• Latest

14 مارچ1883ء: جب دُنیا کے عظیم دماغ نے سوچنا بند کردیا!

مارچ 14, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, مئی 20, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home بین الاقوامی

14 مارچ1883ء: جب دُنیا کے عظیم دماغ نے سوچنا بند کردیا!

مارکس کی وفات پر اینگلز کا خطاب، ہائی گیٹ قبرستان، 17 مارچ 1883ء، لندن 

للکار نیوز by للکار نیوز
مارچ 14, 2024
in سماجی مسائل, سیاسی معیشت, مضامین
A A
3

14 مارچ کو دوپہر پونے تین بجے ہمارے عہد کا عظیم ترین مفکر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔ وہ بمشکل دو منٹ کے لئے ہی تنہا رہا اور جب ہم واپس آئے تو وہ اپنی کرسی پر سکون کی نیند سو رہا تھا۔۔۔ابدی نیند۔۔

اس شخص کی وفات نے امریکہ اور یورپ کے جنگجو پرولتاریہ اور تاریخ کی سائنس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس عظیم رُوح کی پرواز سے پیدا ہونے والے خلا کا ادراک جلد ہی ہونے لگے گا۔

جس طرح سے ڈارون نے نامیاتی فطرت کے قانونِ ارتقاء کی دریافت کی تھی، اسی طرح مارکس نے انسانی تاریخ کے ارتقاء کا قانون دریافت کیا! وہ سادہ حقیقت جسے نظریات کی حد سے زیادہ بالیدگی نے چھپا دیا تھاکہ سیاست، سائنس، فنونِ لطیفہ، مذہب وغیرہ میں حصہ لینے سے پہلے انسانیت کو خوراک، رہائش اور لباس درکار ہے؛ اور اس لئے فوری مادی ضروریات کی پیداوار، اور اس کے نتیجے میں مخصوص لوگوں یاکسی عہد کی معاشی ترقی، وہ بنیادیں فراہم کرتی ہیں جن پر ریاستی ادارے، قانونی افکار، فنونِ لطیفہ یہاں تک کہ مذہب کے حوالے سے متعلقہ لوگوں کے خیالات تشکیل پاتے ہیں اور اس طریقے سے ہی ان پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے، نہ کہ ان بنیادوں پر جن کے ذریعے اس سے پہلے یہ کوشش کی جاتی رہی ہے۔

لیکن بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ مارکس نے موجودہ سرمایہ دارانہ طرزپیداوار اور اس کی بنیاد پر بننے والے سرمایہ دارانہ سماج کا مخصوص قانونِ حرکت بھی دریافت کیا۔ قدر زائد کی دریافت نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی جس کو حل کرنے کی تمام سابقہ کوششیں،چاہے وہ سرمایہ داری کے حامی معیشت دانوں کی طرف سے کی گئی ہوں یا پھر سوشلسٹ نقادوں کی جانب سے، اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے کے مترادف تھیں۔

ایسی دو دریافتیں ہی ایک زندگی کے لئے کافی تھیں۔ اگر کسی شخص کو ان میں سے ایک دریافت بھی میسر ہو جاتی تو وہ خوش نصیب ہوتا۔مارکس نے کئی شعبوں کا گہرائی میں جائزہ لیا اور اس نے جس بھی شعبے میں تحقیق کی، یہاں تک کہ ریاضی میں بھی، اس نے آزادانہ دریافتیں کیں۔

سائنس کے آدمی کے بطور وہ ایسا تھا۔ لیکن یہ اس کی شخصیت کا نصف بھی نہیں تھا۔ مارکس کے لئے سائنس ایک متغیّر  تاریخی انقلابی قوت تھی۔ چاہے وہ خوشی کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، جس سے وہ کسی نظریاتی سائنس میں نئی دریافت کو خوش آمدید کہتا تھا،جس کے عملی اطلاق کی پیش بینی کرنا شاید فوری طور پر ناممکن ہوتا تھا، لیکن وہ ایک اور ہی طرح کی خوشی محسوس کرتا تھا۔ اس وقت جب کسی دریافت کے فوری طور پر صنعت میں اور عمومی تاریخی ارتقاء پر انقلابی اثرات پڑتے تھے۔ مثال کے طور پر، اس کی برقیات کے میدان میں اور مارسیل ڈیپریز کی حالیہ دریافتوں میں گہری دلچسپی تھی۔

