حُسن اپنے چاہے جانے کے اظہار کی ہمیشہ طلب رکھتا ہے۔ ورنہ بے معنی ہے۔ یہ طلب ہی وَصل کو محبوب کی خیرات بناتی ہے۔
حُسن پر بات کرنے سے قبل حُسن کی حد بندی یا باؤنڈری مقرر کر لیں اور طلب کی کیفیت سے کسی حد تک مانوسیت پا لیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں کہ؛
” حسن آواز میں ہو،یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاطِ باغ میں، حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔ افسوس اس محروم ازلی پر جس کے بے حِس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو!“
مولانا کے بیان نے حسن اور طلب کے درمیان باہمی رشتہ سے ہمیں ایک حد تک آگاہی فراہم کر دی ہے ۔ اب ہمارا کام صرف یہ رہ گیا ہے، بتا دیں کہ ہم جمالِ انسانی کی حد تک گفتگو کو محدود رکھیں گے۔
جو تیرے حسن کے فقیر ہوئے
ان کو تشویش روز گار کہاں ؟
درد بیچیں گے، گیت گائیں گے
اس سے خوش بخت روز گار کہاں ؟
ہم پہلے بھی کہیں لکھ چکے ہیں کہ انسان اور جانور صرف دو جبلتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بھوک دوسری reproduction یا اپ کہہ سکتے ہیں کہ اپنی نسل کی بڑھوتری ، سیکسوئل عمل Sexual act. ارتقائی اور تہذیبی سفر نے خاص طور پر انسان کی ان دونوں جبلتوں بھوک اور بالخصوص reproduction / sexual act سیکسوئل عمل میں بنیادی تبدیلیوں کو جنم دیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں میں ان کی مختلف اشکال اور معیارات بنتے چلے گئے۔ جانور اپنے reproduction cycle میں صرف ایک بار breeding کی غرض سے سیکس کرتا ہے، جب کہ انسان ( مرد اور عورت) کے لیئے بچہ پیدا کرنے کے علاوہ لذت کے حصول کا وسیلہ بھی بن گیا۔
یقیناً جانور کو بھی اس عمل سے لاشعوری جسمانی تسکین ملتی ہو گی۔ ملاپ کے عمل کے دوران جانور کی باڈی لینگویج اس بات کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے ۔ انسان کی شعوری لذت نے اس میں سیکس کرنے کی جبلی صلاحیت کو بڑھاوا دیا ۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے ، کہ ارتقائی اور تہذیبی سفر سے انسان میں سیکس سے لذت کے حصول کے پہلو سے مختلف شکلیں پیدا ہوتی چلی گئیں ۔ انہی اشکال نے حسن کو ایک اعلیٰ قدر کا مقام عطا کیا ۔ عشق اور حسن کے رشتہ ، آرزو یا طلب کو بھی جنم دیا ۔ اسی رشتہ نے انسان میں وصل اور ہجر کی کیفیات کو محسوس کروایا۔ انسان نے جانا کہ وصل کی ساعتیں کتنی ہی طویل ہوں، محدود ہوتی ہیں ۔ ہجر لا محدود ہوتا ہے ۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
موضوع پر گفتگو ہم اپنے ہی معاشرتی پس منظر میں رہتے ہوئے کریں گے ۔ ہم جاگیردارانہ معاشرے کے باسی ہیں۔
جاگیردارانہ اور صنعتی معاشروں کی محبتوں کی نوعیت ، شکلیں مختلف ہوتی ہیں ۔ ہیر رانجھا زرعی معاشروں کی ہی تخلیق ہو سکتی ہے ۔ صنعتی معاشروں میں حسن کی طرف لپک یا چاہت تو ہوتی ہے ۔ صنعتی معاشرہ لیلیٰ مجنوں، سوہنی مہینوال یا صاحباں اور مرزا جٹ جیسی محبت بھری کہانیوں کی تخلیق کا تقاضا نہیں کرتا ۔
ہمارے ہاں ان کہانیوں کے بارے بہت سی myth پائی جاتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی کہانیاں تخیل کا شاہکار ہوتی ہیں ۔ کوئی بھاگ بھری نہیں ہوتی ۔ ہیر رانجھا چار مختلف لوگوں نے لکھی ۔ اس کو اَمر وارث شاہ کے اعلیٰ و عرفہ تخیل نے بخشا ۔
حُسن ازخود حقیقت اور دلیل ہے ۔ حُسن کی سب سے بڑی دلیل کشش ہے ۔ کوئی حُسن ایسا نہیں جو کشش نہ رکھتا ہو ۔ کشش، طلب یا آرزو کی دلیل حُسن خود ہے ۔ حُسن کی عدم موجودگی میں عاشق پیدا ہی نہیں ہو سکتا ۔ ایک اور اضافہ بھی کرتے چلیں۔ حُسن کے بیان میں مبالغہ نہ ہونا بیان کی خامی اور کمزوری تصور ہوتی ہے ۔مبالغہ بیان میں خوبصورتی اور اُٹھان پیدا کرتا ہے ۔ مبالغہ عشق کا دوسرا نام ہے ۔ عشق صرف انسانی صفت ہے۔
حُسن عشق کی کیفیت ، احساس اور رشتہ نے انسان کے اشرف ا لمخلوقات ہونے میں کردار ادا کیا ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
حُسن اپنے چاہے جانے کے اظہار کی ہمیشہ طلب رکھتا ہے۔ ورنہ بے معنی ہے۔ یہ طلب ہی وَصل کو محبوب کی خیرات بناتی ہے۔
حُسن پر بات کرنے سے قبل حُسن کی حد بندی یا باؤنڈری مقرر کر لیں اور طلب کی کیفیت سے کسی حد تک مانوسیت پا لیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں کہ؛
” حسن آواز میں ہو،یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاطِ باغ میں، حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔ افسوس اس محروم ازلی پر جس کے بے حِس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو!“
مولانا کے بیان نے حسن اور طلب کے درمیان باہمی رشتہ سے ہمیں ایک حد تک آگاہی فراہم کر دی ہے ۔ اب ہمارا کام صرف یہ رہ گیا ہے، بتا دیں کہ ہم جمالِ انسانی کی حد تک گفتگو کو محدود رکھیں گے۔
جو تیرے حسن کے فقیر ہوئے
ان کو تشویش روز گار کہاں ؟
درد بیچیں گے، گیت گائیں گے
اس سے خوش بخت روز گار کہاں ؟
ہم پہلے بھی کہیں لکھ چکے ہیں کہ انسان اور جانور صرف دو جبلتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ ایک بھوک دوسری reproduction یا اپ کہہ سکتے ہیں کہ اپنی نسل کی بڑھوتری ، سیکسوئل عمل Sexual act. ارتقائی اور تہذیبی سفر نے خاص طور پر انسان کی ان دونوں جبلتوں بھوک اور بالخصوص reproduction / sexual act سیکسوئل عمل میں بنیادی تبدیلیوں کو جنم دیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں میں ان کی مختلف اشکال اور معیارات بنتے چلے گئے۔ جانور اپنے reproduction cycle میں صرف ایک بار breeding کی غرض سے سیکس کرتا ہے، جب کہ انسان ( مرد اور عورت) کے لیئے بچہ پیدا کرنے کے علاوہ لذت کے حصول کا وسیلہ بھی بن گیا۔
