خیبر پختونخوا میں فنانشل ایمرجنسی لگ سکتی ہے۔ خزانہ خالی ۔۔۔(خبر)
پی آئی اے گزشتہ 5 روز سے مسلسل پروازیں کینسل کر رہا ہے۔ روزانہ کے تقریباً 75 کروڑ کی ضرورت ہے پیٹرول اور متفرق اخراجات کے لیے۔ خزانہ خالی۔۔۔(خبر)
سرکاری پینشن اور تنخواہوں میں دیا گیا اضافہ واپس لیا جا رہا ہے۔ خزانہ خالی۔۔۔(خبر)
حکومتی سطح پر دی گئی جنرل سبسڈیز واپس لی جا چکی ہیں۔
خزانہ خالی۔۔۔(خبر)
ٹیکس کی کلکشن کم ہو چکی ہے ۔ریوینیو کے اضافہ کی تمام تر کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں۔ (خبر)
تو کیا ایسے میں آئین کی شق235 کے تحت فنانشل ایمرجنسی لگا کر جنرل الیکشن ایک برس کے لیے ملتوی ہو سکتے ہیں؟
آئیے اس سوال کو ہم بڑے کینوس پر پرکھتے ہیں۔
الیکشن کے التوا میں سیاسی پارٹیوں کا نقطہ نظر کچھ ابہام کا شکار ہے۔
جنرل الیکشن التوا کے فیصلہ پر ؟
نون لیگ تقریباً راضی ہے۔
نواز شریف بالکل خاموش ہیں۔
پیپلز پارٹی کا دھیمی آواز میں احتجاج ۔
زرداری صاحب خاموش ہیں۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی خاموش اور ان کی دوسری ٹیئر کی قیادت بھی خاموش
جے یو آئی (ف) کی الیکشن التوا کی ڈیمانڈ
دیگر قابل ذکر جماعتوں کی خاموشی یا نیم رضامندی ۔
جب چاروں طرف ایسے حالات ہوں تو آپ نے ضرور 80 سے 100 ارب کے الیکشن اخراجات کرنے ہیں۔ پہلے معیشت بہتر کریں۔ اسی ضمن میں کچھ ضروری اقدامات اٹھائیں
بہتر ہے کہ پہلے قومی اداروں کی کارکردگی کسی آپٹیمم سطح پر لائیں۔
ریوینیو کولیکشن کے لیے مربوط سسٹم لائیں۔ ملک بھر میں یو اے ای طرز پر ٹریڈرز سادہ رجسٹریشن نظام لائیں۔ اس وقت ملینز میں سمال ٹریڈرز / ٹھیلے والے متفرق سڑکوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے ماحول کی آلودگی/ سسٹم کی بالیدگی اور نظام میں مربوطیت آئے گی۔
غیر قانونی ہر قسم کے غیر ملکیوں کو باہر بھیجیں ۔ جو کسی صورت ٹیکسز نظام کا حصہ نہیں ہیں۔ نادرا کے نظام سے جعلی رجسٹریشنز کو کینسل کرکے غیر ملکیوں کو ملک بدر کریں۔
معیشت مضبوط تو خیر بعد میں ہوگی۔ پہلے اس کے خدوخال کو Trim کرکے ملکی ضرورت کے تحت لائیں۔
سرکاری پروٹوکولز کو ختم کریں۔
ایوان صدر کے ذمہ کچھ کام لگائیں۔ بیکار اورخالی دفتر پر ایک شخص کے لیے کروڑوں کے روزانہ خرچ کو قابو میں لائیں۔
وزیراعظم ہاوُس کے اخراجات اور سٹاف کو کم کریں ۔ کچھ قیامت نہیں مچی ہوئی کہ سینکڑوں ملازمین صرف دفتری بابوگری کریں۔
جملہ بیوروکریسی ( سول و ملٹری) کے حجم کو کٹ ٹو سائز کریں۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے اس پر افسر شاہی سے مزاحمت آئے گی لیکن مقتدرہ کو سامنا کرنا چاہیے اور دونوں طرف دفتری افسران کی کمی کی جاسکتی ہے ۔ البتہ فیلڈ افسروں کے دائرہ کار کو بڑھانا چاہیے۔
پورے ملک میں بائیس گریڈ سے نیچے کے افسروں کے سیکٹریز / پی اے/ پی آر اوز/ ٹائپسٹ / سٹینوز کے عہدے ختم کرکے اس سٹاف کو مختلف محکموں میں ضم کرکے ٹاسک اورئنٹڈ فیلڈ سٹاف بنائیں تاکہ کارکردگی کا معیار بلند ہو۔
پاکستان کے محکمہ خارجہ اور ایمبیسیوں کے اخراجات پر قدغن ضروری ہے۔ افسران خود کام کریں ۔پورے ملک میں نائب قاصد کی پوسٹس ختم کر کے انہیں ورک اورئنٹڈ سٹاف میں کنورٹ کریں تاکہ افسروں کی گھریلو یا ذاتی چاکری جیسا غیر پیداواری کام نہ کریں۔
جب تک سرمایہ دارانہ جمہوریت کو سوشلسٹ خدوخال پر استوار نہیں کریں گے ۔ آپ کی معیشت اور طبقاتی تفاوت بہتر نہیں ہوگی ۔ یہ طے کرلیں ۔جب تک ایلیٹ سسٹم کو بتدریج کسی حد تک کم کرکے پیداواری طرز پر نہیں کریں گے اسمبلیوں کے قیام اور اس کے مقاصد کو حاصل نہیں کر پائیں گے۔
—♦—
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ 1982ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1975 میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے سنئیر وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک ملکی و عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے تاحیات ممبر ہیں.