کیونکہ مارکس سب سے پہلے ایک انقلابی تھا۔ اس کی زندگی کا اصل مقصد کسی نہ کسی طرح سرمایہ دارانہ سماج اور اس کے بنائے ہوئے ریاستی اداروں کو اُکھاڑ پھینکنے میں اپنا کردار ادا کرنا اور محنت کشوں کی آزادی میں حصہ ڈالناتھا جسے پہلی مرتبہ اس نے اپنی تاریخی حیثیت اور ضروریات سے روشناس کرایا، اپنی آزادی کے لئے درکار حالات کا ادراک دیا۔ جدوجہد اس کا خاصہ تھا۔ اور وہ ایسے جوش و خروش، مضبوط قوتِ ارادی اور کامیابی کے ساتھ جدوجہد کرتا تھا جو چند لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس کا پہلے رہینائش زائتنگ (1842ء)، پیرس وروارتس (1844ء)، ڈوائچ بروسیلر زائتنگ (1847ء)، نیو رہینائش زائتنگ (1848-49ء)، نیو یارک ٹربیون (1852-61ء)اور ان کے علاوہ جدوجہد کے بے شمار پمفلٹ، پیرس، برسلز اور لندن کی تنظیموں میں انقلابی کام اور پھر سب سے بڑھ کر عظیم International Working Men’s Association کی تعمیر۔۔۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی شاندار کامیابی تھی کہ اگر اس کے خالق نے اور کچھ نہ بھی کیا ہوتا تو اس تنظیم کی تعمیر ہی فخر کرنے کے لیے کافی تھی۔اور نتیجتاً مارکس اپنے عہد کا سب سے ناپسندیدہ اور تہمت زدہ انسان تھا۔

مطلق العنان ہوں یا جمہوری حکومتیں، دونوں نے اُسے ملک بدر کیا۔ سرمایہ داری چاہے قدامت پسند ہویا انتہائی جمہوریت پسند، دونوں نے اس پر بہتان تراشی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی۔

اس نے کوئی پرواہ کئے بغیر اس سب کو یوں جھاڑ دیا جیسے مکڑی کا کوئی جالا اور صرف اسی وقت جواب دیا جب اس کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ اور مرتے وقت وہ ایک انتہائی محبوب اورقابل احترام شخص تھا، جس کی وفات پر سائبیریا سے لے کر کیلیفورنیا کی کانوں تک اور یورپ اور امریکہ کے تمام حصوں میں کروڑوں انقلابی مزدوروں نے غم منایا، اور میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگرچہ اس کے بے شمار مخالفین ہوں گے، لیکن شاید ہی کوئی اس کا ذاتی دشمن ہو۔
اِس کا نام مدتوں تک زندہ رہے گا اور ساتھ ہی اس کا کام بھی۔

فریڈرک اینگلز

—♦—

Comments 3

  1. Sarferaz Ahmed says:
    1 سال ago

    Gr8 efforts….

    جواب دیں
    • للکار نیوز says:
      1 سال ago

      Thank you for your appreciation.

      جواب دیں
    • للکار نیوز says:
      1 سال ago

      Thank you for your appreciation.

      جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

14 مارچ کو دوپہر پونے تین بجے ہمارے عہد کا عظیم ترین مفکر ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔ وہ بمشکل دو منٹ کے لئے ہی تنہا رہا اور جب ہم واپس آئے تو وہ اپنی کرسی پر سکون کی نیند سو رہا تھا۔۔۔ابدی نیند۔۔

اس شخص کی وفات نے امریکہ اور یورپ کے جنگجو پرولتاریہ اور تاریخ کی سائنس کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس عظیم رُوح کی پرواز سے پیدا ہونے والے خلا کا ادراک جلد ہی ہونے لگے گا۔

جس طرح سے ڈارون نے نامیاتی فطرت کے قانونِ ارتقاء کی دریافت کی تھی، اسی طرح مارکس نے انسانی تاریخ کے ارتقاء کا قانون دریافت کیا! وہ سادہ حقیقت جسے نظریات کی حد سے زیادہ بالیدگی نے چھپا دیا تھاکہ سیاست، سائنس، فنونِ لطیفہ، مذہب وغیرہ میں حصہ لینے سے پہلے انسانیت کو خوراک، رہائش اور لباس درکار ہے؛ اور اس لئے فوری مادی ضروریات کی پیداوار، اور اس کے نتیجے میں مخصوص لوگوں یاکسی عہد کی معاشی ترقی، وہ بنیادیں فراہم کرتی ہیں جن پر ریاستی ادارے، قانونی افکار، فنونِ لطیفہ یہاں تک کہ مذہب کے حوالے سے متعلقہ لوگوں کے خیالات تشکیل پاتے ہیں اور اس طریقے سے ہی ان پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے، نہ کہ ان بنیادوں پر جن کے ذریعے اس سے پہلے یہ کوشش کی جاتی رہی ہے۔

لیکن بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی۔ مارکس نے موجودہ سرمایہ دارانہ طرزپیداوار اور اس کی بنیاد پر بننے والے سرمایہ دارانہ سماج کا مخصوص قانونِ حرکت بھی دریافت کیا۔ قدر زائد کی دریافت نے اس مسئلے پر روشنی ڈالی جس کو حل کرنے کی تمام سابقہ کوششیں،چاہے وہ سرمایہ داری کے حامی معیشت دانوں کی طرف سے کی گئی ہوں یا پھر سوشلسٹ نقادوں کی جانب سے، اندھیرے میں ہاتھ پیر مارنے کے مترادف تھیں۔

