• Latest

بدقسمتی انسانوں تک کیسے پہنچی؟

ستمبر 3, 2023

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, جون 24, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home فنون و ادب

بدقسمتی انسانوں تک کیسے پہنچی؟

(امیزون کی لوک کہانی)

للکار نیوز by للکار نیوز
ستمبر 3, 2023
in فنون و ادب
A A
0

یہ کہانی سرینام کے امیزون کے قبائل کی لوک کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کہانی کو ہم نے ولندیزی سے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ کوشش ہے کہ اُردو قاری تک امیزون کے خطے کی کہانیاں پہچائی جا سکیں:     

صفدر زیدی


بہت ہی پرانی بات ہے، اس وقت تک ہمارے دادے اور نانے تک پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت دنیا بالکل مختلف نظر آتی تھی۔ درخت ہمیشہ پھلوں سے لدے ہوتے تھے۔ جانور مکمل امن سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے تھے، امن و شانتی کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے چوہے چیتے کی داڑھی سے بے خطر کھیلتے تھے۔ اُس وقت زہریلے سانپ بھی نہیں ہوتے تھے۔ دریا ہموار بہتے تھے، خشک سالی کے موسم نہیں ہوتے تھے، سیلابوں کا نام و نشاں تک نہ تھا۔ آبشار چٹانوں پرسے آہستہ آہستہ گرتے تھے۔

اُس وقت زمین پر انسان نہیں ہوتے تھے۔ سیارہ اداہیلی، اُس وقت اُس کا نام سورج تھا۔ وہ ڈولتے ڈولتے تھک گیا، تو نیچے اُتر آیا۔ اُس پر انسانوں نے جنم لیا۔ ایک مگرمچھ سے عورتیں اور مرد برآمد ہوئے، برآمد ہوتے ہی انہیں زندگی کی روشنی نظر آئی۔ عورتیں بے حد خوبصورت تھیں، لیکن مرد زیادہ تر بھدے اور بدصورت تھے۔ ان کے زمین پر پھیلنے کی وجہ یہ تھی کہ خوبصورت چہرے والے انسان اپنے بدصورت ہم جنسوں کے ساتھ رہنے کو تیار نہ تھے، تو وہ مغرب کی جانب ہجرت کر گئے۔ بھدّے انسان مشرق کی طرف چلے گئے۔ جن عورتوں کو انہوں نے چُنا وہ بھی اُن کے ساتھ چلے گئیں۔ ایک قبیلے کے لوگ کافی خوبصورت نکلے۔ اس قبیلے میں ایک نوجوان تھا جس کا نام ماسونورا تھا۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ نوجوان بہت وجیہ، پرکشش اور چھریرے بدن کا مالک تھا، اتنا خوبصورت جتنا ایک مرد ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی قمیض پرُ وقار طریقے سے پہنتا تھا، شکار کے فن میں یکتا اور مچھلی کے شکار کا جال بُننے میں ماہر تھا۔ تمام لوگ اپنے جال نوک پلک سنوارنے کو اُسے ہی دیتے تھے۔ اُس کی بوڑھی ماں لیٹنے کے جھولے بُننے میں اور تپانا (جو ایک نشہ آور مشروب ہوتا ہے ) کو بنانے میں بہت ماہر تھی۔ یہ لوگ ایک بڑے گھر میں قبیلے کے دیگر افراد کے ساتھ مل جُل کر رہتے تھے۔ ان سب کو گرمی کی شدت اور نمی والی خُنکی سے کوئی بے آرامی نہیں تھی۔ ان کے احاطے میں خطرناک درندے کبھی نہیں آتے تھے۔

ایک روز ماکونورا نے شکار سے واپسی پر جال جو کھولا تو وہ حیران رہ گیا، بہت سی مچھلیاں اَدھ کھائی ہوئی تھیں۔ ایسا واقع پہلے کبھی پیش نہ آیا تھا۔ ماکونورا دوبارہ دریا پر آ گیا، اُس نے جال پھر سے دریا میں ڈال دیا اور دُور بیٹھے ہوئے کُٹ کُٹ بڑھئی کو تکنے لگا۔ وہ کسی انسان یا جانور کو آتے ہوئے دیکھ کر اپنی چونچ زور زور سے درخت کے تنے پر مارتا تھا۔ اُس نے جیسے ہی کُٹ کُٹ بڑھئی کی آواز سُنی، تو وہ جال کی طرف دوڑا مگر دیر ہو چکی تھی۔ کوئی جال توڑ کر مچھلیاں کھا چُکا تھا۔ اس بار اُس نے کیلے کی چونچ جیسی چڑیا کی چہچہاہٹ پر توجہ کی۔ یہ ترکیب کام کی نکلی، جیسے ہی چڑیا نے۔ پون! پون! کی آواز نکالی۔ اُس نے بروقت جال کی طرف بڑھتے ہوئے، مگر مچھ کی آنکھوں کے بیچ تاک کر تیر چلا دیا۔ وہ غوطہ لگا کر پانی کے نیچے غائب ہو گیا۔ ماکونورا نے اپنا جال سمیٹا اور گھر کی طرف چل پڑا، ابھی وہ گھر تک نہ پہنچا تھا کہ اُسے پھر پون! پون! پون! کی آواز آئی۔ وہ تیزی سے دریا کی طرف بھاگا، وہاں ایک پیاری سی انڈیانا لڑکی کھڑی رو رہی تھی۔

”کون ہو تم؟“ اُس نے پوچھا۔
” میں! آنے اناتُو ہوں“ ۔ اُس نے جواب دیا۔
تُم کہاں سے آئی ہو؟
”بہت دُور سے۔“ اُس نے کہا۔
”تمہارے خاندان میں اور کون ہے؟“ اُس نے اگلا سوال کیا۔
”تم مجھ سے یہ سوال نہ کرو!“ یہ کہہ کر اُس نے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا۔

یہ لڑکی جو ایک چھوٹی بچی ہی تھی۔ ماکونورا اُسے اپنے ساتھ لے چلا تاکہ اُسے اپنی ماں سے ملا سکے۔ جیسے جیسے یہ بچی بڑے ہوتے جا رہی تھی، خوبصورت اور پُرکشش ہوتے جا رہی تھی۔ ماکونورا اُسے چاہنے لگا تھا اور ایک دن اُس کا ہاتھ مانگ بیٹھا، پہلے تو آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اُس نے انکار کر دیا، لیکن ماکونورا کے اصرار پر وہ راضی ہو گئی۔ درحقیقت یہ بات مناسب نہ تھی کیونکہ ماکونورا نے ابھی تک اُس کے والدین سے اجازت نہیں لی تھی۔ یہ جوڑا خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا کہ کہ آنے اناتُو نے اپنے والدین سے ملنے کی خواہش کر کے اُس میں زہر گھول دیا۔ ماکو نورا اپنی بیوی کی خواہش سے متفق تھا، مگر وہ اُسے تنہا بھیجنے کے حق میں نہ تھا۔

آنے اناتُو کو اس بات پر بہت غصہ آیا، اُس نے کہا کہ اس شرط پر تو میں نہیں جاؤں گی۔
”تو پھر میں اکیلے جاؤں گا اور تمہارے والدین سے شادی کی اجازت لے کر آؤں گا۔“ ماکونورا نے کہا۔

