وہ میرے سامنے بچوں کی طرح رو دیا، ایک نہیں، دو نہیں، تین بار، بچوں کی طرح رویا، تیس منٹ میں تین بار، تنو مند جوان کا ہچکیوں کے ساتھ رونا سمجھ نہیں سکا مگر افسوس ہوا۔
وقت تمام ہو چکا تھا، کچھ جا چکے تھے، کچھ جانے والے تھے، ایک افسر بیٹھا ہوا تھا، اس کے جاتے ہی چوکیداروں کے سوا سبھی نکل جاتے سو وقت گزاری کے لیے ماتحت عملہ گپیں ہانک رہا تھا، ماں بہن ایک کرکے ٹھٹھے اڑا رہا تھا مگر اچانک سب تھم سا گیا، ہوا کچھ یوں کہ مانی آیا اور ایک ہی بات دہرانے لگا۔
بوس جی، ہن میں کوٹھی نئیں جانا۔۔۔
مینوں ایتھے رکھ لوو، اپنے کول۔۔۔
یہ بات وہ پہلے بھی کہہ چکا تھا مگر میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے گو میرے پاس دو تین آدمی اور تھے مگر وہ بھی کوٹھیوں میں تھے اور وہ افسر اس سے بھی بڑے افسر تھے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتالہٰذا یہ بات اُسے بلاجھجھک بتا چکا تھا کہ کوٹھی جانا پڑے گا، یہاں آؤ نہ آؤ، ہم کام چلا لیں گے، لیکن اس وقت اسے یہ کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ بھائی میاں، تمہیں اسی نے بھرتی کرایا تھا اگرچہ معاملات میں نے آگے بڑھائے تھے۔
”سوچنے دو، کچھ کرتا ہوں۔“ کچھ توقف سے پوچھتا ہوں۔ ”تم نے صاحب سے بات کی؟“
ساڑھے پانچ فٹ سے نکلتے قد، چُست جسامت کے حامل مانی نے کسی فٹ بالر کی طرح چھوٹے چھوٹے سیاہ بالوں سے سجا سر نفی میں ہلا دیا۔
”کم از کم ان سے شکایت کرتے، مسئلہ وہیں حل ہو جاتا۔ دیکھتے تو سہی کہ وہ کیا کہتے ہیں، کیا کرتے ہیں، دیکھو، میں یہی کہوں گا کہ پہلے ان سے بات کرنی چاہئے، کیا کہتے ہو؟“
اُس نے کچھ نہیں کہا، بس یہی کہ، ”میں کوٹھی نئیں جانا، نوکری چھڈ دینی۔“ اور میں اسے نوکری چھوڑنے کا کہہ نہیں سکتا تھا، محنتی آدمی ہے، جو کام کہو، جت جاتا ہے، ٹال مٹول نہیں کرتا، انکار نہیں کرتا مگر اس وقت انکار کی گردان۔۔۔ ”سوچنے دو، کچھ کرتا ہوں۔“ سوچتا کیا، کبھی کوئی آ جاتا، کبھی کوئی۔۔۔
”سر، کچھ کریں، یہ زیادتی ہے، ہمارا آدمی ہے، سٹینڈ لیں،آپ ایڈمن افسر ہیں، آپ ہمارے لیے نہیں بولیں گے تو کون بولے گا۔۔۔“
اُسے بھی بھڑکایا جا رہا تھا کہ بس بھئی بس، اب کوٹھی نہیں جانا، کچھ نہیں ہوتا، ہم دیکھ لیں گے۔۔۔ دیکھنا کسی نے کیا تھا، وہ نوکِ قلم یوں دکھاتا کہ یہ ایک دوسرے کو بھی دیکھ نہ پاتے اور رہا میں، تو مجھے یہ اچھی آوازیں بری محسوس ہو رہی تھیں سو اپنے کلرک کو بلایا، مشورہ چاہا، پھر ہم اسی بڑے افسر کے پاس گئے جو ابھی بیٹھا ہوا تھا۔
”سر، اپنے عمران کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے۔۔۔“
