ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اقتصادی اور سماجی انصاف کے شعبے کے سربراہ اسٹیو کوک برن نے کہا ہے کہ ’’محنت کشوں کا خیال تھا کہ وہ ایمیزون کے ساتھ ایک سنہری مستقبل کے مواقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، تاہم اس کے بجائے انہیں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث بہت سے لوگ صدمے سے دوچار ہوئے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”جن لوگوں کا ہم نے انٹرویو کیا ان میں سے بہت سے لوگوں کو جس شدت کی بدسلوکی اور استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے مزدوروں کے استحصال کے لیے انسانی اسمگلنگ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
ایمنسٹی نے کہا کہ اس رپورٹ میں نیپال سے تعلق رکھنے والے 22 مردوں کی روداد سے اخذ کیے گئے حقائق شامل ہیں، جنہوں نے 2021ء تک سعودی دارالحکومت ریاض یا جدہ میں ایمیزون کے گوداموں میں کام کیا۔
کوک برن کے مطابق ایمنسٹی کو شبہ ہے کہ ”اسی طرح کے خوفناک اور ناروا سلوک کا شکار سینکڑوں مزید کارکن بھی ہو رہے ہیں۔‘‘ ایمنسٹی نے بھرتی کرنے والے ایجنٹس اور دو سعودی لیبر سپلائی کمپنیوں پر تارکین وطن مزدوروں کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا ہے، جو سمجھتے تھے کہ وہ ایمیزون کے ذریعے براہ راست ملازمت کریں گے اور ان کارکنوں نے اس بھرتی کی فیس ادا کرنے کے لیے بھاری قرضے بھی لیے۔
تاہم ایمنسٹی نے کہا کہ سعودی عرب پہنچنے پر انہیں ”انتہائی گندی اور بھیڑ سے بھری رہائش کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض اوقات انہیں کھٹمل جیسے کیڑوں تک کا بھی تجربہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی مسلسل نگرانی اور ناکافی آرام کی وجہ سے کام کے خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض اوقات وہ زخمی یا بیمار ہو جاتے ہیں۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق غیر ملکی کارکنوں کے لیے سعودی مملکت کے”نظام کفالہ‘‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر مزدور گودام کی ملازمتیں چھوڑنا چاہیں تو انہیں شدید جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور ’’مفرور‘‘ ہونے کے الزام میں انہیں ممکنہ گرفتاری کا خطرہ رہتا ہے۔ ایمنسٹی نے مزید کہا کہ کچھ کارکن تو حالات سے تنگ آکر’’خودکشی تک کا سوچنے لگتے ہیں۔‘‘
دیو کے نام سے جانے جانے والے ایک کارکن نے حقوق انسانی گروپ کو بیان دیتے ہوئے کہا ’’میں نے دیوار سے کودنے کی کوشش کی، میں نے خود کو مارنے کی کوشش کی۔ میں نے اپنی ماں کو بتایا اور اس نے کہا کہ ایسا نہیں کرو، ہمیں قرض ملے گا۔ اسے قرض لیے آٹھ ماہ ہوچکے ہیں اور اُس پر اب سود بڑھ رہا ہے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایمیزون کمپنی سے مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ کارکنوں کو معاوضہ دے اور اپنی سپلائی چین کے ساتھ کام کرنے کے حالات کی تحقیقات کرائے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اقتصادی اور سماجی انصاف کے شعبے کے سربراہ اسٹیو کوک برن نے کہا ہے کہ ’’محنت کشوں کا خیال تھا کہ وہ ایمیزون کے ساتھ ایک سنہری مستقبل کے مواقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، تاہم اس کے بجائے انہیں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث بہت سے لوگ صدمے سے دوچار ہوئے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”جن لوگوں کا ہم نے انٹرویو کیا ان میں سے بہت سے لوگوں کو جس شدت کی بدسلوکی اور استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے مزدوروں کے استحصال کے لیے انسانی اسمگلنگ کے مترادف سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘
ایمنسٹی نے کہا کہ اس رپورٹ میں نیپال سے تعلق رکھنے والے 22 مردوں کی روداد سے اخذ کیے گئے حقائق شامل ہیں، جنہوں نے 2021ء تک سعودی دارالحکومت ریاض یا جدہ میں ایمیزون کے گوداموں میں کام کیا۔
کوک برن کے مطابق ایمنسٹی کو شبہ ہے کہ ”اسی طرح کے خوفناک اور ناروا سلوک کا شکار سینکڑوں مزید کارکن بھی ہو رہے ہیں۔‘‘ ایمنسٹی نے بھرتی کرنے والے ایجنٹس اور دو سعودی لیبر سپلائی کمپنیوں پر تارکین وطن مزدوروں کو دھوکہ دینے کا الزام لگایا ہے، جو سمجھتے تھے کہ وہ ایمیزون کے ذریعے براہ راست ملازمت کریں گے اور ان کارکنوں نے اس بھرتی کی فیس ادا کرنے کے لیے بھاری قرضے بھی لیے۔
تاہم ایمنسٹی نے کہا کہ سعودی عرب پہنچنے پر انہیں ”انتہائی گندی اور بھیڑ سے بھری رہائش کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض اوقات انہیں کھٹمل جیسے کیڑوں تک کا بھی تجربہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی مسلسل نگرانی اور ناکافی آرام کی وجہ سے کام کے خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں بعض اوقات وہ زخمی یا بیمار ہو جاتے ہیں۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق غیر ملکی کارکنوں کے لیے سعودی مملکت کے”نظام کفالہ‘‘ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر مزدور گودام کی ملازمتیں چھوڑنا چاہیں تو انہیں شدید جدوجہد کرنا پڑتی ہے اور ’’مفرور‘‘ ہونے کے الزام میں انہیں ممکنہ گرفتاری کا خطرہ رہتا ہے۔ ایمنسٹی نے مزید کہا کہ کچھ کارکن تو حالات سے تنگ آکر’’خودکشی تک کا سوچنے لگتے ہیں۔‘‘
دیو کے نام سے جانے جانے والے ایک کارکن نے حقوق انسانی گروپ کو بیان دیتے ہوئے کہا ’’میں نے دیوار سے کودنے کی کوشش کی، میں نے خود کو مارنے کی کوشش کی۔ میں نے اپنی ماں کو بتایا اور اس نے کہا کہ ایسا نہیں کرو، ہمیں قرض ملے گا۔ اسے قرض لیے آٹھ ماہ ہوچکے ہیں اور اُس پر اب سود بڑھ رہا ہے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایمیزون کمپنی سے مطالبہ کیا ہے کہ متاثرہ کارکنوں کو معاوضہ دے اور اپنی سپلائی چین کے ساتھ کام کرنے کے حالات کی تحقیقات کرائے۔