”بالکل نہیں“ آنے اناتُو نے چلاتے ہوئے کہا: ”یہ اقدام ہمارے لیے موت کو دعوت دے گا۔ نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ تمہاری ماں کے لیے بھی۔“

ماکونورا نے اُس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ ”میں نے پیائی مان سے فال نکلوائی ہے، اس نے یقین دلایا ہے کہ کوئی خطرہ نہیں، میں بحفاظت واپس آ جاؤں گا۔“

آخرکار وہ دونوں ایک ساتھ ہی سفر پر روانہ ہو گئے۔
کوریال کو کئی ہفتے کھیتے کھیتے وہ لوگ ایک خیمے تک آن پہنچے۔

آنے اناتو نے چیخ کر کہا: ”ہم آن پہنچے ہیں! میں فوری طور پر ماں سے ملنا چاہتی ہوں۔ وہ تمہارے لئے دو عدد“ کالے باسن ”لائے گی، ان میں ایک کچے گوشت اور خون سے بھرا ہو گا جبکہ دوسرے میں کساوے کی روٹی اور بلتیری ہوگی۔ ہماری قسمت کا فیصلہ ان پیالوں کے انتخاب پر منحصر ہو گا۔

جیسے ہی ماں پیالوں کے ساتھ نمودار ہوئی تو اس نے جس پیالے کا انتخاب کیا اس میں کساوے کی روٹی اور بلتیری تھی۔ اس انتخاب پر ماں نے کہا:

توُ نے ایک اچھا انتخاب کیا ہے! میں تم لوگوں کو شادی کی اجازت دیتی ہوں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ میرا شوہرکائے کوچی، اس رشتے پر بالکل راضی نہ ہو گا۔ ماں اور بیٹی کائے کوچی کی رائے جاننے کو اس کی جانب چل دیں۔ وہ اس رشتے کی بابت سنتے ہی آگ بگولہ ہو گیا۔ اس دوران ماکونورا جنگل میں چھپا رہا۔ کچھ دیر میں وہ کائے کوچی کا سامنا کرنے آ گیا۔

تیری ہمت کیسے ہوئی میرے سامنے آنے کی!

ماکونورا نے محتاط انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا: ”اخ۔ ہمارا ملن عام حالات میں نہیں ہوا تھا، لیکن میں اس لئے تمہارے پاس آیا ہوں کہ ہماری شادی کو قبول کر لیا جائے۔“ لڑکی کے باپ، کائے کوچی نے جواب میں کہا: ”ٹھیک ہے ایک کرسی تیار کر جس کے ایک طرف مگرمچھ کی شبیہ ہو اور دوسری طرف میری۔“ یہ کہہ کر وہ پرسکون ہو گیا۔ آدھی رات تک کام کر کے ماکونورا کائے کوچی کی شبیہ بنا کر فارغ ہو گیا، مگر یہ بس واجبی سی ہی بن سکی تھی، کیونکہ اس کے سر پر کدو جیسا بڑا گومڑ تھا، جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں ہی نظر نہ آتی تھیں۔ ماکونورا نے اپنی عورت سے پوچھا کہ یہ ٹھیک رہے گا تو اس نے کہا ناممکن ہے، میرا باپ پیائی مان ہے، اسے سب پتہ چل جائے گا، وہ ہم دونوں کو مار ڈالے گا۔ ماکونورا، کائے کوچی کے جھولے کے برابر میں ٹنگے ہوئے جھولے میں اس اُمید پر لیٹ گیا کہ وہ وہاں سے اس کے چہرے کا جائزہ لیتے رہے گا۔ کچھ دیر میں ایک مچھر نمودار ہوا جس نے کائے کوچی پر منڈلانے کے بعد اس کو کاٹ لیا، لیکن وہ ایک گیند کی طرح جھولے میں پڑا رہا بالکل بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ ماکونورا کی توجہ اس وقت ہٹی جب اسے محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگ پر کچھ رینگ رہا ہے۔ یہ ایک بال و پر والی مکڑی تھی۔ اس نے ماکونورا سے کہا کہ تو صبر کا دامن تھامے رہ کوئی فکر نہ کر۔ یہ کہہ کر مکڑی رینگتے ہوئے کائے کوچی کے جھولے میں گھس گئی اور اسے سوتے میں کاٹ لیا۔ اس نے مکڑی کو مارا اور پھر سے سو گیا، اس کے چہرے پر فکر کے کچھ آثار نہ تھے۔ ماکونورا، کائے کوچی کا چہرہ دیکھنے کو نا اُمید ہو چکا تھا کہ چیونٹیوں کا ایک لشکر کہیں سے آ نکلا اور اس کے جھولے میں جا گھسا۔ کائے کوچی نے جھولے سے سر اُٹھایا تو ماکونورا نے آخرکار اس کا بدصورت چہرہ دیکھ لیا۔ دن ڈھلنے تک اس نے کرسی تیار کرلی تھی جو اس نے کائے کوچی کو پیش کردی۔ اس نے اسے خوفزدہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کافی نہیں، تجھے ایک رات میں جھونپڑی تیار کرنا ہوگی جو سب سے خوبصورت پرندوں کے پروں سے تیار کی جائے۔ ماکونورا نے اس وقت محسوس کیا کہ وہ ہار چکا ہے کہ اچانک قمریوں، یکامارا اور دوسرے بہت سی خوبصورت پرندوں نے اس کے سامنے اپنے پر گرا دیے۔ اس نے فوری طور پر ان پروں سے کٹیا بنانا شروع کردی۔ اب کائے کوچی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ماکونورا کو اپنا داماد تسلیم کر لے۔ یہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد اسے اپنی ماں کی یاد ستانے لگی، وہ اس سے ملنے جانا چاہتا تھا۔ جب کائے کوچی نے اسے بیٹی سمیت جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، تو وہ تنہا ہی نکل پڑا۔ اس کی بوڑھی ماں بیٹے سے مل کر بہت خوش ہوئی۔ ان کے دن بہت اچھے گزر رہے تھے، وہ اپنی ماں کو بتاتا تھا کہ اس پر کیسا وقت گزرا تھا۔ ماں اسے پرانے زمانے کے گزرے واقعات سناتی تھی، جنہیں یاد کرنے میں اسے خاصی دشواری ہوتی تھی۔ ماکونورا بہرحال ایک روز اپنی بیوی کے پاس جانا چاہتا تھا۔ جب اس نے ماں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ماں نے آہ بھرتے ہوئے کہا: ”نہ جا میرے بیٹے، پیایامان نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہاں برے حالات تیرے منتظر ہوں گے۔ ماکونورا نے کہا کہ وہ پھر بھی اپنا ارادہ ترک نہیں کرے گا؛ البتہ وہاں سے ہر روز ایک قاصد چڑیا بھیجے گا جو میری خیریت سے مطلع کرتے رہے گا۔ اگر چڑیا کے بجائے الّو وارد ہو تو سمجھ لینا کہ میں اس دنیا میں نہیں رہا۔

جب وہ لمبے سفر کے بعد آخرکار اپنی بیوی کی جھونپڑی تک پہنچا، تو بیوی نے اشک بھری آنکھوں سے اس کا استقبال کیا، اس کی ساس بھی وہاں موجود تھی۔ ساس چیخی: ”فوری طور پر بھاگ لے یہاں سے“ کائے کوچی نے جو سنا ہے، وہ اس پر بہت غصے میں ہے۔ ماکونورا نے ساس کی بات کو اہمیت نہ دی اور جھونپڑی کے اندر چلے گیا۔ جیسے ہی وہ اندر آیا ایک تیر اس کی آنکھوں کے بیچ آ کر لگا، وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔

ماکونورا کی ماں ہر ایک پرندے سے روز بوُٹا۔ بُوٹا کی درد بھری آواز سنتی تھی۔ پھر ایک روز الّو نے مایوسی بھری۔ پوپوپو کی صدا دی۔ وہ سمجھ گئی کہ بیٹا مارا جا چکا ہے۔ وہ اس بری خبر کے قاصد کی غم زدہ آواز کو پرسکون کرنا چاہتی تھی۔ آخرکار ایک دن اسے اپنے بیٹے کی کو ریال دریا سے مل گئی، جو اس کی کشتی ہی لگتی تھی۔ وہ اس کشتی کو بوجھل دل کے ساتھ اپنے قبیلے میں لے آئی۔ قبیلے کے مردوں نے اس کشتی کو کپڑے سے ڈھک کر اس پر خوبصورت پر سجا کر ان پر ماکونورا کے ہتھیار رکھ دیے۔ قبیلے کی عورتوں نے مشروب ”تپانا“ بنایا جو تعزیت پر پیا جاتا تھا۔ سب لوگ جمع ہو گئے کہ ماں اور بیٹے کے لیے سوگواری کے گیت گا سکیں۔

اپنی تمام ہمت جمع کرتے ہوئے بوڑھی ماں جھولے سے اٹھی۔ اس نے بہتے اشکوں کے ساتھ جذباتی انداز میں اپنے بیٹے سے محبت اور اس کی موت کے بارے میں بتایا، پھر وہ تپانا سے بھرا ہوا پیالہ اپنے ہونٹوں کے قریب لائی اور کہا: ”کس نے میرے بیٹے کی زندگی کا چراغ گُل کیا؟ کون ہے وہ جس نے اسے سایوں کی وادیوں میں دھکیل دیا؟ ووُ ووُ وُو۔ تفُ تفُ تفُ ہو اس پر۔ دوستو اور عورتوں، تم سب ایک بوڑھی اور غریب عورت کے پاس آئے ہو، جو کچھ نہیں کر سکتی تم میں سے کون ہے جو اس کے قتل کا انتقام لے سکے؟“

یہ سنتے ہی دو آدمی آگے بڑھ آئے۔ انہوں نے اپنا پیالہ ایک گھونٹ میں خالی کر کے بلند کرتے ہوئے کہا ”مقتول کے لئے“ انہوں نے سوگواری کا گیت گاتے ہوئے انتقام لینے کا رقص کرنا شروع کر دیا۔ اسی وقت ایک اژدہے اور ایک چیتے کی روح وہاں آ گئی۔

کائے کوچی کے گاؤں میں بھی تپانا مشروب پینے کا تہوار جاری تھا، جہاں سینکڑوں انڈیانا، مرد، بچے عورتیں اکٹھے تھے۔ یہ سب تپانا پی کر بار بار نشے میں دھت ہوتے رہتے تھے۔ اچانک ان کے بیچ دو آدمی آن ٹپکے! ایک نے چیتے کی کھال اوڑھی ہوئی تھی دوسرے نے اژدہے کی۔ پلک جھپکتے میں انہوں نے بہت سے انڈیانوں کو مار ڈالا، بہت سے چیتے کی مار سے زخمی ہو گئے اور بہت سے اژدہے کے منہ سے نکلنے والی آگ سے جھلس گئے۔ کچھ انڈیان بے ہوش ہو گئے۔ کچھ دیر میں وہ ہوش میں آئے تو انہوں نے حملہ آوروں پر اپنے نیزوں سے حملہ کر دیا۔ جب ان دونوں حملہ آوروں کو نشانے پر رکھ لیا، تو انہوں نے کہا: ”دوستو، ہم ہتھیار ڈالتے ہیں۔ ہمیں بتانے کا موقع دیا جائے کہ یہ سب ہم نے کیوں کیا۔“ یہ سن کر لوگوں نے اپنے نیزے ان پر سے ہٹا لیے تا کہ وہ اپنی بات کہہ سکیں۔ ان لوگوں نے ماکونورا کی درد بھری داستان سنائی جس نے سب کو بہت متاثر کیا۔ جب وہ خاموش ہو گئے تو ایک بوڑھے پیایامان نے دخل انداز ہوتے ہوئے کہا: ”نوجوانوں تم نے اچھی گفتگو کی ہے، اب ہم سب تمہیں اپنا دوست سمجھتے ہیں۔“

اب جشن پہلے سے زیادہ پُرجوش ہو چکا تھا۔ آنے اناتُو جو ابھی تک صدمے سے باہر نہ آ سکی تھی، اس نے بھی جشن میں حصہ لیا۔ اسی دوران ایک جادوگر وہاں آ گیا، وہ مردہ اجسام کے پاس گیا، اس نے انہیں نیچے سے اوپر تک دیکھا۔ ان میں سے اس نے آنے اناتُو کی ماں کو پہچان لیا۔ وہ اس کی ہی تلاش میں تھا۔ وہ اس کے سامنے جھکا اور پھر کھڑے ہو کر کچھ گنگنانے لگا۔ کچھ ہی دیر میں مردہ ماں اچھل کر کھڑی ہو گئی، اس کے بال کھڑے ہو گئے، وہ خوفزدہ آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں درندوں کا گیت گاتے اور ناچتے جاتی تھی۔ وہ اس وقت تک ناچتے رہی جب تک کہ اژدھے کی روح اس کے جسم میں حلول نہ کر گئی۔

اس دوران دوسرے گاؤں کے لوگ انتقام لینے کے عہد کے لیے تپانانوشی کا جشن منا رہے تھے۔ ماکونورا کی ماں تپانا کے نشے میں چوُر ہو کر جھولے میں سو چکی تھی، وہ اپنے آنجہانی بیٹے کو خواب میں دیکھ رہی تھی۔

دوسری طرف آنے اناتُو اچانک نمودار ہوئی۔ جب خوابناک حالت والی عورت نے اس کا نام لیا، تو وہ کچھ قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اس عورت نے کہا: ”آنے اناتُو تم ایک اچھی انسان ہو! بالکل اپنی ماں کی طرح۔ لیکن تم یہاں کیوں آئی ہو؟ میرا بیٹا جسے تم کھو چکی ہو اب وہ جا چکا ہے۔ میرا بیٹا ماکونورا تمہیں بہت چاہتا تھا، تم خوش قسمت ہو کیونکہ تمہیں قاتل کے خون سے نجات مل چکی ہے، تمہیں مکمل مکتی مل چکی ہے۔“

