وہ آئے،بچوں کو ڈرایا،بوڑھی ماؤں کو گالیاں دیں۔اور جوان لڑکیوں کو کیا کچھ کہا یہ اس فریم میں فٹ نہیں آسکتا،اگر وہ یہاں لکھوں تو لیپ ٹاپ کی سکرین جل اُٹھے، پھر وہ چلے گئے، بھاگ گئے، یا شاید بھاگ گئے، ہم نے انہیں مختصر وڈیو میں بھاگتے دیکھا، وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے؟ کس نے بھیجے؟ کیوں بھیجے؟ وہ کیا چاہتے تھے؟ انہیں کس کی تلاش تھی؟ وہ کیا ساتھ لے جانا چاہتے تھے؟ انہیں کیا ملا؟ اور کیا نہیں؟ وہ کتنے کامیاب ہوئے اور کتنے ناکام؟ اب وہ تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔
جیسے ہی سوشل میڈیا آن کرو تو ہر طرف سے ”سپیکر چور“ کا شور ہے،یہاں تک کے یہ اس وقت پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے، ہزاروں، لاکھوں پوسٹ اور شیئر اس پر ہو چکے ہیں۔ جہاں دیکھو جس کو دیکھو یہی”سپیکر چور“ کا شور ہے۔
کیوں کہ جب وہ گئے تو ان سے کچھ نہیں بن پایا تو وہ جاتے میں اپنے ساتھ لانگ مارچ مسافروں کا سپیکر اپنے ساتھ لے گئے، جس سے وہ درد کے صدا بلند کرتے تھے۔ جس پر وہ اپنے گمشدہ لواحقین کے نام پکارتے تھے۔ جس پر وہ درد کے گیت گاتے تھے۔ جس پر وہ ٹھہر ٹھہر کر روتے تھے۔ جس پر وہ اپنے زندہ لوگوں کو پکارتے تھے۔ جس پروہ،وہ باتیں کرتے تھے جن باتوں کو یہ ریاست سننے کو تیار نہیں۔ جن پر وہ نوحہ پڑھتے تھے۔ جن پرسیاسی پارٹیوں کو اپنا وعدہ یاد دلاتے تھے۔ جس پر دیس کی باتیں ہو تی تھیں۔ جس پر دیس باسیوں کے درد کی باتیں ہوتی تھیں۔ جس پر سمی کچھ کہہ کر بہت روتی تھی۔ جس پر زاکر مجید کی ماں یہ باور کرانے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ کتنے سالوں سے اس سفر میں ہے۔ جس پر کم باتیں اور بہت روتی تھی۔ جس پر بوڑھی مائیں ابھی کچھ کہنا ہی چاہتی تھیں کہ آنسو ان کے دامن کو تر کر جا تے تھے۔
اس سپیکر نے کیا کیا درد نہ سہے۔ اس سپیکر نے کیا کیا نوحے نہ سنے۔ اس سپیکر نے کیا کیا درد کے گیت نے سنے۔اس سپیکر نے گلزار دوست کی باتیں بھی سُنیں تو ماہ رنگ کے ساتھ رویا بھی۔ اس سپیکر نے شہیدوں کی تقاریر بھی سُنیں تو سمی کی درد کی سیمفینی بھی۔
اس سپیکر نے راشد بلوچ ماں کی بلوچی میں درد کی باتیں بھی سُنیں اور وہ منظر بھی دیکھا جب بہت سی کوششوں کے بعد فرزانہ مجید کی ماں کی وہ تقریر بھی سُنی جس میں بہت کوشش کے بعد وہ کچھ اُردو میں کہنے پر راضی ہوئی پر پھر سے بلوچی میں رونا شروع کیا۔ یہ جھوٹ ہے کہ رونے کی کوئی زباں نہیں ہو تی،سچ تو یہ ہے کہ درد کی کوئی زباں نہیں ہوتی، فرزانہ مجید کی ماں بلوچی میں روئی اور جب درد کچھ سوا ہوا تو پھر رونے کی زباں درد کی زباں میں بدل گئی اور درد کا رونا،درد کا رونا ہوتا ہے
جب سسئی کے ساتھ پتھر رو سکتے ہیں
تو بلوچ ماؤں کے ساتھ اسپیکر کیوں نہیں رو سکتے
بلوچ ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کے ساتھ اسپیکر بھی رویا ہے
یہ سپیکر سمی کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر بیبو بلوچ کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر ماہ رنگ کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر زاکر مجید کی ماں کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر اس ماں کے ساتھ رویا ہے جو اسلام آباد میں پولیس کے تشدد کا شکار ہوئی اور بے ہودہ غریدہ فارقی کو یہ سچ بتانے لگی کہ پولیس تشدد سے اس کی پسلی ٹوٹ چکی ہے
یہ سپیکر اس ماں کے ساتھ رویا ہے جو بس دو زبانیں جانتی ہے
ایک بلوچی دوسری درد کی زبان!!!!!!!!
