پہاڑ شکست خوردہ نہیں ہو تے۔
چاہیے وہ پہاڑ پختونخوا کے ہوں۔
چاہے بلوچستان کے!
پہاڑ گالی کیا،گولی کیا، بارود کیا،
پر پہاڑ تو 52.Bکے زور دار میزائلوں کا وار برداشت کر کے بھی اپنی جگہ پر مضبوطی سے کھڑے رہتے ہیں۔
یہ پہاڑ ریزہ ریزہ تب ہو تے ہیں جب ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جا تی ہے۔
پر اس وقت بلوچستان کی پہاڑی سروں سے لے کر خیبر پختونخوا کی بلند و بالا چوٹیوں تک وہ سب پہاڑ اعتماد سے کھڑے ہیں۔
وہ پہاڑ بھی ایسی ہی شان سے اپنا سر بلند کیے ہوئے ہیں
جن پہاڑں کے بیچ سُرخ اناروں جیساPTMکا پہلا شہید دفن ہے۔
جہاں سرِ شام وہ بہن تازہ پھول رکھ آتی ہے
جس بہن نے اپنے بھائی کے ساتھ بہت سے سفر کیے
اور بہت سی کتابیں مل بیٹھ کر پڑھیں وہ پہاڑ بھی ویسی ہی شان سے موجود ہیں
جن پہاڑوں کے بیچ کسی زندان خانے میں کامریڈ بابا موجود ہے
اور وہ ہواؤں کے دوش پر اپنی پہاڑوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ،،
میرے پہاڑوں سے کہو!اور اُونچے رہیں!،،
تو ان پہاڑوں کا سر کیسے نیچے ہو سکتا ہے
جن پہاڑوں کے درمیاں ثناء اعجاز نے پہلی بار غالب کے اس شعر کا مطلب سمجھا تھا کہ ،،
کب وہ سُنتا ہے کہانی میری اور پھر وہ بھی زبانی میری!،،
ان پہاڑوں کا سر نیچے کیسے ہو سکتا ہے
جن پہاڑوں کے درمیاں علی وزیرنے پہلی بار اپنی بیبو کو کہا تھا کہ ،،
بندوق کی نالی سے نکلی گولی سے،
منہ سے نکلی گالی میں بہت درد ہوتا ہے
اور یہ لوگ میرے لوگوں کو پہلے گالی دیتے ہیں پھر گولی ما رتے ہیں!،،
ان پہاڑوں کا سر نیچے کیسے ہوسکتا ہے
جن پہاڑوں کے درمیاں بس اجتماعِ عیدین میں ہی لوگ جمع نہیں ہوئے۔
کاندھوں پر لیے جنازوں میں لوگ جمع نہیں ہو ئے۔
جرگوں میں کیے تماشوں میں لوگ نظر نہیں آئے۔
کوئی تماشہ دیکھنے کو ہجومِ یاراں جمع نہیں ہوا۔
کوئی رائے۔
کوئی فیصلہ۔
کوئی تصفیہ۔کے لیے لوگ جمع نہیں ہوئے۔
پر ان پہاڑوں نے دیکھا کہ لوگ اس بات پر بھی جمع ہو سکتے ہیں
کہ لوگوں کو یہ محسوس ہوکہ اس ریا ست میں جو کچھ ہو رہا ہے
وہ ان کا نصیب نہیں ہے پر یہ ریا ست خود اس خونی کھیل میں ملوث ہے۔
ان پہاڑوں کے درمیان بس تبلیغی اجتماعوں میں مولانا طارق جمیل کی روحانی آواز نہیں گونجی
جو سب کچھ کرواکے آخر میں ستر حوریں عنایت کردیتا ہے۔
پر ان پہاڑوں میں وہ آواز بھی گونجی ہے جو آواز نئی آواز ہے۔
جو آواز سُرخ پھیرے کی آواز ہے۔
جو آواز بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر تی ہے۔
جو آواز اس سوکالڈ معاشرے میں تبدیلی کی آواز ہے۔
جو آواز ٹھہرے ہوئے پانی میں پہلا پتھر ہے
جس پتھر نے خیبر سے کراچی تک بہت ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔
وہ آواز منظور پشتین کی آواز ہے!
اور لورالائی کے پہاڑوں سے لےکر
جنوبی وزیرستان کے پہاڑوں تک
سب پہاڑوں کے سر اُونچے ہیں
کیوں کہ پہاڑوں کا اعتماد اب بھی باقی ہے
کیوں ان پہاڑوں میں مذہبی پارٹیوں کے سیاہ پرچم ہی نہیں لہرائے
پر ان پہاڑوں میں نئی صبح کی اُمید جیسا
PTMکا سُرخ پرچم بھی لہرا رہا ہے
جو سب کو یہ بتا رہا ہے
کہ اُمید سحر کی بات سنو
اور اُمید سحر منظور پشتین ہے!
ان پہاڑوں نے لوگوں کا وہ ہجوم نہیں دیکھا
جو غلیظ ہونے کے باجود معصوم بچیوں کو سنگسار کرتے تماشے کو دیکھنے آتے تھے
پر ان پہاڑوں نے ان لوگوں کا ہجوم بھی دیکھا
جو نئی صبح کا نیا گیت گانے ان پہاڑوں کے درمیان موجود ہو تے تھے
اور وہ بھی کوئی ایک دو نہیں پر ہزاروں!
ہم جانتے ہیں کہ ریاست نے اپنے چو تھے ستون کو پابند کیا ہوا ہے
کہ وہ PTMکے نئے طلوع ہو تے سورج کو نہ دکھائے۔
پر کیا کوئی سورج کی کرنوں کو روک پایا ہے؟
کیا کسی کے ہاتھوں میں سورج کی کرنیں سما سکتی ہیں؟
ریاست کیمروں کے در بند کر سکتی ہے
پر دلوں کے در کون بند کرے گا
جہاں وہ ترانے در آتے ہیں
پھر چاہیے وہ ترانے کراچی کے میدانوں میں بج رہے ہوں۔
چاہیے لاہور کے پارکوں میں۔
چاہیے بلوچستان کے پہاڑوں میں۔
چاہیے خیبر پختونخوا کے نوجوانوں کے دلوں میں۔
چاہیے ان چوٹیوں پر
جن چوٹیوں پر نئے عاشق نئی محبوباؤں کے لیے
پشتوں میں ایسے شعر کندہ کر جا تے ہیں کہ ،،
جب ان پتھروں کا رنگ تیرے ہونٹوں جیسا ہوجائے گا
یا ان پتھروں کا رنگ تیری آنکھوں جیسا ہوجائے گا
یا ان پتھروں کا رنگ تیرے گالوں جیسا ہوجائے گا
تب ملیں گے میرے ہونے والے بچے کی ماں!،،
بھلے ریا ستی ادارے منظور پشتین کو اس جرم میں بند کر دیں
کہ منظور پشتین کی بولی ریاست مخالف بولی ہے
پر نئی صبح کی منتظر دید
یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ
منظور پشتن کی بولی محبت کی بولی ہے۔
منظور پشتین کی بولی نئے سویرے کی بولی ہے۔
منظور پشتین کی بولی ان سینکڑوں محبوباؤں کی بولی ہے۔
جس بولی میں سوائے دکھ اور انتظار کے کچھ نہیں۔
جو اب تک بن بیاہے دلہنیں ہیں
جن کے محبوب وردی والے اپنے ساتھ کئی سال پہلے لے گئے
پھر وہ لوٹے ہی نہیں
اور ان محبوباؤں کی آنکھوں میں آنسوؤں کے بجائے خون اتر آیااور سر میں سفیدی!
منظور پشتین کی بولی ان ماؤں کے بولی ہے
جو اپنے ہاتھوں میں اپنے لختِ جگروں کی تصویریں لیے
اس ریاست کے ہر اُس دروازے پر اپنے ضعیف ہاتھوں سے پیٹ چکی ہیں
جہاں سے ان ماؤں کو تھوڑی بھی اُمید ہوتی ہے
کہ وہ لوٹ آئینگے
جن کے بچے بھی اب جوان ہو رہے ہیں۔
منظور پشتین کی بولی ان ہزاروں مجبور انسانوں کی بولی ہے
جن کو اپنے گھر وں سے نکلتے ریا ستی اداروں کے اہلکاروں کی اذیت برداشت کرنی پڑتی ہے
اور جب وہ کوئی سوال کرتے ہیں تو ان کو وہ گالیاں دی جا تی ہیں۔
جن گالیوں پر پہاڑوں میں بندوقوں کی نال گرم ہو جا تی ہے۔
منظور پشتین کی بولی ان لوگوں کی بولی ہے جو مفت میں ما رے گئے!
منظور پشتین کی بولی اس باپ کی بولی ہے جس کے بیٹے کو راؤ انوار نے کراچی میں قتل کر دیا!
منظور پشتین کی بولی اس باپ کی بولی ہے جس سے نہ تو سرکار نے انصاف کیا، نہ کورٹ نے اور نہ ہی جنرل باجوہ نے!
منظور پشتین کی بولی ان لاکھوں انسانوں کی بولی ہے جن کی بولی کو یہ ریا ست نہیں سمجھتی!
منظور پشتین کی بولی ان سینکڑوں انسانوں کی بولی ہے جو پولیس کے ظلم کا شکار ہوکر قبروں میں جا سوئے!
منظور پشتین کی بولی ان لوگوں کی بولی ہے جو بے موت مر رہے ہیں
جو بارودی سرنگوں کا شکار ہو رہے ہیں
اور اپنے ہاتھوں میں بساکھیاں لیے بلند پہاڑوں کو حیرت سے تکتے ہیں!
منظور پشتین کی آواز ان کی آواز ہے جن کے لیے کوئی آوازنہیں اُٹھاتا!
منظور پشتین کی آواز کو مت دباؤ!
آئیں اس منظور پشتین کی آواز بنیں جو ہماری آواز بنا ہوا ہے
منظور پشتین!پہاڑوں کا بیٹا ہے اور پہاڑ کبھی شکست خوردہ نہیں ہو تے!
—♦—

محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
پہاڑ شکست خوردہ نہیں ہو تے۔
چاہیے وہ پہاڑ پختونخوا کے ہوں۔
چاہے بلوچستان کے!
پہاڑ گالی کیا،گولی کیا، بارود کیا،
پر پہاڑ تو 52.Bکے زور دار میزائلوں کا وار برداشت کر کے بھی اپنی جگہ پر مضبوطی سے کھڑے رہتے ہیں۔
یہ پہاڑ ریزہ ریزہ تب ہو تے ہیں جب ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جا تی ہے۔
پر اس وقت بلوچستان کی پہاڑی سروں سے لے کر خیبر پختونخوا کی بلند و بالا چوٹیوں تک وہ سب پہاڑ اعتماد سے کھڑے ہیں۔
وہ پہاڑ بھی ایسی ہی شان سے اپنا سر بلند کیے ہوئے ہیں
جن پہاڑں کے بیچ سُرخ اناروں جیساPTMکا پہلا شہید دفن ہے۔
جہاں سرِ شام وہ بہن تازہ پھول رکھ آتی ہے
جس بہن نے اپنے بھائی کے ساتھ بہت سے سفر کیے
اور بہت سی کتابیں مل بیٹھ کر پڑھیں وہ پہاڑ بھی ویسی ہی شان سے موجود ہیں
جن پہاڑوں کے بیچ کسی زندان خانے میں کامریڈ بابا موجود ہے
