مجھے بچپن سے ہی سنگیت اور شاعری کا بہت شوق تھا. جب ہم کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے قابل ہوئے تو شاعری، مصوری اور موسیقی میرے محبوب ترین مشغلے رہے۔ لیکن موسیقی بجانے یا سیکھنے کی گھر میں بڑی پابندی تھی۔ ہمارے اکثر لوگ موسیقی سنتے ضرور ہیں لیکن اس کو بجانا یا سیکھنا پسند نہیں کرتے۔ دراصل یہ نوابوں کا وہ خیال ہے جن کی سوچ یہ تھی کہ نواب اور بادشاہ موسیقی سیکھتے ہیں بجاتے نہیں!
بہر حال ہم نے گائیکی یا موسیقی میں سب سے زیادہ جس گلوکار کو سنا وہ طلعت محمود تھے۔ طلعت محمود کی آواز سوز میں ڈوبی ہوئی آواز ہے اور یہی سوز ہمارے دل کے تار بجاتا ہے۔ اب یہ سوز ہمیں کیوں اور کہاں سے نصیب ہوا آج تک ہم اس کی وجہ نہ جان سکے۔ بغیر کسی داستاں کے یہ سوز شاید ہماری عمر بھر کی تلاش ہے اور جب تک سانس چلتی رہیے گی اس کی تلاش جاری رہے گی۔
طلعت محمود کا ایک گیت جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ فلم ٹھوکر سے تھا۔ جس کا ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ دراصل ہم جس کو گیت سمجھ رہے تھے وہ اسرارالحق مجازؔ کی نظم آوارہ سے لیا گیا تھا۔ جب ہم نے دوردرشن کے ایک پروگرام میں یہ پوری نظم سنی تو ہم نے فوراً اس کو نوٹ کیا تاکہ یہ نظم جسے فلم ٹھوکر کے لیے طلعت محمود نے گایا تھا وہ یاد رہے۔
گیت میں یہ اشعار نہ تھے جیسا کہ؛
مُفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں سُلطان جابر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں چنگیز، نادر ہیں نظر کے سامنے
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں
تاج پہ اسکے چمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں
کوئی توڑے نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
اسرارالحق مجاز جن کا جنم 19نومبر 1911 میں قصبہ رودولی ضلح بارہ بنکی میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم رودولی میں حاصل کی اور پھر 1935ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی وہ ایک مقبول شاعر بن چکے تھے۔
پہلے پہل لکھنؤ سے نکلنے والے میگزین نیا دور میں سید سبطِ حسن اور علی سردار جعفری کے ساتھ کام کرتے رہے۔
اور پھر بمبئی سے نکلنے والے جریدے انفارمیشن میں کام کیا۔ بعد ازاں دہلی ریڈیواسٹیشن سے شائع ہونے والے رسالے آواز کے مدیرِ خاص مقرر ہو گئے اور دہلی چلے آئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک مشاعرہ یونیورسٹی کی طرف سے منعقد کیا گیا جس میں انہوں نے ایک غزل پڑھی؛
ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے
کچھ کہہ نہ سکے کچھ سُن نہ سکے
اس واقعے کو مدت گزر گئی، یونیورسٹی میں ان کے ساتھ پڑھنے والی ایک لڑکی شہناز جس کی شادی دہلی کے ایک رئیس خاندان کے ڈاکٹر احمد سے ہوئی وہ مجاز کی شخصیت اور شاعری سے بہت متاثر تھی۔ جب آل انڈیا ریڈیو سے اسرارالحق مجاز کی غزلیں، نظمیں نشر ہونے لگیں، تب محبت کا سمندر جو شہناز کے دل کے اندر ہی اندر ایک طوفان بن کر اُمڈ رہا تھا ایک مرتبہ پھر شوقِ وصال کے لیے مچل اُٹھا۔