سر نے بات پوری ہونے سے پہلے ہی فیصلہ دے دیا،”ہاں، مجھے پتا چل گیاہے، تم اپنے طور پر بات کرو، بات نہ بنے تو بتانا۔“ ہم اُٹھے تو انہوں نے مجھے بیٹھنے اور جاوید کو جانے کا اشارہ کیا، میں پھر بیٹھ گیا تو انھوں نے تنبیہ کی، ”یاد رکھنا ہم نے مانی کے لیے اپنا تعلق خراب نہیں کرنا۔“
جی بہتر، سر۔“
میں کمرے سے نکلا تو جاوید کو منتظر پایا، وہ جاننا چاہتا تھا کہ اسے باہر بھیج کر کیا بات ہوئی مگر اسے بتا نہیں سکتا تھا سو کچھ اور بتادیا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اپنے دفتر آیا اور کرسی پر ڈھیر ہو گیا جبکہ مانی اب تک باہر کھڑا، ہماری طرف سے کچھ کہے جانے کا، کچھ کیے جانے کا منتظر تھا مگر مجھے کچھ سوجھ نہ رہا تھا۔
حرارت بھرا دن ڈھلنے کو تھا، عقبی باغیچے میں روح تک مہکا دینے والے گلاب سیاہی مائل معلوم پڑ رہے تھے، کسی نتیجے پر پہنچنے کے پُرپیچ راستے پر غلطاں فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا، چنبیلی کو دُزدیدہ نگاہی سے نواز رہا تھا، انجیر کے پودے پر وہ پکا دانہ تلاش رہا تھاجو کسی نہ کسی نائب قاصد کے پیٹ میں جا چکا تھا، پتے پیلے پڑ رہے تھے، چھونے سے جھڑ رہے تھے، کنو کے پاس پہنچا تو یاد آیا کہ اگلے موسم میں اس پر ایک، صرف ایک کنو ہوا تھا، کچھ دوری پر آم کھڑا تھا، قامت کمال ہوئی مگر پھل نہیں آیا، پتا نہیں کب آئے گا، جب میں چلا جاؤں گا؟اس کے ٹھیک سامنے امرود، واہ کتنے دانے، پکے ہوئے دانے، ایک اتارا، رومال سے صاف کیا اور دانتوں میں داب لیا مگر دماغ وہیں کا وہیں اٹکا ہوا، کیا ہوا؟ اس نے کیا کیا، اُس نے کیا کیا، اِس نے کچھ کہا، اُس نے کچھ کہا، کہیں بات کچھ اور نہ نکلے، لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
سوچ سوچ کے تھک جاتا ہوں، بڑھتے دباؤ سے اک جاتا ہوں تو اپنے کلرک سے کہتا ہوں کہ صاحب سے رابطہ کرو، وہ کیا کہتے ہیں؟ اس کی خصوصیت ہے کہ اسے کچھ کہہ دیں، آؤ دیکھے گا نہ تاؤ، کمر کس لے گا، بولے تو یوں بولے کہ کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند، مزاج برہم نہ ہوں تو سر جی، اچھا جی، دیکھتے ہیں، کرتے ہیں، انکار کبھی نہیں، انکار روپے پیسوں کی بات پر بھی نہیں مگر حد نہ ہو جائے، یونہی نہیں کہتا کہ اس دفتر میں ایسا بندہ کوئی اور نہیں یہ الگ بات ہے کہ شوگر کا مریض بن گیا ہے مگر اس کا ذمہ دار مَیں نہیں، کون ہے؟ سبھی جانتے ہیں، کوئی بتاتا نہیں۔
”السلام علیکم سر جی، میں جاوید، کیا حال ہیں؟“
”میں بالکل ٹھیک۔“
”سر جی، ایک بات ہے، اجازت ہے تو کروں، ڈر لگتا ہے۔“
”سر جی، وہ اپنا مانی ہے نا، ہاں ہاں، جو آپ کی کوٹھی میں کام کرتا ہے۔“
”سر جی وہ آیا ہے، اس نے رو رو کر اپنا بُرا حال کر لیا ہے۔“
”جی سر جی، آج کوٹھی گیا تھا، ابھی آیا ہے۔“
”کچھ نہیں سر جی، کہتا ہے کوٹھی نہیں جانا، نوکری سے نکالنا ہے تو نکال دیں۔“
’’ٹھیک سر جی، ابھی آتے ہیں ۔ ‘‘
’’سر جی، گاڑی نکلوائیں ، کوٹھی جانا ہے، آج اس نمانے کا مسئلہ حل کر کے آئیں گے ۔ ‘‘
میں پیڑ پودے دیکھ رہا تھا، کوٹھیاں دیکھ رہا تھا، گلیاں دیکھ رہا تھا، گلیارے دیکھ رہا تھا جبھی میرے منہ سے نکلا کہ گورا جو بھی تھا، پلانر کمال تھا، ہیں جیدے، یہ کالونی دیکھو، گورے نے بنائی تھی، کیسی پیاری بنائی، یہاں رہنا ایک عیاشی ہے جو ہم کبھی افورڈ نہیں کر سکیں گے ۔
’’جی سر جی یہاں ہر موسم آسم ۔ ‘‘
’’ارے واہ جیدے ، کیا ڈائیلاگ مارا ہے ۔ ‘‘
’’او ، سر، رات کو فلم میں سُنا تھا ۔ ‘‘
’’یہ دیکھو اس نے یہاں سارے کے سارے وہ پیڑ پودے لگائے جو صدیوں سے یہاں ہیں مگر اب عجیب عجیب ناموں والے پودے آ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’وہ کیوں ؟‘‘
’’بس جیدے تمہیں کیا بتاؤں کہ ان بدیسی پودوں کے کیا کیا فائدے ہیں ، یوں سمجھو جس طرح تم ایڈجسٹمنٹ کرتے ہو، یہ پودے بھی ایڈجسٹمنٹ کرتے ہیں ۔ ‘‘
’’ کیا مطلب ؟‘‘
’’جیدے کیکر لگاؤ تو کتنی ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی ہے؟‘‘
’’پتا نئیں سر جی، کبھی لگایا نہیں ۔ ‘‘
’’چار پانچ سو کا پودازیادہ سے زیادہ چھ سات سو مگر یہ عجیب عجیب ناموں والے پودے ، ڈیڑھ سو کا تین ہزار بنا دو، کوئی چُوں بھی نہ کرے، خیر چھوڑو، صاحب کو ساری بات تم نے بتانی ہے، معاملہ بگڑا تو میں سنبھال لوں گا ۔ اچھا! ‘‘
’’جی سر جی، آپ فکر ہی نہ کریں ۔ صاحب سے میری بڑی اچھی سلام دعا ہے ۔ ‘‘ میں قہقہہ لگاتا ہوں ۔ ’’ایڈجسٹمنٹ زندہ باد ۔ ‘‘
’’اچھا مزے کی سنو ۔ کبھی تم نے غور کیا، ان کوٹھیوں کے سامنے راستے کتنے کھلے کھلے ہیں ، سب کوٹھیوں کے سامنے ۔ ‘‘
’’ہاں جی ۔ ‘‘
’’کبھی ان کے پیچھے دیکھو، تنگ تنگ گلیاں ، ہمارے تمہارے لیے ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’گورا بڑا پین یک سی ۔ ۔ ۔ ‘‘
ہاں مگر پلانر کمال ۔ ۔ ۔ اب نہ جانے یہ اپنے پلانر صاحب کیا کہیں گے، کیا کریں گے، نزلہ کہیں مجھ پر نہ آ گرے، یوں بھی منہ پھٹ ہیں ، یاد نہیں جب اُس نے انجان نمبر سے آئی کال پر یہی پوچھا تھا کہ آپ کون ہیں ؟ اور اگلے دن پنڈی بیٹھا رو رہا تھا حالانکہ وہ ان کی خدمت کر رہا تھا، ان کے بال بچوں کی رکھوالی کر رہا تھا، پھر بھی ۔ ۔ ۔ ۔
’’ سر جی، کوٹھی آ گئی ۔ ‘‘ میں ، جاوید اور مانی گاڑی سے نکلے، صدر دروازہ پار کیا تو صاحب کو میک اور جیک کو ٹہلاتے پایا ۔
’’آؤ بھئی جوانو آؤ ۔ ‘‘
میک نے بھی استقبال کی کوشش کی مگر صاحب نے اجازت نہ دی ۔ اس کوٹھی میں کئی بار آنا پڑا مگر پہلی بار چائے پلائی گئی، مدعا عرض کرنے کی اجازت فرمائی گئی ۔
مَیں نے گلا صاف کیا مگر لہجہ دھیما رکھا ۔ ’’سر، بات کچھ یوں ہے کہ یہ لڑکا ، ’قریب کھڑے مانی کی طرف اشارہ کرتا ہوں‘ بڑا محنتی ہے، صبح دفتر میں کام کرتا ہے، پھر یہاں کام کرتا ہے مگر آج ہچکیاں لے لے کر رویا ہے، اسے پہلے آپ سے بات کرنی چاہئے تھی مگر اس نے آپ کے آنے کا انتظار نہیں کیا اور ہمارے پاس آ گیا ۔ ‘‘
’’ہاں ، جوبات تھی، پہلے مجھے بتاتا، تم سب آئے ہو تو مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی ہے ۔ ‘‘
’’سر، ہم تو درخواست کرنے آئے ہیں کہ اس بیچارے کا مسئلہ حل کر دیں ۔ یہ باغی ہو گیا ہے ۔ کہتا ہے نوکری نہیں کرنی ۔ ‘‘
’’نوکری نہیں کرنی، یہ کیابات ہوئی ۔ ‘‘انہوں نے مانی کو دیکھا اور پوچھا ۔ ’’بتاؤ ، کیا ہوا؟ سچ بتانا ۔ ‘‘
’’بوس جی وہ باجی شمیم کے بابا جی مینوں چوڑا آکھیا تے ۔ ۔ ۔ ‘‘ حرف حلق میں رہ گئے اور آنسو زباں ہو گئے، صاحب یکایک اُٹھے، اُسے گلے لگایا، ڈرائیور کو بُلایا، ’’ اسے لے جاءو، جوس پلاؤ ۔ ‘‘ جب وہ چلے گئے تو صاحب میری طرف متوجہ ہوئے کہ پوری کہانی سناؤ، ایک ایک بات سچ بتانا ۔ ’’سر، یہ پیچھے گراؤنڈ کی صفائی کرکے پتے وغیرہ ایک درخت کے نیچے جمع کرتا ہے، وہاں سے ہتھ ریڑھی میں ڈال کر باہر پھینک آتا ہے ۔ ‘‘
’’اچھا، تو مسئلہ کیا ہے؟‘‘
’’سر، مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے کوارٹر والے اپنا سارا کچرا وہاں ڈال دیتے ہیں ۔ آج اس نے منع کیا تو یہ شمیم باجی کے ابّا یا سُسر نے جھگڑا کیا، شور سن کر لوگ اکٹھے ہو گئے، سب کے سامنے اسے بے عزت کیا، حکم دیا کہ صبح چھ بجے آیا کرے،گالیاں بکیں ، دھمکیاں دیں ، وہ تو دو چار لگانے لگا تھا کہ کسی لڑکے نے آکر روکا اور وہ اس کے گلے پڑ گیا اور یہ بھاگ کر ہمارے پاس آ گیا ۔ ‘‘
’’بس یہی بات ہے؟ ‘‘
’’سر، اسے سب کے سامنے چوہڑا کہا، بار بار چوہڑا کہا ، تُو چوڑا ہے، تو کیا تیرا باپ بھی کوڑا اٹھائے گا، اور پتا نہیں کیا کیا بکتا رہا۔۔۔‘‘
’’اچھا ۔ تو اس نے کچھ نہیں کہا؟‘‘
’’نہیں ، سر، یہ بے چارا کیا کہتا، بت بن گیا تھا، کسی سے پوچھ لیں ۔ ‘‘
’’اور کوئی بات تو نہیں ؟ ‘‘
’’نہیں ، سر ۔ ‘‘
’’کھوتا، مجھے تو بتاتا، میں خود دیکھ لیتا، کتنی شرمندگی کی بات ہے ۔ ‘‘ اور وہ فون پر مصروف ہو گئے، میں نے بھی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا، فون نکالا، سکرین جگمگائی تو بیگم کی یاد دہانیاں نظر آئیں ، اوہو مجھے ریس کورس جانا تھا، گُلِ داؤدی کی نمائش ہو رہی ہے، رنگا رنگ پھول بچوں کو دکھا نہیں سکا، طرح طرح کے پکوان کھلا نہیں سکا گو اس قدر دیر نہ ہوئی کہ یہاں سے رخصت ہو کر ریس کورس نہ جایا جا سکے مگر ۔ ۔ ۔ ابھی معاملہ نمٹا کہاں ، بیوی بچے تیار بیٹھے کوس رہے ہوں گے اور میں یہاں ، یہاں مانی بھی جی ہی جی میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہا ہو گا، کیا کیا سوچ رہا ہو گا کہ یہ کس آدمی کو میں بوس جی بوس جی کرتا رہا، نہیں یار، اب ایسی بات بھی نہیں ، دیکھو میں اس کا مقدمہ پیش کرنے آیا، آیا کہ نہیں ، اور کیا کرتا؟ کیا اُسے کہہ دیتا کہ ٹھیک ہے ، کوٹھی جانا بند؟ نہیں ، یہی ٹھیک ہے، پہلے بات کرنی چاہئے، بات ابھی تمام نہیں ہوئی اور مانی آ گیا جسے اُنہوں نے بازو سے پکڑا ، پیچھے لے گئے، کوارٹر کا دروازہ اس زور سے کھٹکھٹایا کہ بوڑھ بابے پر بیٹھے پرندے اڑ گئے ۔
’’بُلاؤاس بدمعاش کو، اس کی ماں کی ۔ ۔ ۔ ‘‘
شمیم گھبرائی ہوئی نکلی اور ہکلانے لگی ۔ ’’صاب جی غلطی ہو گئی، توانوں تے اونہاں دے دماغ دا پتا اے ۔ ‘‘
’’دماغ خراب ہے تو ٹھیک کراؤورنہ میں ٹھیک کر دوں گا پھر سب روتے پھرو گے ۔ ‘‘مانی کو سامنے لاتے ہوئے ۔ ’’آئندہ کسی نے اسے کچھ کہا تو ٹھڈے مار کر نکال دوں گا ۔ ‘‘
اور شمیم سراپا فریاد، ’’نئیں صاحب جی، ہُن نئیں ہندا، معاف کر دیو، ہن نئیں ہندا ۔ ۔ ۔ ‘‘
ہم کوٹھی سے نکلنے لگے تو صاحب نے مانی کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا، ’’کوئی تنگ کرے تو ایک لگانا، میں سب کو دیکھ لوں گا ۔ ‘‘ پھر جیدے اور مانی کو جانے اور مجھے رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولے، ’’کہیں میرے کسی آدمی کو نہ مار دے ۔ ‘‘ اور قہقہانے لگے، پھر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولے،’’ مجھے سمجھ نہیں آئی چوہڑا کہنے پر اتنا رونا دھونا کیوں ؟ ‘‘
میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا، وہ جیک میک کی طرف مڑے اور میں صدر دروازے کی طرف بڑھا تو ان کی آواز آئی ۔ ’’دھیان رکھنا مانی کل کوٹھی پہنچ جائے ورنہ گڑ بڑ ہو جائے گی ۔ ‘‘ قدرے توقف سے ،’’ اور آئندہ اتنی سی بات کے لیے مجھے تنگ مت کرنا ۔ ‘‘ دروازہ پار کیا، گاڑی میں بیٹھا اور پہلی بات یہی کی ۔ ’’مانی ،اب سب ٹھیک ہے، کل کوٹھی پہنچ جانا ۔ لازمی ۔ ‘‘
’’ بوس جی ، دل تے نئیں کردا ۔ ‘‘ اور کچھ سوچ کر،’’پَر تسی فکر نہ کرو ۔ ‘‘
’’ ویسے بڑی عجیب بات ہے ۔ تو نے کچھ بھی نہیں کہا، گالی نہیں ، تھپڑ نہیں ، مکا بھی نہیں ، کچھ تو کرتے، سچ بتاؤ کچھ نہیں کیا؟‘‘
’’نئیں بوس جی، میں تے اک لفظ وی نئیں آکھیا ۔ ‘‘
’’کیوں ؟ ‘‘
’’بوس جی ، جے او میرے تے کوئی پٹھا سدھا الزام لا دیندے تے فیر ؟‘‘
’’تے فیر کیہ؟ ‘‘جیدے نے فٹ پوچھا مگر مانی کچھ نہ بولا، بغلوں میں ہاتھ دابے نظریں جھکا لیں ، جیدے نے چند ساعتیں انتظار کیا، پھر فون میں کھو گیا اور میں کچھ نہ دیکھنے کے لیے سامنے دیکھنے لگا، کُہرا تھا، اندھیرا تھا، لوگ آ رہے تھے،لوگ جا رہے تھے ۔
—♦—

ترقی پسند نوجوان ادیب آدم شیر کا تعلق لاہور سے ہے۔ آپ پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں۔ آپ کے موضوعات محروم سماجی پرتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ پاکستان کے سماجی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