میرا کتا مر گیا ہے
میں نے اسے باغ میں دفنا دیا ہے
زنگ آلود، پرانی مشین کے پہلو میں
کسی دن اسی مقام پر
میں اس سے جا ملوں گا
لیکن فی الوقت وہ جا چکا ہے،
اپنے گچھم گچھا بالوں، اپنے بد آداب
اور اپنی یخ ناک سمیت، وہ جا چکا ہے
میں، ایک مادہ پرست، جس نے کبھی
کسی آسمان پر واقع،
کسی موعودہ فردوس پر یقین نہیں کیا
جی ہاں، میں ایک جنت پر ایمان رکھتا ہوں
جنت ارواح سگاں
جہاں میرا کتا میرا انتظار کرتا ہے
اور فرط حب میں اپنی پنکھا سی دم ہلاتا ہے
ارے، یہاں زمین پر،
مجھے اداسی کی بات نہیں کرنی
کہ میں نے ایک ساتھی کھو دیا
جو میرا یار تھا، میرا تابعدار نہ تھا
میرے ساتھ اس کی دوستی تھی،
خارپشت جیسی،
اپنی خودمختاری قایم رکھتے ہوئے
یہ گویا ایک ستارے سے دوستی تھی
ایک فاصلہ، ایک کم آمیزی
بس ضروری قربت، کسی مبالغہ کے بغیر
وہ کبھی میرے کپڑوں پر وارد نہیں ہوا
کبھی مجھ پر بالوں اور پسووں کی یلغار نہیں کی
کبھی شہوتی کتوں کی طرح
میرے گھٹنے کے ساتھ رگڑائی نہیں کی
نہیں،۔۔۔۔۔میرا کتا بس مجھے دیکھتا تھا
مجھے وہ توجہ دیتا تھا، جو مجھے درکار تھی
مجھ ایسے ناکارہ شخص کو سمجھانے کے لیے
کہ، بطور کتا، وہ اپنا وقت ضائع کر رہا تھا
لیکن پھر بھی
مجھ سے کہیں زیادہ پاک اور سچی آنکھوں کے ساتھ
وہ ٹکٹکی باندھے، مجھے دیکھتا رہتا تھا
ایسے اندازنظر کے ساتھ، جو صرف میرے لیے مخصوص تھا
اس کی پیاربھری، گچھم کچھا زندگی
ساری میرے ساتھ گزری
کبھی مجھ پر گراں نہیں،
بے نیاز،۔۔۔۔ہمیشہ کا بے طلب
ہائے، نجانے کتنی مرتبہ میں نے
اس کی دم پر رشک کیا
ساحل سمندر پر چہل قدمی کرتے ہوئے
جزیرا نیگرا کے تنہا موسم سرما میں
جب سردیوں کے پرندوں سے آسمان بھرا رہتا تھا
اور میرا جھبرا کتا اچھلتا کودتا تھا:
سمندری لہروں کی توانائی سے لبریز
میرا سیلانی، ہر چیز سونگھتا
سنہری دم اونچی اٹھائے
سمندر کی بوچھار کے روبرو،۔۔۔۔سینہ زن
خوش و خرم، خوش و خرم، خوش و خرم
صرف کتے جانتے ہیں کہ خوش کیسے رہا جائے
اپنی احساس گنہ سے عاری روح کی خودمختاری کے ساتھ
میرے پاس الوداعی کلمات نہیں
اپنے کتے کے لیے، جو مر گیا ہے
اور ہم نے کبھی ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولا
سو، اب وہ جا چکا ہے
اور میں نے اسے دفنا دیا ہے
اس بارے میں کہنے کو اس سے زیادہ کچھ نہیں
—♦—
نوٹ: 23ستمبر 1973نرودا کی برسی کا دن ہے.