اس سپیکر نے وہ ساری صدائیں سنی ہیں جو دل سے نکلی اور اسپیکر کی روح میں پیوست ہو گئیں
اس سپیکر نے ان بوڑھی ماؤں کو رات کے آخری پہروں میں روتے دیکھا ہے
اس سپیکران ماؤں کو آدھی رات کے شروعاتی پہروں میں ان تصاویروں سے بات کرتے،روتے،روٹھے،مناتے دیکھا ہے
اس سپیکر نے ان ماؤں کو اپنے گمشدہ بچوں کی تصویروں کے ساتھ بغلگیر ہو تے دیکھا ہے
اس سپیکر نے ان ماؤں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ ”نہیں معلوم تم کب آؤ پر اب تم یقین جانو میں جانے والی ہوں!“‘
اس سپیکر نے بس اپنے کانوں،دل اور روح سے ان ماؤں کو نہیں دیکھا جو اپنے ہاتھ میں مائیک تھامے بہت کچھ کہہ جا تی ہیں پر اس سپیکر نے ان ماؤں کے جنازے بھی اپنے اندر سے سنے ہیں جو اس سفر کی ساتھی ہو تی تھیں۔منتظر دید لیے سفر کرتی تھیں اور پھر تھک کے بہت پیچھے رہ جا تی تھیں
اس سپیکر پر ان مسافر منتظر دید والی ماؤں کے جنازے پڑھے گئے اور یہ سپیکر بہت مغموم رہا ملول رہا اداس رہا،روتا رہا۔
جب سسئی کے ساتھ پتھر رو سکتے ہیں تو بلوچ ماؤں کے ساتھ یہ سپیکر کیوں نہیں
یہ سپیکر بھی اتنا ہی دردیلا تھا جتنی بلوچ مائیں!
اس سپیکر نے بس درد کے گیت نہیں سنے،
اس سپیکر نے بس آدھی رات کے نوحے نہیں سنے
اس سپیکر نے آزادی کے گیت بھی سنے
اس سپیکر نے شام کے آزادی کے گیت بھی سنے
اس سپیکر کے دل نے بس سمی کے درد کو نہیں سنا
اس سپیکر نے گلزار دوست کے انقلابی کلام بھی سنے
اس سپیکر نے بس درد کے سفر کو نہیں دیکھا
اس سپیکرآزادی کی آہٹ بھی سنی تھی
اس سپیکر نے بس سوتی آنکھیں نہیں دیکھی تھیں
اس سپیکر نے دِئیوں کی ماند جلتی آنکھیں بھی دیکھی تھیں
وہ درد کا سپیکر تھا
دیس کے سسئیوں کا اسپیکر تھا
وہ ماؤں کی بولی تھا
آزادی کا گیت تھا
دیس کا سپیکر تھا
آزادی کا سپیکر تھا
اب وہ بھی گُمشدہ ہو چکا ہے
جو بھی اس لے گئے ہیں انہیں یہ بات جاننا چاہیے کہ وہ راک اسٹار والوں کا اسلام آباد کی ہیپی ناٹ والوں کا سپیکر نہیں وہ درد وندوں کا سپیکر ہے اس سپیکر کا بھی اس سفر اور تحریک میں اتنا ہی کردار رہا ہے جتنا گلزار دوست کا اسے جہاں بھی رکھو گے،دفن کرو گے یا گولی مارو گے پھر بھی اس میں سے آواز آئے گی
”اعلان ہزارین مان نہ رگو!!!“
—♦—
جواب دیں جواب منسوخ کریں
وہ آئے،بچوں کو ڈرایا،بوڑھی ماؤں کو گالیاں دیں۔اور جوان لڑکیوں کو کیا کچھ کہا یہ اس فریم میں فٹ نہیں آسکتا،اگر وہ یہاں لکھوں تو لیپ ٹاپ کی سکرین جل اُٹھے، پھر وہ چلے گئے، بھاگ گئے، یا شاید بھاگ گئے، ہم نے انہیں مختصر وڈیو میں بھاگتے دیکھا، وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے؟ کس نے بھیجے؟ کیوں بھیجے؟ وہ کیا چاہتے تھے؟ انہیں کس کی تلاش تھی؟ وہ کیا ساتھ لے جانا چاہتے تھے؟ انہیں کیا ملا؟ اور کیا نہیں؟ وہ کتنے کامیاب ہوئے اور کتنے ناکام؟ اب وہ تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔
جیسے ہی سوشل میڈیا آن کرو تو ہر طرف سے ”سپیکر چور“ کا شور ہے،یہاں تک کے یہ اس وقت پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے، ہزاروں، لاکھوں پوسٹ اور شیئر اس پر ہو چکے ہیں۔ جہاں دیکھو جس کو دیکھو یہی”سپیکر چور“ کا شور ہے۔
کیوں کہ جب وہ گئے تو ان سے کچھ نہیں بن پایا تو وہ جاتے میں اپنے ساتھ لانگ مارچ مسافروں کا سپیکر اپنے ساتھ لے گئے، جس سے وہ درد کے صدا بلند کرتے تھے۔ جس پر وہ اپنے گمشدہ لواحقین کے نام پکارتے تھے۔ جس پر وہ درد کے گیت گاتے تھے۔ جس پر وہ ٹھہر ٹھہر کر روتے تھے۔ جس پر وہ اپنے زندہ لوگوں کو پکارتے تھے۔ جس پروہ،وہ باتیں کرتے تھے جن باتوں کو یہ ریاست سننے کو تیار نہیں۔ جن پر وہ نوحہ پڑھتے تھے۔ جن پرسیاسی پارٹیوں کو اپنا وعدہ یاد دلاتے تھے۔ جس پر دیس کی باتیں ہو تی تھیں۔ جس پر دیس باسیوں کے درد کی باتیں ہوتی تھیں۔ جس پر سمی کچھ کہہ کر بہت روتی تھی۔ جس پر زاکر مجید کی ماں یہ باور کرانے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ کتنے سالوں سے اس سفر میں ہے۔ جس پر کم باتیں اور بہت روتی تھی۔ جس پر بوڑھی مائیں ابھی کچھ کہنا ہی چاہتی تھیں کہ آنسو ان کے دامن کو تر کر جا تے تھے۔
اس سپیکر نے کیا کیا درد نہ سہے۔ اس سپیکر نے کیا کیا نوحے نہ سنے۔ اس سپیکر نے کیا کیا درد کے گیت نے سنے۔اس سپیکر نے گلزار دوست کی باتیں بھی سُنیں تو ماہ رنگ کے ساتھ رویا بھی۔ اس سپیکر نے شہیدوں کی تقاریر بھی سُنیں تو سمی کی درد کی سیمفینی بھی۔
اس سپیکر نے راشد بلوچ ماں کی بلوچی میں درد کی باتیں بھی سُنیں اور وہ منظر بھی دیکھا جب بہت سی کوششوں کے بعد فرزانہ مجید کی ماں کی وہ تقریر بھی سُنی جس میں بہت کوشش کے بعد وہ کچھ اُردو میں کہنے پر راضی ہوئی پر پھر سے بلوچی میں رونا شروع کیا۔ یہ جھوٹ ہے کہ رونے کی کوئی زباں نہیں ہو تی،سچ تو یہ ہے کہ درد کی کوئی زباں نہیں ہوتی، فرزانہ مجید کی ماں بلوچی میں روئی اور جب درد کچھ سوا ہوا تو پھر رونے کی زباں درد کی زباں میں بدل گئی اور درد کا رونا،درد کا رونا ہوتا ہے
جب سسئی کے ساتھ پتھر رو سکتے ہیں
تو بلوچ ماؤں کے ساتھ اسپیکر کیوں نہیں رو سکتے
بلوچ ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کے ساتھ اسپیکر بھی رویا ہے
یہ سپیکر سمی کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر بیبو بلوچ کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر ماہ رنگ کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر زاکر مجید کی ماں کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر اس ماں کے ساتھ رویا ہے جو اسلام آباد میں پولیس کے تشدد کا شکار ہوئی اور بے ہودہ غریدہ فارقی کو یہ سچ بتانے لگی کہ پولیس تشدد سے اس کی پسلی ٹوٹ چکی ہے
یہ سپیکر اس ماں کے ساتھ رویا ہے جو بس دو زبانیں جانتی ہے
ایک بلوچی دوسری درد کی زبان!!!!!!!!
