• Latest

اس سپیکر نے آزادی کے گیت بھی سنے ہیں! – تحریر: محمد خان داؤد

دسمبر 28, 2023

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
بدھ, جولائی 9, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home سماجی مسائل

اس سپیکر نے آزادی کے گیت بھی سنے ہیں! – تحریر: محمد خان داؤد

للکار نیوز by للکار نیوز
دسمبر 28, 2023
in پاکستان
A A
0
">
ADVERTISEMENT

وہ آئے،بچوں کو ڈرایا،بوڑھی ماؤں کو گالیاں دیں۔اور جوان لڑکیوں کو کیا کچھ کہا یہ اس فریم میں فٹ نہیں آسکتا،اگر وہ یہاں لکھوں تو لیپ ٹاپ کی سکرین جل اُٹھے، پھر وہ چلے گئے، بھاگ گئے، یا شاید بھاگ گئے، ہم نے انہیں مختصر وڈیو میں بھاگتے دیکھا، وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے؟ کس نے بھیجے؟ کیوں بھیجے؟ وہ کیا چاہتے تھے؟ انہیں کس کی تلاش تھی؟ وہ کیا ساتھ لے جانا چاہتے تھے؟ انہیں کیا ملا؟ اور کیا نہیں؟ وہ کتنے کامیاب ہوئے اور کتنے ناکام؟ اب وہ تماشہ بن کر رہ گئے ہیں۔

جیسے ہی سوشل میڈیا آن کرو تو ہر طرف سے ”سپیکر چور“ کا شور ہے،یہاں تک کے یہ اس وقت پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ چل رہا ہے، ہزاروں، لاکھوں پوسٹ اور شیئر اس پر ہو چکے ہیں۔ جہاں دیکھو جس کو دیکھو یہی”سپیکر چور“    کا شور ہے۔

کیوں کہ جب وہ گئے تو ان سے کچھ نہیں بن پایا تو وہ جاتے میں اپنے ساتھ لانگ مارچ مسافروں کا سپیکر اپنے ساتھ لے گئے، جس سے وہ درد کے صدا بلند کرتے تھے۔ جس پر وہ اپنے گمشدہ لواحقین کے نام پکارتے تھے۔ جس پر وہ درد کے گیت گاتے تھے۔ جس پر وہ ٹھہر ٹھہر کر روتے تھے۔ جس پر وہ اپنے زندہ لوگوں کو پکارتے تھے۔ جس پروہ،وہ باتیں کرتے تھے جن باتوں کو یہ ریاست سننے کو تیار نہیں۔ جن پر وہ نوحہ پڑھتے تھے۔ جن پرسیاسی پارٹیوں کو اپنا وعدہ یاد دلاتے تھے۔ جس پر دیس کی باتیں ہو تی تھیں۔ جس پر دیس باسیوں کے درد کی باتیں ہوتی تھیں۔ جس پر سمی کچھ کہہ کر بہت روتی تھی۔ جس پر زاکر مجید کی ماں یہ باور کرانے کی کوشش کرتی تھی کہ وہ کتنے سالوں سے اس سفر میں ہے۔ جس پر کم باتیں اور بہت روتی تھی۔ جس پر بوڑھی مائیں ابھی کچھ کہنا ہی چاہتی تھیں کہ آنسو ان کے دامن کو تر کر جا تے تھے۔

اس سپیکر نے کیا کیا درد نہ سہے۔ اس سپیکر نے کیا کیا نوحے نہ سنے۔ اس سپیکر نے کیا کیا درد کے گیت نے سنے۔اس سپیکر نے گلزار دوست کی باتیں بھی سُنیں تو ماہ رنگ کے ساتھ رویا بھی۔ اس سپیکر نے شہیدوں کی تقاریر بھی سُنیں تو سمی کی درد کی سیمفینی بھی۔

اس سپیکر نے راشد بلوچ ماں کی بلوچی میں درد کی باتیں بھی سُنیں اور وہ منظر بھی دیکھا جب بہت سی کوششوں کے بعد فرزانہ مجید کی ماں کی وہ تقریر بھی سُنی جس میں بہت کوشش کے بعد وہ کچھ اُردو میں کہنے پر راضی ہوئی پر پھر سے بلوچی میں رونا شروع کیا۔ یہ جھوٹ ہے کہ رونے کی کوئی زباں نہیں ہو تی،سچ تو یہ ہے کہ درد کی کوئی زباں نہیں ہوتی، فرزانہ مجید کی ماں بلوچی میں روئی اور جب درد کچھ سوا ہوا تو پھر رونے کی زباں درد کی زباں میں بدل گئی اور درد کا رونا،درد کا رونا ہوتا ہے

جب سسئی کے ساتھ پتھر رو سکتے ہیں
تو بلوچ ماؤں کے ساتھ اسپیکر کیوں نہیں رو سکتے
بلوچ ماؤں،بہنوں،بیٹیوں کے ساتھ اسپیکر بھی رویا ہے
یہ سپیکر سمی کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر بیبو بلوچ کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر ماہ رنگ کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر زاکر مجید کی ماں کے ساتھ رویا ہے
یہ سپیکر اس ماں کے ساتھ رویا ہے جو اسلام آباد میں پولیس کے تشدد کا شکار ہوئی اور بے ہودہ غریدہ فارقی کو یہ سچ بتانے لگی کہ پولیس تشدد سے اس کی پسلی ٹوٹ چکی ہے
یہ سپیکر اس ماں کے ساتھ رویا ہے جو بس دو زبانیں جانتی ہے
ایک بلوچی دوسری درد کی زبان!!!!!!!!

