للکار (نیوز ڈیسک) گھر مزدور چوڑی مزدور یونین اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی جانب سے خواتین محنت کشوں کو درپیش مسائل اور ان کے سدِباب کے حوالے سے چوڑی مزدور عورت کنونشن کا انقعاد حیدرآباد پریس کلب میں کیا گیا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں چوڑی کی صنعت سے وابستہ محبت کش خواتین اور حیدرآباد کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والےمحنت کش، گھر مزدور خواتین بشمول سیاسی و سماجی کارکنوں نےشرکت کی۔
کنونشن کی صدارت ہوم بیسڈ وومن ورکز فیڈریشن کی راہنما زہرا خان اور چوڑی یونین کی جنرل سیکرٹری جمیلہ عبد الطیف کر رہیں تھیں ۔
چوڑی مزدور عورت کنونشن میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ دنیا میں خواتین محنت کشوں کی تعدا د میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف گھرمزدورو ں کی تعدا د دو سو ساٹھ ملین کے قریب ہے جس میں سے خواتین کی شرح ستاون فی صد یعنی کہ ایک سو سینتالیس ملین ہے ۔
جبکہ دنیا کے تقریباً دو تہائی (65فی صد) گھر مزدور یعنی کل 168 ملین کا تعلق ایشیاء سے ہے۔
آج،دنیا بھر میں ہوم بیسڈ کام، ٹیکسٹائل، گارمنٹس، جُفت سازی، زیوارت، کھانا پکانے کے علاوہ دیگر غیر روایتی شعبوں میں بھی گھر مزدوروی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جن میں ایئر لائن اور آٹوموبیل کے پُرزوں کی تیاری، الیکٹرونکس میں اسمبلنگ اور فارماسیوٹیکل میں پیکیجنگ وغیرہ کے کام شامل ہیں۔
مقررین نے مزید کہا کہ؛
ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن، ٹیلی مارکیٹنگ اور تکنیکی مشاورت کا کام گھر بیٹھے ہو رہا ہے۔ کوویڈ کے بعد سے غیر رسمی شعبے میں مزدورو ں کی تعداد میں دنیا بھر میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہی صورت حال پاکستان میں بھی نظر آ رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر محنت کش خواتین کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے مگر اس کے باوجود انہیں اب تک بنیادی مزور حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
محنت کش خواتین کو سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انہیں سرکاری اعلان کردہ کم از کم اُجرت ادا کی جاتی ہے۔
آج بھی یکساں کام یکساں اجرت کےاصول کو مجرمانہ حد تک پامال کیا جا تا ہے۔ ملک کے دس کروڑ سے زائد لیبر فورس میں خواتین کی تعداد نصف کے قریب ہے۔
محنت کش عورت کو سرمایہ دارانہ نظام میں اجرتی غلام اور ریزرو آرمی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
آج بھی دنیا میں پچہتر فی صد عورتیں روزانہ ساڑھے بارہ ارب گھنٹے بغیر اُجرت کے گھریلوکام کاج انجام دیتی ہیں۔ جن کی اُجرت تقریبا دس اعشاریہ آٹھ ٹریلین ڈالر سالانہ بنتی ہے جو کہ عالمی ٹیکنالوجی کی شعبے سے تین گنا زیادہ ہے۔
مقررین نے مزیدی کہا کہ گھر مزدور ایکٹ پاس ہوئے پانچ سال کا عرصہ گزار چکا ہے اس کے باوجود آج بھی گھر مزدور آپنے قانونی حق ست محروم ہیں۔ صورت حال ہے کہ سندھ میں بیس لاکھ گھر مزدور رجسٹریشن کے عمل سے بھی نہیں گزارے۔ جبکہ سات ہزار سے زائد ہوم بسڈ ورکرز کے رجسٹریشن فارم پر کئے جا چکے ہیں ۔ ان میں صرف پچیس گزار مزدوروں کی ویریدیکیشن کا عمل مکمل ہوا مگر انہیں بھی اب تک مزدور کارڈ مہیا نہیں کیا جا سکا ہے۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئےمقررین نے مزید کہا کہ چوڑی مزدورعورت کو حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اُجرت بھی نہیں ملتی ۔ جبکہ 2022 میں کم از کم اُجرت کے اعلان کے ساتھ چوڑی مزدور کی اُجرتوں میں بھی مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا گیا تھا۔ مگرلیبر ڈیپارٹمنٹ اس پر آج تک عمل درآمد نہیں کروا سکا۔