وہ خاتون ریڈیو اسٹیشن فون کرتی ہے اتفاق سے مجاز ہی فون اٹھاتے ہیں وہ خاتون بہت خوش ہوتی ہے اور مجاز کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتی ہے اس بات کا ذکر وہ اپنے شوہر سے بھی کرتی ہے وہ بھی مجاز کی شاعری کے گرویدہ ہیں۔ لیکن دونوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ مجاز بہت زیادہ شراب پیتے ہیں۔ خیر کافی دنوں تک یہ آنا جانا لگا رہا۔ بالآخر ڈاکٹر احمد دو ماہ کے لیے انگلستان جانے لگے جس کے لیے انہوں نے ممبئی سے جہاز پے بیٹھنا تھا انہوں نے مجاز سے اسرار کیا کہ آپ بھی چلیں اور مجھے جہاز پر بٹھا کر آپ شہناز کے ساتھ واپس آجائیں اور یوں مجاز بھی ممبئی جاتے ہیں شام کو مجاز اسرار کرتے ہیں کہ آج مہ پینی ہے شہناز یہ کہہ کہ اجازت دیتی ہے کہ یہ آخری مرتبہ پینی ہے۔
چھلکے تیری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکے تیرے عارِض کے گلاب اور زیادہ
کچھ مدت بعد ڈاکٹر احمد کو ایک خط آتا ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ آپ دنیا بھر کا علاج کرتے ہیں اپنی بیوی کا بھی علاج کیجیے جو مجاز کے عشق میں گرفتار ہے۔ ڈاکٹر احمد شہناز سے کہتے ہیں کہ اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ میں آپ کی محبت کے درمیان حائل ہوں تو میں یہ فیصلہ کیے دیتا ہوں۔ لیکن شہناز کہتی ہے نہیں میں یہ نہیں چاہتی اور یوں ڈاکٹر احمد ایک شرط رکھتے ہیں کہ اب آپ نے مجاز سے نہیں ملنا کیونکہ میں دنیا کی باتیں نہیں سن سکتا۔
ادھر مجاز کو نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے مجاز شہناز کے گھر جاتے ہیں چوکیدار راستہ روک لیتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ اندر نہیں جاسکتے مجاز کہتے ہیں کہ اس بدتمیزی کی شکایت کی جائے گی چوکیدار کہتا ہے خود مالک کا حکم ہے مجاز شہناز کو کال کرتے ہیں اور شہناز بتاتی ہیں کہ میں اب آپ سے نہیں مل سکتی مجاز کئی دنوں تک دہلی میں بے کار گھومتے رہتے ہیں اس سارے واقعے کا مجاز کے دل پر بہت اثر ہوتا ہے۔
شہر کی رات اور میں نوشاد ناکارہ پھرو
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پے آوارہ پھرو
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
رات ہنس ہنس کہ یہ کہتی ہے کہ میخانے چل
یا کسی شہناز لالہ رُخ کے کاشانے چل
یہ بھی ممکن نہیں تو پھر اے دوست ویرانے چل
پھر انیس سو سنتالیس کے ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں، ہندوستان کا بٹوارہ ہو جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ قتل ہو جاتے ہیں مجاز کے ذہن پر ایک اور چوٹ پڑتی ہے۔ سجاد ظہیر سمیت کمیونسٹ پارٹی کے سارے دوست سمجھاتے ہیں کہ آپ اس قدر شراب نا پیا کریں یہاں تک کہ جوش ملیح آبادی باضابطہ ان کو منع کرتے ہیں اور شکایات لگاتے ہیں لیکن مجاز پے کوئی اثر نہیں ہوتا یہاں تک کہ مجاز کو پاگل خانے داخل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں اس دور کے ہندوستان کے مقبول شاعر نظرالاسلام بھی داخل ہیں۔ مجاز کہتے ہیں؛
