انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اپنے گردوپیش کی دنیا کے بارے جاننے کی کوششوں میں صرف ہوتا ہے ۔وہ دنیا کے مخفی رازوں کی گہرائی میں اترنا چاہتا ہے ۔ اس عمل کے دوران ذہن کی ساخت بہت تیزی بدلتی رہتی ہے ۔ ذہن اپنی تشکیل نو کرتا رہتا ہے ۔ ذہن کی ساخت میں تبدلی یا تشکیل نو کی تیزی یا سست روی کا انحصار اس بات پر ہے ، کہ سوسائٹی سوشواکنامک و ٹیکنالوجیکل ترقی کی کس سطح پر ہے ۔ معاشرہ جتنا زیادہ ترقی یافتہ ہوگا ، تبدیلی کا عمل اتنا ہی تیز ہوگا ۔ ذہن ہم کو اپنے ماحول، چیزوں کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ معنی کی بنیاد پر!
معنی کیا ہے ؟۔ معنی کسی شئے کا جوہر content ہوتا ہے۔ لفظ معنی کا Locate container، اساس ہوتا ہے ۔ اسی جوہر کو بیان کرنے کے لیے لفظ معرضِ وجود آیا۔
ذہن مسائل اور چیزوں کی اونرشپ لے کر آگاہی اور presence قائم رکھتا ہے۔ ذہن شعور کے لیے ایک کارکن کا کردار ادا کرتا ہے۔
شعور ایک ایسا مادہ ہے جو ہمیں چیزوں سے جوڑے رکھتا۔ شعور کا مطلب ہے کہ ہم معروض کو پہچاننے، شناخت کرنے اور سمجھنے کے عمل میں رہیں۔ بدیں وجہ وجود اور علم / شعور ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے پابند ہوتے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے آزاد ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
شعور مادے / ذہن کے بغیر تخلیق نہیں ہو سکتا۔ برین Brain جب حواس خمسہ کے ذریعے ملنے والی اطلاعات ( اطلاع کو وسیع تر معنوں میں لیا جانا چاہیے) پر Functioning کرتا ہے تو ہم برین کو ذہن / Mind کا نام دیتے ہیں جو پہچاننے، جاننے، سوچنے، سمجھنے، ماننے کا عمل کرتا ہے ۔
ذہن پہچانے ہوئے معروض/ object/ شئے یا وجود کو جانی ہوئی چیز کیسے بناتا ہے ۔ پہچانی ہوئی چیز جانی ہوئی کی تشکیل کے عمل کا نتیجہ ایک جیسا نہیں ہوتا ۔ وحدت میں نہیں ہوتا ۔ ذہن میں یہ عمل innate ہے ۔ ذہن میں علم بننےکا عمل ایک جیسا نہیں ہوتا ۔ ذہن میں جاننے کے تقاضے ، صلاحیتں اور ماحول ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ جیسے جیسے چیز معلوم یا جانی جاتی ہے ۔ اس کی پہچان متاثر ہوئے بغیر اس کے جاننے کے نتائج مختلف اور متعدد ہوتے جاتے ہیں ۔
علم کئی ایک امکانات میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ کو مجتمع کرکے ترجیح دیتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ جسے ترجیح دے وہ درست ہی ہو ۔ غلط بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ نہیں ہوتا کہ ذہن کسی ایک چیز پر Focus کرکے اسے ایک ہی معلوم میں بدل دے ۔ ہم نے ایک چیز/ معروض کو پہچان لیا کہ یہ پیڑ ہے۔ اس کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں ۔ ایک پہچان یعنی فارم ، دوسرا اس کا نام لفظ۔ ۔۔
یعنی پیڑ ۔ اب یہی پہچانا ہوا پیڑ پھر علمی تشکیل سے گزرتا ہے ۔ تب یہ ذہن کے مطالبات کو پورا کرتا ہوا ایک قابل شناخت ذریعہ بن جاتا ہے ۔ایک متعین وسیلہ بن جاتا ہے ۔ اب ہم جب پیڑ پر ذہن کی علم آفرینی apply کرتے جائیں گے، تو اس کی ہئیت essence ایک نہیں ہوگی۔ جس طرح اس کی شناخت ایک ہے ۔ اس کا علم وحدت کے ساتھ نہیں ہوگا ۔ یہ اپنے زمان ومکاں، آب و ہوا ، زمین کے ساتھ بہت سارے سیاق و سباق کے ساتھ پیڑ قسم کے اعتبار سے یک رُخا نہیں ہوگا ۔ اسی علم آفرینی سے ہم اپنے علم کو وسعت اور تہہ داری کا ذریعہ بناتے ہیں ۔
ذہن معروض کی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے خود میں بھی مشغول رہتا ہے ۔ ہمیں بھی ماحول سے corresponding حالت میں رکھتا ہے۔
ایک perceiving end پہ رکھتا ہے ۔ معروض Object اپنی زمین، ماحول ( زمان ومکاں) کے اعتبار سے مختلف شناختیں رکھ یا بنا سکتا ہے ۔ اب ہم نے یہ مراحل طے کر لیے ۔ اب پیڑ زمین سے بے نیاز ہو کر اپنے فوری context میں ذہن میں نمو پاتا ہے ۔ پیڑ زمینی سے زیادہ ذہنی بن جاتا ہے ۔اب ہم نے ذہن کی حقیقت جوئی کا مطالبہ پورا کرتے رہنے کا راستہ پا لیا ہے۔
شعور کا جوہر حقیقت کو پا کر منطق Logic بن جاتا ہے۔
کسی معروض کی علمی حدود مکمل ہونے کے بعد مقاصد علمی تک محدود نہیں رہ جاتا ۔ علم خود اپنی حدود کو توڑتا ہے ۔ رُکتا نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ علم کا کام کئی ایک امکانات میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا ہے ۔ حقیقت اپنی transcendence اور perfection کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ذہن محض مغز نہیں ہوتا ۔ چیزوں کو درست اور غلط کہنے کی کسوٹی ہر دماغ میں اکتسابی عمل سے پائی جاتی ہے ۔ اس درست اور غلط کا تصور یا فیصلہ کیے بغیر ذہن proposition کو علم کہنے سے ہچکچاتا ہے ۔
ذہن میں علم کی تشکیل پہچانی ہوئی چیزوں کو جانی ہوئی چیزوں کا عمل کیسے ہوتا ہے ۔ علم انہی دو انتہاؤں پر ہے ۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ، ایک جیسا یعنی وحدت میں نہیں ہوتا ۔ کئی ایک نتائج سامنے آتے ہیں ۔فارم اور نام ۔ اس کو کہتے ہیں پہچان یا شناخت ۔ شناخت ایک ہوگی۔ پہچانا ہوا معروض علمی تشکیل سے گزرتا ہے۔ ذہن کے مطالبات پورے کرتے ہوئے پہچانی ہوئی چیز جانی ہوئی بن کر یہاں رُک نہیں جاتی، یعنی علم اپنے سیاق و سباق میں تکمیل پا کر رُک نہیں جاتا۔ اب وہ ذریعہ بن جاتا ہے، ان چیزوں کا جو پہچانی ہوئی نہیں ہوتیں بلکہ مانی ہوئی ہوتی ہیں۔ مانی ہوئیں جانی ہوئی بن جاتی ہیں۔ (مذہبی معنوں میں نہیں ) ۔ علم ایک مکمل شکل بن کر اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیتا ہے ۔
علم کا کردارکیا ہے ؟۔علم سے ہمیشہ جڑے رہنے کی ضرورت کیوں رہتی ہے؟۔ علم کے سربستہ راز کیا ہیں؟
یہ سب سوالات ہیں ۔ آج کی تحریر کو ان سوالات کی outlines کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ ان سوالات اور موضوعات پر گفتگو کی ضرورت اس لئے پیدا ہوئی کہ ہمارے ہاں علم کے بارے بہت سے مغالطے پائے جاتے ہیں ۔ ہم علم کے حصول کو فضول کام تصور کرتے ہیں ۔
(جاری ہے۔)
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اپنے گردوپیش کی دنیا کے بارے جاننے کی کوششوں میں صرف ہوتا ہے ۔وہ دنیا کے مخفی رازوں کی گہرائی میں اترنا چاہتا ہے ۔ اس عمل کے دوران ذہن کی ساخت بہت تیزی بدلتی رہتی ہے ۔ ذہن اپنی تشکیل نو کرتا رہتا ہے ۔ ذہن کی ساخت میں تبدلی یا تشکیل نو کی تیزی یا سست روی کا انحصار اس بات پر ہے ، کہ سوسائٹی سوشواکنامک و ٹیکنالوجیکل ترقی کی کس سطح پر ہے ۔ معاشرہ جتنا زیادہ ترقی یافتہ ہوگا ، تبدیلی کا عمل اتنا ہی تیز ہوگا ۔ ذہن ہم کو اپنے ماحول، چیزوں کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ معنی کی بنیاد پر!
معنی کیا ہے ؟۔ معنی کسی شئے کا جوہر content ہوتا ہے۔ لفظ معنی کا Locate container، اساس ہوتا ہے ۔ اسی جوہر کو بیان کرنے کے لیے لفظ معرضِ وجود آیا۔
ذہن مسائل اور چیزوں کی اونرشپ لے کر آگاہی اور presence قائم رکھتا ہے۔ ذہن شعور کے لیے ایک کارکن کا کردار ادا کرتا ہے۔
شعور ایک ایسا مادہ ہے جو ہمیں چیزوں سے جوڑے رکھتا۔ شعور کا مطلب ہے کہ ہم معروض کو پہچاننے، شناخت کرنے اور سمجھنے کے عمل میں رہیں۔ بدیں وجہ وجود اور علم / شعور ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے پابند ہوتے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے آزاد ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
شعور مادے / ذہن کے بغیر تخلیق نہیں ہو سکتا۔ برین Brain جب حواس خمسہ کے ذریعے ملنے والی اطلاعات ( اطلاع کو وسیع تر معنوں میں لیا جانا چاہیے) پر Functioning کرتا ہے تو ہم برین کو ذہن / Mind کا نام دیتے ہیں جو پہچاننے، جاننے، سوچنے، سمجھنے، ماننے کا عمل کرتا ہے ۔
ذہن پہچانے ہوئے معروض/ object/ شئے یا وجود کو جانی ہوئی چیز کیسے بناتا ہے ۔ پہچانی ہوئی چیز جانی ہوئی کی تشکیل کے عمل کا نتیجہ ایک جیسا نہیں ہوتا ۔ وحدت میں نہیں ہوتا ۔ ذہن میں یہ عمل innate ہے ۔ ذہن میں علم بننےکا عمل ایک جیسا نہیں ہوتا ۔ ذہن میں جاننے کے تقاضے ، صلاحیتں اور ماحول ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ جیسے جیسے چیز معلوم یا جانی جاتی ہے ۔ اس کی پہچان متاثر ہوئے بغیر اس کے جاننے کے نتائج مختلف اور متعدد ہوتے جاتے ہیں ۔
علم کئی ایک امکانات میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ کو مجتمع کرکے ترجیح دیتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ جسے ترجیح دے وہ درست ہی ہو ۔ غلط بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ نہیں ہوتا کہ ذہن کسی ایک چیز پر Focus کرکے اسے ایک ہی معلوم میں بدل دے ۔ ہم نے ایک چیز/ معروض کو پہچان لیا کہ یہ پیڑ ہے۔ اس کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں ۔ ایک پہچان یعنی فارم ، دوسرا اس کا نام لفظ۔ ۔۔
یعنی پیڑ ۔ اب یہی پہچانا ہوا پیڑ پھر علمی تشکیل سے گزرتا ہے ۔ تب یہ ذہن کے مطالبات کو پورا کرتا ہوا ایک قابل شناخت ذریعہ بن جاتا ہے ۔ایک متعین وسیلہ بن جاتا ہے ۔ اب ہم جب پیڑ پر ذہن کی علم آفرینی apply کرتے جائیں گے، تو اس کی ہئیت essence ایک نہیں ہوگی۔ جس طرح اس کی شناخت ایک ہے ۔ اس کا علم وحدت کے ساتھ نہیں ہوگا ۔ یہ اپنے زمان ومکاں، آب و ہوا ، زمین کے ساتھ بہت سارے سیاق و سباق کے ساتھ پیڑ قسم کے اعتبار سے یک رُخا نہیں ہوگا ۔ اسی علم آفرینی سے ہم اپنے علم کو وسعت اور تہہ داری کا ذریعہ بناتے ہیں ۔
ذہن معروض کی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے خود میں بھی مشغول رہتا ہے ۔ ہمیں بھی ماحول سے corresponding حالت میں رکھتا ہے۔
ایک perceiving end پہ رکھتا ہے ۔ معروض Object اپنی زمین، ماحول ( زمان ومکاں) کے اعتبار سے مختلف شناختیں رکھ یا بنا سکتا ہے ۔ اب ہم نے یہ مراحل طے کر لیے ۔ اب پیڑ زمین سے بے نیاز ہو کر اپنے فوری context میں ذہن میں نمو پاتا ہے ۔ پیڑ زمینی سے زیادہ ذہنی بن جاتا ہے ۔اب ہم نے ذہن کی حقیقت جوئی کا مطالبہ پورا کرتے رہنے کا راستہ پا لیا ہے۔
شعور کا جوہر حقیقت کو پا کر منطق Logic بن جاتا ہے۔
کسی معروض کی علمی حدود مکمل ہونے کے بعد مقاصد علمی تک محدود نہیں رہ جاتا ۔ علم خود اپنی حدود کو توڑتا ہے ۔ رُکتا نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ علم کا کام کئی ایک امکانات میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا ہے ۔ حقیقت اپنی transcendence اور perfection کے ساتھ ہوتی ہے ۔ ذہن محض مغز نہیں ہوتا ۔ چیزوں کو درست اور غلط کہنے کی کسوٹی ہر دماغ میں اکتسابی عمل سے پائی جاتی ہے ۔ اس درست اور غلط کا تصور یا فیصلہ کیے بغیر ذہن proposition کو علم کہنے سے ہچکچاتا ہے ۔
ذہن میں علم کی تشکیل پہچانی ہوئی چیزوں کو جانی ہوئی چیزوں کا عمل کیسے ہوتا ہے ۔ علم انہی دو انتہاؤں پر ہے ۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں ، ایک جیسا یعنی وحدت میں نہیں ہوتا ۔ کئی ایک نتائج سامنے آتے ہیں ۔فارم اور نام ۔ اس کو کہتے ہیں پہچان یا شناخت ۔ شناخت ایک ہوگی۔ پہچانا ہوا معروض علمی تشکیل سے گزرتا ہے۔ ذہن کے مطالبات پورے کرتے ہوئے پہچانی ہوئی چیز جانی ہوئی بن کر یہاں رُک نہیں جاتی، یعنی علم اپنے سیاق و سباق میں تکمیل پا کر رُک نہیں جاتا۔ اب وہ ذریعہ بن جاتا ہے، ان چیزوں کا جو پہچانی ہوئی نہیں ہوتیں بلکہ مانی ہوئی ہوتی ہیں۔ مانی ہوئیں جانی ہوئی بن جاتی ہیں۔ (مذہبی معنوں میں نہیں ) ۔ علم ایک مکمل شکل بن کر اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیتا ہے ۔
علم کا کردارکیا ہے ؟۔علم سے ہمیشہ جڑے رہنے کی ضرورت کیوں رہتی ہے؟۔ علم کے سربستہ راز کیا ہیں؟
یہ سب سوالات ہیں ۔ آج کی تحریر کو ان سوالات کی outlines کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ ان سوالات اور موضوعات پر گفتگو کی ضرورت اس لئے پیدا ہوئی کہ ہمارے ہاں علم کے بارے بہت سے مغالطے پائے جاتے ہیں ۔ ہم علم کے حصول کو فضول کام تصور کرتے ہیں ۔
(جاری ہے۔)
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 1