(لیڈز، 6 مئی ) بائیں بازو کے نامور راہنما مختار علی باچا انتقال کر گئے۔ وہ مارکسی فلسفہ کے استاد اور انقلابی سیاست دان تھے۔ وہے اپنی ساری زندگی ملک کے پسے ہوئے طبقات، کسانوں، مزدوروں اور محنت کار عوام کے حقوق کی جدوجہد کرتے رہے۔ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کا ان کی زندگی بھر کی جدوجہد پر زبردست خراجِ تحسین۔ ملک سے استحصال کے خاتمہ اور مظلوم و محکوم عوام کے حقوق کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم۔
عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنماؤں ذاکر حسین ایڈووکیٹ، پرویزفتح، نزہت عباس، ڈاکٹر افتخار محمود، لالہ محمد یونس، ڈاکٹر احمد توحید، یحییٰ ہاشمی، محبوب الہی بٹ، منیب انور، محمد عباس، سولسٹر مزمل مختار، چوہدری پرویز مسیح، محمد ضمیر اور صغیر احمد نے اپنے مشترکہ بیان میں انقلابی راہنما مختار باچا کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی ایک انقلابی سپاہی کے طور پر گزاری اور ہمہ وقت ملک کے دور دراز علاقوں میں جا کر پسے ہوئے طبقات کو منظم کرنے میں سرگرم رہتے تھے۔
25 فروری 1944ء کو بونیر، خیبر پختونخواہ کے گاؤں پیر بابا کے ایک مذہبی سید گھرانے میں پیدا ہونے والے سید مختار باچا پاکستان کے نامور انقلابی راہنما کے طور پر اُبھرے۔ وہ ایک انتہائی باشعور، پڑھے لکھے ترقی پسند دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ مارکسی فلسفے کے استاد اور باعمل و بے باک سیاسی کارکن اور انقلابی راہنما تھے
عوامی ورکرز پارٹی کے راہنماؤں نے کہا کہ مختار باچا نے ہوش سنبھالی تو ملک آزادی کے باوجود جاگیرداروں، اشرافیہ، بیورکریسی اور دین فروش استحصالیوں کے قبضے میں جا چکا تھا۔ ملک میں ایک طرف فوجی آمروں نے قبضہ جما لیا تھا تو دوسری طرف ملک امریکی سامراج کی گرفت میں جا چکا تھا۔ یا یوں کہیئے کہ ملک پر امریکی سامراج کی گرفت مضبوط ہوتے ہی جمہوری اداروں پر حملے شروع ہو چکے تھے اور غیر جمہوری قوتوں نے بالادست طبقات اور دین فروش مذہبی راہنماوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔ انہی حالات میں مختار باچا نے ہوش سنبھالا اور 1960ء تک وہ ایک مدلل انقلابی نوجوان بن چکے تھے، اور اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک سرگرم انقلابی بن کر ابھرے تھے۔
انہوں نے 1965ء میں کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی باٹنی کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر کچھ عرصہ اُنہوں نے اپنے گاؤں کے ہائی سکول میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا لیکن سیاسی سرگرمیوں بالخصوص بائیں بازو کی سیاست کی وجہ سے جلد ہی اسے خیرباد کہہ دیا اور کچھ عرصہ کے لیے ترناپ فارم میں ایگریکلچر آفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ اُسی عرصہ میں اُنہوں نے خیبر بازار پشاور میں کسان جرگے کے نام سے صوبے کے کسانوں کی تحریک کے دفتر کا افتتاح کیا اور باقاعدہ کسان تحریک میں سرگرم کردار اد کرنے لگے۔ بعد ازاں 1971ء میں بائیں بازو کی سیاست کا باقاعدہ آغاز کر دیا اور صوبے کے ایک نامور انقلابی راہنما کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔
وہ کیمونسٹ پارٹی کے صوبائی صدر بھی رہے۔ انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی میں ایک فعال راہنما کے طور پر کام کیا۔ بعد ازاں عوامی نیشنل پارٹی قائم ہوئی تو اس میں بھی سرگرم رہے۔ جب میر غوث بخش بزنجو نے نیشنل پارٹی قائم کی تو اس میں بہی فعال راہنما کے طور پر کردار ادا کرتے رہے۔ جب قومی انقلابی پارٹی بنی تو اس میں بھی انہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ 2002ء سے وہ نیشنل پارٹی کا ایم حصہ رہے اور بعد ازاں 2017ء تک اس کے صوبائی صدر اور اپنی آخری سانس تک اس کی مرکزی کمیٹی کے رکن رہے۔
مختار باچا کی زندگی اور جدوجہد کے اہم واقعات کو کتابی شکل میں مرتب کیا جا رہا ہے، جسے جلد ہی پبلش کر کے آنے والی نسلوں کی سیاسی اور انقلابی تربیت کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ کامریڈ باچا جیسے لوگ اپنے انتقال کے بعد بھی انقلابی تحریکوں میں زندہ رہتے ہیں اور آنے والی نسلوں کی نظریاتی اور سیاسی تربیت کرنے کو سیاسی سمت درست رکنے میں کردار ادا کرتے اور ان کے انقلابی جذبے کو دوام بخشنے رہتے ہیں۔
—♦—
پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