فیض جیل خانے میں ہے۔۔منٹو پاگل خانے میں ہے۔۔۔اور مجاز شراب خانے میں ہے۔
اپنے دل کو دونوں عالم سے اٹھا سکتا ہوں میں
کیا سمجھتی ہو تمھیں بھی بھلا سکتا ہوں میں
زندگی ساز دے رہی ہے مجھے
زہر اعجاز دے رہی ہے مجھے
اور بہت دور آسماں سے
موت آواز دے رہی ہے مجھے
رومانس کے ساتھ جتنی تڑپ مجاز نے پیدا کی وہ کسی کسی کے نصیب میں ہی آئی ہے وہ اپنے تمام تر باغیانہ روّیوں کے باوجود فنی اظہار میں کلاسیکی تھے اس کلاسیکی کا اظہار مجاز کی غزلوں میں جا بجا ملتا ہے۔
تم کہ بن سکتی ہو ہر محفل میں فردوسِ نظر
مجھ کو یہ دعویٰ کہ ہر محفل پے چھا سکتا ہوں میں
گو کہ ان کے مفاہم ماضی کے گھسے پٹے محاوروں سے مختلف تھے جسے کہ یہ؛
آؤ مل کر انقلاب تازہ پیدا کریں
دہر میں اسطرح چھا جائیں کہ سب دیکھا کریں
مجھ کو یہ آرزو وہ اُٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی
دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو
تم چاہو تو فسانہ بنا سکتا ہوں
مجاز 5 دسمبر1955کو انتقال کر گئے ان کی قبر پے یہ شعر لکھا ہے؛
اب اس کے بعد صبح ہے صبح نو مجازؔ
ہم پر ہے ختم شام ِغریبان ِلکھنؤ
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
مجھے بچپن سے ہی سنگیت اور شاعری کا بہت شوق تھا. جب ہم کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے قابل ہوئے تو شاعری، مصوری اور موسیقی میرے محبوب ترین مشغلے رہے۔ لیکن موسیقی بجانے یا سیکھنے کی گھر میں بڑی پابندی تھی۔ ہمارے اکثر لوگ موسیقی سنتے ضرور ہیں لیکن اس کو بجانا یا سیکھنا پسند نہیں کرتے۔ دراصل یہ نوابوں کا وہ خیال ہے جن کی سوچ یہ تھی کہ نواب اور بادشاہ موسیقی سیکھتے ہیں بجاتے نہیں!
بہر حال ہم نے گائیکی یا موسیقی میں سب سے زیادہ جس گلوکار کو سنا وہ طلعت محمود تھے۔ طلعت محمود کی آواز سوز میں ڈوبی ہوئی آواز ہے اور یہی سوز ہمارے دل کے تار بجاتا ہے۔ اب یہ سوز ہمیں کیوں اور کہاں سے نصیب ہوا آج تک ہم اس کی وجہ نہ جان سکے۔ بغیر کسی داستاں کے یہ سوز شاید ہماری عمر بھر کی تلاش ہے اور جب تک سانس چلتی رہیے گی اس کی تلاش جاری رہے گی۔
طلعت محمود کا ایک گیت جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ فلم ٹھوکر سے تھا۔ جس کا ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا ہے۔ دراصل ہم جس کو گیت سمجھ رہے تھے وہ اسرارالحق مجازؔ کی نظم آوارہ سے لیا گیا تھا۔ جب ہم نے دوردرشن کے ایک پروگرام میں یہ پوری نظم سنی تو ہم نے فوراً اس کو نوٹ کیا تاکہ یہ نظم جسے فلم ٹھوکر کے لیے طلعت محمود نے گایا تھا وہ یاد رہے۔
گیت میں یہ اشعار نہ تھے جیسا کہ؛
مُفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں سُلطان جابر ہیں نظر کے سامنے
سینکڑوں چنگیز، نادر ہیں نظر کے سامنے
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں
تاج پہ اسکے چمکتا ہے جو پتھر توڑ دوں
کوئی توڑے نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں
اسرارالحق مجاز جن کا جنم 19نومبر 1911 میں قصبہ رودولی ضلح بارہ بنکی میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم رودولی میں حاصل کی اور پھر 1935ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی وہ ایک مقبول شاعر بن چکے تھے۔
پہلے پہل لکھنؤ سے نکلنے والے میگزین نیا دور میں سید سبطِ حسن اور علی سردار جعفری کے ساتھ کام کرتے رہے۔
اور پھر بمبئی سے نکلنے والے جریدے انفارمیشن میں کام کیا۔ بعد ازاں دہلی ریڈیواسٹیشن سے شائع ہونے والے رسالے آواز کے مدیرِ خاص مقرر ہو گئے اور دہلی چلے آئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ایک مشاعرہ یونیورسٹی کی طرف سے منعقد کیا گیا جس میں انہوں نے ایک غزل پڑھی؛
ہم عرضِ وفا بھی کر نہ سکے
کچھ کہہ نہ سکے کچھ سُن نہ سکے
اس واقعے کو مدت گزر گئی، یونیورسٹی میں ان کے ساتھ پڑھنے والی ایک لڑکی شہناز جس کی شادی دہلی کے ایک رئیس خاندان کے ڈاکٹر احمد سے ہوئی وہ مجاز کی شخصیت اور شاعری سے بہت متاثر تھی۔ جب آل انڈیا ریڈیو سے اسرارالحق مجاز کی غزلیں، نظمیں نشر ہونے لگیں، تب محبت کا سمندر جو شہناز کے دل کے اندر ہی اندر ایک طوفان بن کر اُمڈ رہا تھا ایک مرتبہ پھر شوقِ وصال کے لیے مچل اُٹھا۔
وہ خاتون ریڈیو اسٹیشن فون کرتی ہے اتفاق سے مجاز ہی فون اٹھاتے ہیں وہ خاتون بہت خوش ہوتی ہے اور مجاز کو اپنے گھر آنے کی دعوت دیتی ہے اس بات کا ذکر وہ اپنے شوہر سے بھی کرتی ہے وہ بھی مجاز کی شاعری کے گرویدہ ہیں۔ لیکن دونوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ مجاز بہت زیادہ شراب پیتے ہیں۔ خیر کافی دنوں تک یہ آنا جانا لگا رہا۔ بالآخر ڈاکٹر احمد دو ماہ کے لیے انگلستان جانے لگے جس کے لیے انہوں نے ممبئی سے جہاز پے بیٹھنا تھا انہوں نے مجاز سے اسرار کیا کہ آپ بھی چلیں اور مجھے جہاز پر بٹھا کر آپ شہناز کے ساتھ واپس آجائیں اور یوں مجاز بھی ممبئی جاتے ہیں شام کو مجاز اسرار کرتے ہیں کہ آج مہ پینی ہے شہناز یہ کہہ کہ اجازت دیتی ہے کہ یہ آخری مرتبہ پینی ہے۔
چھلکے تیری آنکھوں سے شراب اور زیادہ
مہکے تیرے عارِض کے گلاب اور زیادہ
کچھ مدت بعد ڈاکٹر احمد کو ایک خط آتا ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ آپ دنیا بھر کا علاج کرتے ہیں اپنی بیوی کا بھی علاج کیجیے جو مجاز کے عشق میں گرفتار ہے۔ ڈاکٹر احمد شہناز سے کہتے ہیں کہ اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ میں آپ کی محبت کے درمیان حائل ہوں تو میں یہ فیصلہ کیے دیتا ہوں۔ لیکن شہناز کہتی ہے نہیں میں یہ نہیں چاہتی اور یوں ڈاکٹر احمد ایک شرط رکھتے ہیں کہ اب آپ نے مجاز سے نہیں ملنا کیونکہ میں دنیا کی باتیں نہیں سن سکتا۔
ادھر مجاز کو نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے مجاز شہناز کے گھر جاتے ہیں چوکیدار راستہ روک لیتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ اندر نہیں جاسکتے مجاز کہتے ہیں کہ اس بدتمیزی کی شکایت کی جائے گی چوکیدار کہتا ہے خود مالک کا حکم ہے مجاز شہناز کو کال کرتے ہیں اور شہناز بتاتی ہیں کہ میں اب آپ سے نہیں مل سکتی مجاز کئی دنوں تک دہلی میں بے کار گھومتے رہتے ہیں اس سارے واقعے کا مجاز کے دل پر بہت اثر ہوتا ہے۔
شہر کی رات اور میں نوشاد ناکارہ پھرو
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پے آوارہ پھرو
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
رات ہنس ہنس کہ یہ کہتی ہے کہ میخانے چل
یا کسی شہناز لالہ رُخ کے کاشانے چل
یہ بھی ممکن نہیں تو پھر اے دوست ویرانے چل
پھر انیس سو سنتالیس کے ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں، ہندوستان کا بٹوارہ ہو جاتا ہے۔ لاکھوں لوگ قتل ہو جاتے ہیں مجاز کے ذہن پر ایک اور چوٹ پڑتی ہے۔ سجاد ظہیر سمیت کمیونسٹ پارٹی کے سارے دوست سمجھاتے ہیں کہ آپ اس قدر شراب نا پیا کریں یہاں تک کہ جوش ملیح آبادی باضابطہ ان کو منع کرتے ہیں اور شکایات لگاتے ہیں لیکن مجاز پے کوئی اثر نہیں ہوتا یہاں تک کہ مجاز کو پاگل خانے داخل کر دیا جاتا ہے۔ جہاں اس دور کے ہندوستان کے مقبول شاعر نظرالاسلام بھی داخل ہیں۔ مجاز کہتے ہیں؛
فیض جیل خانے میں ہے۔۔منٹو پاگل خانے میں ہے۔۔۔اور مجاز شراب خانے میں ہے۔
اپنے دل کو دونوں عالم سے اٹھا سکتا ہوں میں
کیا سمجھتی ہو تمھیں بھی بھلا سکتا ہوں میں
زندگی ساز دے رہی ہے مجھے
زہر اعجاز دے رہی ہے مجھے
اور بہت دور آسماں سے
موت آواز دے رہی ہے مجھے
رومانس کے ساتھ جتنی تڑپ مجاز نے پیدا کی وہ کسی کسی کے نصیب میں ہی آئی ہے وہ اپنے تمام تر باغیانہ روّیوں کے باوجود فنی اظہار میں کلاسیکی تھے اس کلاسیکی کا اظہار مجاز کی غزلوں میں جا بجا ملتا ہے۔
تم کہ بن سکتی ہو ہر محفل میں فردوسِ نظر
مجھ کو یہ دعویٰ کہ ہر محفل پے چھا سکتا ہوں میں
گو کہ ان کے مفاہم ماضی کے گھسے پٹے محاوروں سے مختلف تھے جسے کہ یہ؛
آؤ مل کر انقلاب تازہ پیدا کریں
دہر میں اسطرح چھا جائیں کہ سب دیکھا کریں
مجھ کو یہ آرزو وہ اُٹھائیں نقاب خود
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی
دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو
تم چاہو تو فسانہ بنا سکتا ہوں
مجاز 5 دسمبر1955کو انتقال کر گئے ان کی قبر پے یہ شعر لکھا ہے؛
اب اس کے بعد صبح ہے صبح نو مجازؔ
ہم پر ہے ختم شام ِغریبان ِلکھنؤ
—♦—

ممتاز احمد آرزوؔ کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین اسلام آباد سے ہے۔ آپ پاکستان انقلابی پارٹی کی مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے چئیرمین بھی ہیں۔ ادب اور آرٹ سے وابستگی کے ساتھ کلاسیکی موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ آپ کی شاعری کا مجموعہ ”تیر ِسحر“ ، افسانوں کا مجموعہ ”گورپال پور کی رادھا“، اور مضامین پر مشتمل کتاب ”فکرِ شعور“ شائع ہو چکی ہیں۔ آپ اکثرسیاسی، سماجی و ادبی مسائل پر مضامین لکھتے رہتے ہیں۔