ایک بار ایک ادیب دوست نے مجھے پشتو بولتے سنا تو حیران ہوئے اور پوچھنے لگے تو آپ پنجابی نہیں ؟
میں نے عرض کی بھائی میری مادری زبان پنجابی ہے۔ لیکن بوجہ بلوچستان کالج و یونیورسٹی تعلیم ‘پٹھان/ بلوچ میری رگوں میں دوڑتا ہے۔ مارکسی تعلیم نے ترقی پسندی کے گھوڑے پر سوار کر دیا کہ اس وقت کی ساری سیاست کا محور مارکسی سیاست تھی اور آج بھی ہے۔
باچا خان کی کانگریسی سیاست سے متاثر ہوں سو جمہور پسند پشتون ہوا اور پشتو رواں ہو گئی ۔
گلی محلہ میں حیدرآباد دکن الہٰ آباد اور لکھنؤ کے شہزادے بستے تھے سو وہ تہذیب اتنی گہری اندر اُتر آئی کہ ان دوستوں کی ماؤں کا دُلارا بنا۔
سندھ کی سرزمین کا ایک شہ سوار اچانک اپنی نوکری کے سلسلے میں ہماری گلی میں آن ٹھہرا تو سندھ سے ایسی دوستی ہوئی کہ سائیں کچھ نہ پوچھو وہیں ان کے سرائیکی دوست شطرنج کھیلنے آتے تو شہ مات کی لت پڑی۔
خاندانی سرشت میں گنگا جمنی اور سندھ تہذیب کے گہرے اثرات تھے سو عادات و خصائل وہی در آئے ۔
دادی کشمیرن تھیں تو رنگ کچھ گورا رہا۔
والد محنتی مزدور تھے سو مزدوری پیشہ بنا۔
ماں دردِ دل رکھنے والی خاتون تھیں تو انگ انگ میں انسانیت اور محبت اُتر آئی۔
لیکن پشتون کا غصہ , بلوچ ہونے کا فخر ‘پنجابی کا رنگ ترنگ ہلا گلہ اور جگت بازی اور سندھی کے جھک کر ملنے اور خوش رہنے کی چاہت اندر سے نہ نکلی۔
بھلی مانس اُنس بھری ہتھ چھُٹ ایسی پنجابن ملی کہ مار سہنے کی عادت پڑ گئی۔
ہاں البتہ گنگا جمنی تہذیب کے "وہ ” والے لکھنوی انداز جن میں جھن چھناجھن کی مہک ہو کبھی کبھی سرکش ہو کر گجرے باندھے سیڑھیاں چڑھ جائیں تو رنگ دکھاتے ہیں۔
سو اب بولو میں کون ہوں ؟
ساقی کہ بادہ خوار ؟
ہم دونوں گھنٹوں ہنستے رہے۔
—♦—
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ 1952ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1975 میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں.
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
ایک بار ایک ادیب دوست نے مجھے پشتو بولتے سنا تو حیران ہوئے اور پوچھنے لگے تو آپ پنجابی نہیں ؟
میں نے عرض کی بھائی میری مادری زبان پنجابی ہے۔ لیکن بوجہ بلوچستان کالج و یونیورسٹی تعلیم ‘پٹھان/ بلوچ میری رگوں میں دوڑتا ہے۔ مارکسی تعلیم نے ترقی پسندی کے گھوڑے پر سوار کر دیا کہ اس وقت کی ساری سیاست کا محور مارکسی سیاست تھی اور آج بھی ہے۔
باچا خان کی کانگریسی سیاست سے متاثر ہوں سو جمہور پسند پشتون ہوا اور پشتو رواں ہو گئی ۔
گلی محلہ میں حیدرآباد دکن الہٰ آباد اور لکھنؤ کے شہزادے بستے تھے سو وہ تہذیب اتنی گہری اندر اُتر آئی کہ ان دوستوں کی ماؤں کا دُلارا بنا۔
سندھ کی سرزمین کا ایک شہ سوار اچانک اپنی نوکری کے سلسلے میں ہماری گلی میں آن ٹھہرا تو سندھ سے ایسی دوستی ہوئی کہ سائیں کچھ نہ پوچھو وہیں ان کے سرائیکی دوست شطرنج کھیلنے آتے تو شہ مات کی لت پڑی۔
خاندانی سرشت میں گنگا جمنی اور سندھ تہذیب کے گہرے اثرات تھے سو عادات و خصائل وہی در آئے ۔
دادی کشمیرن تھیں تو رنگ کچھ گورا رہا۔
والد محنتی مزدور تھے سو مزدوری پیشہ بنا۔
ماں دردِ دل رکھنے والی خاتون تھیں تو انگ انگ میں انسانیت اور محبت اُتر آئی۔
لیکن پشتون کا غصہ , بلوچ ہونے کا فخر ‘پنجابی کا رنگ ترنگ ہلا گلہ اور جگت بازی اور سندھی کے جھک کر ملنے اور خوش رہنے کی چاہت اندر سے نہ نکلی۔
بھلی مانس اُنس بھری ہتھ چھُٹ ایسی پنجابن ملی کہ مار سہنے کی عادت پڑ گئی۔
ہاں البتہ گنگا جمنی تہذیب کے "وہ ” والے لکھنوی انداز جن میں جھن چھناجھن کی مہک ہو کبھی کبھی سرکش ہو کر گجرے باندھے سیڑھیاں چڑھ جائیں تو رنگ دکھاتے ہیں۔
سو اب بولو میں کون ہوں ؟
ساقی کہ بادہ خوار ؟
ہم دونوں گھنٹوں ہنستے رہے۔
—♦—
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ 1952ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1975 میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں.
Comments 2
-
Mohammad Zafar says:
What’s in a name calling rose by any other name will never alter the fragrance. Why are we so concerned to get the name of n ethnic group such as I am a Punjabi or I am or oathan or some other name. We will only know who we are once we remove these ethnic tags and become more human.Onlythen we may identify ourselves h
s
-
للکار نیوز says:
شکریہ جناب محمد ظفر صاحب۔ آپ کی رائے ہمارے لئے محترم ہے۔ جہاں تک بات نسلی شناخت کی ہے تو یہ انسان کے ساتھ پوری دنیا میں موجود ہے، ہاں مگر نسل پرست ہونا ایک غیر "مہذب” فعل ہے۔ اسی طرح نسلی شناخت کو کسی دوسری نسل پر فوقیت و برتری کے طورپر لینا، اور اس بنیاد پر سیاست کرنا یہ سارے عوامل درست نہیں ہیں۔
-
What’s in a name calling rose by any other name will never alter the fragrance. Why are we so concerned to get the name of n ethnic group such as I am a Punjabi or I am or oathan or some other name. We will only know who we are once we remove these ethnic tags and become more human.Onlythen we may identify ourselves h
s
شکریہ جناب محمد ظفر صاحب۔ آپ کی رائے ہمارے لئے محترم ہے۔ جہاں تک بات نسلی شناخت کی ہے تو یہ انسان کے ساتھ پوری دنیا میں موجود ہے، ہاں مگر نسل پرست ہونا ایک غیر "مہذب” فعل ہے۔ اسی طرح نسلی شناخت کو کسی دوسری نسل پر فوقیت و برتری کے طورپر لینا، اور اس بنیاد پر سیاست کرنا یہ سارے عوامل درست نہیں ہیں۔