اس گفتگو سے اس کا وجود تذبذب کا شکار ہو چکا تھا۔ پیار کا احساس شدت اختیار کرتے ہوئے اس پر کچھ ذمہ داریوں کا تقاضا بھی کر رہا تھا، لیکن وہ خون سے نجات پا جانے والے الفاظ کی گہرائی میں جانے سے قاصر تھی۔ اس نے بوڑھی عورت پر چڑھ کر اس کی زہر بھری دراز زبان کو کھینچ کر زہر باہر نکال پھینکا۔ جب وہ اس کے اوپر بیٹھی ہی ہوئی تھی، تو اس نے کہا: ”وہ مگر مچھ جسے مچھلی کے جال میں مارا گیا تھا، وہ میرا بھائی تھا۔ جیسے میرا باپ مگرمچھ جیسے سر کا ہے وہ بھی ایسا ہی تھا۔ میرے باپ نے تمہارے آدمی کو آنکھوں کے بیچ تیر مار کر ایسے ہی قتل کیا جیسے اس کے بیٹے کو مارا گیا تھا۔ تیرے رشتہ داروں نے میرے قبیلے کو شکست دیدی ہے۔ میں بھی اس بات کو بھول سکتی، اگر میری ماں اس سانحے کو نظر انداز کر دیتی۔ ماکونورا اس تباہی کا ذمے دار تھا۔ وہ جو مجھے بہت عزیز تھا، مجھ سے چھین لیا گیا۔ میں اپنے پیارے کے انتقام کا حق واپس لیتی ہوں۔ اس لمحے ایک گھونگے میں چھپا کیکڑا جنگل کی جانب رینگ گیا، پھر کچھ ایسا ہوا جو کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ہواؤں نے اچانک طوفان کی شکل اختیار کرلی، دیوقامت درختوں کی بھاری شاخیں گرنے لگیں، ان کی جڑیں اُکھڑنے لگیں۔ آہیدیلی کے علاقے کو سیاہ بادلوں نے ڈھانپ دیا، پراسرار بجلیاں چمکنے اور خوفزدہ گڑگڑاہٹ کے سلسلے شروع ہو گئے۔

دریاؤں میں عظیم طوفان آ گیا، وہ کناروں سے اسکیچ میں مرکزی کردار آنے انئتو آبشار سے چھلانگ لگا رہی ہے۔اُبل پڑے۔ جانور جو ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان سے رہتے تھے ایک دوسرے کو چیر پھاڑنے لگے۔ سانپوں نے زہر کی پچکاریاں مارنا شروع کر دیں، مگر مچھوں نے اپنے ناقابل شکست جبڑوں سے ہر اس ذی روح کو چیرنا پھاڑنا شروع کر دیا جو ان کے قریب سے گزرتی تھی۔ چیتوں نے معصوم اگوتیوں کے گوشت کی چیر پھاڑ شروع کردی۔ آنے اناتُو جنگلی ہرنوں کے لشکر کے ساتھ بلا ارادہ چل پڑی۔ ایک موقع پر وہ ایک چٹان کے سرے پر پہنچی جہاں سے ایک آبشار نیچے گر رہا تھا۔ یہاں آ کر اس کا سفر رُک گیا۔ آبشار کے سرے پر آ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے گہرے پانی میں چھلانگ لگادی۔ پانیوں نے پہلے اسے اپنی گہرائی میں سمویا پھر اسے سطح پر لے آئے۔ اسے ایک بھنور کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔

وہ ایک اجنبی کے طور پر آبشار کی آغوش میں آ گئی تھی۔ ایک اجنبی آبشار کے پاس آیا، اس کرائب نے کہا کہ اس کا نام نہ لیا جائے۔ تم اب دوبارہ زندہ نہ ہونے کے لئے مر چکی ہو۔ اب اس آبشار کی تہہ میں ماکونورا اور آنے اناتُو ایک خوبصورت محل میں پُر سکون زندگی گزار رہے ہیں، پانی کی روح کے محل میں۔

ڈچ الفاظ کے معنی اور تلفظ:


پیائی مان Piaiman : نشہ آور بوٹیوں کو استعمال کر کے رقص کرنے کے بعد وجد میں آ کر پیش گوئی کرنے والا شخص۔

کوریال korjaal: وہ کشتی جو درخت کے تنے کو کھود کر بنائی جاتی تھی۔
کساوا : ایک اروی جیسی جڑ جسے سکھا کر اس کے آٹے سے روٹی بھی بنائی جاتی ہے۔
کالے باسن kalebaasen : کھوکھلے کدّو سے بنے پیالے۔
کرائب Caraib: ایک قدیم امریکن قبیلہ
اگوایتی Agoeti: خرگوش جیسا ایک جانور

—♦—

مصنف کے بارے:


صفدر زیدی (1968) کراچی، حالیہ سکونت دا ہیگ ، ہالینڈ ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کی ہالینڈ ہجرت کے بعد انہوں نے ڈچ زبان کے ساتھ وہاں زراعت کی تعلیم بھی حاصل کی۔ ” بھاگ بھری “ ان کا دوسرا ناول ہے جو 2018 میں ” عکس پبلشرز“نے لاہور، پاکستان سے شائع کیا تھا۔ ان کا پہلا ناول ”  چینی جو میٹھی نہ تھی“  2016 میں فیصل آباد سے مثال پبلشرز نے شائع کیا تھا۔ اس ناول کا ولندیزی ترجمہ پہلے ہی 2013 میں ہالینڈ اور سرینام میں شائع ہوگیاتھا۔ اب یہ ناول سرینام میں ہائی اسکول کے نصاب کا حصہ ہے کیونکہ یہ ناول برطانوی ہندوستان سے سرینام کو ہندوستانی مزدوروں کی فراہمی کی تاریخ ( 1873-1916) پر لکھا گیا تھا۔ان کا حالیہ ناول ” بنت داہر“حال ہی پاکستان اور انڈیا سے اردو اور سندھی میں شائع ہوچکا ہے۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

RelatedPosts

فنون و ادب

اے شریف انسانو! – ساحر لدھیانویؔ

اپریل 18, 2024
0
فنون و ادب

چمن لال چمنؔ:حیات و جمالیات کا شاعر! – تحریر: ممتاز احمد آرزوؔ

اپریل 3, 2024
0
مضامین

شِو کمار بٹالویؔ: پنجابی دا کیٹسؔ تے ساحرؔ ! – تحریر:ممتاز احمد آرزوؔ

مارچ 15, 2024
0
مضامین

فیض احمد فیضؔ: جبر واستحصال اور سامراجی بربریت کے خلاف مزاحمت کا علمبردار! – تحریر: پرویز فتح

مارچ 15, 2024
0
مضامین

مجرُوح سلطانپوریؔ: بُلند آہنگ انقلابی شاعر! – تحریر: ممتاز احمد آرزوؔ

مارچ 13, 2024
0
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

یہ کہانی سرینام کے امیزون کے قبائل کی لوک کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اس کہانی کو ہم نے ولندیزی سے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ کوشش ہے کہ اُردو قاری تک امیزون کے خطے کی کہانیاں پہچائی جا سکیں:     

صفدر زیدی


بہت ہی پرانی بات ہے، اس وقت تک ہمارے دادے اور نانے تک پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت دنیا بالکل مختلف نظر آتی تھی۔ درخت ہمیشہ پھلوں سے لدے ہوتے تھے۔ جانور مکمل امن سے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے تھے، امن و شانتی کا یہ عالم تھا کہ چھوٹے چوہے چیتے کی داڑھی سے بے خطر کھیلتے تھے۔ اُس وقت زہریلے سانپ بھی نہیں ہوتے تھے۔ دریا ہموار بہتے تھے، خشک سالی کے موسم نہیں ہوتے تھے، سیلابوں کا نام و نشاں تک نہ تھا۔ آبشار چٹانوں پرسے آہستہ آہستہ گرتے تھے۔