جواب دیں جواب منسوخ کریں
خیبر پختونخوا میں فنانشل ایمرجنسی لگ سکتی ہے۔ خزانہ خالی ۔۔۔(خبر)
پی آئی اے گزشتہ 5 روز سے مسلسل پروازیں کینسل کر رہا ہے۔ روزانہ کے تقریباً 75 کروڑ کی ضرورت ہے پیٹرول اور متفرق اخراجات کے لیے۔ خزانہ خالی۔۔۔(خبر)
سرکاری پینشن اور تنخواہوں میں دیا گیا اضافہ واپس لیا جا رہا ہے۔ خزانہ خالی۔۔۔(خبر)
حکومتی سطح پر دی گئی جنرل سبسڈیز واپس لی جا چکی ہیں۔
خزانہ خالی۔۔۔(خبر)
ٹیکس کی کلکشن کم ہو چکی ہے ۔ریوینیو کے اضافہ کی تمام تر کوششیں رائیگاں جا رہی ہیں۔ (خبر)
تو کیا ایسے میں آئین کی شق235 کے تحت فنانشل ایمرجنسی لگا کر جنرل الیکشن ایک برس کے لیے ملتوی ہو سکتے ہیں؟
آئیے اس سوال کو ہم بڑے کینوس پر پرکھتے ہیں۔
الیکشن کے التوا میں سیاسی پارٹیوں کا نقطہ نظر کچھ ابہام کا شکار ہے۔
جنرل الیکشن التوا کے فیصلہ پر ؟
نون لیگ تقریباً راضی ہے۔
نواز شریف بالکل خاموش ہیں۔
پیپلز پارٹی کا دھیمی آواز میں احتجاج ۔
زرداری صاحب خاموش ہیں۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی خاموش اور ان کی دوسری ٹیئر کی قیادت بھی خاموش
جے یو آئی (ف) کی الیکشن التوا کی ڈیمانڈ
دیگر قابل ذکر جماعتوں کی خاموشی یا نیم رضامندی ۔
جب چاروں طرف ایسے حالات ہوں تو آپ نے ضرور 80 سے 100 ارب کے الیکشن اخراجات کرنے ہیں۔ پہلے معیشت بہتر کریں۔ اسی ضمن میں کچھ ضروری اقدامات اٹھائیں
بہتر ہے کہ پہلے قومی اداروں کی کارکردگی کسی آپٹیمم سطح پر لائیں۔
ریوینیو کولیکشن کے لیے مربوط سسٹم لائیں۔ ملک بھر میں یو اے ای طرز پر ٹریڈرز سادہ رجسٹریشن نظام لائیں۔ اس وقت ملینز میں سمال ٹریڈرز / ٹھیلے والے متفرق سڑکوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے ماحول کی آلودگی/ سسٹم کی بالیدگی اور نظام میں مربوطیت آئے گی۔
غیر قانونی ہر قسم کے غیر ملکیوں کو باہر بھیجیں ۔ جو کسی صورت ٹیکسز نظام کا حصہ نہیں ہیں۔ نادرا کے نظام سے جعلی رجسٹریشنز کو کینسل کرکے غیر ملکیوں کو ملک بدر کریں۔
معیشت مضبوط تو خیر بعد میں ہوگی۔ پہلے اس کے خدوخال کو Trim کرکے ملکی ضرورت کے تحت لائیں۔
سرکاری پروٹوکولز کو ختم کریں۔
ایوان صدر کے ذمہ کچھ کام لگائیں۔ بیکار اورخالی دفتر پر ایک شخص کے لیے کروڑوں کے روزانہ خرچ کو قابو میں لائیں۔
وزیراعظم ہاوُس کے اخراجات اور سٹاف کو کم کریں ۔ کچھ قیامت نہیں مچی ہوئی کہ سینکڑوں ملازمین صرف دفتری بابوگری کریں۔
جملہ بیوروکریسی ( سول و ملٹری) کے حجم کو کٹ ٹو سائز کریں۔ یہ نکتہ بہت اہم ہے اس پر افسر شاہی سے مزاحمت آئے گی لیکن مقتدرہ کو سامنا کرنا چاہیے اور دونوں طرف دفتری افسران کی کمی کی جاسکتی ہے ۔ البتہ فیلڈ افسروں کے دائرہ کار کو بڑھانا چاہیے۔
پورے ملک میں بائیس گریڈ سے نیچے کے افسروں کے سیکٹریز / پی اے/ پی آر اوز/ ٹائپسٹ / سٹینوز کے عہدے ختم کرکے اس سٹاف کو مختلف محکموں میں ضم کرکے ٹاسک اورئنٹڈ فیلڈ سٹاف بنائیں تاکہ کارکردگی کا معیار بلند ہو۔
پاکستان کے محکمہ خارجہ اور ایمبیسیوں کے اخراجات پر قدغن ضروری ہے۔ افسران خود کام کریں ۔پورے ملک میں نائب قاصد کی پوسٹس ختم کر کے انہیں ورک اورئنٹڈ سٹاف میں کنورٹ کریں تاکہ افسروں کی گھریلو یا ذاتی چاکری جیسا غیر پیداواری کام نہ کریں۔
جب تک سرمایہ دارانہ جمہوریت کو سوشلسٹ خدوخال پر استوار نہیں کریں گے ۔ آپ کی معیشت اور طبقاتی تفاوت بہتر نہیں ہوگی ۔ یہ طے کرلیں ۔جب تک ایلیٹ سسٹم کو بتدریج کسی حد تک کم کرکے پیداواری طرز پر نہیں کریں گے اسمبلیوں کے قیام اور اس کے مقاصد کو حاصل نہیں کر پائیں گے۔
—♦—