اس سپیکر نے وہ ساری صدائیں سنی ہیں جو دل سے نکلی اور اسپیکر کی روح میں پیوست ہو گئیں
اس سپیکر نے ان بوڑھی ماؤں کو رات کے آخری پہروں میں روتے دیکھا ہے
اس سپیکران ماؤں کو آدھی رات کے شروعاتی پہروں میں ان تصاویروں سے بات کرتے،روتے،روٹھے،مناتے دیکھا ہے
اس سپیکر نے ان ماؤں کو اپنے گمشدہ بچوں کی تصویروں کے ساتھ بغلگیر ہو تے دیکھا ہے
اس سپیکر نے ان ماؤں کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا ہے کہ ”نہیں معلوم تم کب آؤ پر اب تم یقین جانو میں جانے والی ہوں!“‘
اس سپیکر نے بس اپنے کانوں،دل اور روح سے ان ماؤں کو نہیں دیکھا جو اپنے ہاتھ میں مائیک تھامے بہت کچھ کہہ جا تی ہیں پر اس سپیکر نے ان ماؤں کے جنازے بھی اپنے اندر سے سنے ہیں جو اس سفر کی ساتھی ہو تی تھیں۔منتظر دید لیے سفر کرتی تھیں اور پھر تھک کے بہت پیچھے رہ جا تی تھیں

اس سپیکر پر ان مسافر منتظر دید والی ماؤں کے جنازے پڑھے گئے اور یہ سپیکر بہت مغموم رہا ملول رہا اداس رہا،روتا رہا۔
جب سسئی کے ساتھ پتھر رو سکتے ہیں تو بلوچ ماؤں کے ساتھ یہ سپیکر کیوں نہیں
یہ سپیکر بھی اتنا ہی دردیلا تھا جتنی بلوچ مائیں!
اس سپیکر نے بس درد کے گیت نہیں سنے،
اس سپیکر نے بس آدھی رات کے نوحے نہیں سنے
اس سپیکر نے آزادی کے گیت بھی سنے
اس سپیکر نے شام کے آزادی کے گیت بھی سنے
اس سپیکر کے دل نے بس سمی کے درد کو نہیں سنا
اس سپیکر نے گلزار دوست کے انقلابی کلام بھی سنے
اس سپیکر نے بس درد کے سفر کو نہیں دیکھا
اس سپیکرآزادی کی آہٹ بھی سنی تھی
اس سپیکر نے بس سوتی آنکھیں نہیں دیکھی تھیں
اس سپیکر نے دِئیوں کی ماند جلتی آنکھیں بھی دیکھی تھیں
وہ درد کا سپیکر تھا
دیس کے سسئیوں کا اسپیکر تھا
وہ ماؤں کی بولی تھا
آزادی کا گیت تھا
دیس کا سپیکر تھا
آزادی کا سپیکر تھا
اب وہ بھی گُمشدہ ہو چکا ہے
جو بھی اس لے گئے ہیں انہیں یہ بات جاننا چاہیے کہ وہ راک اسٹار والوں کا اسلام آباد کی ہیپی ناٹ والوں کا سپیکر نہیں وہ درد وندوں کا سپیکر ہے اس سپیکر کا بھی اس سفر اور تحریک میں اتنا ہی کردار رہا ہے جتنا گلزار دوست کا اسے جہاں بھی رکھو گے،دفن کرو گے یا گولی مارو گے پھر بھی اس میں سے آواز آئے گی
”اعلان ہزارین مان نہ رگو!!!“ 

—♦—

 

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

Advertisement. Scroll to continue reading.
">
Tags: Baloch YakjehtiMarchSpeakerSpeaker Chor
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

میری آواز سنو ! – تحریر: ناصر منصور

by للکار نیوز
ستمبر 5, 2024
0
0

آپ بار بار وہی دوا تجویز کرتے آ رہے ہیں جو ہر بار مرض بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔...

جلتا، سلگتا بلوچستان! – تحریر: رانااعظم

by للکار نیوز
اگست 27, 2024
0
0

آؤ مل کر بلوچستان کے حالات/سوالات پر غور کریں۔ جب ہم آؤ مل کر کہتے ہیں تو ہم ان دوستوں...

جموں کشمیر متحدہ طلباء محاذکا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے! – سردارانورایڈووکیٹ

by للکار نیوز
جون 4, 2024
0
0

للکار (انٹرنیشنل نیوز ڈیسک) معروف کشمیری حریت پسند راہنما و سابق چیئرمین متحدہ طلباء امریکہ سردار انور ایڈووکیٹ نے پاکستانی...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.