اُس وقت زمین پر انسان نہیں ہوتے تھے۔ سیارہ اداہیلی، اُس وقت اُس کا نام سورج تھا۔ وہ ڈولتے ڈولتے تھک گیا، تو نیچے اُتر آیا۔ اُس پر انسانوں نے جنم لیا۔ ایک مگرمچھ سے عورتیں اور مرد برآمد ہوئے، برآمد ہوتے ہی انہیں زندگی کی روشنی نظر آئی۔ عورتیں بے حد خوبصورت تھیں، لیکن مرد زیادہ تر بھدے اور بدصورت تھے۔ ان کے زمین پر پھیلنے کی وجہ یہ تھی کہ خوبصورت چہرے والے انسان اپنے بدصورت ہم جنسوں کے ساتھ رہنے کو تیار نہ تھے، تو وہ مغرب کی جانب ہجرت کر گئے۔ بھدّے انسان مشرق کی طرف چلے گئے۔ جن عورتوں کو انہوں نے چُنا وہ بھی اُن کے ساتھ چلے گئیں۔ ایک قبیلے کے لوگ کافی خوبصورت نکلے۔ اس قبیلے میں ایک نوجوان تھا جس کا نام ماسونورا تھا۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ یہ نوجوان بہت وجیہ، پرکشش اور چھریرے بدن کا مالک تھا، اتنا خوبصورت جتنا ایک مرد ہو سکتا ہے۔ وہ اپنی قمیض پرُ وقار طریقے سے پہنتا تھا، شکار کے فن میں یکتا اور مچھلی کے شکار کا جال بُننے میں ماہر تھا۔ تمام لوگ اپنے جال نوک پلک سنوارنے کو اُسے ہی دیتے تھے۔ اُس کی بوڑھی ماں لیٹنے کے جھولے بُننے میں اور تپانا (جو ایک نشہ آور مشروب ہوتا ہے ) کو بنانے میں بہت ماہر تھی۔ یہ لوگ ایک بڑے گھر میں قبیلے کے دیگر افراد کے ساتھ مل جُل کر رہتے تھے۔ ان سب کو گرمی کی شدت اور نمی والی خُنکی سے کوئی بے آرامی نہیں تھی۔ ان کے احاطے میں خطرناک درندے کبھی نہیں آتے تھے۔

ایک روز ماکونورا نے شکار سے واپسی پر جال جو کھولا تو وہ حیران رہ گیا، بہت سی مچھلیاں اَدھ کھائی ہوئی تھیں۔ ایسا واقع پہلے کبھی پیش نہ آیا تھا۔ ماکونورا دوبارہ دریا پر آ گیا، اُس نے جال پھر سے دریا میں ڈال دیا اور دُور بیٹھے ہوئے کُٹ کُٹ بڑھئی کو تکنے لگا۔ وہ کسی انسان یا جانور کو آتے ہوئے دیکھ کر اپنی چونچ زور زور سے درخت کے تنے پر مارتا تھا۔ اُس نے جیسے ہی کُٹ کُٹ بڑھئی کی آواز سُنی، تو وہ جال کی طرف دوڑا مگر دیر ہو چکی تھی۔ کوئی جال توڑ کر مچھلیاں کھا چُکا تھا۔ اس بار اُس نے کیلے کی چونچ جیسی چڑیا کی چہچہاہٹ پر توجہ کی۔ یہ ترکیب کام کی نکلی، جیسے ہی چڑیا نے۔ پون! پون! کی آواز نکالی۔ اُس نے بروقت جال کی طرف بڑھتے ہوئے، مگر مچھ کی آنکھوں کے بیچ تاک کر تیر چلا دیا۔ وہ غوطہ لگا کر پانی کے نیچے غائب ہو گیا۔ ماکونورا نے اپنا جال سمیٹا اور گھر کی طرف چل پڑا، ابھی وہ گھر تک نہ پہنچا تھا کہ اُسے پھر پون! پون! پون! کی آواز آئی۔ وہ تیزی سے دریا کی طرف بھاگا، وہاں ایک پیاری سی انڈیانا لڑکی کھڑی رو رہی تھی۔

”کون ہو تم؟“ اُس نے پوچھا۔
” میں! آنے اناتُو ہوں“ ۔ اُس نے جواب دیا۔
تُم کہاں سے آئی ہو؟
”بہت دُور سے۔“ اُس نے کہا۔
”تمہارے خاندان میں اور کون ہے؟“ اُس نے اگلا سوال کیا۔
”تم مجھ سے یہ سوال نہ کرو!“ یہ کہہ کر اُس نے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا۔

یہ لڑکی جو ایک چھوٹی بچی ہی تھی۔ ماکونورا اُسے اپنے ساتھ لے چلا تاکہ اُسے اپنی ماں سے ملا سکے۔ جیسے جیسے یہ بچی بڑے ہوتے جا رہی تھی، خوبصورت اور پُرکشش ہوتے جا رہی تھی۔ ماکونورا اُسے چاہنے لگا تھا اور ایک دن اُس کا ہاتھ مانگ بیٹھا، پہلے تو آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اُس نے انکار کر دیا، لیکن ماکونورا کے اصرار پر وہ راضی ہو گئی۔ درحقیقت یہ بات مناسب نہ تھی کیونکہ ماکونورا نے ابھی تک اُس کے والدین سے اجازت نہیں لی تھی۔ یہ جوڑا خوش و خرم زندگی گزار رہا تھا کہ کہ آنے اناتُو نے اپنے والدین سے ملنے کی خواہش کر کے اُس میں زہر گھول دیا۔ ماکو نورا اپنی بیوی کی خواہش سے متفق تھا، مگر وہ اُسے تنہا بھیجنے کے حق میں نہ تھا۔

آنے اناتُو کو اس بات پر بہت غصہ آیا، اُس نے کہا کہ اس شرط پر تو میں نہیں جاؤں گی۔
”تو پھر میں اکیلے جاؤں گا اور تمہارے والدین سے شادی کی اجازت لے کر آؤں گا۔“ ماکونورا نے کہا۔

”بالکل نہیں“ آنے اناتُو نے چلاتے ہوئے کہا: ”یہ اقدام ہمارے لیے موت کو دعوت دے گا۔ نہ صرف ہمارے لیے، بلکہ تمہاری ماں کے لیے بھی۔“

ماکونورا نے اُس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ ”میں نے پیائی مان سے فال نکلوائی ہے، اس نے یقین دلایا ہے کہ کوئی خطرہ نہیں، میں بحفاظت واپس آ جاؤں گا۔“

آخرکار وہ دونوں ایک ساتھ ہی سفر پر روانہ ہو گئے۔
کوریال کو کئی ہفتے کھیتے کھیتے وہ لوگ ایک خیمے تک آن پہنچے۔

آنے اناتو نے چیخ کر کہا: ”ہم آن پہنچے ہیں! میں فوری طور پر ماں سے ملنا چاہتی ہوں۔ وہ تمہارے لئے دو عدد“ کالے باسن ”لائے گی، ان میں ایک کچے گوشت اور خون سے بھرا ہو گا جبکہ دوسرے میں کساوے کی روٹی اور بلتیری ہوگی۔ ہماری قسمت کا فیصلہ ان پیالوں کے انتخاب پر منحصر ہو گا۔

جیسے ہی ماں پیالوں کے ساتھ نمودار ہوئی تو اس نے جس پیالے کا انتخاب کیا اس میں کساوے کی روٹی اور بلتیری تھی۔ اس انتخاب پر ماں نے کہا:

توُ نے ایک اچھا انتخاب کیا ہے! میں تم لوگوں کو شادی کی اجازت دیتی ہوں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ میرا شوہرکائے کوچی، اس رشتے پر بالکل راضی نہ ہو گا۔ ماں اور بیٹی کائے کوچی کی رائے جاننے کو اس کی جانب چل دیں۔ وہ اس رشتے کی بابت سنتے ہی آگ بگولہ ہو گیا۔ اس دوران ماکونورا جنگل میں چھپا رہا۔ کچھ دیر میں وہ کائے کوچی کا سامنا کرنے آ گیا۔

تیری ہمت کیسے ہوئی میرے سامنے آنے کی!

ماکونورا نے محتاط انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا: ”اخ۔ ہمارا ملن عام حالات میں نہیں ہوا تھا، لیکن میں اس لئے تمہارے پاس آیا ہوں کہ ہماری شادی کو قبول کر لیا جائے۔“ لڑکی کے باپ، کائے کوچی نے جواب میں کہا: ”ٹھیک ہے ایک کرسی تیار کر جس کے ایک طرف مگرمچھ کی شبیہ ہو اور دوسری طرف میری۔“ یہ کہہ کر وہ پرسکون ہو گیا۔ آدھی رات تک کام کر کے ماکونورا کائے کوچی کی شبیہ بنا کر فارغ ہو گیا، مگر یہ بس واجبی سی ہی بن سکی تھی، کیونکہ اس کے سر پر کدو جیسا بڑا گومڑ تھا، جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں ہی نظر نہ آتی تھیں۔ ماکونورا نے اپنی عورت سے پوچھا کہ یہ ٹھیک رہے گا تو اس نے کہا ناممکن ہے، میرا باپ پیائی مان ہے، اسے سب پتہ چل جائے گا، وہ ہم دونوں کو مار ڈالے گا۔ ماکونورا، کائے کوچی کے جھولے کے برابر میں ٹنگے ہوئے جھولے میں اس اُمید پر لیٹ گیا کہ وہ وہاں سے اس کے چہرے کا جائزہ لیتے رہے گا۔ کچھ دیر میں ایک مچھر نمودار ہوا جس نے کائے کوچی پر منڈلانے کے بعد اس کو کاٹ لیا، لیکن وہ ایک گیند کی طرح جھولے میں پڑا رہا بالکل بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ ماکونورا کی توجہ اس وقت ہٹی جب اسے محسوس ہوا کہ اس کی ٹانگ پر کچھ رینگ رہا ہے۔ یہ ایک بال و پر والی مکڑی تھی۔ اس نے ماکونورا سے کہا کہ تو صبر کا دامن تھامے رہ کوئی فکر نہ کر۔ یہ کہہ کر مکڑی رینگتے ہوئے کائے کوچی کے جھولے میں گھس گئی اور اسے سوتے میں کاٹ لیا۔ اس نے مکڑی کو مارا اور پھر سے سو گیا، اس کے چہرے پر فکر کے کچھ آثار نہ تھے۔ ماکونورا، کائے کوچی کا چہرہ دیکھنے کو نا اُمید ہو چکا تھا کہ چیونٹیوں کا ایک لشکر کہیں سے آ نکلا اور اس کے جھولے میں جا گھسا۔ کائے کوچی نے جھولے سے سر اُٹھایا تو ماکونورا نے آخرکار اس کا بدصورت چہرہ دیکھ لیا۔ دن ڈھلنے تک اس نے کرسی تیار کرلی تھی جو اس نے کائے کوچی کو پیش کردی۔ اس نے اسے خوفزدہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کافی نہیں، تجھے ایک رات میں جھونپڑی تیار کرنا ہوگی جو سب سے خوبصورت پرندوں کے پروں سے تیار کی جائے۔ ماکونورا نے اس وقت محسوس کیا کہ وہ ہار چکا ہے کہ اچانک قمریوں، یکامارا اور دوسرے بہت سی خوبصورت پرندوں نے اس کے سامنے اپنے پر گرا دیے۔ اس نے فوری طور پر ان پروں سے کٹیا بنانا شروع کردی۔ اب کائے کوچی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ماکونورا کو اپنا داماد تسلیم کر لے۔ یہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد اسے اپنی ماں کی یاد ستانے لگی، وہ اس سے ملنے جانا چاہتا تھا۔ جب کائے کوچی نے اسے بیٹی سمیت جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، تو وہ تنہا ہی نکل پڑا۔ اس کی بوڑھی ماں بیٹے سے مل کر بہت خوش ہوئی۔ ان کے دن بہت اچھے گزر رہے تھے، وہ اپنی ماں کو بتاتا تھا کہ اس پر کیسا وقت گزرا تھا۔ ماں اسے پرانے زمانے کے گزرے واقعات سناتی تھی، جنہیں یاد کرنے میں اسے خاصی دشواری ہوتی تھی۔ ماکونورا بہرحال ایک روز اپنی بیوی کے پاس جانا چاہتا تھا۔ جب اس نے ماں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ماں نے آہ بھرتے ہوئے کہا: ”نہ جا میرے بیٹے، پیایامان نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہاں برے حالات تیرے منتظر ہوں گے۔ ماکونورا نے کہا کہ وہ پھر بھی اپنا ارادہ ترک نہیں کرے گا؛ البتہ وہاں سے ہر روز ایک قاصد چڑیا بھیجے گا جو میری خیریت سے مطلع کرتے رہے گا۔ اگر چڑیا کے بجائے الّو وارد ہو تو سمجھ لینا کہ میں اس دنیا میں نہیں رہا۔

جب وہ لمبے سفر کے بعد آخرکار اپنی بیوی کی جھونپڑی تک پہنچا، تو بیوی نے اشک بھری آنکھوں سے اس کا استقبال کیا، اس کی ساس بھی وہاں موجود تھی۔ ساس چیخی: ”فوری طور پر بھاگ لے یہاں سے“ کائے کوچی نے جو سنا ہے، وہ اس پر بہت غصے میں ہے۔ ماکونورا نے ساس کی بات کو اہمیت نہ دی اور جھونپڑی کے اندر چلے گیا۔ جیسے ہی وہ اندر آیا ایک تیر اس کی آنکھوں کے بیچ آ کر لگا، وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔

ماکونورا کی ماں ہر ایک پرندے سے روز بوُٹا۔ بُوٹا کی درد بھری آواز سنتی تھی۔ پھر ایک روز الّو نے مایوسی بھری۔ پوپوپو کی صدا دی۔ وہ سمجھ گئی کہ بیٹا مارا جا چکا ہے۔ وہ اس بری خبر کے قاصد کی غم زدہ آواز کو پرسکون کرنا چاہتی تھی۔ آخرکار ایک دن اسے اپنے بیٹے کی کو ریال دریا سے مل گئی، جو اس کی کشتی ہی لگتی تھی۔ وہ اس کشتی کو بوجھل دل کے ساتھ اپنے قبیلے میں لے آئی۔ قبیلے کے مردوں نے اس کشتی کو کپڑے سے ڈھک کر اس پر خوبصورت پر سجا کر ان پر ماکونورا کے ہتھیار رکھ دیے۔ قبیلے کی عورتوں نے مشروب ”تپانا“ بنایا جو تعزیت پر پیا جاتا تھا۔ سب لوگ جمع ہو گئے کہ ماں اور بیٹے کے لیے سوگواری کے گیت گا سکیں۔

