دل شام کا سورج تھا لمحہ لمحہ خون ہوتا ہوا اُفق کی گود میں سوتا ہوا اور چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکی۔ بے محابا بکھرتی ہوئی تاریکی ۔۔۔ اُف! یہ تاریکی تو میرا مقدر ہے۔ ثمین نے بے اختیار سوچا۔ تاریکی جو اس کے اندر گھلتی ہوئی تاریکی جو گلی میں بکھرتی ہوئی۔ یہاں سے وہاں تک۔عجب سلسلہ ہے یہ تاریکیوں کا۔
وہ تھکی تھکی سی اس اندھیری گلی میں چلتی ہوئی، جہاں دن میں بھی سورج آتے ہوئے شرماتا تھا، جب اپنے گھر پہنچی تو دیکھا پاشا کسی آسیب کی طرح گھر میں نازل ہے۔
’’تم‘‘ اس کے چہرے پر مردنی سی چھاگئی۔
’’تمھیں یہ آرٹیکل دکھانے آیا ہوں‘‘ وہ انگریزی کا کوئی اخبار پھیلاتا ہوا بولا ’’ اس کا عنوان ہے ۔۔۔ آرگن بازار‘‘
کیا ؟ ثمین سہم سی گئی ۔ ایک اُداسی قرنوں سے آنکھیں جھپکتی ہوئی اندھیرے کی ایک دبیز چادر میں اس کو لپیٹتی ہوئی اس کے رگ و پے میں اندر کہیں دُور تک گہری اتر گئی۔
وہ پڑھتا رہا ’’ ایک دَور وہ ہوگا جب آرگن بازار قائم ہوں گے۔جہاں انسانی اعضاء کی خرید و فروخت ہوگی اور اشتہار کچھ اس طرح ہوں گے۔ ہمارے پاس عشق میں ہارا ایک دل ہے جو پیوند کاری کے کام آسکتا ہے، اس پتے پر رابطہ قائم کیجئے یا درد سے عاری ایک جگر ہے اس نمبر پر سودا طے ہوسکتا ہے ۔‘‘
’’نہیں ثمین چیخ پڑی’’ ایسا کوئی دور نہیں آئے گا ، کبھی نہیں‘‘ ۔
’’ آبھی چکا یہ دیکھو‘‘ پاشا نے ایک مقامی اخبار نکالا۔ ’’ کسی نے اشتہار دیا ہے کہ وہ اپنا گردہ فروخت کرنا چاہتا ہے‘‘ ۔
’’ آگئے نا اپنے مطلب پر ‘‘ ثمین کے لہجے میں تیز نشتر کی سی کاٹ تھی۔
’’مجھے پتہ ہے تم دلال ہو۔ انسانی اعضا ءکے دلال ، جس نے اس اندھیری گلی سے لوگوں کے اعضا ءکوڑیوں کے مول نکال لیئے ہیں مگر ایک بات کان کھول کر سُن لو یہ میرا گھر ہے کوئی آرگن بازار نہیں‘‘۔
ثمین عضب ناک بنی ہوئی تھی اور وہ جو اپنے دھندے کا پاشا تھا چپ خاموش سا اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ کہتا بھی کیا؟
چاروں طرف بس آگ ہی آگ تھی۔ شعلے دہکتے ہوئے چنگاریاں سلگتی ہوئیں اور ثمین بے معنی انداز میں چولہے میں سلگتی ہوئی اُن لکڑیوں کو دیکھ رہی تھی جو راکھ بن رہی تھی ۔ کچھ اندر بھی تو جل رہا تھا من کہہ رہا تھا کہ کہیں سے کوئی سمندر گرے جو یہ آگ بجھے مگر شعلے تھے کہ بھڑک رہے تھے۔ ان کی لپٹیں اُونچی اُٹھ رہی تھیں اور تپش ۔۔ اُف !! یہ تپش تو ناقابل ِبرداشت تھی۔
’’ امی‘‘ جب وہ بالکل بھی سہہ نہ پائی تو تڑپ اُٹھی۔
’’ یہ پاشا، یہاں کیوں آیا تھا‘‘
’’ وہ اخبار تمہیں دکھانے ‘‘۔
’’ میں نہیں مانتی ۔۔۔ لگتا ہے اسے کچھ ملے گا‘‘۔
اگر کچھ ملتا بھی ہے تو کیا برا ہے۔
’’ تو کہیے نا کس کا گردہ فروخت ہونے والا ہے‘‘ وہ وحشت زدہ سی نظر آئی۔
’’ایک گردہ فالتو ہی تو ہوتا ہے ثمو۔۔۔ اگر وہ کسی کے کام آجائے تو اس میں بُرا کیا ہے‘‘۔
’’ آپ کافی جہاندیدہ ہوگئی ہیں امی ‘‘ وہ تلملا اُٹھی ۔ ’’ یہ آپ کے الفاظ ہیں یا پاشا نے چابی بھری ہے‘‘۔
’’ یہ اُسی حرام خور کی کارستانی لگتی ہے‘‘ ادھر بوڑھی نانی چپ نہ رہ سکیں اچانک پھٹ پڑیں’’ اور یہ کرم جلی کر بھی کیا سکتی ہے اِتّے سارے بچوں کو جَن چھوڑا ہے۔ ہر ایک کی قسمت بنائے گی۔ آج تیری شادی کے لیے گردہ دےگی‘ کل نفیسہ کے لیے آنکھ۔۔۔ پھر یونس کے لیے جگر اور شاذیہ کے لیے۔۔۔‘‘
