نہ صرف تخلیقی عمل بلکہ تشکیلِ نو میں بھی تخیّل کی پرواز اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تخیّل کی صلاحیت ہر شخص میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے بغیرنہ روزمرّہ کی زندگی ممکن ہے اور نہ ہی تخلیقی سرگرمیاں۔ تخیّل تخلیقی عمل کا ایک اہم وصف ہے۔ تخیّل کا کمال ہے کہ یہ بے پناہ ناقابلِ یقین رنگا رنگیوں کو جنم دیتا ہے۔ ان چیزوں کو الگ الگ کر سکتا ہے جو ناقابلِ علیحدگی ہوتی ہیں۔
آئن سٹائن نے لکھا؛
” تخیّل عقلی استدلال پر مبنی علم سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عقل محدود ہے جبکہ تخیّل وسیع تر۔ علمی ترقی کا محرک فراہم کرتے ہوئے علمی ارتقاء کا سبب بنتا ہے۔ تخیّل علمی تحقیق کا حقیقی عنصر ہے۔“
لینن کا فرمانا ہے:
” یہ قدر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ صرف شاعروں کوتخّیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ریاضی میں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بغیر تخّیل کے احصائے تفرقی اور احصائے تکملی کی دریافت ناممکن ہے ۔ “
تخیّل ہوتا کیا ہے ؟
”یہ وہ انسانی استعداد ہے جس کے ذریعے ہم ماضی کے تجربے کی کلیّت کی تشکیل نو کرکے نئے تصورات اور ہیولوں کو جنم دے سکتے ہیں اور موجود کو نا موجود سے مربوط کر سکتے ہیں۔“
تخیّل ذہنی استعداد کے ساتھ دنیا کی تشکیلِ نو کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ اس کی بنیاد بھی سماجی عمل ہے اور ہمارے حواس اورعملی زندگی اس کی پرواز کے لیے سبیلیں فراہم کرتے ہیں۔ تخیّل، حواس اور عقلی فکر کے درمیان ربط کا کام بھی سرانجام دیتا ہے ۔ یوں ادراک جنم لیتا ہے ۔
تخیّل حواس اور ذہن کی بھرت ہے ۔ارتسامات حس ہیولوں کا سامان فراہم کرتے ہیں یا وہ بنیاد بنتے ہیں جس پر ہیولے تعمیر ہوتے ہیں۔ جب کہ فکر اس عمل میں راہنما کردار ادا کرتی ہے ۔
تخیّلاتی اشیاء اور مظاہر نئے تصورات کی تشکیل میں حصہ لیتے ہیں ۔دوسری جانب فکر پر حواس کا اثر بھی ہوتا ہے ۔ یوں نئے تصورات جنم لیتے رہتے ہیں ۔
تخیّل کے ذریعے حال میں ماضی کا دخول ہوتا ہے لیکن تخیل محض ماضی کو حال سے مربوط ہی نہیں کرتا ۔ مستقبل کی تصویر بنانے میں مددگار بھی ہوتا ہے ۔تخیّل بہت اہم علمی کردار ادا کرتا ہے جو تخلیقی جستجوؤں اور کاوشوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، انہی کی بنیاد پر انسان مستقبل کی پیش بینی کرنے کی صلاحیت پاتا ہے ۔ تخیل ہی حُسن پرستی سے ملحق ذہنی کاموں کی تکمیل کرتا ہے ۔ تخلیقی عمل کے لیے آرام کے علاوہ رُوح کو گرمانے اور مسرتِ حُسن کی تحصیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تخیل انسانی سرگرمیوں کو قابو میں بھی رکھتا ہے ۔اور حقیقت کی صحیح عکاسی میں مددگار ہوتا ہے ۔
(جاری ہے۔)
—♦—
نوٹ ! بعض حتی ٰکہ انتہائی سینئر دوستوں کی جانب سے ایسی آراء یا سوال آتے ہیں کہ ہماری تحریریں محنت کشوں کی کس حد تک ضرورت ہیں ؟
ان کے نزدیک موضوعات مشکل ہوتے ہیں ۔ ہم کوئی جواب لکھنے سے قبل اٹھائے گئے سوال پرآپ ساتھیوں/قارئین کی تائیدی یا اختلافی رائے اور اگر آپ سوال پر تفصیل سے جواب لکھیں ایک تو ہماری مشکل آسان ہو جائے گی دوسرا اجتماعی سوچ بن کر سامنے آ ئے گی ۔
ہم آپ کی رائے کے منتظر رہیں گے۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