اپنی تمام ہمت جمع کرتے ہوئے بوڑھی ماں جھولے سے اٹھی۔ اس نے بہتے اشکوں کے ساتھ جذباتی انداز میں اپنے بیٹے سے محبت اور اس کی موت کے بارے میں بتایا، پھر وہ تپانا سے بھرا ہوا پیالہ اپنے ہونٹوں کے قریب لائی اور کہا: ”کس نے میرے بیٹے کی زندگی کا چراغ گُل کیا؟ کون ہے وہ جس نے اسے سایوں کی وادیوں میں دھکیل دیا؟ ووُ ووُ وُو۔ تفُ تفُ تفُ ہو اس پر۔ دوستو اور عورتوں، تم سب ایک بوڑھی اور غریب عورت کے پاس آئے ہو، جو کچھ نہیں کر سکتی تم میں سے کون ہے جو اس کے قتل کا انتقام لے سکے؟“

یہ سنتے ہی دو آدمی آگے بڑھ آئے۔ انہوں نے اپنا پیالہ ایک گھونٹ میں خالی کر کے بلند کرتے ہوئے کہا ”مقتول کے لئے“ انہوں نے سوگواری کا گیت گاتے ہوئے انتقام لینے کا رقص کرنا شروع کر دیا۔ اسی وقت ایک اژدہے اور ایک چیتے کی روح وہاں آ گئی۔

کائے کوچی کے گاؤں میں بھی تپانا مشروب پینے کا تہوار جاری تھا، جہاں سینکڑوں انڈیانا، مرد، بچے عورتیں اکٹھے تھے۔ یہ سب تپانا پی کر بار بار نشے میں دھت ہوتے رہتے تھے۔ اچانک ان کے بیچ دو آدمی آن ٹپکے! ایک نے چیتے کی کھال اوڑھی ہوئی تھی دوسرے نے اژدہے کی۔ پلک جھپکتے میں انہوں نے بہت سے انڈیانوں کو مار ڈالا، بہت سے چیتے کی مار سے زخمی ہو گئے اور بہت سے اژدہے کے منہ سے نکلنے والی آگ سے جھلس گئے۔ کچھ انڈیان بے ہوش ہو گئے۔ کچھ دیر میں وہ ہوش میں آئے تو انہوں نے حملہ آوروں پر اپنے نیزوں سے حملہ کر دیا۔ جب ان دونوں حملہ آوروں کو نشانے پر رکھ لیا، تو انہوں نے کہا: ”دوستو، ہم ہتھیار ڈالتے ہیں۔ ہمیں بتانے کا موقع دیا جائے کہ یہ سب ہم نے کیوں کیا۔“ یہ سن کر لوگوں نے اپنے نیزے ان پر سے ہٹا لیے تا کہ وہ اپنی بات کہہ سکیں۔ ان لوگوں نے ماکونورا کی درد بھری داستان سنائی جس نے سب کو بہت متاثر کیا۔ جب وہ خاموش ہو گئے تو ایک بوڑھے پیایامان نے دخل انداز ہوتے ہوئے کہا: ”نوجوانوں تم نے اچھی گفتگو کی ہے، اب ہم سب تمہیں اپنا دوست سمجھتے ہیں۔“

اب جشن پہلے سے زیادہ پُرجوش ہو چکا تھا۔ آنے اناتُو جو ابھی تک صدمے سے باہر نہ آ سکی تھی، اس نے بھی جشن میں حصہ لیا۔ اسی دوران ایک جادوگر وہاں آ گیا، وہ مردہ اجسام کے پاس گیا، اس نے انہیں نیچے سے اوپر تک دیکھا۔ ان میں سے اس نے آنے اناتُو کی ماں کو پہچان لیا۔ وہ اس کی ہی تلاش میں تھا۔ وہ اس کے سامنے جھکا اور پھر کھڑے ہو کر کچھ گنگنانے لگا۔ کچھ ہی دیر میں مردہ ماں اچھل کر کھڑی ہو گئی، اس کے بال کھڑے ہو گئے، وہ خوفزدہ آنکھوں سے دیکھنے لگی۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں درندوں کا گیت گاتے اور ناچتے جاتی تھی۔ وہ اس وقت تک ناچتے رہی جب تک کہ اژدھے کی روح اس کے جسم میں حلول نہ کر گئی۔

اس دوران دوسرے گاؤں کے لوگ انتقام لینے کے عہد کے لیے تپانانوشی کا جشن منا رہے تھے۔ ماکونورا کی ماں تپانا کے نشے میں چوُر ہو کر جھولے میں سو چکی تھی، وہ اپنے آنجہانی بیٹے کو خواب میں دیکھ رہی تھی۔

دوسری طرف آنے اناتُو اچانک نمودار ہوئی۔ جب خوابناک حالت والی عورت نے اس کا نام لیا، تو وہ کچھ قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اس عورت نے کہا: ”آنے اناتُو تم ایک اچھی انسان ہو! بالکل اپنی ماں کی طرح۔ لیکن تم یہاں کیوں آئی ہو؟ میرا بیٹا جسے تم کھو چکی ہو اب وہ جا چکا ہے۔ میرا بیٹا ماکونورا تمہیں بہت چاہتا تھا، تم خوش قسمت ہو کیونکہ تمہیں قاتل کے خون سے نجات مل چکی ہے، تمہیں مکمل مکتی مل چکی ہے۔“

اس گفتگو سے اس کا وجود تذبذب کا شکار ہو چکا تھا۔ پیار کا احساس شدت اختیار کرتے ہوئے اس پر کچھ ذمہ داریوں کا تقاضا بھی کر رہا تھا، لیکن وہ خون سے نجات پا جانے والے الفاظ کی گہرائی میں جانے سے قاصر تھی۔ اس نے بوڑھی عورت پر چڑھ کر اس کی زہر بھری دراز زبان کو کھینچ کر زہر باہر نکال پھینکا۔ جب وہ اس کے اوپر بیٹھی ہی ہوئی تھی، تو اس نے کہا: ”وہ مگر مچھ جسے مچھلی کے جال میں مارا گیا تھا، وہ میرا بھائی تھا۔ جیسے میرا باپ مگرمچھ جیسے سر کا ہے وہ بھی ایسا ہی تھا۔ میرے باپ نے تمہارے آدمی کو آنکھوں کے بیچ تیر مار کر ایسے ہی قتل کیا جیسے اس کے بیٹے کو مارا گیا تھا۔ تیرے رشتہ داروں نے میرے قبیلے کو شکست دیدی ہے۔ میں بھی اس بات کو بھول سکتی، اگر میری ماں اس سانحے کو نظر انداز کر دیتی۔ ماکونورا اس تباہی کا ذمے دار تھا۔ وہ جو مجھے بہت عزیز تھا، مجھ سے چھین لیا گیا۔ میں اپنے پیارے کے انتقام کا حق واپس لیتی ہوں۔ اس لمحے ایک گھونگے میں چھپا کیکڑا جنگل کی جانب رینگ گیا، پھر کچھ ایسا ہوا جو کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ ہواؤں نے اچانک طوفان کی شکل اختیار کرلی، دیوقامت درختوں کی بھاری شاخیں گرنے لگیں، ان کی جڑیں اُکھڑنے لگیں۔ آہیدیلی کے علاقے کو سیاہ بادلوں نے ڈھانپ دیا، پراسرار بجلیاں چمکنے اور خوفزدہ گڑگڑاہٹ کے سلسلے شروع ہو گئے۔

دریاؤں میں عظیم طوفان آ گیا، وہ کناروں سے اسکیچ میں مرکزی کردار آنے انئتو آبشار سے چھلانگ لگا رہی ہے۔اُبل پڑے۔ جانور جو ایک دوسرے کے ساتھ امن و امان سے رہتے تھے ایک دوسرے کو چیر پھاڑنے لگے۔ سانپوں نے زہر کی پچکاریاں مارنا شروع کر دیں، مگر مچھوں نے اپنے ناقابل شکست جبڑوں سے ہر اس ذی روح کو چیرنا پھاڑنا شروع کر دیا جو ان کے قریب سے گزرتی تھی۔ چیتوں نے معصوم اگوتیوں کے گوشت کی چیر پھاڑ شروع کردی۔ آنے اناتُو جنگلی ہرنوں کے لشکر کے ساتھ بلا ارادہ چل پڑی۔ ایک موقع پر وہ ایک چٹان کے سرے پر پہنچی جہاں سے ایک آبشار نیچے گر رہا تھا۔ یہاں آ کر اس کا سفر رُک گیا۔ آبشار کے سرے پر آ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کر کے گہرے پانی میں چھلانگ لگادی۔ پانیوں نے پہلے اسے اپنی گہرائی میں سمویا پھر اسے سطح پر لے آئے۔ اسے ایک بھنور کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔

وہ ایک اجنبی کے طور پر آبشار کی آغوش میں آ گئی تھی۔ ایک اجنبی آبشار کے پاس آیا، اس کرائب نے کہا کہ اس کا نام نہ لیا جائے۔ تم اب دوبارہ زندہ نہ ہونے کے لئے مر چکی ہو۔ اب اس آبشار کی تہہ میں ماکونورا اور آنے اناتُو ایک خوبصورت محل میں پُر سکون زندگی گزار رہے ہیں، پانی کی روح کے محل میں۔

ڈچ الفاظ کے معنی اور تلفظ:


پیائی مان Piaiman : نشہ آور بوٹیوں کو استعمال کر کے رقص کرنے کے بعد وجد میں آ کر پیش گوئی کرنے والا شخص۔

کوریال korjaal: وہ کشتی جو درخت کے تنے کو کھود کر بنائی جاتی تھی۔
کساوا : ایک اروی جیسی جڑ جسے سکھا کر اس کے آٹے سے روٹی بھی بنائی جاتی ہے۔
کالے باسن kalebaasen : کھوکھلے کدّو سے بنے پیالے۔
کرائب Caraib: ایک قدیم امریکن قبیلہ
اگوایتی Agoeti: خرگوش جیسا ایک جانور

—♦—

مصنف کے بارے:


صفدر زیدی (1968) کراچی، حالیہ سکونت دا ہیگ ، ہالینڈ ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم پاکستان میں حاصل کی ہالینڈ ہجرت کے بعد انہوں نے ڈچ زبان کے ساتھ وہاں زراعت کی تعلیم بھی حاصل کی۔ ” بھاگ بھری “ ان کا دوسرا ناول ہے جو 2018 میں ” عکس پبلشرز“نے لاہور، پاکستان سے شائع کیا تھا۔ ان کا پہلا ناول ”  چینی جو میٹھی نہ تھی“  2016 میں فیصل آباد سے مثال پبلشرز نے شائع کیا تھا۔ اس ناول کا ولندیزی ترجمہ پہلے ہی 2013 میں ہالینڈ اور سرینام میں شائع ہوگیاتھا۔ اب یہ ناول سرینام میں ہائی اسکول کے نصاب کا حصہ ہے کیونکہ یہ ناول برطانوی ہندوستان سے سرینام کو ہندوستانی مزدوروں کی فراہمی کی تاریخ ( 1873-1916) پر لکھا گیا تھا۔ان کا حالیہ ناول ” بنت داہر“حال ہی پاکستان اور انڈیا سے اردو اور سندھی میں شائع ہوچکا ہے۔

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

RelatedPosts

فنون و ادب

اے شریف انسانو! – ساحر لدھیانویؔ

اپریل 18, 2024
0
فنون و ادب

چمن لال چمنؔ:حیات و جمالیات کا شاعر! – تحریر: ممتاز احمد آرزوؔ

اپریل 3, 2024
0
مضامین

شِو کمار بٹالویؔ: پنجابی دا کیٹسؔ تے ساحرؔ ! – تحریر:ممتاز احمد آرزوؔ

مارچ 15, 2024
0
مضامین

فیض احمد فیضؔ: جبر واستحصال اور سامراجی بربریت کے خلاف مزاحمت کا علمبردار! – تحریر: پرویز فتح

مارچ 15, 2024
0
مضامین

مجرُوح سلطانپوریؔ: بُلند آہنگ انقلابی شاعر! – تحریر: ممتاز احمد آرزوؔ

مارچ 13, 2024
0
">
ADVERTISEMENT
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

اے شریف انسانو! – ساحر لدھیانویؔ

by للکار نیوز
اپریل 18, 2024
0
0

خون اپنا ہو یا پرایا ہو نسل آدم کا خون ہے آخر جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں امن...

چمن لال چمنؔ:حیات و جمالیات کا شاعر! – تحریر: ممتاز احمد آرزوؔ

by للکار نیوز
اپریل 3, 2024
0
0

دوستو آج ہم ایک ایسے شاعر کو یاد کرنے جارہیے ہیں جنہوں نے جمالیات کو اپنا موضوعِ سُخن بنایا اور...

شِو کمار بٹالویؔ: پنجابی دا کیٹسؔ تے ساحرؔ ! – تحریر:ممتاز احمد آرزوؔ

by للکار نیوز
مارچ 15, 2024
2
0

گو کہ پنجابی میری مادری زبان نہیں لیکن میں پنجابی پہاڑی پوٹھواری ہندکو ڈوگری اور کڑوالی سمیت سرائیکی زبان میں...

فیض احمد فیضؔ: جبر واستحصال اور سامراجی بربریت کے خلاف مزاحمت کا علمبردار! – تحریر: پرویز فتح

by للکار نیوز
مارچ 15, 2024
0
0

یونہی ہمیشہ اُلجھتی رہی ہے ظُلم سے خلق نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی رِ یت نئی یونہی...

مجرُوح سلطانپوریؔ: بُلند آہنگ انقلابی شاعر! – تحریر: ممتاز احمد آرزوؔ

by للکار نیوز
مارچ 13, 2024
0
0

جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلےجو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے مجروح سلطانپوریؔ جن کا اصل...

مارکسی جمالیات اور انقلابی جدوجہد! -تحریر: ممتاز احمد آرزوؔ

by للکار نیوز
مارچ 10, 2024
4
0

مارکسی نظریات اور خیالات کو ایک مدت سے مارکس کی جمالیات سے نکال کر پیش کیا جارہا ہے، جس کا...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.