نانی جانے کیا اناپ شناپ بکتی رہیں۔ ثمین کا دل دھک سے رہ گیا۔ وحشت زدہ سی ہو کر اس نے دیکھا وہاں امی نہیں تھیں وہاں تو بس آگ ہی آگ تھی۔ شعلے دہکتے ہوئے، چنگاریاں سلگتی ہوئیں۔ وہ بے معنی انداز میں شعلوں کو گھورنے لگی۔ دفعتاً اسے لگا بھڑکتے شعلے کسی پیکر میں ڈھل رہے ہیں۔ وہ ایک دُلہن تھی سرخ جوڑے میں لپٹی۔ جس کا ہیولیٰ انگاروں پر کانپ رہا تھا، مگر یہ کیا ؟ ثمین کا ذہن بھک سے اُڑگیا۔ دُلہن تو انسانی اعضاء سے سجی ہوئی تھی ۔ ثمین کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ وہ دہشت زدہ ہو کر چیخ پڑی تو نانی نے بڑبڑاتے ہوئے اسے جھنجھوڑا ڈالا ’’ ثمّو ثمّو‘‘۔
وہ بڑی مشکلوں سے اپنے آپ میں لوٹی اور پھر ایک اُداسی اندھیرے کی ایک دبیز چادر میں اس کو لپٹتی ہوئی اس کے رَگ و پے میں اندر تک اُتر گئی۔
’’ نانی‘‘ اس نے بے بسی سے پوچھا۔ ’’ امی ایسا کیوں کر رہی ہیں‘‘۔
’’ تاکہ تیری شادی امیر سے ہو‘‘۔
’’امیر سے‘‘ جیسے اس کے اوپر آسمان آگرا۔ ’’ اس پاجی سے کون شادی کر رہا ہے‘ ‘۔
’’ بچپن سے طے ہے نا تیری پھوپھی کا لڑکا ہے‘‘۔
ثمین چُپ ہوگئی۔۔۔ کہتی تو کیا؟ وہ امیر جو کسی ریاست کا شہزادہ نہ تھا ، وہ سمجھتا تھا غریب کا وجود خدا کی بنائی ہوئی اس خوبصورت دُنیا میں کسی پیوندکی طرح ہے ۔ وہ امیر ۔۔ ۔ اس کا ہم زاد ، اس کا منگیتر۔ اس نے ثمین کو کب گھاس ڈالی تھی کہ وہ اس سے شادی کے بارے میں سوچتی ۔ پھر بھلا امی ایسا کیوں سوچ رہی ہیں۔ وہ اُلجھ سی گئی۔ وہ مانتا ہے کہ میں پیوند ہوں۔ کیا میں سچ مچ ایک پیوند ہوں؟
وہ آرگن بازار تھا جہاں بہت سی دوکانیں تھیں۔ وہیں کسی دوکا ن پر ثمین کو پاشا نظرآیا، وہیں امی بھی تھیں جن کے گردے کا سودا ہو رہا تھا۔ ثمین نے دوڑ کر انھیں پکڑ لیا اور چاہا کہ انھیں کھینچ لے جائے‘ جانے کہاں سے دو چار مسٹنڈے نکل آئے‘ جنھوں نے امی کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ ثمین اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور دھڑام سے زمین پر گری، لیکن یہ کیا؟ وہ آرگن بازار نہیں تھا یہ تو وہی اندھیری گلی تھی۔
’’ میں بھی نا۔۔۔‘‘ اس نے اپنے آپ کو سمیٹا ’’ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے، ایسے بُرے خیالات کیوں اُٹھ رہے ہیں میرے ذہن میں‘‘ اس نے اپنی منتشر دھڑکنوں پر قابو پایا ’’ نہیں میں امی کو ایسا کوئی قدم اُٹھانے نہیں دوں گی، کبھی نہیں، وہ اس عزم کے ساتھ جب گھر پہنچی تو ٹھٹھک گئی۔
ابو ۔۔۔ امی سے پوچھ رہے تھے ’’ یہ پاشا یہاں کیوں آیا تھا‘‘۔
’’ آپ کی بہن نے بھیجا تھا۔۔۔ سُنا ہے امیر کے دونوں گردے ناکارہ ہو چکے ہیں اور انھیں پیوندکاری کی ضرورت ہے‘‘۔
’’ تو باجی نے مجھے بلایا ہے‘‘ ان کے چہرے پر رونق آگئی۔
’’ نہیں ؟‘‘ امی دکھ بھرے لہجے میں بولیں’’ وہ سودا کرنا چاہتی ہیں‘‘۔
’’ سودا؟‘‘ ابو حیران ہوگئے’’ کیسا سودا؟‘‘
’’ وہ امیر اور ثمین کی شادی کرنا چاہتی ہیں ، لیکن انہیں ثمو کے جہیز میں ایک گردہ چاہئیے۔ اب آپ بتائیے میں اپنے کس بچے کو ان پر بھینٹ چڑھاؤں کہ ثمو کی شادی ہو سکے‘‘۔
