ہوش سنبھالا تو پنجابی کے صوفی شعراے علاوہ مختلف بک اسٹالوں پر پنجابی کی چار کتابیں ہی نظر آئیں ۔ پروفیسر موہن سنگھ کی ‘ ساوے پتر’ امرتا پریتم کی ‘نویں رُت’ درشن سنگھ آوارہ کی ‘بغاوت’ اور احمد راہی کی ‘ترنجن’ ۔ گوکہ احمد راہی کے نام سے ہم اُن کے فلمی گانوں کی وجہ سے ہوش سنبھالتے ہی واقف ہو چکے تھے اور فلم ’بنجارن‘ کا لکھا ہوا گیت
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
ہمارا پسندیدہ ترین گیت تھا۔ جب پنجابی لکھنے کی طرف مزید متوجہ ہوئے تو یہ شوق بھی پیدا ہوا کہ پنجابی کے اہم لکھنے والوں سے ملا جائے، مگر جہاں کے ہم رہنے والے تھے وہ مرکزی شہروں سے تو کیا خود اپنے شہر (اٹک) سے بھی کافی دور تھا۔
وقت اپنی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے ہمیں کراچی لایا تو یہ فائدہ ہوا کہ پنجاب کے جن علاقوں میں وہاں رہتے ہوئے بھی نہ جا سکے وہاں جانے کا بھی اتفاق ہوا اور وہاں رہنے والے جن اہم لکھاریوں سے ملاقات نہ ہو سکی اُن سے بھی سے مل لیے، لیکن اُس سے پہلے احمد راہی کی پنجابی شاعری سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے ، جس کا ذریعہ اُس دور میں بننے والی پنجابی فلمیں تھیں اور احمد راہی کے لکھے ہوئے گیت ان فلموں کا اہم جزو تھے ۔ اُس زمانے میں سینما پر نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلموں کے اشتہارات اخبارات کے رنگین صفحات پر اتنے پرکشش انداز سے چھاپے جاتے کہ فلم بینوں کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے لیتے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
RelatedPosts
ہوش سنبھالا تو پنجابی کے صوفی شعراے علاوہ مختلف بک اسٹالوں پر پنجابی کی چار کتابیں ہی نظر آئیں ۔ پروفیسر موہن سنگھ کی ‘ ساوے پتر’ امرتا پریتم کی ‘نویں رُت’ درشن سنگھ آوارہ کی ‘بغاوت’ اور احمد راہی کی ‘ترنجن’ ۔ گوکہ احمد راہی کے نام سے ہم اُن کے فلمی گانوں کی وجہ سے ہوش سنبھالتے ہی واقف ہو چکے تھے اور فلم ’بنجارن‘ کا لکھا ہوا گیت
بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے
ہمارا پسندیدہ ترین گیت تھا۔ جب پنجابی لکھنے کی طرف مزید متوجہ ہوئے تو یہ شوق بھی پیدا ہوا کہ پنجابی کے اہم لکھنے والوں سے ملا جائے، مگر جہاں کے ہم رہنے والے تھے وہ مرکزی شہروں سے تو کیا خود اپنے شہر (اٹک) سے بھی کافی دور تھا۔
وقت اپنی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے ہمیں کراچی لایا تو یہ فائدہ ہوا کہ پنجاب کے جن علاقوں میں وہاں رہتے ہوئے بھی نہ جا سکے وہاں جانے کا بھی اتفاق ہوا اور وہاں رہنے والے جن اہم لکھاریوں سے ملاقات نہ ہو سکی اُن سے بھی سے مل لیے، لیکن اُس سے پہلے احمد راہی کی پنجابی شاعری سے اچھی طرح واقف ہو چکے تھے ، جس کا ذریعہ اُس دور میں بننے والی پنجابی فلمیں تھیں اور احمد راہی کے لکھے ہوئے گیت ان فلموں کا اہم جزو تھے ۔ اُس زمانے میں سینما پر نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلموں کے اشتہارات اخبارات کے رنگین صفحات پر اتنے پرکشش انداز سے چھاپے جاتے کہ فلم بینوں کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے لیتے۔