للکار (نیوز ڈیسک) نواب شاہ کے گاؤں ماڑی جلبانی میں پولیس اور رینجرز کے سرچ آپریشن کے دوران رینجرز کی فائرنگ سے گاؤں کے 4 افراد ہلاک، متعدد شہری زخمی ہو ئے۔ بعض زخمیوں کی حالت بھی تشویشناک بتائی جا رہی ہی ہے۔
پاکستان کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اندوہناک واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ؛
انسانی حقوق کی پامالی کے لیے خاصی شہرت رکھنے والی ریاست, پاکستان نے, ریاستی دہشت گردی کی ایک اور مثال قائم کر دی۔
سندھ کے شہر سکرنڈ کے قریب ایک گاؤں ماڑی جلبانی میں 28 ستمبر کو دن دو بجے دہشت گردوں کو پکڑنے کے نام پر, پولیس اور رینجرز نے گاؤں پر حملہ کر دیا اور نہتے کسانون کا قتلِ عام کیا. اس حملے میں چار کسان اکن جلبانی، میہار جلبانی ، نظام الدین جلبانی اور سجاول جلبانی قتل اور سارنگ جلبانی الھداد جلبانی،امام الدین جلبانی اور علی نواز جلبانی سمیت متعدد کسان زخمی ہوئے ہیں.
بتایا جارہا ہے کہ گاؤں پر حملہ کرنے سے پہلے, اسی گاؤن کے ایک طالب علم لیاقت جلبانی کو سکرنڈ ویٹرنری یونیورسٹی سے گرفتار کر کے ساتھ لے کر آئے تھے۔ طالب علم سے گاؤں کے مکانوں کی شناخت کرائی گئی۔
یہ گاؤں ایک بزرگ قوم پرست رجب جلبانی سے منسوب ہے. جہاں وہ کئی سالوں سے, پولیس کے جبر اور مقامی جاگیرداروں کے ظلم کےخلاف آواز بلند کر رہا تھا.
پولیس اور رینجرز کی اس کاروائی کے لئے علاقے میں یہ تاثر عام یے کہ یہ کاروائی بزرگ قوم پرست کو سبق سکھانے اور علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیۓ کی گئی ہے۔
پولیس اور رینجرز کی اس بہیمانہ کارروائی سے پورے سندھ میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی ہے۔کئی جگہوں پر مظاہرے اور دھرنے دئیے گئے ہیں۔
سکرنڈ نیشنل ہائی وے پر لاشیں رکھ کر ہائی وے بند کردیا گیا ہے۔ مظاہرین کی طرف سے ایس ایس پی پولیس سمیت حملہ کرنے والے پولیس اور رینجرز اہلکاروں کےخلاف مقدمات درج کرکے ان کو گرفتار کرنے کامطالبہ کیا جا رہا ہے. جبکہ سرکار کی طرف سے ابھی تک لاشون کے پوسٹ مارٹم کرنے کا حکم بھی جاری نہیں کیا گیا ہے.
دوسری طرف سرکار کے مطابق وہ ایک خودکش بمبار گرفتار کرنے آئے تھے کہ ان پر فائرنگ کی گئی. جوابی فائرنگ میں 2 لوگ مارے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گاؤں والون سے کسی قسم کا اسلحہ برآمد نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی بارودی مواد ۔
جبکہ ہلاک ہونے والے کسی بھی کسان کے خلاف پہلے نہ کوئی مقدمہ درج ہے, نہ پہلے ان کےخلاف پولیس میں کوئی شکایت درج ہے۔
ظاہر ہے انسانی حقوق کے معاملے پر مسلح فورسز سے کوئی باز پرس کرنے والا موجود نہیں ہے۔ اس لئے لفظ دہشت گردی ریاست کی کمائی اور بچاؤ کا ذریعہ ہے، یہ ایک ایسی ذہنیت ہے جس پر ریاست کے تمام ادارے کاربند ہیں۔یہ کوئی حادثاتی عمل نہیں ہے ۔
دوسری جانب ایس ایس پی حیدر رضا کا کہنا ہے کہ پولیس اور رینجرز نے گھروں کا سرچ آپریشن کیا تو گاؤں والوں نے مزاحمت کی، گاؤں کے مشتعل افراد نے پولیس اور رینجرز پر پتھراؤ کیا، مزاحمت پر پولیس اہلکار گاؤں سے باہر آ گئے۔
اُنہوں نے کہا کہ رینجرز اہلکاروں کو مشتعل افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا، سریوں اور ڈنڈوں کے وار سے زخمی کیا۔
ایس ایس پی حیدر رضا نے بتایا کہ مشتعل افراد کے تشدد سے رینجرز کے 5 اہلکار زخمی ہوئے، پولیس اور رینجرز نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی، فائرنگ میں گاؤں کے 4 افراد ہلاک، 4 زخمی ہوئے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ورثاء کا لاشوں کا پوسٹ مارٹم کروانے کا مطالبہ تسلیم کر لیا، پولیس واقعے کے ذمے داروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کو تیار ہے، مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ پولیس اور رینجرز افسران کو نامزد کیا جائے۔
ایس ایس پی حیدر رضا نے بتایا کہ تفتیش کیے بغیر کسی فرد کا نام مقدمے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
اُنہوں نے کہا کہ جوڈیشل انکوائری کے لیے تیار ہیں جس اہلکار کی غفلت ثابت ہوئی اس پر مقدمہ درج کیا جائے گا۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ پولیس اور رینجرز اہلکاروں نے چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا اور مزاحمت پر بے گناہ افراد پر فائرنگ کی۔
مظاہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس اور رینجرز کے افسران کے خلاف مقدمے کے اندراج تک دھرنا جاری رہے گا۔