پاکستان میں عام انتخاب کا دور دورہ ہے، حکمران طبقے کی سیاسی جماعتیں اپنے روایتی انداز میں حصولِ اقتدار کی رسہ کشی میں اپنی اپنی انتخابی مہم میں مگن ہیں۔ اور 8 فروری کو پاکستانی ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے نئے آئندہ 5 سال کے لیے ”حکمرانوں کا انتخاب“ کریں گے۔ لیکن انتخابی عمل کی جو صورت ِحال انہی حکمران جماعتوں کی جانب سے بنا دی گئی ہے وہ یہ کہ پاکستان سے درمیانے طبقے کے افراد کے لئے بھی ان کے مدِ مقابل الیکشن مہم چلا پانا عملاً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
حکمران اشرافیہ کی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن)، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور ان کی حلیف دیگر مذہبی و سیاسی جماعتیں جو کسی بھی طرح سے اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں، انہوں نے جاگیرادار، سرمایہ دار، وڈیروں اور سیاسی پیروں کو بطور اُمیدواران میدان میں اُتارا ہے۔ حکمران اشرافیہ کی تمام سیاسی جماعتوں کے یہ اُمیدواران اپنے اپنے حلقوں میں اپنی دولت اور سماجی کنٹرول کے باعث خاصہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ انتخابی عمل میں پیسے کے بے دریغ استعمال نے انتخابات کو محض دولتمندوں تک ہی محدود کر دیا ہے۔
ان تمام مساعد حالات کے باوجود بھی پاکستان کے بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے اشرافیہ کے ان ارب پتی اُمیدواروں کے مقابلے میں مڈل کلاس اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے مجموعی طور پر 45 سے اُمیدوار میدان میں اُتارے ہیں۔
اُمیداواروں کے تناسب سے برابری پارٹی پاکستان بائیں بازو کی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے۔ برابری پارٹی کے چیئرمین جواد احمد اس الیکشن میں خود اُمیدوار نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی پارٹی کے نوجوان اُمیدواروں کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ برابری پارٹی پاکستان نے بہت ہی قلیل عرصے میں ملک کے سیاسی منظر نامے پر مڈل کلاس اور محنت کشوں کی متبادل سیاست کی گہری چھاپ بنائی ہے۔ اور برابری پارٹی کے31 اُمیدوار چاروں صوبوں سے میدان میں ہیں۔ان میں سے دو خواتین اُمیدوار بھی شیخوپورہ اور کوٹ ادو سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
برابری پارٹی پاکستان کا انتخابی نشان قلم ہے۔
برابری پارٹی پاکستان کے اُمیدوار اور ان کے حلقۂ انتخاب
قومی اسمبلی
عابد وزیرحلقہ این اے 36ہنگو
مظہر جعفر حلقہ این اے 234 کراچی
انیس رضا نقوی ایڈووکیٹ حلقہ این اے 60جہلم
وقاص احمد حلقہ این اے 93چنیوٹ پنجاب
محمد فہد حلقہ این اے 65گجرات، پنجاب
نثار احمد خٹک حلقہ این اے 34نوشہرہ، خیبر پختونخوا
محمد اجمل صدیقی حلقہ این اے 106ٹوبہ ٹیک سنگھ، پنجاب
صوبائی اسمبلی (پنجاب)
مزمل حسین حلقہ پی پی 167لاہور
مدثر احمد حلقہ پی پی 74سرگودھا
ارسلان احمد پی پی 72سرگودھا
نعیم اخلاق حلقہ پی پی 220ملتان
محمد توفیق حلقہ پی پی 152لاہور
عامر شہزاد حلقہ پی پی 143شیخوپورہ
وسیم رانا حلقہ پی پی 44سیالکوٹ
معظم عمران حلقہ پی پی 97چنیوٹ
شازیہ دلدار حلقہ پی پی 140شیخوپورہ
رقیہ بی بی حلقہ پی پی 277کوٹ اَدو
بلال حسین حلقہ پی پی 33گجرات
محمد علی حلقہ پی پی 261رحیم یار خان
حافظ سجاد احمد حلقہ پی پی 151لاہور
حسام جاوید حلقہ پی پی 151جہلم
محمد اشفاق حلقہ پی پی 234وہاڑی
صوبائی اسمبلی (خیبرپختونخوا)
سعید رحیم حلقہ پی کے 28شانگلہ
نثار احمد خٹک حلقہ پی کے 87نوشہرہ
محمد اعزاز علی خان حلقہ پی کے 17لوئر دیر
رحمان گل حلقہ پی کے 23مالاکنڈ
مظہر عالم حلقہ پی کے 73پشاور
صوبائی اسمبلی (سندھ)
جمشید اقبال حلقہ پی ایس 86ملیر کراچی
محمد مظہر جعفر حلقہ پی ایس 94کراچی کورنگی
صوبائی اسمبلی(بلوچستان)
میر گہرام خان مری حلقہ پی بی 09کوہلو
دوسرے نمبر پر عوامی ورکرز پارٹی ہے جس کے 10 اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کا انتخابی نشان بلب ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے اُمیدوار اور ان کے حلقۂ انتخاب
قومی اسمبلی
عثمان غنی حلقہ این اے 10 بونیر کے پی
باہیر روم حلقہ این اے 11شانگلہ کے پی
محمد اقبال خان حلقہ این اے 47اسلام آباد
صوبائی اسمبلی
صابر خان حلقہ پی کے25بونیر کے پی
محمود سلیمان حلقہ پی کے26بونیر کے پی
علی محمد حلقہ پی کے 27بونیر کے پی
نصر اللہ خان حلقہ پی کے 29شانگلہ کے پی
ممتاز احمد حلقہ پی پی 211خانیوال، پنجاب
سینگر علی حلقہ پی ایس 17نصیر آباد،سندھ
بیگم خاتون حلقہ پی ایس 04کشمور، سندھ
عوامی ورکرز پارٹی کے اُمیدوار وں میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ کمی واقع ہوئی ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں عوامی ورکرز پارٹی کے 17 اُمیدوار میدان میں تھے۔
حقوقِ خلق پارٹی کے تین اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
حقوقِ خلق پارٹی کا انتخابی نشان لاؤڈ سپیکر ہے۔
ابتدائی طور پر حقوقِ خلق پارٹی کے دو اُمیدوار ہی میدان میں تھے جبکہ تیسرے اُمیدوار بائیں بازو کے سابق راہنما اور صحافی امتیاز عالم تحریکِ انصاف کو انتخابی نشان الاٹ نہ ہونے کی وجہ سے حقوقِ خلق پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
امتیاز عالم اپنی انتخابی کیمپین میں اپنی ذات کا بھی بھرپور پرچار کر رہے ہیں۔ وہ سید امتیاز عالم گیلانی کے نام سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
اسی طرح حقوقِ خلق پارٹی کے راہنما عمار علی جان نے بھی اپنی انتخابی مہم میں اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات کا اضافہ لگایا ہوا ہے اور وہ اپنی تشہیری مہم ڈاکٹر عمار علی جان سندھو کے نام سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حقوقِ خلق پارٹی کے اُمیدوار اور ان کے حلقۂ انتخاب
قومی اسمبلی
مزمل کاکڑحلقہ این اے127لاہور
سید امتیاز عالم گیلانی حلقہ این اے161بہاولنگر، پنجاب
صوبائی اسمبلی
ڈاکٹر عمار علی جان سندھو حلقہ پی پی 160چونگی امر سدھو لاہور، پنجاب
امتیاز عالم اور عمار علی جان دونوں دوستوں نے پہلے کبھی بھی اپنے ناموں کے ساتھ اپنی ذات/ برادری کی نسبت نہیں لگائی۔ بلکہ بہت سے دوستوں کو تو ان کی انتخابی تشہیر سے اس کا علم ہواہے۔ عام طور پر تو ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگ اپنی برادری کی سپورٹ لینے کے لئے اپنی ذات کو اپنے ناموں کے آگے لگاتے ہیں، مگر یہ عمل اُس وقت عجیب لگتا ہے کہ جب پہلے کوئی اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات نہ لکھتا ہو اور انتخابی عمل میں چند ووٹ زیادہ ملنے کی اُمید میں ایسا کرگزرے۔
یہ عمل اُن لوگوں کی طرف سے کیا جائے جو کہ سماج کو طبقاتی بنیادوں پر پولرائز کرنے کے دعویدار ہیں تو پھر یہ اور بھی عجیب ہو جاتا ہے۔ کہ آپ سماج کو طبقاتی بنیادوں پر پولرائز کرنے کے بجائے ذات برادری کی بنیاد پر پولرائز کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔
مزدور کسان پارٹی جو خیبر پختونخوا سے انتخابات میں حصہ لیتے آئی ہے، حشت نگر کی کسان تحریک کی بدولت علاقے میں مزدور کسان پارٹی کی اچھی عوامی حمایت بھی موجود ہے۔ ان انتخابات میں بطور پارٹی حصہ لیتے نظر نہیں آئی جبکہ مزدور کسان پارٹی کے راہنما سالار فیاض علی حلقہ پی کے 62خیبر پختونخوا سے انتخابی نشان’پلنگ‘ پر بطور آزاد اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم مزدور کسان پارٹی کے بینر تلے ہی چلائی جا رہی ہے۔