نہ صرف تخلیقی عمل بلکہ تشکیلِ نو میں بھی تخیّل کی پرواز اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تخیّل کی صلاحیت ہر شخص میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے بغیرنہ روزمرّہ کی زندگی ممکن ہے اور نہ ہی تخلیقی سرگرمیاں۔ تخیّل تخلیقی عمل کا ایک اہم وصف ہے۔ تخیّل کا کمال ہے کہ یہ بے پناہ ناقابلِ یقین رنگا رنگیوں کو جنم دیتا ہے۔ ان چیزوں کو الگ الگ کر سکتا ہے جو ناقابلِ علیحدگی ہوتی ہیں۔
آئن سٹائن نے لکھا؛
” تخیّل عقلی استدلال پر مبنی علم سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ عقل محدود ہے جبکہ تخیّل وسیع تر۔ علمی ترقی کا محرک فراہم کرتے ہوئے علمی ارتقاء کا سبب بنتا ہے۔ تخیّل علمی تحقیق کا حقیقی عنصر ہے۔“
لینن کا فرمانا ہے:
” یہ قدر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ صرف شاعروں کوتخّیل کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ریاضی میں بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بغیر تخّیل کے احصائے تفرقی اور احصائے تکملی کی دریافت ناممکن ہے ۔ “
تخیّل ہوتا کیا ہے ؟
”یہ وہ انسانی استعداد ہے جس کے ذریعے ہم ماضی کے تجربے کی کلیّت کی تشکیل نو کرکے نئے تصورات اور ہیولوں کو جنم دے سکتے ہیں اور موجود کو نا موجود سے مربوط کر سکتے ہیں۔“
تخیّل ذہنی استعداد کے ساتھ دنیا کی تشکیلِ نو کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ اس کی بنیاد بھی سماجی عمل ہے اور ہمارے حواس اورعملی زندگی اس کی پرواز کے لیے سبیلیں فراہم کرتے ہیں۔ تخیّل، حواس اور عقلی فکر کے درمیان ربط کا کام بھی سرانجام دیتا ہے ۔ یوں ادراک جنم لیتا ہے ۔
تخیّل حواس اور ذہن کی بھرت ہے ۔ارتسامات حس ہیولوں کا سامان فراہم کرتے ہیں یا وہ بنیاد بنتے ہیں جس پر ہیولے تعمیر ہوتے ہیں۔ جب کہ فکر اس عمل میں راہنما کردار ادا کرتی ہے ۔
تخیّلاتی اشیاء اور مظاہر نئے تصورات کی تشکیل میں حصہ لیتے ہیں ۔دوسری جانب فکر پر حواس کا اثر بھی ہوتا ہے ۔ یوں نئے تصورات جنم لیتے رہتے ہیں ۔
تخیّل کے ذریعے حال میں ماضی کا دخول ہوتا ہے لیکن تخیل محض ماضی کو حال سے مربوط ہی نہیں کرتا ۔ مستقبل کی تصویر بنانے میں مددگار بھی ہوتا ہے ۔تخیّل بہت اہم علمی کردار ادا کرتا ہے جو تخلیقی جستجوؤں اور کاوشوں کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، انہی کی بنیاد پر انسان مستقبل کی پیش بینی کرنے کی صلاحیت پاتا ہے ۔ تخیل ہی حُسن پرستی سے ملحق ذہنی کاموں کی تکمیل کرتا ہے ۔ تخلیقی عمل کے لیے آرام کے علاوہ رُوح کو گرمانے اور مسرتِ حُسن کی تحصیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ تخیل انسانی سرگرمیوں کو قابو میں بھی رکھتا ہے ۔اور حقیقت کی صحیح عکاسی میں مددگار ہوتا ہے ۔
(جاری ہے۔)
—♦—
نوٹ ! بعض حتی ٰکہ انتہائی سینئر دوستوں کی جانب سے ایسی آراء یا سوال آتے ہیں کہ ہماری تحریریں محنت کشوں کی کس حد تک ضرورت ہیں ؟
ان کے نزدیک موضوعات مشکل ہوتے ہیں ۔ ہم کوئی جواب لکھنے سے قبل اٹھائے گئے سوال پرآپ ساتھیوں/قارئین کی تائیدی یا اختلافی رائے اور اگر آپ سوال پر تفصیل سے جواب لکھیں ایک تو ہماری مشکل آسان ہو جائے گی دوسرا اجتماعی سوچ بن کر سامنے آ ئے گی ۔
ہم آپ کی رائے کے منتظر رہیں گے۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
-
-
للکار نیوز says:
Dear John Lee, Thank you for appreciating our work, we have noted your query/ suggestion and soon will fix this to our readers updated..
-
Dear John Lee, Thank you for appreciating our work, we have noted your query/ suggestion and soon will fix this to our readers updated..