں ”مودودیات“ کے نام سے لکھا تھا جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا اور دوبارہ اشاعت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ملک کے چاروں طرف سے پبلشرز کے پاس مزید مانگ کے خطوط آتے رہے ہیں اور ان کے اصرار سے میں نے اس مختصر پمفلٹ پر نظرثانی ضروری سمجھی اور ضروری اضافہ محض اس لئے کہ ناظرین کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
پچھلے پمفلٹ میں جو 74 صفحات اور دو ابواب پر مشتمل تھا اب ”مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے اخلاقی تصورات“ کے عنوان سے ایک اور باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔
فیروز الدین منصور
مورخہ 20 جنوری 1952ء
—♦—
دادا فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
دوسرے ایڈیشن کا دیباچہ
انسانی تاریخ شاہد ہے کہ وسائل ثروت کے مالک حکمرانوں نے اپنے مخالف عوامی تحریکوں کو دبانے کیلئے مذہب کو ہمیشہ ایک ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کیا ہے۔ عیسائیت کے خلاف اس کے ابتدائی دور میں جب وہ غلاموں، غریب کاشتکاروں، دست کاروں اور مفلوک الحال بے روزگاروں کی تحریک تھی، دولتمند یہودیوں اور غلام دار رومی حکمرانوں نے اسے دبانے کیلئے اپنے اپنے قدیم مذاہب کو ہتھیار بنا کر استعمال کیا۔ کم و بیش انہی حالات کا مقابلہ رسول اکرمؐ کو مکہ میں کرنا پڑا۔ قریش امراء نے قدیم قبائلی مذہب کے ہتھیار سے اسلام کا مقابلہ کرنے کی انتہائی کوشش کی اور جب یورپ میں مطلق العنان جاگیرداری بادشاہت کے خلاف جدید سرمایہ داری نے جدوجہد شروع کی تو اسے دبانے کیلئے مطلق العنان بادشاہوں نے کیتھولک کلیسا کو استعمال کیا۔
آج سرمایہ داری نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ سوویت یونین، عوامی چین اور مشرقی یورپ کی عوامی جمہوریتوں کے 80 کروڑ انسان (1952ء میں) سرمایہ داری نظام کے چنگل سے آزاد ہو چکے ہیں اور باقی ساری دنیا کے مزدور، کسان، مزارع، کھیت مزدور اور نچلے اور درمیانہ طبقوں کے عوام آزادی حاصل کرنے کیلئے اٹھ رہے ہیں، جدوجہد کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں دبانے کیلئے حکمران طبقے جو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہیں کئی قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں آ گئے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار مذہب بھی ہے۔
پہلے سرمایہ داروں کی سیاسی پارٹیاں مذہب یا فرقہ کی بنا پر منظم نہیں تھیں۔ اب مغربی جرمنی میں کرسچین ڈیمو کریٹک یونین، اٹلی میں کرسچین ڈیمو کریٹک پارٹی، ہالینڈ اور بلجئیم میں کیتھولک ڈیموکریٹک پارٹیاں اور فرانس میں کیتھو لک ری پبلک پاپولر موومنٹ (ایم۔ آر۔ پی) رجعت پسند جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی سب سے زیادہ مضبوط سیاسی پارٹیاں ہیں۔ اسی پر اکتفا نہی، اطالوی پارلیمنٹ کے انتخاب میں پاپائے روم نے تمام پادریوں، راہبوں اور کلیسا کے مدارس کے اساتذہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ کمیونسٹوں، سوشلسٹوں وغیرہ کے متحدہ محاذ، پاپولر فرنٹ کو ناکام بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور میلان کے آرچ بشپ کارڈینل شٹر نے اعلان کیا تھا کہ؛
”پاپولر فرنٹ کو ووٹ دینے والوں کو خدا کی بادشاہت میں کوئی جگہ نہیں ملے گی“
اور
”آسمانی باپ ان سے اپنی تمام رحمتیں چھین لے گی۔“
انگریز، امریکی، فرانسیسی اور ڈچ سامراجیوں کے قائم کردہ نیم سرمایہ داری اور نیم جاگیرداری نو آبادیاتی نظام کے خلاف عوامی جدوجہد سارے ایشیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایران، مصر اور مراکش کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ عوامی جدوجہد کے سیلاب نے مسلمانوں کے خطوں میں بھی سامراجی نظام کے مضبوط قلعوں کو پاش پاش کرنا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ تقریباً تمام مسلم ممالک کے رجعت پسند جاگیردار اور سرمایہ دار اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کے خلاف صف باندھ کر کھڑے ہو رہے ہیں۔