شیراز راج ترقی پسند صحافی،دانشور، ادیب اور شاعر ہیں۔ وہ بلجئیم کے شہر برسلز میں مقیم ہیں اور تسلسل کے ساتھ ترقی پسند بین الاقوامی شعراء کے فن پاروں کے تراجم بھی کرتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
میرا کتا مر گیا ہے
میں نے اسے باغ میں دفنا دیا ہے
زنگ آلود، پرانی مشین کے پہلو میں
کسی دن اسی مقام پر
میں اس سے جا ملوں گا
لیکن فی الوقت وہ جا چکا ہے،
اپنے گچھم گچھا بالوں، اپنے بد آداب
اور اپنی یخ ناک سمیت، وہ جا چکا ہے
میں، ایک مادہ پرست، جس نے کبھی
کسی آسمان پر واقع،
کسی موعودہ فردوس پر یقین نہیں کیا
جی ہاں، میں ایک جنت پر ایمان رکھتا ہوں
جنت ارواح سگاں
جہاں میرا کتا میرا انتظار کرتا ہے
اور فرط حب میں اپنی پنکھا سی دم ہلاتا ہے
ارے، یہاں زمین پر،
مجھے اداسی کی بات نہیں کرنی
کہ میں نے ایک ساتھی کھو دیا
جو میرا یار تھا، میرا تابعدار نہ تھا
میرے ساتھ اس کی دوستی تھی،
خارپشت جیسی،
اپنی خودمختاری قایم رکھتے ہوئے
یہ گویا ایک ستارے سے دوستی تھی
ایک فاصلہ، ایک کم آمیزی
بس ضروری قربت، کسی مبالغہ کے بغیر
وہ کبھی میرے کپڑوں پر وارد نہیں ہوا
کبھی مجھ پر بالوں اور پسووں کی یلغار نہیں کی
کبھی شہوتی کتوں کی طرح
میرے گھٹنے کے ساتھ رگڑائی نہیں کی
نہیں،۔۔۔۔۔میرا کتا بس مجھے دیکھتا تھا
مجھے وہ توجہ دیتا تھا، جو مجھے درکار تھی
مجھ ایسے ناکارہ شخص کو سمجھانے کے لیے
کہ، بطور کتا، وہ اپنا وقت ضائع کر رہا تھا
لیکن پھر بھی
مجھ سے کہیں زیادہ پاک اور سچی آنکھوں کے ساتھ
وہ ٹکٹکی باندھے، مجھے دیکھتا رہتا تھا
ایسے اندازنظر کے ساتھ، جو صرف میرے لیے مخصوص تھا
اس کی پیاربھری، گچھم کچھا زندگی
ساری میرے ساتھ گزری
کبھی مجھ پر گراں نہیں،
بے نیاز،۔۔۔۔ہمیشہ کا بے طلب
ہائے، نجانے کتنی مرتبہ میں نے
اس کی دم پر رشک کیا
ساحل سمندر پر چہل قدمی کرتے ہوئے
جزیرا نیگرا کے تنہا موسم سرما میں
جب سردیوں کے پرندوں سے آسمان بھرا رہتا تھا
اور میرا جھبرا کتا اچھلتا کودتا تھا:
سمندری لہروں کی توانائی سے لبریز
میرا سیلانی، ہر چیز سونگھتا
سنہری دم اونچی اٹھائے
سمندر کی بوچھار کے روبرو،۔۔۔۔سینہ زن
خوش و خرم، خوش و خرم، خوش و خرم
صرف کتے جانتے ہیں کہ خوش کیسے رہا جائے
اپنی احساس گنہ سے عاری روح کی خودمختاری کے ساتھ
میرے پاس الوداعی کلمات نہیں
اپنے کتے کے لیے، جو مر گیا ہے
اور ہم نے کبھی ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولا
سو، اب وہ جا چکا ہے
اور میں نے اسے دفنا دیا ہے
اس بارے میں کہنے کو اس سے زیادہ کچھ نہیں
—♦—
نوٹ: 23ستمبر 1973نرودا کی برسی کا دن ہے.
شیراز راج ترقی پسند صحافی،دانشور، ادیب اور شاعر ہیں۔ وہ بلجئیم کے شہر برسلز میں مقیم ہیں اور تسلسل کے ساتھ ترقی پسند بین الاقوامی شعراء کے فن پاروں کے تراجم بھی کرتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT