ہم نے”ذہن کی تشکیلِ نو اور نزولِ علم“ کے مضمون کو قسط وار جاری رکھنے کا اظہار کیا تھا ۔ اج کی قسط 2 میں علم کے سوتوں، سرچشموں، سر بستہ رازوں پر بات کریں گے۔
دریافت یکایک، لمحہ بھر میں بھی ہو سکتی ہے۔ طویل تحقیق و تفتیش بھی بعض اوقات رائیگاں جا سکتی ہے۔ ابھی لمحہ بھر کی بات پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ تحقیق و تفتیش کے دروان بعض اوقات کوئی خیال ذہن سے یکایک گزرتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ میں نے پا لیا۔ اس قسم کی صورتِ حال کو عمومی طور پر وجدان کہا جاتا ہے۔ یعنی یکایک ادراک کا ہو جانا، تخیل وغیرہ ۔
انسانی ذہن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ تحقیق و تفتیش کے دوران کسی مسئلے کے تمام رُخوں پر غور نہیں کر رہا ہوتا، یا کر پا نہیں سکتا ہوتا۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نا معلوم کو معلوم سے جوڑنے کا یہ عمل وجدانی طور پر سر انجام پا جاتا ہے۔
اب غور کرنے کی بات ہے کہ وجدان کیا phenomenon ہے؟
وجدان بڑی حد تک انسان کے تجربے اور علم کو باہم جوڑے اور وابستہ رکھنے کی صلاحیت والا مظہر ہے۔ علم کی یہ صورت وجدان، تحقیقی عمل کے دوران دریافت مواد اور مستند معلوم علم کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
جسے ہم آمد کہہ دیتے ہیں۔ ہاں وجدان کی اس عجیب و غریب صورت کا انکشاف اس حقیقت پر ہوتا ہے کہ ابھی نئے علم یا مسئلہ کا حل منطقی طور سامنے بھی نہیں آیا ہوتا کہ محقق اسے پا لیتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ نیا علم پہلے سے مستند نظام سے مطابقت کی بجائے اُلٹ ہوتا ہے۔ اسی کو ہم قلانچ یا وجدان کا نام دے دیتے ہیں۔ یہ قلانچ حواس پر مبنی تجربہ نظر آتا ہے۔
سائنس اپنے اُصولوں اور طریقۂ علم کے اعتبار سے عقل کے تابع ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی قابلِ ذکر کامیابیاں انہی قلانچوں کے نتیجے میں کامیاب ہو پائیں۔
انسانی ذہن کی تخیّلاتی، وجدانی اور گہرائی میں delve کر جانے کی صلاحیت منطقی فکر کی پابندی سے ماوراء ہوتی ہے۔ وجدان انسانی عقلی علم کا جز ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کا مطالعہ ابھی حتمی مراحل میں داخل ہونے کے لئے ناکافی ہے۔ وجدان لاشعوری ذہنی عمل کے طور پر رونمائی پاتا ہے۔
ذہن کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ مسائل کے حل کے لئے خاموشی سے عمل کرتا رہتا ہے۔ بس آخری نتیجہ ہی ذہن کے سامنے اظہار پاتا ہے۔ وجدان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ proposition کے اوصاف اور رشتوں کو وقت سے پہلے سامنے لے آتا ہے۔ البتہ وجدان یہ اوصاف اس وقت سامنے لا پاتا ہے۔ جب معلوم کیے جانے والے مدّلل حل کی تلاش جاری ہو۔
وجدان غیر منطقی پیرہن میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ وجدان انسان کی عقل کا ہی دین ہوتا ہے۔ تصور اور وجدان انسانی ذہن کی دو ایسی صلاحیتں ہیں جو ایک دوسرے سے مانوس ہوتی ہیں۔ ہمیشہ جدلیاتی طور پر ایک دوسرے کو مکمل کرنے میں معاون و مددگار ہوتی ہیں۔
(جاری ہے۔)
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
ہم نے”ذہن کی تشکیلِ نو اور نزولِ علم“ کے مضمون کو قسط وار جاری رکھنے کا اظہار کیا تھا ۔ اج کی قسط 2 میں علم کے سوتوں، سرچشموں، سر بستہ رازوں پر بات کریں گے۔
دریافت یکایک، لمحہ بھر میں بھی ہو سکتی ہے۔ طویل تحقیق و تفتیش بھی بعض اوقات رائیگاں جا سکتی ہے۔ ابھی لمحہ بھر کی بات پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ تحقیق و تفتیش کے دروان بعض اوقات کوئی خیال ذہن سے یکایک گزرتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ میں نے پا لیا۔ اس قسم کی صورتِ حال کو عمومی طور پر وجدان کہا جاتا ہے۔ یعنی یکایک ادراک کا ہو جانا، تخیل وغیرہ ۔
انسانی ذہن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ تحقیق و تفتیش کے دوران کسی مسئلے کے تمام رُخوں پر غور نہیں کر رہا ہوتا، یا کر پا نہیں سکتا ہوتا۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ نا معلوم کو معلوم سے جوڑنے کا یہ عمل وجدانی طور پر سر انجام پا جاتا ہے۔
اب غور کرنے کی بات ہے کہ وجدان کیا phenomenon ہے؟
وجدان بڑی حد تک انسان کے تجربے اور علم کو باہم جوڑے اور وابستہ رکھنے کی صلاحیت والا مظہر ہے۔ علم کی یہ صورت وجدان، تحقیقی عمل کے دوران دریافت مواد اور مستند معلوم علم کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
جسے ہم آمد کہہ دیتے ہیں۔ ہاں وجدان کی اس عجیب و غریب صورت کا انکشاف اس حقیقت پر ہوتا ہے کہ ابھی نئے علم یا مسئلہ کا حل منطقی طور سامنے بھی نہیں آیا ہوتا کہ محقق اسے پا لیتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ نیا علم پہلے سے مستند نظام سے مطابقت کی بجائے اُلٹ ہوتا ہے۔ اسی کو ہم قلانچ یا وجدان کا نام دے دیتے ہیں۔ یہ قلانچ حواس پر مبنی تجربہ نظر آتا ہے۔
سائنس اپنے اُصولوں اور طریقۂ علم کے اعتبار سے عقل کے تابع ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی قابلِ ذکر کامیابیاں انہی قلانچوں کے نتیجے میں کامیاب ہو پائیں۔
انسانی ذہن کی تخیّلاتی، وجدانی اور گہرائی میں delve کر جانے کی صلاحیت منطقی فکر کی پابندی سے ماوراء ہوتی ہے۔ وجدان انسانی عقلی علم کا جز ہوتا ہے۔ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس کا مطالعہ ابھی حتمی مراحل میں داخل ہونے کے لئے ناکافی ہے۔ وجدان لاشعوری ذہنی عمل کے طور پر رونمائی پاتا ہے۔
ذہن کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ مسائل کے حل کے لئے خاموشی سے عمل کرتا رہتا ہے۔ بس آخری نتیجہ ہی ذہن کے سامنے اظہار پاتا ہے۔ وجدان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ proposition کے اوصاف اور رشتوں کو وقت سے پہلے سامنے لے آتا ہے۔ البتہ وجدان یہ اوصاف اس وقت سامنے لا پاتا ہے۔ جب معلوم کیے جانے والے مدّلل حل کی تلاش جاری ہو۔
وجدان غیر منطقی پیرہن میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ وجدان انسان کی عقل کا ہی دین ہوتا ہے۔ تصور اور وجدان انسانی ذہن کی دو ایسی صلاحیتں ہیں جو ایک دوسرے سے مانوس ہوتی ہیں۔ ہمیشہ جدلیاتی طور پر ایک دوسرے کو مکمل کرنے میں معاون و مددگار ہوتی ہیں۔
(جاری ہے۔)
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 1