کل دنیا کے سامراجی حکمران اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کے خلاف صف آرائی کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ اس کا ثبوت کیتھولک کلیسا کی تبلیغی انجمن کا ایک بیان ہے جو روم میں 25 نومبر 1949ء کو دیا گیا تھا اور جو 26 نومبر کے سول ملٹری گزٹ میں شائع ہوا تھا۔ اس بیان میں تبلیغی انجمن نے فوجی اقتصادی اور سیاسی اعتبار سے اسلامی ممالک کی مرکزی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کیتھولک عیسائیوں کو بالخصوص یہ مژدہ سنایا تھا کہ ”اس وقت مسلمانوں میں نہایت ہی صحت مند قسم کی مذہبی بیداری پیدا ہو رہی ہے اور یورپ کے باشندوں سے کہیں زیادہ مسلمان علماء کمیونزم سے اپنے مذہب کو خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔“ چنانچہ ”خدا کی حمایت میں کمیونزم کے خلاف عیسائیوں اور مسلمانوں کے متحدہ محاذ“ پر زور دیتے ہوئے تبلیغی انجمن نے کیتھولک عیسائیوں کو ہدایت کی کہ وہ ”پہل قدمی کریں اور متحدہ محاذ قائم کرنے کیلئے موثر قدم اٹھائیں۔“
ہمارے اپنے وطن پاکستان میں رجعت پسند جاگیرداروں اور بڑے سرمایہ داروں نے اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کی مخالفت کو ایک فیشن یا پیشہ بنا رکھا ہے۔ تحریک خواہ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی ہو، خواہ اجرتیں بڑھانے، مہنگائی بھتہ حاصل کرنے یا چھانٹی کی روک تھام کرنے کیلئے مزدوروں، چپڑاسیوں یا کلرکوں کی ہو، خواہ مہاجروں کی بحالی سے تعلق رکھتی ہو، خواہ زرعی اصلاح کیلئے مزارعوں اور غریب کسانوں کی ہو اور خواہ تحریک کا مقصد قومی صنعت کی حفاظت ہو، پاکستان میں اسلام کو اس کے خلاف ایک حربے کی حیثیت سے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یوں تو مسلم لیگی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں سے تعلق رکھنے والے علماء بھی اسلام کے نام پر عوامی تحریکوں کی مخالفت کر رہے ہیں، مگر جماعت اسلامی سب سے پیش پیش ہے۔
اس کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی جاگیرداری اور سرمایہ داری کی حمایت میں فاشسٹوں کے معاشی، سیاسی اور معاشرتی فکر و عمل اور کمیونسٹوں کے خلاف سامراجی حکمرانوں کے پروپیگنڈا کو ایک نظام کو شکل دے کر اسے ”اسلام کے نظام حیات“ کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔
ایک سال کا عرصہ ہوا مولانا مودودی کے پیش کردہ ”اسلام کے نظام حیات“ کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کیلئے میں نے ایک کتابچہ نہایت عجلت میں ”مودودیات“ کے نام سے لکھا تھا جو ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گیا اور دوبارہ اشاعت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ملک کے چاروں طرف سے پبلشرز کے پاس مزید مانگ کے خطوط آتے رہے ہیں اور ان کے اصرار سے میں نے اس مختصر پمفلٹ پر نظرثانی ضروری سمجھی اور ضروری اضافہ محض اس لئے کہ ناظرین کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
پچھلے پمفلٹ میں جو 74 صفحات اور دو ابواب پر مشتمل تھا اب ”مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے اخلاقی تصورات“ کے عنوان سے ایک اور باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔
فیروز الدین منصور
مورخہ 20 جنوری 1952ء
—♦—
دادا فیروز الدین منصور برِ صغیر کے نامور انقلابی راہنما اور دانشور تھے۔ آپ کا سیاسی سفر تحریک خلافت کی ہجرت سے شروع ہوا۔ سوویت یونین میں اشتراکی انقلاب کی تعلیم سے بھگت سنگھ کی رفاقت تک پہنچا۔ دادا فیروز الدین منصور کو برطانوی سامراج کی قید و بند نے کم عمری ہی میں دمہ اور دوسرے امراض بخش دیے تھے۔ ایوب خان کی آمد کے بعددادا فیروز الدین منصورکو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل کے ڈاکٹروں کی تجویز پر فروری 1959 میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ چند ماہ بعد جون 1959 میں دادا فیروز الدین منصور کا شیخوپورہ میں انتقال ہوا۔ وہ مرتے دم تک پاکستان اور دنیا بھر کے انسانوں کی استحصالی نظام سے نجات کے لیے کوشاں رہے۔
Comments 1