(لیڈز، 6 مئی ) بائیں بازو کے نامور راہنما مختار علی باچا انتقال کر گئے۔ وہ مارکسی فلسفہ کے استاد اور انقلابی سیاست دان تھے۔ وہے اپنی ساری زندگی ملک کے پسے ہوئے طبقات، کسانوں، مزدوروں اور محنت کار عوام کے حقوق کی جدوجہد کرتے رہے۔ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کا ان کی زندگی بھر کی جدوجہد پر زبردست خراجِ تحسین۔ ملک سے استحصال کے خاتمہ اور مظلوم و محکوم عوام کے حقوق کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم۔
عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنماؤں ذاکر حسین ایڈووکیٹ، پرویزفتح، نزہت عباس، ڈاکٹر افتخار محمود، لالہ محمد یونس، ڈاکٹر احمد توحید، یحییٰ ہاشمی، محبوب الہی بٹ، منیب انور، محمد عباس، سولسٹر مزمل مختار، چوہدری پرویز مسیح، محمد ضمیر اور صغیر احمد نے اپنے مشترکہ بیان میں انقلابی راہنما مختار باچا کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی ایک انقلابی سپاہی کے طور پر گزاری اور ہمہ وقت ملک کے دور دراز علاقوں میں جا کر پسے ہوئے طبقات کو منظم کرنے میں سرگرم رہتے تھے۔
25 فروری 1944ء کو بونیر، خیبر پختونخواہ کے گاؤں پیر بابا کے ایک مذہبی سید گھرانے میں پیدا ہونے والے سید مختار باچا پاکستان کے نامور انقلابی راہنما کے طور پر اُبھرے۔ وہ ایک انتہائی باشعور، پڑھے لکھے ترقی پسند دانشور ہونے کے ساتھ ساتھ مارکسی فلسفے کے استاد اور باعمل و بے باک سیاسی کارکن اور انقلابی راہنما تھے
عوامی ورکرز پارٹی کے راہنماؤں نے کہا کہ مختار باچا نے ہوش سنبھالی تو ملک آزادی کے باوجود جاگیرداروں، اشرافیہ، بیورکریسی اور دین فروش استحصالیوں کے قبضے میں جا چکا تھا۔ ملک میں ایک طرف فوجی آمروں نے قبضہ جما لیا تھا تو دوسری طرف ملک امریکی سامراج کی گرفت میں جا چکا تھا۔ یا یوں کہیئے کہ ملک پر امریکی سامراج کی گرفت مضبوط ہوتے ہی جمہوری اداروں پر حملے شروع ہو چکے تھے اور غیر جمہوری قوتوں نے بالادست طبقات اور دین فروش مذہبی راہنماوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا تھا۔ انہی حالات میں مختار باچا نے ہوش سنبھالا اور 1960ء تک وہ ایک مدلل انقلابی نوجوان بن چکے تھے، اور اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک سرگرم انقلابی بن کر ابھرے تھے۔
انہوں نے 1965ء میں کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی باٹنی کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر کچھ عرصہ اُنہوں نے اپنے گاؤں کے ہائی سکول میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا لیکن سیاسی سرگرمیوں بالخصوص بائیں بازو کی سیاست کی وجہ سے جلد ہی اسے خیرباد کہہ دیا اور کچھ عرصہ کے لیے ترناپ فارم میں ایگریکلچر آفیسر کی حیثیت سے کام کیا۔ اُسی عرصہ میں اُنہوں نے خیبر بازار پشاور میں کسان جرگے کے نام سے صوبے کے کسانوں کی تحریک کے دفتر کا افتتاح کیا اور باقاعدہ کسان تحریک میں سرگرم کردار اد کرنے لگے۔ بعد ازاں 1971ء میں بائیں بازو کی سیاست کا باقاعدہ آغاز کر دیا اور صوبے کے ایک نامور انقلابی راہنما کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے۔
وہ کیمونسٹ پارٹی کے صوبائی صدر بھی رہے۔ انہوں نے نیشنل عوامی پارٹی میں ایک فعال راہنما کے طور پر کام کیا۔ بعد ازاں عوامی نیشنل پارٹی قائم ہوئی تو اس میں بھی سرگرم رہے۔ جب میر غوث بخش بزنجو نے نیشنل پارٹی قائم کی تو اس میں بہی فعال راہنما کے طور پر کردار ادا کرتے رہے۔ جب قومی انقلابی پارٹی بنی تو اس میں بھی انہوں نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ 2002ء سے وہ نیشنل پارٹی کا ایم حصہ رہے اور بعد ازاں 2017ء تک اس کے صوبائی صدر اور اپنی آخری سانس تک اس کی مرکزی کمیٹی کے رکن رہے۔
مختار باچا کی زندگی اور جدوجہد کے اہم واقعات کو کتابی شکل میں مرتب کیا جا رہا ہے، جسے جلد ہی پبلش کر کے آنے والی نسلوں کی سیاسی اور انقلابی تربیت کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ کامریڈ باچا جیسے لوگ اپنے انتقال کے بعد بھی انقلابی تحریکوں میں زندہ رہتے ہیں اور آنے والی نسلوں کی نظریاتی اور سیاسی تربیت کرنے کو سیاسی سمت درست رکنے میں کردار ادا کرتے اور ان کے انقلابی جذبے کو دوام بخشنے رہتے ہیں۔
—♦—
پرویز فتح بائیں بازو کے سینئر ساتھی ہیں اور برطانیہ میں مقیم ہیں۔ آپ عوامی ورکرز پارٹی برطانیہ کے راہنما ہیں اور برطانیہ میں بائیں بازو کے انتہائی متحرک دوستوں میں سے ہیں۔ آپ اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر لکھتے رہتے ہیں۔