یقیناً جانور کو بھی اس عمل سے لاشعوری جسمانی تسکین ملتی ہو گی۔ ملاپ کے عمل کے دوران جانور کی باڈی لینگویج اس بات کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے ۔ انسان کی شعوری لذت نے اس میں سیکس کرنے کی جبلی صلاحیت کو بڑھاوا دیا ۔ جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے ، کہ ارتقائی اور تہذیبی سفر سے انسان میں سیکس سے لذت کے حصول کے پہلو سے مختلف شکلیں پیدا ہوتی چلی گئیں ۔ انہی اشکال نے حسن کو ایک اعلیٰ قدر کا مقام عطا کیا ۔ عشق اور حسن کے رشتہ ، آرزو یا طلب کو بھی جنم دیا ۔ اسی رشتہ نے انسان میں وصل اور ہجر کی کیفیات کو محسوس کروایا۔ انسان نے جانا کہ وصل کی ساعتیں کتنی ہی طویل ہوں، محدود ہوتی ہیں ۔ ہجر لا محدود ہوتا ہے ۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
موضوع پر گفتگو ہم اپنے ہی معاشرتی پس منظر میں رہتے ہوئے کریں گے ۔ ہم جاگیردارانہ معاشرے کے باسی ہیں۔
جاگیردارانہ اور صنعتی معاشروں کی محبتوں کی نوعیت ، شکلیں مختلف ہوتی ہیں ۔ ہیر رانجھا زرعی معاشروں کی ہی تخلیق ہو سکتی ہے ۔ صنعتی معاشروں میں حسن کی طرف لپک یا چاہت تو ہوتی ہے ۔ صنعتی معاشرہ لیلیٰ مجنوں، سوہنی مہینوال یا صاحباں اور مرزا جٹ جیسی محبت بھری کہانیوں کی تخلیق کا تقاضا نہیں کرتا ۔
ہمارے ہاں ان کہانیوں کے بارے بہت سی myth پائی جاتی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی کہانیاں تخیل کا شاہکار ہوتی ہیں ۔ کوئی بھاگ بھری نہیں ہوتی ۔ ہیر رانجھا چار مختلف لوگوں نے لکھی ۔ اس کو اَمر وارث شاہ کے اعلیٰ و عرفہ تخیل نے بخشا ۔
حُسن ازخود حقیقت اور دلیل ہے ۔ حُسن کی سب سے بڑی دلیل کشش ہے ۔ کوئی حُسن ایسا نہیں جو کشش نہ رکھتا ہو ۔ کشش، طلب یا آرزو کی دلیل حُسن خود ہے ۔ حُسن کی عدم موجودگی میں عاشق پیدا ہی نہیں ہو سکتا ۔ ایک اور اضافہ بھی کرتے چلیں۔ حُسن کے بیان میں مبالغہ نہ ہونا بیان کی خامی اور کمزوری تصور ہوتی ہے ۔مبالغہ بیان میں خوبصورتی اور اُٹھان پیدا کرتا ہے ۔ مبالغہ عشق کا دوسرا نام ہے ۔ عشق صرف انسانی صفت ہے۔
حُسن عشق کی کیفیت ، احساس اور رشتہ نے انسان کے اشرف ا لمخلوقات ہونے میں کردار ادا کیا ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
-
ندیم چاولہ says:
میں رانا صاحب کا بڑا معتقد ھوں ، شوق سے ان کی تحریروں کو پڑھتا ہوں اور مستفيد ہوتا ہوں ۔ ۔
حسن و عشق پر یہ مضمون ایک شاندار لکھت ہے ! ❤-
للکار نیوز says:
بہت شکریہ جناب ندیم چاولہ صاحب۔ آپ کی پسندیدگی کا شکریہ۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ قارئین تک معیاری مواد پہنچائیں۔ ادارہ للکار آپکی حوصلہ افزائی کے لئے شکر گزار ہے۔
-
میں رانا صاحب کا بڑا معتقد ھوں ، شوق سے ان کی تحریروں کو پڑھتا ہوں اور مستفيد ہوتا ہوں ۔ ۔
حسن و عشق پر یہ مضمون ایک شاندار لکھت ہے ! ❤
بہت شکریہ جناب ندیم چاولہ صاحب۔ آپ کی پسندیدگی کا شکریہ۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ قارئین تک معیاری مواد پہنچائیں۔ ادارہ للکار آپکی حوصلہ افزائی کے لئے شکر گزار ہے۔