پاکستان کی اشرافیہ کے اُمیدواروں کے مقابلے میں بائیں بازو کے یہ اُمیدوار عوامی حقوق کی بے لوث جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس ملک کے 99 فیصد محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں، خواتین، اقلیتوں اور دیگر مظلوم سماجی پرتوں کے حقوق کی جنگ لڑتے آئے ہیں۔ موجودہ انتخابات میں 45 اُمیدواروں کے ساتھ بائیں بازو نے مجموعی طور پر قومی منظر نامے پر اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ اور اشرافیہ کے ارب پتی اُمیدواروں کے مدِ مقابل اس ملک کے عام لوگوں کو کھڑا کرنے کی سعی کرتے ہوئے سیاسی عمل کے اشرافیہ کی لونڈی بن کر رہ جانے کو بھی للکارا ہے۔
پاکستان بھر میں جس جس حلقے سے بائیں بازو کی جماعتوں کے اُمیدوار حصہ لے رہے ہیں،انہیں ووٹ دیجئے، ان کی حمایت کیجئے، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو سیاست کو اشرافیہ کی اقتدار کے لیے آپسی بندر کی بجائے عوامی مسائل کے حل کی جانب موڑ سکتے ہیں۔ اور پاکستان کے 99 فیصد استحصال زدہ عوام کے دکھوں، تکلیفوں اور اذیتوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔
—♦—
Comments 4
جواب دیں جواب منسوخ کریں
پاکستان میں عام انتخاب کا دور دورہ ہے، حکمران طبقے کی سیاسی جماعتیں اپنے روایتی انداز میں حصولِ اقتدار کی رسہ کشی میں اپنی اپنی انتخابی مہم میں مگن ہیں۔ اور 8 فروری کو پاکستانی ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرتے ہوئے نئے آئندہ 5 سال کے لیے ”حکمرانوں کا انتخاب“ کریں گے۔ لیکن انتخابی عمل کی جو صورت ِحال انہی حکمران جماعتوں کی جانب سے بنا دی گئی ہے وہ یہ کہ پاکستان سے درمیانے طبقے کے افراد کے لئے بھی ان کے مدِ مقابل الیکشن مہم چلا پانا عملاً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
حکمران اشرافیہ کی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن)، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی اور ان کی حلیف دیگر مذہبی و سیاسی جماعتیں جو کسی بھی طرح سے اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہیں، انہوں نے جاگیرادار، سرمایہ دار، وڈیروں اور سیاسی پیروں کو بطور اُمیدواران میدان میں اُتارا ہے۔ حکمران اشرافیہ کی تمام سیاسی جماعتوں کے یہ اُمیدواران اپنے اپنے حلقوں میں اپنی دولت اور سماجی کنٹرول کے باعث خاصہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ انتخابی عمل میں پیسے کے بے دریغ استعمال نے انتخابات کو محض دولتمندوں تک ہی محدود کر دیا ہے۔
ان تمام مساعد حالات کے باوجود بھی پاکستان کے بائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے اشرافیہ کے ان ارب پتی اُمیدواروں کے مقابلے میں مڈل کلاس اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے مجموعی طور پر 45 سے اُمیدوار میدان میں اُتارے ہیں۔
اُمیداواروں کے تناسب سے برابری پارٹی پاکستان بائیں بازو کی سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری ہے۔ برابری پارٹی کے چیئرمین جواد احمد اس الیکشن میں خود اُمیدوار نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی پارٹی کے نوجوان اُمیدواروں کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ برابری پارٹی پاکستان نے بہت ہی قلیل عرصے میں ملک کے سیاسی منظر نامے پر مڈل کلاس اور محنت کشوں کی متبادل سیاست کی گہری چھاپ بنائی ہے۔ اور برابری پارٹی کے31 اُمیدوار چاروں صوبوں سے میدان میں ہیں۔ان میں سے دو خواتین اُمیدوار بھی شیخوپورہ اور کوٹ ادو سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
