ایک اچھے ادیب ‘ فکشن نگار کو اپنی تخلیقات میں جس قدر علامتوں‘ استعاروں اور ابہام کی ضرورت ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ اپنی ذاتی زندگی اپنے سماج ‘ نظریات اور آس پاس لوگوں کے بارے اپنے مؤقف میں واضحیت و شفافیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
یوں تو دنیا بھر میں بیشتر ادیب اس بارے مختلف آراء رکھتے ہیں اور اپنے تفَہم کو نظرانداز کرتے ہوئے کہیں کہیں راہیں بھی بدل لیتے ہیں۔ تاہم میرے نزدیک ہر دو دائروں میں واضح مؤقف ہی معانی کو مکمل کرتا ہے۔ اس کی بہترین مثال سارتر کی دی جاسکتی ہے’ جس نے اپنی تخلیقات ‘ ذاتی زندگی اور سیاسی اظہار میں لفاظی نہیں برتی بلکہ ہمیشہ سچ کا ساتھ دیا بھلے اس کی قیمت کتنی ہی مشکل بلکہ ناہموار کیوں نہ ادا کرنی پڑی ہو۔
یہی وجہ تھی کہ سارتر کی مسلسل تنقید پر ڈیگال کو کہنا پڑا کہ میں سارتر کو کیسے گرفتار کر سکتا ہوں سارتر فرانس ہے ۔ کیا میں فرانس کو گرفتار کرلوں؟
یہ مختصر سی تمہید اس لئے باندھی کہ گزشتہ دو تین دنوں میں ملک میں دو واقعات بہت سنگین نوعیت کے ہوئے ہیں۔
گو اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ خود ہی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی خامیاں تھی تاہم ہمارے عسکری و دیگر امن عامہ برقرار رکھنے والے ادارے ایسی دہشتگردی کے واقعات کا قلع قمع کرتے رہے ہیں لیکن اس بار واقعات کی سنگینی اسکی نوعیت اور اس کا پس منظر کچھ اور نظر آتا ہے۔
پہلا واقہ پسنی سے اورماڑہ جاتے ہوئے سکیورٹی فورسسز کے ایک کانوائے پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا ہے اور چودہ نوجوانوں کو زندگی سے محروم کر دیا گیا جبکہ بیشتر زخمی ہیں۔
دوسرا واقعہ گزشتہ رات یا آج صبح ائیر فورس کے میانوالی ٹریننگ ائیربیس پر دہشت گردوں کا حملہ ۔جسے عساکر پاکستان کے نوجوانوں نے ناکام بنا دیا اور اب تک کی اطلاع تک نو دہشت گرد موقع پر ہی مار دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کے نقصانات کا اندازہ بعد ازاں ہوگا۔
اخباری خبروں کے مطابق کلئیرنس اور کومبنگ آپریشن جاری ہے۔ اس سے پہلے پاکستان میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا لیکن میرا خیال ہے ضربِ عصب اور ردالفساد کے بعد ان واقعات پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اب ان حملوں میں اس قدر تیزی و شدت کیوں در آئی ہے۔ ہم نے کونسا کام ایسا کیا ہے جس کے ردعمل میں ایسے واقعات پے در پے ہونے لگے ہیں۔
میرے قارئین و مداح اور دوست سبھی جانتے ہیں کہ راقم ماضی بعید اور حال میں چند اُن لوگوں میں شامل رہا ہے جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی خارجہ و داخلہ پالیسی کا ناقد رہا ہے۔ سیاست و نظریات کے میدان میں میرا نقطہ نظر بالکل واضح رہا ہے۔
لیکن اس بار نئی انتظامیہ / نگران حکومت کے کچھ کام معاشی اور سماجی سمت میں اس قدر قابل تعریف ہیں کہ پاکستان ایک مربوط اصطلاحات کے تحت اپنے سفر کو درست سمت میں لے کر چل پڑا ہے۔ جسے کے نتیجے میں دشمن ایک بار پوری قوت سے میدان میں اترا ہے۔ وہ کام کیا ہیں؟
مثلاً
پاکستان سے تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کا انخلاء (اس ضمن میں 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد سنجیدہ اقدامات کی نوید و گواہی ۔ ورنہ عام طور ہمارے محکموں کی ڈیڈ لائن ایک بڑ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی)۔
گو آئی ایم ایف سے معاہدہ پچھلی حکومت نے کیا تاہم اس کے اہم نکات کی تکمیل اس نگران حکومت نے بطریق احسن کی۔ اگرچہ چند اقدامات بظاہر عوام دشمن لگے اور مہنگائی کی شرع بڑھی لیکن اگر سمت درست رہی اور غیر سنجیدگی کا عنصر شامل نہ رہا تو مہنگائی بھی نہیں رہے گی اور لامحالہ شرع سود نیچے لانی پڑے گی جو مستحکم معاشیات کی علامت ہوتی ہے۔
اس ضمن میں بارڈر منیجمنٹ اورسمگلنگ کی روک تھام جس سے ڈالر کی بیرون ملک غیر قانونی نکاسی بند ہوئی۔ خاص طور پر افغانستان اس غیر قانونی تجارت/ سمگلنگ اور ڈالر کی شرح نیچے آنے سے زد میں آیا اور روپیہ مستحکم ہوا۔ اس کا فوری نتیجہ سٹاک مارکیٹ کا مستحکم ہونا سامنے آیا۔ جہاں یہ سارے معاشی اقدامات اٹھائے گئے وہیں پر افغانستان سے ٹرانزٹ ٹریڈ پر اثر پڑا اور پاکستان میں غیر قانونی ٹرانزٹ اشیاء کی خرید و فروخت بند ہونے سے مجموعی طور افغانی سرپرستوں کا سرمایہ ڈوبا اور پاکستانی بزنس کا فروغ ہوا۔
کچے میں ڈاکووُں کا قلع قمع اور باڈر پار ٹی ٹی پی کو شدید زِک ۔
جنرل الیکشن کا 8 فروری 2024ء میں انعقاد کا اہتمام اور عدلیہ کے نئے چیف جسٹس کے کچھ نئے انتظامی اقدامات جس سے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔
ایسی سنورتی ہوئی معاشی اور سیاسی صورت حال اور استحکام ریجنل اور کچھ عالمی لیول پر ممالک کا ناپسندیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک دشمن طاقتیں ایک بار پھر نئی توانائی کے ساتھ ملک پر حملہ آور ہوئی ہیں۔
ایسی صورت میں میرا یہ خیال ہے کہ پاکستان کو اس وقت اہل علم و آگہی کی شدید ضرورت ہے۔
—♦—
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ 1952ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1975 میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں.