یہ میں نے کیا سنا تھا! کتاب سے نظریں اٹھا کر ان کو دیکھا۔ کانوں میں یہی الفاظ بار بار گونج رہے تھے۔ میں کچھ لمحے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ میں نے جو سنا اسے میں غلط فہمی ثابت کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ جس طرح مسکرا کر مجھے اتنے مطمئن انداز سے دیکھ رہے تھے تو یقین ہو گیا کہ جو سنا ہے وہی انہوں نے کہا ہے۔
یہ ایک انتہائی ناقابلِ یقین سوال تھا جو نہ تو میں نے کبھی کسی کو کسی سے پوچھتے ہوئے سنا اور نہ ہی کبھی کسی نے مجھ سے پوچھا۔ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ اور بوکھلاہٹ تھی کہ الگ۔ کہ کبھی کسی مرد نے کسی عورت کو چُھونے سے پہلے اس طرح باقاعدہ طور پر پوچھا نہیں ہو گا۔ وہ یا تو عورت کی مرضی کے خلاف ہی یہ جراَت کر لیتا ہے یا اس کی آنکھوں میں اس کی ہاں پڑھ لیتا ہے۔ اور اگر ہمت نہ کر پائے تو دل میں یہ خواہش لیے موقع کی طاق میں پھرتا رہتا ہے۔ مگر پوچھتا ہرگز نہیں۔
سامنے بیٹھے اس شخص کے چہرے پہ جُھریاں، ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں عورت کو چُھو لینے کی بے پناہ خواہش!! کتنی جرآت سے یہ سوال کیا تھا اس نے۔ سوال بھی ایسا جس نے رسم و رواج، روایات ، منافقت اور لحاظ کی سبھی زنجیروں کو توڑ کر رکھ دیا تھا ۔
میں ان کے بارے میں کافی کچھ جانتی تھی۔ کچھ تو انہوں نے خود بتا رکھا تھا کچھ لوگوں سے سنتی رہتی تھی۔ مگر لوگوں کے کہے کی اہمیت نہیں تھی۔ وہ یونہی ہنسی ہنسی میں ان کے بارے میں ایسی باتیں کہتے تھے جو میرے لیے نہ تو قابلِ یقین تھیں اور نہ ہی قابلِ توجہ۔ ان کی زندگی زیادہ تر مطالعہ میں ہی گزری تھی۔ امریکن، جرمن، فرانسیسی، انگلش، اردو گو ہر طرح کا لٹریچر انہوں نے پڑھ رکھا تھا۔ جبکہ رسمی سے ان کی زیادہ بن نہ پائی تھی اور دسویں پاس بھی نہ کی تھی۔ جب جب جس جس کتاب یا رائیٹر کا ذکر ہوتا وہ اس کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں بتاتے۔ پاؤنڈ ان کا پسندیدہ شاعر تھا۔ رسمی تعلیم، نوکری، شادی ان سب سب چیزوں کے لئے تو جیسے وہ بنے ہی نہیں تھے. سکول نہ جانے ، شاعری پڑھنے اور شعر کہنے پر اپنی ماں سے مار بھی خوب پڑتی تھی۔ کہتے تھے پہلا ہی شعر کہنے پر مجھے میری ماں سے بہت مار پڑی۔ وہ پہلا شعر وہ اکثر مجھے سنایا کرتے تھے جو کچھ یوں تھا،
"رحمِ مادر سے نکلنا میرا بے سود ہوا
آج بھی قید میں ہوں”
عمومی سماجی روایات کی رُو سے وہ بہت عجیب تھے۔ خواب، تخیل، حقیقت، جھرنے، ندی، پہاڑ، نغمے، ماضی، حال، مستقبل، نرگسیت، وہم، اندیشے، نفرت، غصہ کسی بھی چیز کا کوئی عکس ان کی باتوں سے نہ جھلکتا۔ بس ایک ہی مخلوق کو نظریں ڈھونڈتی تھیں۔ ایک ہی مخلوق کے گُن گاتے۔ اور وہ تھی عورت!
جیسے ہی کوئی عورت کافی شاپ میں آتی یا کوئی نسوانی آواز ان کے کانوں میں پڑتی وہ فوراً پلٹ کر اس طرف دیکھتے اور پھر بار بار دیکھتے۔ پھر مجھ سے پوچھتے، "کیا یہ آپ کی دوست ہے؟” میں کہتی ، "جی نہیں ۔” اس سوال کے مبہم معنی میں خوب سمجھتی تھی۔ بسا اوقات تو کتاب کی طرف نظر ہوتے ہوئے بھی میرا دھیان انہی میں ہوتا۔ وہ خاموشی سے مجھے دیکھتے رہتے۔ جب تک میں کتاب چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ نہ ہوتی چپ رہتے۔ بس ہر تھوڑی دیر بعد دو سوال پوچھتے۔
"آپ کی گھڑی پر کتنے بجے ہیں۔” میں وقت بتاتی۔ پھر کہتے، "یہ میرا موبائل کام تو کر رہا ہے نا؟”
میں کہتی ، "جی بالکل ٹھیک کام کر رہا ہے۔ مگر آپ بار بار کیوں پوچھتے ہیں؟”
وہ جواب دیتے، "انگلینڈ سے میری بہن کا فون آنا ہے۔”
ان کی بے چینی دیکھ کر دل اداسی سے بھر جاتا۔ مگر میں پھر سے کتاب میں گم ہونے کی کوشش کرتی۔ مقررہ وقت پر ان کا موبائل بجتا۔ وہ خوشی خوشی فون سننے لگتے۔ دو ہی باتیں کہتے۔ "میں اپنی دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں۔” اور یہ کہ "جن کے ساتھ میں رہتا ہوں وہ مجھ سے سارے پیسے چھین لیتے ہیں اور میں کوئی اور گھر ڈھونڈ رہا ہوں۔” 2 منٹ کی فون کال کے بعد وہ پھر سے مرجھا جاتے۔۔۔ کتاب پڑھتے پڑھتے میں جونہی مسکرا کر انہیں دیکھتی ان کے قصے کہانیاں شروع ہو جاتے۔
نہ کسی کو دیکھ کر خوش ہوتے نہ منھ بناتے۔ کسی اور سے کم ہی بات کرتے تھے اور نہ کسی اور کے متعلق بات کرتے تھے۔ صرف اپنی بات کرتے اور چند ہی باتیں کرتے۔ وہی چند باتیں وہ بار بار کرتے۔
مرد حضرات سے دور بھاگتے تھے۔ زیادہ تر میرے والی ٹیبل پر ہی بیٹھتے۔ اور ہمیشہ ہی بیٹھنے سے پہلے مجھ سے پوچھ لیتے۔ تھوڑا مسئلہ رہتا مجھے کہ جو کوئی بھی ان سے ملنے آتا وہ اسی ٹیبل کی طرف آ جاتا۔ وہ مردوں سے بیزار رہتے۔ قریب بیٹھے مرد کو بالکل نظر انداز کر دیتے مگر عورت کو دور سے ہی آتے دیکھ کر جیوِت ہو جاتے۔ کبھی کبھی جب وہ قریب بیھٹے کسی مرد کی برائی میرے ساتھ کرتے تو میں شرمندہ ہونے لگتی۔۔۔۔
عورت کو بے حد پسند کرتے تھے۔ کہتے تھے عورت ڈانٹنے اور گالیاں دینے کے لیے نہیں بلکہ پیار کرنے کے لئے ہے۔ ایک بار اپنی نظم کی ایک لائن بھی سنائی۔ پھر اکثر ہی سناتے تھے۔ کہتے تھے،
"عورت کا برہنہ بدن میرے لیے خدا ہے۔” یہ مصرع سن کر میں دائیں بائیں دیکھنے لگتی۔ پھر مسکرا دیتی۔ عورت کا اتنا بڑا پجاری میں نے نہیں دیکھا تھا۔ کہنے والوں نے عورت کو رنگ، خوشبو کا پیکر، سنگِ مرمر، گل اور مخملیں بدن، محبت، اجالا، زندگی، کیا کیا نہیں کہا! مگر یہ ایک خیال، یہ ایک استعارہ۔۔۔ اُف!!
پچاسی سال کی عمر تھی مگر عورت کے لیے یہ گہرے جذبات اور خیالات!
میرے لیے یہ سب باتیں اور رویہ حیران کن نہیں تھا نہ شرمناک، نہ قابلِ نفرت۔ روزانہ ان سے باتیں کرتی، ان کی باتیں سنتی تھی۔ وہ بڑی بڑی نیلی آنکھیں ہر عورت میں اپنی عورت کو ڈھونڈتی تھیں۔ مگر کوئی عورت اُن کی نہیں تھی۔ وجہ بھی وہ خود بتاتے تھے۔ کہتے تھے کشور ناہید سمیت جس بھی عورت سے انہوں نے شادی کے لیے پوچھا اُس نے صاف انکار کر دیا۔ اور کہا، "تم کوئی کام تو کرتے نہیں۔” یہ الفاظ کئی بار انہوں نے مجھے بتائے۔ مگر چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ مسکراہٹ اس لیے کہ روپے پیسے کی اہمیت سے انہیں انکار نہیں تھا۔
میں نے ایک بار کہا، "لکھنے والوں نے ہیٹی، ہیڈا، یوسٹیشیا اور میڈم باوری کے روپ میں عورتوں کے بہت بُرے روپ دکھائے ہیں۔” کہنے لگے، "پاگل ہیں سب ۔”
کوئی بھی وہاں آ جاتا، ان کو پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ چاہے وہ کوئی بھی فلسفہ بیان کرتا، وہ کسی کو نہیں سنتے تھے۔ بس عورت کو ڈھونڈا کرتے، عورت کو دیکھا کرتے۔ عورت کو دیکھنا چاہتے۔ عورت کو سننا چاہتے۔
ان کو کتابوں اور بیکاری سے عشق تھا اور اس عشق کی خاص بات یہ تھی کہ یہ عشق عورت کے عشق کے بر عکس ان کو میسر بھی تھا۔ لیکن لوگ کچھ بھی کہیں، مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ اپنی محبوب عورت یا کوئی بھی اور عورت اگر ان کو میسر آ جاتی تو عورت سے ان کا یہ والہانہ عشق تا عمر نہ رہتا کہ بدنی رشتہ قائم کر کے دوسری صنف میں چھپے راز ٹٹولنے کے بعد واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ وہ راز جو دونوں طرف سے ہی آشکار نہیں ہونے چاہئیں۔
انہوں نے دوسرے لوگوں کی طرح روایتی طور سے زندگی نہیں گزاری تھی۔ لیکن یہ زندگی بھی تو کوئی زندگی نہیں تھی۔ اجالوں کی خواہش تو کرنا مگر اپنی دنیا اندھیروں میں بسائے رکھنا۔ انہوں نے یا تو ہر کام ادھورا کیا یا سرے سے کیا ہی نہیں۔
بتایا کرتے تھے کہ جس لڑکی کے گھر وہ رہتے تھے وہاں بہت شور ہوتا تھا۔ وہ مطالعہ نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی ساری کتابیں کہیں گم ہو گئی تھیں۔ لندن میں مقیم ان کی بہن سمیت جو بھی دوست اور ادارے ان کو پیسے بھیجا کرتے تھے وہ لڑکی اور اس کے گھر والے چھین لیتے۔ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے ، "کیا میں آپ کے ساتھ آپ کے گھر رہ سکتا ہوں؟” اور میرے پاس ان کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
وہ کوئی مشکل انسان نہیں تھے، نہ بیزار، نہ ذہنی الجھنوں کا شکار۔ آزادی سے محبت نے ان کو ادھورا رکھا اور تنہا بھی۔ مجھے یہ ان کی شعوری کوشش لگتی تھی کیونکہ کبھی تنہائی کا رونا نہیں رویا تھا ۔مجھے لگتا تھا کہ اگر وہ شادی کرنا چاہتے تو کر ہی لیتے۔ عورت کو لے کر ان کے دل میں اپنی کوئی جذباتی یا جسمانی لذت یا ضرورت پوری کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ مگر شاید اس کو پوجنے میں۔۔
کوئی مخصوص فکر و نظر کے انسان نہیں تھے۔ نہ بھر بھر کے کتابیں لکھی نہ ہی کسی نظریے سے اختلاف و اتفاق کیا۔ مارکسیت ، جدیدیت ، وجودیت ، مذہب، سائنس کسی بھی چیز سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ شاید وہ جو کچھ پڑھ چکے تھے اس کو ہضم کر چکے تھے۔ دوسروں کی کہی ہوئی باتوں کو دہرانا یا خود اپنی بات کہنے سے بھی ان کا کوئی سروکار نہیں تھا۔ ایک بات جو وہ باقاعدہ تو نہیں کہتے تھے مگر میں محسوس کیا کرتی تھی۔ اکیلے پن کا شکار تھے۔ تنہائی کے اس آسیب کے ساتھ رات تو کاٹ لیتے مگر دن چڑھتے ہی وہ اس جگہ آنے کے لیے پر تولتے۔ جن کو جانتے تھے ان سے وہ چار سو روپے مانگتے۔ میں نے ایک بار پوچھا آپ ہمیشہ چار سو روپے ہی کیوں مانگتے ہیں۔ کہنے لگے، یہ ماڈل ٹاون سے یہاں تک آنے کے لیے رکشہ کا کرایہ ہوتا ہے۔۔ اور جن کے ساتھ میں رہتا ہوں وہ مجھ سے پیسے چھین لیتے ہیں۔ پھر میرے پاس پورا مہینہ کوئی پیسہ نہیں ہوتا۔ وہ ہر ایک سے اتنے ہی پیسوں کا پوچھتے۔ وہ یہاں اس جگہ آنے کے لیے بے چین ہوتے تاکہ یہاں آ کر وہ لوگوں میں بیٹھ سکیں۔
کہتے ہیں کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ گھر تو اس مرد کا بھی نہیں تھا۔ یہ مردِ واحد تھا شاید جسے رہنے کو گھر کی خواہش تھی بھی نہیں۔ اسے تو بس مکان چاہیے تھا جہاں وہ تنہائی کے آسیب کے ساتھ بچی کچی زندگی سکون سے کاٹ سکے۔
ایڈگر ایلن پو، بیکٹ، کالرج، میرا جی، سلویا، ایلیا، پروین شاکر، ورجینیا، ہیمنگ وے اور کون کون!! کب زندگی کو زندگی جیسا پایا! کئی خواب تھے جو ٹوٹے، توقعات، کچھ من مندر کی تمنائیں جو کہیں محبوب کے ہاتھوں کچل دی گئیں۔ کبھی دشمن سماج ، کہیں حالات۔ مگر یہاں کیا تھا!! ایک عجیب سی بے حسی۔ دنیا کا کوئی بھی معاملہ ، کوئی نشیب و فراز ، موت، زندگی۔۔۔ کچھ بھی ان کا موضوع نہیں تھا۔ ان کے نزدیک اور کوئی دکھ حتیٰ کہ اور کوئی خوشی بھی نہیں تھی محبت کے سوا۔۔۔ محبت مگر کس سے؟؟ وہ کون تھی۔ شاید ایک۔ شاید کئی۔ شاید سب۔ مگر پھر بھی کوئی نہیں۔
کسی کو چُھونے کی خواہش بھی ایک عجیب سی سائنس ہے۔ یا نفسیات ہے۔ یا فرض۔ یا حق۔ یا تجسس یا پھر قدرتی امر کہہ دینے کی سازش۔ جو بھی ہے، کچھ تو ہے۔
میں کتنی دیر ان کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ انہوں نے پھر سے اپنا سوال دُہرایا۔
"کیا میں آپ کو چُھو سکتا ہوں؟”
وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ میں کچھ لمحے ان کو دیکھتی رہی، سوچتی رہی کہ کیا کہوں۔ سوچا اٹھ کر چلی جاتی ہوں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھی رہی۔ ان کو دیکھتی رہی۔ میں ان کے چہرے کے تاثرات سے کوئی اندازہ لگانا چاہتی تھی۔ میں جلدی اپنے دماغ سے کوئی من پسند نتیجہ چاہتی تھی اور وہ اس وقت نتیجہ اخذ کرنے میں اتنی ہی دیر لگا رہا تھا۔ یہ بھی سوچا کہ میں آخر ایسے سوال پر اتنا سوچ ہی کیوں رہی ہوں۔ ساتھ ہی اندر سے یہ جواب بھی ملا کہ جس کی طرف سے یہ پوچھا گیا ہے وہ ایسا عام انسان بھی نہیں، نہ اس کا سوال۔
میں اس سوال کو نظر انداز نہ کر سکی۔ میں کوئی تجربے کرنے والی انسان نہیں اور نہ مجھے کسی دوسرے کی خواہش کی کوئی پرواہ تھی۔ نہ اعتبار۔ مگر اب ایسی بات کا جواب انکار بھی نہیں تھا کہ کیوں ایسے سوال کو اتنی اہمیت دی جائے کہ انکار میں بھی جواب دیا جائے۔
میرا ذہن کئی طرح کی باتیں بنا رہا تھا۔
مجھے اس سوال پر غصہ بھی تو نہیں آیا تھا بلکہ حیرت ہوئی تھی۔ کتنا سب کچھ سوچنے کے بعد ایک اور خیال آیا کہ اتنا نحیف، اتنا بوڑھا، اتنا بے بس انسان میرا کیا بگاڑ لے گا آخر! "ہاں کہہ دیتی ہوں۔” میں ان کی طرف دیکھتی رہی۔ وہ مسکراتے رہے۔
بالآخر گھبراتے ہوئے کہہ دیا۔ "جی ہاں۔”
بس پھر کیا تھا۔ وہ تھوڑا قریب آئے، میری طرف دیکھ کر پھر سے مسکرائے۔ کرسی کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہاں سنتے ہی تھوڑا آگے بڑھے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔
جانے کیا ہونے والا تھا!! میں گھبرا رہی تھی۔ سوچا اگر انہوں نے کوئی عجیب حرکت کر دی تو؟ اندر سے آواز آئی، "قصور تو پھر تمہارا ہی ہوگا۔ کیوں ہاں کہی تھی۔”
ادھ کھلی آنکھ سے انہی کو دیکھ رہی تھی۔
کہ اچانک ہی۔۔۔۔
ٹیبل پر دھرے میرے ہاتھ پر۔۔۔۔۔۔
انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی ہلکے سی رکھی اور اٹھا لی۔۔۔۔۔۔!!
یہ کیا؟؟ فٹا فٹ پوری آنکھیں کھولیں۔
دل میں سوچا! "بس؟”
انہیں دیکھا۔ وہ کتنے خوش تھے۔۔۔!
وہ جتنے خوش تھے میں اتنی حیران پریشان۔۔۔ !
"یہ تھا اس شخص کے نزدیک کسی کو چھونے کا معنی؟” دل میں سوچا۔
پھول کی کوئی مرجھائی ہوئی پتی رکھ کر اٹھا لی ہو جیسے۔
یہ معنی کتنا خوبصورت،
کتنا عجیب،
کتنا ادھورا،
کتنا مکمل۔
اتنا سا چھونے سے جسے میں محسوس بھی نہ کر پائی تھی انہیں کس قدر خوشی ملی تھی۔۔۔!! نہیں۔ خوشی نہیں ۔ شاید زندگی۔
اتنی خوشی تو کھویا ہوا خزانہ پا کر نہیں ہوتی، موت کے تخت پر زندگی پا کر نہیں ملتی، محبوب کے دیدار پر نہیں ملتی، امتحان میں کامیابی پر نہیں ملتی!!
یہ انہوں نے کیا خزانہ پا لیا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکراتے رہے۔ اور مجھ پر بھی کوئی حقیقت آشکار ہوئی۔
میں دل ہی دل شرمندہ ہوتی رہی۔ خود کو ملامت کرتی رہی۔ میرا خیال تھا کہ خیالات کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ مگر نہیں۔ یہ ایک لمحہ عمر بھر کی خیال پرستی کو مات دے گیا۔ اس دن پتا چلا میری بھی سوچ کی کوئی حد تھی۔ روایتی سی۔ جو بحثیتِ عورت میرے سماج کی دین تھی۔ شرمندگی سے آنکھیں موند لیں۔
وہ سگریٹ کے لیے باہر جا چکے تھے۔
کون تھا یہ؟ جسے بھرپور جنسی تجربہ کرنے میں رتی بھر دلچسپی نہ تھی۔
بدن سے بدن ملا کر لذت حاصل کرنے کے فرسودہ خیال اور تجربے سے ماورا یہ شخص! نہ خلافِ قدرت تھا نا مطابقِ قدرت۔ بس خلافِ خطہِ زمیں تھا، خطہِ خاک ہوا۔
—♦—
تنزیلہ مغل شاعرہ، مصنفہ اور گلوکارہ ہیں۔ زیادہ تر انگریزی زبان میں لکھتی ہیں، ان کی شاعری کی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ سماجی مسائل پر اکثر مضامین بھی لکھتی رہتی ہیں۔
ادارتی نوٹ:
یہ مضمون سلیم الرحمٰن صاحب کی ادارت میں لاہور سے شائع ہونے والے ادبی جریدے "سویرا" کے اکتوبر 2023ء کے شمارے میں بھی شائع ہوچکا ہے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
یہ میں نے کیا سنا تھا! کتاب سے نظریں اٹھا کر ان کو دیکھا۔ کانوں میں یہی الفاظ بار بار گونج رہے تھے۔ میں کچھ لمحے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ میں نے جو سنا اسے میں غلط فہمی ثابت کرنا چاہتی تھی۔ مگر وہ جس طرح مسکرا کر مجھے اتنے مطمئن انداز سے دیکھ رہے تھے تو یقین ہو گیا کہ جو سنا ہے وہی انہوں نے کہا ہے۔
یہ ایک انتہائی ناقابلِ یقین سوال تھا جو نہ تو میں نے کبھی کسی کو کسی سے پوچھتے ہوئے سنا اور نہ ہی کبھی کسی نے مجھ سے پوچھا۔ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی۔ اور بوکھلاہٹ تھی کہ الگ۔ کہ کبھی کسی مرد نے کسی عورت کو چُھونے سے پہلے اس طرح باقاعدہ طور پر پوچھا نہیں ہو گا۔ وہ یا تو عورت کی مرضی کے خلاف ہی یہ جراَت کر لیتا ہے یا اس کی آنکھوں میں اس کی ہاں پڑھ لیتا ہے۔ اور اگر ہمت نہ کر پائے تو دل میں یہ خواہش لیے موقع کی طاق میں پھرتا رہتا ہے۔ مگر پوچھتا ہرگز نہیں۔
سامنے بیٹھے اس شخص کے چہرے پہ جُھریاں، ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ اور آنکھوں میں عورت کو چُھو لینے کی بے پناہ خواہش!! کتنی جرآت سے یہ سوال کیا تھا اس نے۔ سوال بھی ایسا جس نے رسم و رواج، روایات ، منافقت اور لحاظ کی سبھی زنجیروں کو توڑ کر رکھ دیا تھا ۔
میں ان کے بارے میں کافی کچھ جانتی تھی۔ کچھ تو انہوں نے خود بتا رکھا تھا کچھ لوگوں سے سنتی رہتی تھی۔ مگر لوگوں کے کہے کی اہمیت نہیں تھی۔ وہ یونہی ہنسی ہنسی میں ان کے بارے میں ایسی باتیں کہتے تھے جو میرے لیے نہ تو قابلِ یقین تھیں اور نہ ہی قابلِ توجہ۔ ان کی زندگی زیادہ تر مطالعہ میں ہی گزری تھی۔ امریکن، جرمن، فرانسیسی، انگلش، اردو گو ہر طرح کا لٹریچر انہوں نے پڑھ رکھا تھا۔ جبکہ رسمی سے ان کی زیادہ بن نہ پائی تھی اور دسویں پاس بھی نہ کی تھی۔ جب جب جس جس کتاب یا رائیٹر کا ذکر ہوتا وہ اس کے بارے میں کچھ دلچسپ باتیں بتاتے۔ پاؤنڈ ان کا پسندیدہ شاعر تھا۔ رسمی تعلیم، نوکری، شادی ان سب سب چیزوں کے لئے تو جیسے وہ بنے ہی نہیں تھے. سکول نہ جانے ، شاعری پڑھنے اور شعر کہنے پر اپنی ماں سے مار بھی خوب پڑتی تھی۔ کہتے تھے پہلا ہی شعر کہنے پر مجھے میری ماں سے بہت مار پڑی۔ وہ پہلا شعر وہ اکثر مجھے سنایا کرتے تھے جو کچھ یوں تھا،
"رحمِ مادر سے نکلنا میرا بے سود ہوا
آج بھی قید میں ہوں”
عمومی سماجی روایات کی رُو سے وہ بہت عجیب تھے۔ خواب، تخیل، حقیقت، جھرنے، ندی، پہاڑ، نغمے، ماضی، حال، مستقبل، نرگسیت، وہم، اندیشے، نفرت، غصہ کسی بھی چیز کا کوئی عکس ان کی باتوں سے نہ جھلکتا۔ بس ایک ہی مخلوق کو نظریں ڈھونڈتی تھیں۔ ایک ہی مخلوق کے گُن گاتے۔ اور وہ تھی عورت!
جیسے ہی کوئی عورت کافی شاپ میں آتی یا کوئی نسوانی آواز ان کے کانوں میں پڑتی وہ فوراً پلٹ کر اس طرف دیکھتے اور پھر بار بار دیکھتے۔ پھر مجھ سے پوچھتے، "کیا یہ آپ کی دوست ہے؟” میں کہتی ، "جی نہیں ۔” اس سوال کے مبہم معنی میں خوب سمجھتی تھی۔ بسا اوقات تو کتاب کی طرف نظر ہوتے ہوئے بھی میرا دھیان انہی میں ہوتا۔ وہ خاموشی سے مجھے دیکھتے رہتے۔ جب تک میں کتاب چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ نہ ہوتی چپ رہتے۔ بس ہر تھوڑی دیر بعد دو سوال پوچھتے۔
"آپ کی گھڑی پر کتنے بجے ہیں۔” میں وقت بتاتی۔ پھر کہتے، "یہ میرا موبائل کام تو کر رہا ہے نا؟”
میں کہتی ، "جی بالکل ٹھیک کام کر رہا ہے۔ مگر آپ بار بار کیوں پوچھتے ہیں؟”
وہ جواب دیتے، "انگلینڈ سے میری بہن کا فون آنا ہے۔”
ان کی بے چینی دیکھ کر دل اداسی سے بھر جاتا۔ مگر میں پھر سے کتاب میں گم ہونے کی کوشش کرتی۔ مقررہ وقت پر ان کا موبائل بجتا۔ وہ خوشی خوشی فون سننے لگتے۔ دو ہی باتیں کہتے۔ "میں اپنی دوست کے ساتھ بیٹھا ہوا ہوں۔” اور یہ کہ "جن کے ساتھ میں رہتا ہوں وہ مجھ سے سارے پیسے چھین لیتے ہیں اور میں کوئی اور گھر ڈھونڈ رہا ہوں۔” 2 منٹ کی فون کال کے بعد وہ پھر سے مرجھا جاتے۔۔۔ کتاب پڑھتے پڑھتے میں جونہی مسکرا کر انہیں دیکھتی ان کے قصے کہانیاں شروع ہو جاتے۔
نہ کسی کو دیکھ کر خوش ہوتے نہ منھ بناتے۔ کسی اور سے کم ہی بات کرتے تھے اور نہ کسی اور کے متعلق بات کرتے تھے۔ صرف اپنی بات کرتے اور چند ہی باتیں کرتے۔ وہی چند باتیں وہ بار بار کرتے۔
مرد حضرات سے دور بھاگتے تھے۔ زیادہ تر میرے والی ٹیبل پر ہی بیٹھتے۔ اور ہمیشہ ہی بیٹھنے سے پہلے مجھ سے پوچھ لیتے۔ تھوڑا مسئلہ رہتا مجھے کہ جو کوئی بھی ان سے ملنے آتا وہ اسی ٹیبل کی طرف آ جاتا۔ وہ مردوں سے بیزار رہتے۔ قریب بیٹھے مرد کو بالکل نظر انداز کر دیتے مگر عورت کو دور سے ہی آتے دیکھ کر جیوِت ہو جاتے۔ کبھی کبھی جب وہ قریب بیھٹے کسی مرد کی برائی میرے ساتھ کرتے تو میں شرمندہ ہونے لگتی۔۔۔۔
عورت کو بے حد پسند کرتے تھے۔ کہتے تھے عورت ڈانٹنے اور گالیاں دینے کے لیے نہیں بلکہ پیار کرنے کے لئے ہے۔ ایک بار اپنی نظم کی ایک لائن بھی سنائی۔ پھر اکثر ہی سناتے تھے۔ کہتے تھے،
"عورت کا برہنہ بدن میرے لیے خدا ہے۔” یہ مصرع سن کر میں دائیں بائیں دیکھنے لگتی۔ پھر مسکرا دیتی۔ عورت کا اتنا بڑا پجاری میں نے نہیں دیکھا تھا۔ کہنے والوں نے عورت کو رنگ، خوشبو کا پیکر، سنگِ مرمر، گل اور مخملیں بدن، محبت، اجالا، زندگی، کیا کیا نہیں کہا! مگر یہ ایک خیال، یہ ایک استعارہ۔۔۔ اُف!!
پچاسی سال کی عمر تھی مگر عورت کے لیے یہ گہرے جذبات اور خیالات!
میرے لیے یہ سب باتیں اور رویہ حیران کن نہیں تھا نہ شرمناک، نہ قابلِ نفرت۔ روزانہ ان سے باتیں کرتی، ان کی باتیں سنتی تھی۔ وہ بڑی بڑی نیلی آنکھیں ہر عورت میں اپنی عورت کو ڈھونڈتی تھیں۔ مگر کوئی عورت اُن کی نہیں تھی۔ وجہ بھی وہ خود بتاتے تھے۔ کہتے تھے کشور ناہید سمیت جس بھی عورت سے انہوں نے شادی کے لیے پوچھا اُس نے صاف انکار کر دیا۔ اور کہا، "تم کوئی کام تو کرتے نہیں۔” یہ الفاظ کئی بار انہوں نے مجھے بتائے۔ مگر چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی۔ مسکراہٹ اس لیے کہ روپے پیسے کی اہمیت سے انہیں انکار نہیں تھا۔
میں نے ایک بار کہا، "لکھنے والوں نے ہیٹی، ہیڈا، یوسٹیشیا اور میڈم باوری کے روپ میں عورتوں کے بہت بُرے روپ دکھائے ہیں۔” کہنے لگے، "پاگل ہیں سب ۔”
کوئی بھی وہاں آ جاتا، ان کو پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ چاہے وہ کوئی بھی فلسفہ بیان کرتا، وہ کسی کو نہیں سنتے تھے۔ بس عورت کو ڈھونڈا کرتے، عورت کو دیکھا کرتے۔ عورت کو دیکھنا چاہتے۔ عورت کو سننا چاہتے۔