برابری پارٹی پاکستان کا انتخابی نشان قلم ہے۔
برابری پارٹی پاکستان کے اُمیدوار اور ان کے حلقۂ انتخاب
قومی اسمبلی
عابد وزیرحلقہ این اے 36ہنگو
مظہر جعفر حلقہ این اے 234 کراچی
انیس رضا نقوی ایڈووکیٹ حلقہ این اے 60جہلم
وقاص احمد حلقہ این اے 93چنیوٹ پنجاب
محمد فہد حلقہ این اے 65گجرات، پنجاب
نثار احمد خٹک حلقہ این اے 34نوشہرہ، خیبر پختونخوا
محمد اجمل صدیقی حلقہ این اے 106ٹوبہ ٹیک سنگھ، پنجاب
صوبائی اسمبلی (پنجاب)
مزمل حسین حلقہ پی پی 167لاہور
مدثر احمد حلقہ پی پی 74سرگودھا
ارسلان احمد پی پی 72سرگودھا
نعیم اخلاق حلقہ پی پی 220ملتان
محمد توفیق حلقہ پی پی 152لاہور
عامر شہزاد حلقہ پی پی 143شیخوپورہ
وسیم رانا حلقہ پی پی 44سیالکوٹ
معظم عمران حلقہ پی پی 97چنیوٹ
شازیہ دلدار حلقہ پی پی 140شیخوپورہ
رقیہ بی بی حلقہ پی پی 277کوٹ اَدو
بلال حسین حلقہ پی پی 33گجرات
محمد علی حلقہ پی پی 261رحیم یار خان
حافظ سجاد احمد حلقہ پی پی 151لاہور
حسام جاوید حلقہ پی پی 151جہلم
محمد اشفاق حلقہ پی پی 234وہاڑی
صوبائی اسمبلی (خیبرپختونخوا)
سعید رحیم حلقہ پی کے 28شانگلہ
نثار احمد خٹک حلقہ پی کے 87نوشہرہ
محمد اعزاز علی خان حلقہ پی کے 17لوئر دیر
رحمان گل حلقہ پی کے 23مالاکنڈ
مظہر عالم حلقہ پی کے 73پشاور
صوبائی اسمبلی (سندھ)
جمشید اقبال حلقہ پی ایس 86ملیر کراچی
محمد مظہر جعفر حلقہ پی ایس 94کراچی کورنگی
صوبائی اسمبلی(بلوچستان)
میر گہرام خان مری حلقہ پی بی 09کوہلو
دوسرے نمبر پر عوامی ورکرز پارٹی ہے جس کے 10 اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کا انتخابی نشان بلب ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے اُمیدوار اور ان کے حلقۂ انتخاب
قومی اسمبلی
عثمان غنی حلقہ این اے 10 بونیر کے پی
باہیر روم حلقہ این اے 11شانگلہ کے پی
محمد اقبال خان حلقہ این اے 47اسلام آباد
صوبائی اسمبلی
صابر خان حلقہ پی کے25بونیر کے پی
محمود سلیمان حلقہ پی کے26بونیر کے پی
علی محمد حلقہ پی کے 27بونیر کے پی
نصر اللہ خان حلقہ پی کے 29شانگلہ کے پی
ممتاز احمد حلقہ پی پی 211خانیوال، پنجاب
سینگر علی حلقہ پی ایس 17نصیر آباد،سندھ
بیگم خاتون حلقہ پی ایس 04کشمور، سندھ
عوامی ورکرز پارٹی کے اُمیدوار وں میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ کمی واقع ہوئی ہے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں عوامی ورکرز پارٹی کے 17 اُمیدوار میدان میں تھے۔
حقوقِ خلق پارٹی کے تین اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
حقوقِ خلق پارٹی کا انتخابی نشان لاؤڈ سپیکر ہے۔
ابتدائی طور پر حقوقِ خلق پارٹی کے دو اُمیدوار ہی میدان میں تھے جبکہ تیسرے اُمیدوار بائیں بازو کے سابق راہنما اور صحافی امتیاز عالم تحریکِ انصاف کو انتخابی نشان الاٹ نہ ہونے کی وجہ سے حقوقِ خلق پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
امتیاز عالم اپنی انتخابی کیمپین میں اپنی ذات کا بھی بھرپور پرچار کر رہے ہیں۔ وہ سید امتیاز عالم گیلانی کے نام سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
اسی طرح حقوقِ خلق پارٹی کے راہنما عمار علی جان نے بھی اپنی انتخابی مہم میں اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات کا اضافہ لگایا ہوا ہے اور وہ اپنی تشہیری مہم ڈاکٹر عمار علی جان سندھو کے نام سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حقوقِ خلق پارٹی کے اُمیدوار اور ان کے حلقۂ انتخاب
قومی اسمبلی
مزمل کاکڑحلقہ این اے127لاہور
سید امتیاز عالم گیلانی حلقہ این اے161بہاولنگر، پنجاب
صوبائی اسمبلی
ڈاکٹر عمار علی جان سندھو حلقہ پی پی 160چونگی امر سدھو لاہور، پنجاب
امتیاز عالم اور عمار علی جان دونوں دوستوں نے پہلے کبھی بھی اپنے ناموں کے ساتھ اپنی ذات/ برادری کی نسبت نہیں لگائی۔ بلکہ بہت سے دوستوں کو تو ان کی انتخابی تشہیر سے اس کا علم ہواہے۔ عام طور پر تو ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگ اپنی برادری کی سپورٹ لینے کے لئے اپنی ذات کو اپنے ناموں کے آگے لگاتے ہیں، مگر یہ عمل اُس وقت عجیب لگتا ہے کہ جب پہلے کوئی اپنے نام کے ساتھ اپنی ذات نہ لکھتا ہو اور انتخابی عمل میں چند ووٹ زیادہ ملنے کی اُمید میں ایسا کرگزرے۔
یہ عمل اُن لوگوں کی طرف سے کیا جائے جو کہ سماج کو طبقاتی بنیادوں پر پولرائز کرنے کے دعویدار ہیں تو پھر یہ اور بھی عجیب ہو جاتا ہے۔ کہ آپ سماج کو طبقاتی بنیادوں پر پولرائز کرنے کے بجائے ذات برادری کی بنیاد پر پولرائز کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔
مزدور کسان پارٹی جو خیبر پختونخوا سے انتخابات میں حصہ لیتے آئی ہے، حشت نگر کی کسان تحریک کی بدولت علاقے میں مزدور کسان پارٹی کی اچھی عوامی حمایت بھی موجود ہے۔ ان انتخابات میں بطور پارٹی حصہ لیتے نظر نہیں آئی جبکہ مزدور کسان پارٹی کے راہنما سالار فیاض علی حلقہ پی کے 62خیبر پختونخوا سے انتخابی نشان’پلنگ‘ پر بطور آزاد اُمیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کی انتخابی مہم مزدور کسان پارٹی کے بینر تلے ہی چلائی جا رہی ہے۔
پاکستان کی اشرافیہ کے اُمیدواروں کے مقابلے میں بائیں بازو کے یہ اُمیدوار عوامی حقوق کی بے لوث جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں۔ اس ملک کے 99 فیصد محنت کشوں، مزدوروں، کسانوں، خواتین، اقلیتوں اور دیگر مظلوم سماجی پرتوں کے حقوق کی جنگ لڑتے آئے ہیں۔ موجودہ انتخابات میں 45 اُمیدواروں کے ساتھ بائیں بازو نے مجموعی طور پر قومی منظر نامے پر اپنے وجود کا احساس دلایا ہے۔ اور اشرافیہ کے ارب پتی اُمیدواروں کے مدِ مقابل اس ملک کے عام لوگوں کو کھڑا کرنے کی سعی کرتے ہوئے سیاسی عمل کے اشرافیہ کی لونڈی بن کر رہ جانے کو بھی للکارا ہے۔
پاکستان بھر میں جس جس حلقے سے بائیں بازو کی جماعتوں کے اُمیدوار حصہ لے رہے ہیں،انہیں ووٹ دیجئے، ان کی حمایت کیجئے، کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو سیاست کو اشرافیہ کی اقتدار کے لیے آپسی بندر کی بجائے عوامی مسائل کے حل کی جانب موڑ سکتے ہیں۔ اور پاکستان کے 99 فیصد استحصال زدہ عوام کے دکھوں، تکلیفوں اور اذیتوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔
—♦—
Comments 4
-
Rahat Ali says:
Jageer daron sarmaya daron oar mafiyas k khilafa apney tabqe ko support Karen geoar Barabri party Pakistan ko vote den ge.
-
للکار نیوز says:
راحت علی صاحب۔ بالکل درست، برابری پارٹی کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے دیگر امیدوار بھی جن حلقوں سے الکشن لڑ رہے ہیں ان کی سپورٹ کریں۔
-
-
للکار نیوز says:
وعلیکم السلام، اگر آپ ہم سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو ویب سائیٹ کے اوپر سیاہ پٹی میں ہم سے رابطے کی تفصیلات درج ہیں۔
-
-
-
Jageer daron sarmaya daron oar mafiyas k khilafa apney tabqe ko support Karen geoar Barabri party Pakistan ko vote den ge.
راحت علی صاحب۔ بالکل درست، برابری پارٹی کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے دیگر امیدوار بھی جن حلقوں سے الکشن لڑ رہے ہیں ان کی سپورٹ کریں۔
A.O.A
وعلیکم السلام، اگر آپ ہم سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو ویب سائیٹ کے اوپر سیاہ پٹی میں ہم سے رابطے کی تفصیلات درج ہیں۔