اس سپیکر نے وہ ساری صدائیں سنی ہیں جو دل سے نکلی اور اسپیکر کی روح میں پیوست ہو گئیں
اس سپیکر نے ان بوڑھی ماؤں کو رات کے آخری پہروں میں روتے دیکھا ہے
اس سپیکران ماؤں کو آدھی رات کے شروعاتی پہروں میں ان تصاویروں سے بات کرتے،روتے،روٹھے،مناتے دیکھا ہے
اس سپیکر نے ان ماؤں کو اپنے گمشدہ بچوں کی تصویروں کے ساتھ بغلگیر ہو تے دیکھا ہے
اس سپیکر نے ان ماؤں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ ”نہیں معلوم تم کب آؤ پر اب تم یقین جانو میں جانے والی ہوں!“‘
اس سپیکر نے بس اپنے کانوں،دل اور روح سے ان ماؤں کو نہیں دیکھا جو اپنے ہاتھ میں مائیک تھامے بہت کچھ کہہ جا تی ہیں پر اس سپیکر نے ان ماؤں کے جنازے بھی اپنے اندر سے سنے ہیں جو اس سفر کی ساتھی ہو تی تھیں۔منتظر دید لیے سفر کرتی تھیں اور پھر تھک کے بہت پیچھے رہ جا تی تھیں
اس سپیکر پر ان مسافر منتظر دید والی ماؤں کے جنازے پڑھے گئے اور یہ سپیکر بہت مغموم رہا ملول رہا اداس رہا،روتا رہا۔
جب سسئی کے ساتھ پتھر رو سکتے ہیں تو بلوچ ماؤں کے ساتھ یہ سپیکر کیوں نہیں
یہ سپیکر بھی اتنا ہی دردیلا تھا جتنی بلوچ مائیں!
اس سپیکر نے بس درد کے گیت نہیں سنے،
اس سپیکر نے بس آدھی رات کے نوحے نہیں سنے
اس سپیکر نے آزادی کے گیت بھی سنے
اس سپیکر نے شام کے آزادی کے گیت بھی سنے
اس سپیکر کے دل نے بس سمی کے درد کو نہیں سنا
اس سپیکر نے گلزار دوست کے انقلابی کلام بھی سنے
اس سپیکر نے بس درد کے سفر کو نہیں دیکھا
اس سپیکرآزادی کی آہٹ بھی سنی تھی
اس سپیکر نے بس سوتی آنکھیں نہیں دیکھی تھیں
اس سپیکر نے دِئیوں کی ماند جلتی آنکھیں بھی دیکھی تھیں
وہ درد کا سپیکر تھا
دیس کے سسئیوں کا اسپیکر تھا
وہ ماؤں کی بولی تھا
آزادی کا گیت تھا
دیس کا سپیکر تھا
آزادی کا سپیکر تھا
اب وہ بھی گُمشدہ ہو چکا ہے
جو بھی اس لے گئے ہیں انہیں یہ بات جاننا چاہیے کہ وہ راک اسٹار والوں کا اسلام آباد کی ہیپی ناٹ والوں کا سپیکر نہیں وہ درد وندوں کا سپیکر ہے اس سپیکر کا بھی اس سفر اور تحریک میں اتنا ہی کردار رہا ہے جتنا گلزار دوست کا اسے جہاں بھی رکھو گے،دفن کرو گے یا گولی مارو گے پھر بھی اس میں سے آواز آئے گی
”اعلان ہزارین مان نہ رگو!!!“
—♦—