آج بھی اس مہنگائی کے دور میں چوڑی مزدور کی اُجرت بہت کم ہے۔ گیس کی بندش کی وجہ سے پہلے ہی کام کم ہو چکا ہے اس پر اُجرت بھی مناسب ادا نہیں کہ جاتی۔
چوڑی مزدور عورت کنونشن کے اختتام پر ہوم بیسڈ وومن بینگل ورکرز یونین کے نئی لیڈرشپ کا بھی اعلان کیا گیا۔
چوڑی مزدورعورت کنونشن میں درج ذیل مطالبات کیے گئے؛
- گھر مزدوروں کی رجسٹریشن کے عمل کو تیز بنا کر انہیں مزدور کارڈ دیئے جائیں۔
- یکساں کام کے یکساں اجرت نہ دینے کو سنگین جرم قرار دیا جائے۔ ٭پاکستان حکومت آئی ایل او کنونشن 177 کی جلد از جلد توثیق کرے ۔
- گھر مزدوروں کو سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسٹرڈ کرنے کے لیے قانون سازی کے عمل کو تیز کیا جائے۔
- گھر مزدرورں کی اجرتوں کا تعین کیا جائے اور انہیں بھی کم از کم اجرت کے نوٹیفیکیشن میں شامل کیا جائے۔
- چوڑی کی صنعت سے وابستہ لاکھوں مزدوروں کی حالیہ جاری کردہ سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق ا ُجرتوں کی ادائیگی کی جائے۔
کنونشن کے شرکاء میں سیاسی دانشور نثار لغاری ،مختار، لیبرڈیپارٹمنٹ،سائرہ فیروز، ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن، پروین بانو، ہوم۔بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن، ہوم بیسڈ وومن بینگل ورکرز یونین و دیگرنے شرکت کی۔
—♦—
جواب دیں جواب منسوخ کریں
للکار (نیوز ڈیسک) گھر مزدور چوڑی مزدور یونین اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی جانب سے خواتین محنت کشوں کو درپیش مسائل اور ان کے سدِباب کے حوالے سے چوڑی مزدور عورت کنونشن کا انقعاد حیدرآباد پریس کلب میں کیا گیا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں چوڑی کی صنعت سے وابستہ محبت کش خواتین اور حیدرآباد کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والےمحنت کش، گھر مزدور خواتین بشمول سیاسی و سماجی کارکنوں نےشرکت کی۔
کنونشن کی صدارت ہوم بیسڈ وومن ورکز فیڈریشن کی راہنما زہرا خان اور چوڑی یونین کی جنرل سیکرٹری جمیلہ عبد الطیف کر رہیں تھیں ۔
چوڑی مزدور عورت کنونشن میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ دنیا میں خواتین محنت کشوں کی تعدا د میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف گھرمزدورو ں کی تعدا د دو سو ساٹھ ملین کے قریب ہے جس میں سے خواتین کی شرح ستاون فی صد یعنی کہ ایک سو سینتالیس ملین ہے ۔
جبکہ دنیا کے تقریباً دو تہائی (65فی صد) گھر مزدور یعنی کل 168 ملین کا تعلق ایشیاء سے ہے۔
آج،دنیا بھر میں ہوم بیسڈ کام، ٹیکسٹائل، گارمنٹس، جُفت سازی، زیوارت، کھانا پکانے کے علاوہ دیگر غیر روایتی شعبوں میں بھی گھر مزدوروی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جن میں ایئر لائن اور آٹوموبیل کے پُرزوں کی تیاری، الیکٹرونکس میں اسمبلنگ اور فارماسیوٹیکل میں پیکیجنگ وغیرہ کے کام شامل ہیں۔
مقررین نے مزید کہا کہ؛
ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن، ٹیلی مارکیٹنگ اور تکنیکی مشاورت کا کام گھر بیٹھے ہو رہا ہے۔ کوویڈ کے بعد سے غیر رسمی شعبے میں مزدورو ں کی تعداد میں دنیا بھر میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہی صورت حال پاکستان میں بھی نظر آ رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجموعی طور پر محنت کش خواتین کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے مگر اس کے باوجود انہیں اب تک بنیادی مزور حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
محنت کش خواتین کو سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی انہیں سرکاری اعلان کردہ کم از کم اُجرت ادا کی جاتی ہے۔
آج بھی یکساں کام یکساں اجرت کےاصول کو مجرمانہ حد تک پامال کیا جا تا ہے۔ ملک کے دس کروڑ سے زائد لیبر فورس میں خواتین کی تعداد نصف کے قریب ہے۔
محنت کش عورت کو سرمایہ دارانہ نظام میں اجرتی غلام اور ریزرو آرمی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
آج بھی دنیا میں پچہتر فی صد عورتیں روزانہ ساڑھے بارہ ارب گھنٹے بغیر اُجرت کے گھریلوکام کاج انجام دیتی ہیں۔ جن کی اُجرت تقریبا دس اعشاریہ آٹھ ٹریلین ڈالر سالانہ بنتی ہے جو کہ عالمی ٹیکنالوجی کی شعبے سے تین گنا زیادہ ہے۔
مقررین نے مزیدی کہا کہ گھر مزدور ایکٹ پاس ہوئے پانچ سال کا عرصہ گزار چکا ہے اس کے باوجود آج بھی گھر مزدور آپنے قانونی حق ست محروم ہیں۔ صورت حال ہے کہ سندھ میں بیس لاکھ گھر مزدور رجسٹریشن کے عمل سے بھی نہیں گزارے۔ جبکہ سات ہزار سے زائد ہوم بسڈ ورکرز کے رجسٹریشن فارم پر کئے جا چکے ہیں ۔ ان میں صرف پچیس گزار مزدوروں کی ویریدیکیشن کا عمل مکمل ہوا مگر انہیں بھی اب تک مزدور کارڈ مہیا نہیں کیا جا سکا ہے۔
کنونشن سے خطاب کرتے ہوئےمقررین نے مزید کہا کہ چوڑی مزدورعورت کو حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اُجرت بھی نہیں ملتی ۔ جبکہ 2022 میں کم از کم اُجرت کے اعلان کے ساتھ چوڑی مزدور کی اُجرتوں میں بھی مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا گیا تھا۔ مگرلیبر ڈیپارٹمنٹ اس پر آج تک عمل درآمد نہیں کروا سکا۔
آج بھی اس مہنگائی کے دور میں چوڑی مزدور کی اُجرت بہت کم ہے۔ گیس کی بندش کی وجہ سے پہلے ہی کام کم ہو چکا ہے اس پر اُجرت بھی مناسب ادا نہیں کہ جاتی۔
چوڑی مزدور عورت کنونشن کے اختتام پر ہوم بیسڈ وومن بینگل ورکرز یونین کے نئی لیڈرشپ کا بھی اعلان کیا گیا۔
چوڑی مزدورعورت کنونشن میں درج ذیل مطالبات کیے گئے؛
- گھر مزدوروں کی رجسٹریشن کے عمل کو تیز بنا کر انہیں مزدور کارڈ دیئے جائیں۔
- یکساں کام کے یکساں اجرت نہ دینے کو سنگین جرم قرار دیا جائے۔ ٭پاکستان حکومت آئی ایل او کنونشن 177 کی جلد از جلد توثیق کرے ۔
- گھر مزدوروں کو سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسٹرڈ کرنے کے لیے قانون سازی کے عمل کو تیز کیا جائے۔
- گھر مزدرورں کی اجرتوں کا تعین کیا جائے اور انہیں بھی کم از کم اجرت کے نوٹیفیکیشن میں شامل کیا جائے۔
- چوڑی کی صنعت سے وابستہ لاکھوں مزدوروں کی حالیہ جاری کردہ سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق ا ُجرتوں کی ادائیگی کی جائے۔
کنونشن کے شرکاء میں سیاسی دانشور نثار لغاری ،مختار، لیبرڈیپارٹمنٹ،سائرہ فیروز، ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن، پروین بانو، ہوم۔بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن، ہوم بیسڈ وومن بینگل ورکرز یونین و دیگرنے شرکت کی۔
—♦—