اور وہ ہواؤں کے دوش پر اپنی پہاڑوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ،،
میرے پہاڑوں سے کہو!اور اُونچے رہیں!،،
تو ان پہاڑوں کا سر کیسے نیچے ہو سکتا ہے
جن پہاڑوں کے درمیاں ثناء اعجاز نے پہلی بار غالب کے اس شعر کا مطلب سمجھا تھا کہ ،،
کب وہ سُنتا ہے کہانی میری اور پھر وہ بھی زبانی میری!،،
ان پہاڑوں کا سر نیچے کیسے ہو سکتا ہے
جن پہاڑوں کے درمیاں علی وزیرنے پہلی بار اپنی بیبو کو کہا تھا کہ ،،
بندوق کی نالی سے نکلی گولی سے،
منہ سے نکلی گالی میں بہت درد ہوتا ہے
اور یہ لوگ میرے لوگوں کو پہلے گالی دیتے ہیں پھر گولی ما رتے ہیں!،،
ان پہاڑوں کا سر نیچے کیسے ہوسکتا ہے
جن پہاڑوں کے درمیاں بس اجتماعِ عیدین میں ہی لوگ جمع نہیں ہوئے۔
کاندھوں پر لیے جنازوں میں لوگ جمع نہیں ہو ئے۔
جرگوں میں کیے تماشوں میں لوگ نظر نہیں آئے۔
کوئی تماشہ دیکھنے کو ہجومِ یاراں جمع نہیں ہوا۔
کوئی رائے۔
کوئی فیصلہ۔
کوئی تصفیہ۔کے لیے لوگ جمع نہیں ہوئے۔
پر ان پہاڑوں نے دیکھا کہ لوگ اس بات پر بھی جمع ہو سکتے ہیں
کہ لوگوں کو یہ محسوس ہوکہ اس ریا ست میں جو کچھ ہو رہا ہے
وہ ان کا نصیب نہیں ہے پر یہ ریا ست خود اس خونی کھیل میں ملوث ہے۔
ان پہاڑوں کے درمیان بس تبلیغی اجتماعوں میں مولانا طارق جمیل کی روحانی آواز نہیں گونجی
جو سب کچھ کرواکے آخر میں ستر حوریں عنایت کردیتا ہے۔
پر ان پہاڑوں میں وہ آواز بھی گونجی ہے جو آواز نئی آواز ہے۔
جو آواز سُرخ پھیرے کی آواز ہے۔
جو آواز بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر تی ہے۔
جو آواز اس سوکالڈ معاشرے میں تبدیلی کی آواز ہے۔
جو آواز ٹھہرے ہوئے پانی میں پہلا پتھر ہے
جس پتھر نے خیبر سے کراچی تک بہت ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔
وہ آواز منظور پشتین کی آواز ہے!
اور لورالائی کے پہاڑوں سے لےکر
جنوبی وزیرستان کے پہاڑوں تک
سب پہاڑوں کے سر اُونچے ہیں
کیوں کہ پہاڑوں کا اعتماد اب بھی باقی ہے
کیوں ان پہاڑوں میں مذہبی پارٹیوں کے سیاہ پرچم ہی نہیں لہرائے
پر ان پہاڑوں میں نئی صبح کی اُمید جیسا
PTMکا سُرخ پرچم بھی لہرا رہا ہے
جو سب کو یہ بتا رہا ہے
کہ اُمید سحر کی بات سنو
اور اُمید سحر منظور پشتین ہے!
ان پہاڑوں نے لوگوں کا وہ ہجوم نہیں دیکھا
جو غلیظ ہونے کے باجود معصوم بچیوں کو سنگسار کرتے تماشے کو دیکھنے آتے تھے
پر ان پہاڑوں نے ان لوگوں کا ہجوم بھی دیکھا
جو نئی صبح کا نیا گیت گانے ان پہاڑوں کے درمیان موجود ہو تے تھے
اور وہ بھی کوئی ایک دو نہیں پر ہزاروں!
ہم جانتے ہیں کہ ریاست نے اپنے چو تھے ستون کو پابند کیا ہوا ہے
کہ وہ PTMکے نئے طلوع ہو تے سورج کو نہ دکھائے۔
پر کیا کوئی سورج کی کرنوں کو روک پایا ہے؟
کیا کسی کے ہاتھوں میں سورج کی کرنیں سما سکتی ہیں؟
ریاست کیمروں کے در بند کر سکتی ہے
پر دلوں کے در کون بند کرے گا
جہاں وہ ترانے در آتے ہیں
پھر چاہیے وہ ترانے کراچی کے میدانوں میں بج رہے ہوں۔
چاہیے لاہور کے پارکوں میں۔
چاہیے بلوچستان کے پہاڑوں میں۔
چاہیے خیبر پختونخوا کے نوجوانوں کے دلوں میں۔
چاہیے ان چوٹیوں پر
جن چوٹیوں پر نئے عاشق نئی محبوباؤں کے لیے
پشتوں میں ایسے شعر کندہ کر جا تے ہیں کہ ،،
جب ان پتھروں کا رنگ تیرے ہونٹوں جیسا ہوجائے گا
یا ان پتھروں کا رنگ تیری آنکھوں جیسا ہوجائے گا
یا ان پتھروں کا رنگ تیرے گالوں جیسا ہوجائے گا
تب ملیں گے میرے ہونے والے بچے کی ماں!،،
بھلے ریا ستی ادارے منظور پشتین کو اس جرم میں بند کر دیں
کہ منظور پشتین کی بولی ریاست مخالف بولی ہے
پر نئی صبح کی منتظر دید
یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ
منظور پشتن کی بولی محبت کی بولی ہے۔
منظور پشتین کی بولی نئے سویرے کی بولی ہے۔
منظور پشتین کی بولی ان سینکڑوں محبوباؤں کی بولی ہے۔
جس بولی میں سوائے دکھ اور انتظار کے کچھ نہیں۔
جو اب تک بن بیاہے دلہنیں ہیں
جن کے محبوب وردی والے اپنے ساتھ کئی سال پہلے لے گئے
پھر وہ لوٹے ہی نہیں
اور ان محبوباؤں کی آنکھوں میں آنسوؤں کے بجائے خون اتر آیااور سر میں سفیدی!
منظور پشتین کی بولی ان ماؤں کے بولی ہے
جو اپنے ہاتھوں میں اپنے لختِ جگروں کی تصویریں لیے
اس ریاست کے ہر اُس دروازے پر اپنے ضعیف ہاتھوں سے پیٹ چکی ہیں
جہاں سے ان ماؤں کو تھوڑی بھی اُمید ہوتی ہے
کہ وہ لوٹ آئینگے
جن کے بچے بھی اب جوان ہو رہے ہیں۔
منظور پشتین کی بولی ان ہزاروں مجبور انسانوں کی بولی ہے
جن کو اپنے گھر وں سے نکلتے ریا ستی اداروں کے اہلکاروں کی اذیت برداشت کرنی پڑتی ہے
اور جب وہ کوئی سوال کرتے ہیں تو ان کو وہ گالیاں دی جا تی ہیں۔
جن گالیوں پر پہاڑوں میں بندوقوں کی نال گرم ہو جا تی ہے۔
منظور پشتین کی بولی ان لوگوں کی بولی ہے جو مفت میں ما رے گئے!
منظور پشتین کی بولی اس باپ کی بولی ہے جس کے بیٹے کو راؤ انوار نے کراچی میں قتل کر دیا!
منظور پشتین کی بولی اس باپ کی بولی ہے جس سے نہ تو سرکار نے انصاف کیا، نہ کورٹ نے اور نہ ہی جنرل باجوہ نے!
منظور پشتین کی بولی ان لاکھوں انسانوں کی بولی ہے جن کی بولی کو یہ ریا ست نہیں سمجھتی!
منظور پشتین کی بولی ان سینکڑوں انسانوں کی بولی ہے جو پولیس کے ظلم کا شکار ہوکر قبروں میں جا سوئے!
منظور پشتین کی بولی ان لوگوں کی بولی ہے جو بے موت مر رہے ہیں
جو بارودی سرنگوں کا شکار ہو رہے ہیں
اور اپنے ہاتھوں میں بساکھیاں لیے بلند پہاڑوں کو حیرت سے تکتے ہیں!
منظور پشتین کی آواز ان کی آواز ہے جن کے لیے کوئی آوازنہیں اُٹھاتا!
منظور پشتین کی آواز کو مت دباؤ!
آئیں اس منظور پشتین کی آواز بنیں جو ہماری آواز بنا ہوا ہے
منظور پشتین!پہاڑوں کا بیٹا ہے اور پہاڑ کبھی شکست خوردہ نہیں ہو تے!
—♦—

محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