جیسے زلزلے کا ایک شدید جھٹکا آیا اور سب کچھ زیر و زبر ہوگیا۔ ثمین کو لگا جیسے قیامت آگئی ہو، یہ اس نے کیا سُن لیا تھا۔گر دہ اور جہیز میں دفعتاً اس کو لگا زمانے نے ایک لمبی سی جست لگائی ہے اور وہ دور آگیا ہے جب آرگن بازار وجود میں آچکے ہیں ۔ پاشا نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ آرگن بازار۔۔۔ یہ اندھیری گلی ہی تو آرگن بازار ہے۔۔۔ یہ مفلسی۔۔۔ یہ بد نصیبی ۔۔۔ کوئی زمانہ تھا جب انسان جانوروں کی طرح فروخت کیا جاتا تھا اور آج وہ ٹکڑوں میں فراہم ہونے لگا ہے۔
شام کے سائے گہرے ہوگئے تھے اور ثمین کے اندر چیختے سناٹے باہر آنے کے لیے مچلنے لگے تھے۔ کتنی دعا کی تھی اس نے کہ امیر کا Genetic make up اور خون کا گروپ کسی سے میچ نہ ہو مگر بد قسمتی سے وہی اس کسوٹی پر کھری اُتری تھی۔ پھر دولت کے بل پر اس کے جسم کا ایک حصہ خرید لیا گیا۔ اس کی ہنستی کھیلتی زندگی کے کئی برس کم ہوگئے۔ جب سے اس کے جسم کا ایک حصہ کم ہوا تھا اس کو لگتا تھا کہ وہ آدھی ادھوری رہ گئی ہے۔ اس کی زندگی بہت بے کیف اور ویران ہوگئی ہے۔ لمحہ لمحہ یوں محسوس ہوتا جیسے اس کی نقاہت میں اضافہ ہو رہا ہے۔گھر میں اس کی اور امیر کی شادی کو لے کر سب خوش تھے۔ پھوپھی اعلیٰ پیمانے پر اس کی تیاریاں کر رہی تھیں لیکن اس کے اندر کوئی رومانیت نہیں جاگ رہی تھی۔ دل تو شام کا سورج تھا۔ لمحہ لمحہ خون ہوتا ہوا۔ اُفق کی گود میں سوتا ہوا اور چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکی۔۔۔ بے محابا بکھرتی ہوئی تاریکی۔۔۔ اُف ! یہ تاریکی تو میرا مقدر ہے۔
دفعتاً ایک آہٹ سی ہوئی اور کوئی اندر آیا ۔ ثمین نے دیکھا وہ امیر تھا۔ اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔
’’ زہے نصیب‘‘ ثمین کے لبوں پر زہر خند مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ’’ آپ اور آرگن بازار میں‘‘ وہ چُپ رہا۔
’’ کہیے آپ کو کیا درکار ہے گردہ تو آپ خرید چکے۔ اب یہاں خوشیوں سے خالی آنکھیں ہیں۔ درد سے بھرا جگر ہے۔ سانسوں سے عاری پھیپھڑے ہیں۔ تڑپ میں لپٹی آنتیں۔ کرب سے آشنا معدہ اور‘‘
’’ آج میں کچھ لینے نہیں ثمو ۔۔۔ دینے آیا ہوں ‘‘ وہ اس کی بات قطع کرتے ہوئے بولا’’محبت میں ہارا ہوا ایک دل‘‘۔
’’ دل‘‘ ثمین نے ایک ہتک آمیز قہقہہ لگایا ’’ مگر مجھے تو اس کی پیوند کاری کی چنداں ضرورت نہیں‘‘۔
’’ اب بس بھی کرو ثمو‘‘ وہ بیچارگی سے بولا۔
’’ کیوں ۔ کل تک غریب آپ کو پیوند نظر آتے تھے اور آج ۔۔۔ جب آپ کے جسم کی پیوند کاری ہوگئی تو آپ غریبوں کو دل دینے چلے آئے اور وہ بھی محبت میں ہارا ہوا ۔۔۔ مگر مجھے نہ آپ کا باسی دل چاہئیے اور نہ پیوند کردہ جسم‘‘۔
’’ شٹ اَپ‘‘ امیر اپنی ہتک پر چیخ پڑا
’’ چلائیے مت امیر صاحب، وہ سفاکانہ لہجے میں بولی ’’ جائیے اپنی راہ لیجئے، ہماری شادی ممکن نہیں، میں نہیں چاہتی کہ ہماری آنے والی نسل اس بات پر شرمندہ ہو کہ وہ آدھے ادھورے انسانوں کی اولاد ہے‘‘۔
ثمین نے نفرت سے بھری نظر اس پر ڈالی۔ امیر کو محسوس ہوا وہ پتھر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
—♦—