ایسی دو دریافتیں ہی ایک زندگی کے لئے کافی تھیں۔ اگر کسی شخص کو ان میں سے ایک دریافت بھی میسر ہو جاتی تو وہ خوش نصیب ہوتا۔مارکس نے کئی شعبوں کا گہرائی میں جائزہ لیا اور اس نے جس بھی شعبے میں تحقیق کی، یہاں تک کہ ریاضی میں بھی، اس نے آزادانہ دریافتیں کیں۔

سائنس کے آدمی کے بطور وہ ایسا تھا۔ لیکن یہ اس کی شخصیت کا نصف بھی نہیں تھا۔ مارکس کے لئے سائنس ایک متغیّر  تاریخی انقلابی قوت تھی۔ چاہے وہ خوشی کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، جس سے وہ کسی نظریاتی سائنس میں نئی دریافت کو خوش آمدید کہتا تھا،جس کے عملی اطلاق کی پیش بینی کرنا شاید فوری طور پر ناممکن ہوتا تھا، لیکن وہ ایک اور ہی طرح کی خوشی محسوس کرتا تھا۔ اس وقت جب کسی دریافت کے فوری طور پر صنعت میں اور عمومی تاریخی ارتقاء پر انقلابی اثرات پڑتے تھے۔ مثال کے طور پر، اس کی برقیات کے میدان میں اور مارسیل ڈیپریز کی حالیہ دریافتوں میں گہری دلچسپی تھی۔

کیونکہ مارکس سب سے پہلے ایک انقلابی تھا۔ اس کی زندگی کا اصل مقصد کسی نہ کسی طرح سرمایہ دارانہ سماج اور اس کے بنائے ہوئے ریاستی اداروں کو اُکھاڑ پھینکنے میں اپنا کردار ادا کرنا اور محنت کشوں کی آزادی میں حصہ ڈالناتھا جسے پہلی مرتبہ اس نے اپنی تاریخی حیثیت اور ضروریات سے روشناس کرایا، اپنی آزادی کے لئے درکار حالات کا ادراک دیا۔ جدوجہد اس کا خاصہ تھا۔ اور وہ ایسے جوش و خروش، مضبوط قوتِ ارادی اور کامیابی کے ساتھ جدوجہد کرتا تھا جو چند لوگوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس کا پہلے رہینائش زائتنگ (1842ء)، پیرس وروارتس (1844ء)، ڈوائچ بروسیلر زائتنگ (1847ء)، نیو رہینائش زائتنگ (1848-49ء)، نیو یارک ٹربیون (1852-61ء)اور ان کے علاوہ جدوجہد کے بے شمار پمفلٹ، پیرس، برسلز اور لندن کی تنظیموں میں انقلابی کام اور پھر سب سے بڑھ کر عظیم International Working Men’s Association کی تعمیر۔۔۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی شاندار کامیابی تھی کہ اگر اس کے خالق نے اور کچھ نہ بھی کیا ہوتا تو اس تنظیم کی تعمیر ہی فخر کرنے کے لیے کافی تھی۔اور نتیجتاً مارکس اپنے عہد کا سب سے ناپسندیدہ اور تہمت زدہ انسان تھا۔

مطلق العنان ہوں یا جمہوری حکومتیں، دونوں نے اُسے ملک بدر کیا۔ سرمایہ داری چاہے قدامت پسند ہویا انتہائی جمہوریت پسند، دونوں نے اس پر بہتان تراشی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی۔

اس نے کوئی پرواہ کئے بغیر اس سب کو یوں جھاڑ دیا جیسے مکڑی کا کوئی جالا اور صرف اسی وقت جواب دیا جب اس کی اشد ضرورت محسوس ہوئی۔ اور مرتے وقت وہ ایک انتہائی محبوب اورقابل احترام شخص تھا، جس کی وفات پر سائبیریا سے لے کر کیلیفورنیا کی کانوں تک اور یورپ اور امریکہ کے تمام حصوں میں کروڑوں انقلابی مزدوروں نے غم منایا، اور میں پورے وثوق سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگرچہ اس کے بے شمار مخالفین ہوں گے، لیکن شاید ہی کوئی اس کا ذاتی دشمن ہو۔
اِس کا نام مدتوں تک زندہ رہے گا اور ساتھ ہی اس کا کام بھی۔

فریڈرک اینگلز

—♦—

Comments 3

  1. Sarferaz Ahmed says:
    1 سال ago

    Gr8 efforts….

    جواب دیں
    • للکار نیوز says:
      1 سال ago

      Thank you for your appreciation.

      جواب دیں
    • للکار نیوز says:
      1 سال ago

      Thank you for your appreciation.

      جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: Death of MarxEngelsFuneralKarl MarxSocialismStruggle
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.