ان کو کتابوں اور بیکاری سے عشق تھا اور اس عشق کی خاص بات یہ تھی کہ یہ عشق عورت کے عشق کے بر عکس ان کو میسر بھی تھا۔ لیکن لوگ کچھ بھی کہیں، مجھے ہمیشہ یہی محسوس ہوا کہ اپنی محبوب عورت یا کوئی بھی اور عورت اگر ان کو میسر آ جاتی تو عورت سے ان کا یہ والہانہ عشق تا عمر نہ رہتا کہ بدنی رشتہ قائم کر کے دوسری صنف میں چھپے راز ٹٹولنے کے بعد واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ وہ راز جو دونوں طرف سے ہی آشکار نہیں ہونے چاہئیں۔
انہوں نے دوسرے لوگوں کی طرح روایتی طور سے زندگی نہیں گزاری تھی۔ لیکن یہ زندگی بھی تو کوئی زندگی نہیں تھی۔ اجالوں کی خواہش تو کرنا مگر اپنی دنیا اندھیروں میں بسائے رکھنا۔ انہوں نے یا تو ہر کام ادھورا کیا یا سرے سے کیا ہی نہیں۔
بتایا کرتے تھے کہ جس لڑکی کے گھر وہ رہتے تھے وہاں بہت شور ہوتا تھا۔ وہ مطالعہ نہیں کر سکتے تھے۔ ان کی ساری کتابیں کہیں گم ہو گئی تھیں۔ لندن میں مقیم ان کی بہن سمیت جو بھی دوست اور ادارے ان کو پیسے بھیجا کرتے تھے وہ لڑکی اور اس کے گھر والے چھین لیتے۔ مجھ سے اکثر کہا کرتے تھے ، "کیا میں آپ کے ساتھ آپ کے گھر رہ سکتا ہوں؟” اور میرے پاس ان کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
وہ کوئی مشکل انسان نہیں تھے، نہ بیزار، نہ ذہنی الجھنوں کا شکار۔ آزادی سے محبت نے ان کو ادھورا رکھا اور تنہا بھی۔ مجھے یہ ان کی شعوری کوشش لگتی تھی کیونکہ کبھی تنہائی کا رونا نہیں رویا تھا ۔مجھے لگتا تھا کہ اگر وہ شادی کرنا چاہتے تو کر ہی لیتے۔ عورت کو لے کر ان کے دل میں اپنی کوئی جذباتی یا جسمانی لذت یا ضرورت پوری کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ مگر شاید اس کو پوجنے میں۔۔
کوئی مخصوص فکر و نظر کے انسان نہیں تھے۔ نہ بھر بھر کے کتابیں لکھی نہ ہی کسی نظریے سے اختلاف و اتفاق کیا۔ مارکسیت ، جدیدیت ، وجودیت ، مذہب، سائنس کسی بھی چیز سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ شاید وہ جو کچھ پڑھ چکے تھے اس کو ہضم کر چکے تھے۔ دوسروں کی کہی ہوئی باتوں کو دہرانا یا خود اپنی بات کہنے سے بھی ان کا کوئی سروکار نہیں تھا۔ ایک بات جو وہ باقاعدہ تو نہیں کہتے تھے مگر میں محسوس کیا کرتی تھی۔ اکیلے پن کا شکار تھے۔ تنہائی کے اس آسیب کے ساتھ رات تو کاٹ لیتے مگر دن چڑھتے ہی وہ اس جگہ آنے کے لیے پر تولتے۔ جن کو جانتے تھے ان سے وہ چار سو روپے مانگتے۔ میں نے ایک بار پوچھا آپ ہمیشہ چار سو روپے ہی کیوں مانگتے ہیں۔ کہنے لگے، یہ ماڈل ٹاون سے یہاں تک آنے کے لیے رکشہ کا کرایہ ہوتا ہے۔۔ اور جن کے ساتھ میں رہتا ہوں وہ مجھ سے پیسے چھین لیتے ہیں۔ پھر میرے پاس پورا مہینہ کوئی پیسہ نہیں ہوتا۔ وہ ہر ایک سے اتنے ہی پیسوں کا پوچھتے۔ وہ یہاں اس جگہ آنے کے لیے بے چین ہوتے تاکہ یہاں آ کر وہ لوگوں میں بیٹھ سکیں۔
کہتے ہیں کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ گھر تو اس مرد کا بھی نہیں تھا۔ یہ مردِ واحد تھا شاید جسے رہنے کو گھر کی خواہش تھی بھی نہیں۔ اسے تو بس مکان چاہیے تھا جہاں وہ تنہائی کے آسیب کے ساتھ بچی کچی زندگی سکون سے کاٹ سکے۔
ایڈگر ایلن پو، بیکٹ، کالرج، میرا جی، سلویا، ایلیا، پروین شاکر، ورجینیا، ہیمنگ وے اور کون کون!! کب زندگی کو زندگی جیسا پایا! کئی خواب تھے جو ٹوٹے، توقعات، کچھ من مندر کی تمنائیں جو کہیں محبوب کے ہاتھوں کچل دی گئیں۔ کبھی دشمن سماج ، کہیں حالات۔ مگر یہاں کیا تھا!! ایک عجیب سی بے حسی۔ دنیا کا کوئی بھی معاملہ ، کوئی نشیب و فراز ، موت، زندگی۔۔۔ کچھ بھی ان کا موضوع نہیں تھا۔ ان کے نزدیک اور کوئی دکھ حتیٰ کہ اور کوئی خوشی بھی نہیں تھی محبت کے سوا۔۔۔ محبت مگر کس سے؟؟ وہ کون تھی۔ شاید ایک۔ شاید کئی۔ شاید سب۔ مگر پھر بھی کوئی نہیں۔
کسی کو چُھونے کی خواہش بھی ایک عجیب سی سائنس ہے۔ یا نفسیات ہے۔ یا فرض۔ یا حق۔ یا تجسس یا پھر قدرتی امر کہہ دینے کی سازش۔ جو بھی ہے، کچھ تو ہے۔
میں کتنی دیر ان کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ انہوں نے پھر سے اپنا سوال دُہرایا۔
"کیا میں آپ کو چُھو سکتا ہوں؟”
وہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔ میں کچھ لمحے ان کو دیکھتی رہی، سوچتی رہی کہ کیا کہوں۔ سوچا اٹھ کر چلی جاتی ہوں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھی رہی۔ ان کو دیکھتی رہی۔ میں ان کے چہرے کے تاثرات سے کوئی اندازہ لگانا چاہتی تھی۔ میں جلدی اپنے دماغ سے کوئی من پسند نتیجہ چاہتی تھی اور وہ اس وقت نتیجہ اخذ کرنے میں اتنی ہی دیر لگا رہا تھا۔ یہ بھی سوچا کہ میں آخر ایسے سوال پر اتنا سوچ ہی کیوں رہی ہوں۔ ساتھ ہی اندر سے یہ جواب بھی ملا کہ جس کی طرف سے یہ پوچھا گیا ہے وہ ایسا عام انسان بھی نہیں، نہ اس کا سوال۔
میں اس سوال کو نظر انداز نہ کر سکی۔ میں کوئی تجربے کرنے والی انسان نہیں اور نہ مجھے کسی دوسرے کی خواہش کی کوئی پرواہ تھی۔ نہ اعتبار۔ مگر اب ایسی بات کا جواب انکار بھی نہیں تھا کہ کیوں ایسے سوال کو اتنی اہمیت دی جائے کہ انکار میں بھی جواب دیا جائے۔
میرا ذہن کئی طرح کی باتیں بنا رہا تھا۔
مجھے اس سوال پر غصہ بھی تو نہیں آیا تھا بلکہ حیرت ہوئی تھی۔ کتنا سب کچھ سوچنے کے بعد ایک اور خیال آیا کہ اتنا نحیف، اتنا بوڑھا، اتنا بے بس انسان میرا کیا بگاڑ لے گا آخر! "ہاں کہہ دیتی ہوں۔” میں ان کی طرف دیکھتی رہی۔ وہ مسکراتے رہے۔
بالآخر گھبراتے ہوئے کہہ دیا۔ "جی ہاں۔”
بس پھر کیا تھا۔ وہ تھوڑا قریب آئے، میری طرف دیکھ کر پھر سے مسکرائے۔ کرسی کی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہاں سنتے ہی تھوڑا آگے بڑھے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔
جانے کیا ہونے والا تھا!! میں گھبرا رہی تھی۔ سوچا اگر انہوں نے کوئی عجیب حرکت کر دی تو؟ اندر سے آواز آئی، "قصور تو پھر تمہارا ہی ہوگا۔ کیوں ہاں کہی تھی۔”
ادھ کھلی آنکھ سے انہی کو دیکھ رہی تھی۔
کہ اچانک ہی۔۔۔۔
ٹیبل پر دھرے میرے ہاتھ پر۔۔۔۔۔۔
انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی ہلکے سی رکھی اور اٹھا لی۔۔۔۔۔۔!!
یہ کیا؟؟ فٹا فٹ پوری آنکھیں کھولیں۔
دل میں سوچا! "بس؟”
انہیں دیکھا۔ وہ کتنے خوش تھے۔۔۔!
وہ جتنے خوش تھے میں اتنی حیران پریشان۔۔۔ !
"یہ تھا اس شخص کے نزدیک کسی کو چھونے کا معنی؟” دل میں سوچا۔
پھول کی کوئی مرجھائی ہوئی پتی رکھ کر اٹھا لی ہو جیسے۔
یہ معنی کتنا خوبصورت،
کتنا عجیب،
کتنا ادھورا،
کتنا مکمل۔
اتنا سا چھونے سے جسے میں محسوس بھی نہ کر پائی تھی انہیں کس قدر خوشی ملی تھی۔۔۔!! نہیں۔ خوشی نہیں ۔ شاید زندگی۔
اتنی خوشی تو کھویا ہوا خزانہ پا کر نہیں ہوتی، موت کے تخت پر زندگی پا کر نہیں ملتی، محبوب کے دیدار پر نہیں ملتی، امتحان میں کامیابی پر نہیں ملتی!!
یہ انہوں نے کیا خزانہ پا لیا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکراتے رہے۔ اور مجھ پر بھی کوئی حقیقت آشکار ہوئی۔
میں دل ہی دل شرمندہ ہوتی رہی۔ خود کو ملامت کرتی رہی۔ میرا خیال تھا کہ خیالات کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ مگر نہیں۔ یہ ایک لمحہ عمر بھر کی خیال پرستی کو مات دے گیا۔ اس دن پتا چلا میری بھی سوچ کی کوئی حد تھی۔ روایتی سی۔ جو بحثیتِ عورت میرے سماج کی دین تھی۔ شرمندگی سے آنکھیں موند لیں۔
وہ سگریٹ کے لیے باہر جا چکے تھے۔
کون تھا یہ؟ جسے بھرپور جنسی تجربہ کرنے میں رتی بھر دلچسپی نہ تھی۔
بدن سے بدن ملا کر لذت حاصل کرنے کے فرسودہ خیال اور تجربے سے ماورا یہ شخص! نہ خلافِ قدرت تھا نا مطابقِ قدرت۔ بس خلافِ خطہِ زمیں تھا، خطہِ خاک ہوا۔
—♦—
تنزیلہ مغل شاعرہ، مصنفہ اور گلوکارہ ہیں۔ زیادہ تر انگریزی زبان میں لکھتی ہیں، ان کی شاعری کی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ سماجی مسائل پر اکثر مضامین بھی لکھتی رہتی ہیں۔
ادارتی نوٹ:
یہ مضمون سلیم الرحمٰن صاحب کی ادارت میں لاہور سے شائع ہونے والے ادبی جریدے "سویرا" کے اکتوبر 2023ء کے شمارے میں بھی شائع ہوچکا ہے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT