للکار (نیوز ڈیسک) نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے، مالی گنجائش نہ ہونے کے باعث سبسڈی نہیں دے سکتے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کی بریفنگ۔
کمیٹی ممبران کی جانب سے ملک کی معاشی صورت حال اور بجلی کے نرخوں پر تشویش کے اظہار کے جواب میں شمشاد اختر نے بتایا کہ ’تیل کے لیے پاکستان دنیا کے دیگر ممالک پر انحصار کرتا ہے اور ہمیں بوجھ عوام پر منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس’فسکل سپیس‘ (گنجائش) نہیں ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بجلی کے زائد بلوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ نگران حکومت کے بجلی کی قیمت میں اضافے پر دو اجلاس بھی منعقد ہو چکے تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے اس پر کوئی لائحہ عمل سامنے نہ آ سکا ہے۔
نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے مزید کہا کہ ’اگر آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد نہیں کرتے تو ڈالر آنے کا سلسلہ رُک جائے گا اور حالات مزید مشکل ہو سکتے ہیں۔ ڈالر ان فلو کم اور ڈالر آؤٹ فلو زیادہ ہونے کے باعث روپیہ پریشر میں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سرکاری اداروں کا نقصان ناقابل برداشت تک پہنچ چکا ہے۔ نجکاری کے عمل کو تیز کرنا ہوگا ۔نج کاری کے آسان اہداف کو جلد حاصل کیا جانا چاہئے۔‘
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کمیٹی کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف معاہدہ ہمیں ورثے میں ملا ہے اس پر دوبارہ بات چیت ممکن نہیں ہے۔‘ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ دوسرے قرضے جڑے ہوئے ہیں، موجودہ معاشی صورت حال کی وجہ سیاسی و معاشی عدم استحکام ہے، سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے سیاسی لوگ فیصلے کریں گے۔‘
انہوں نے مزیدکہا کہ ’آئی ایم ایف سے بات ہوئی ہے ان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ معاہدے پر عمل کریں گےاور حکومت نے جو معاہدہ کیا ہے اس کے مطابق چلیں گے۔‘ شمشاد اخترنے کہا کہ سماجی تحفظ کے منصوبوں کے ذریعے غریبوں کو ریلیف فراہم کررہے ہیں، معاشی استحکام کے لیے مالی خسارہ ختم کرنا ضروری ہے۔
اس سے ایک بات تو مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ نگران حکومت بجلی کے بلوں میں عائد ٹیکسوں کو نہ تو ختم کرنے جارہی ہے اور نہ ہی ان میں کسی طرح کمی واقع ہوگی۔ اور اسی طرح اگلے چند دنوں میں پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یعنی مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کے پاس اب اُٹھ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ ایک منظم عوامی تحریک کے نتیجے میں ہی حکمران عوام کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
للکار (نیوز ڈیسک) نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی صورتحال اندازے سے کہیں زیادہ خراب ہے، مالی گنجائش نہ ہونے کے باعث سبسڈی نہیں دے سکتے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کی بریفنگ۔
کمیٹی ممبران کی جانب سے ملک کی معاشی صورت حال اور بجلی کے نرخوں پر تشویش کے اظہار کے جواب میں شمشاد اختر نے بتایا کہ ’تیل کے لیے پاکستان دنیا کے دیگر ممالک پر انحصار کرتا ہے اور ہمیں بوجھ عوام پر منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس’فسکل سپیس‘ (گنجائش) نہیں ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بجلی کے زائد بلوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ نگران حکومت کے بجلی کی قیمت میں اضافے پر دو اجلاس بھی منعقد ہو چکے تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے اس پر کوئی لائحہ عمل سامنے نہ آ سکا ہے۔
نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے مزید کہا کہ ’اگر آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد نہیں کرتے تو ڈالر آنے کا سلسلہ رُک جائے گا اور حالات مزید مشکل ہو سکتے ہیں۔ ڈالر ان فلو کم اور ڈالر آؤٹ فلو زیادہ ہونے کے باعث روپیہ پریشر میں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سرکاری اداروں کا نقصان ناقابل برداشت تک پہنچ چکا ہے۔ نجکاری کے عمل کو تیز کرنا ہوگا ۔نج کاری کے آسان اہداف کو جلد حاصل کیا جانا چاہئے۔‘
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے کمیٹی کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف معاہدہ ہمیں ورثے میں ملا ہے اس پر دوبارہ بات چیت ممکن نہیں ہے۔‘ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ دوسرے قرضے جڑے ہوئے ہیں، موجودہ معاشی صورت حال کی وجہ سیاسی و معاشی عدم استحکام ہے، سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کے لیے سیاسی لوگ فیصلے کریں گے۔‘
انہوں نے مزیدکہا کہ ’آئی ایم ایف سے بات ہوئی ہے ان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ معاہدے پر عمل کریں گےاور حکومت نے جو معاہدہ کیا ہے اس کے مطابق چلیں گے۔‘ شمشاد اخترنے کہا کہ سماجی تحفظ کے منصوبوں کے ذریعے غریبوں کو ریلیف فراہم کررہے ہیں، معاشی استحکام کے لیے مالی خسارہ ختم کرنا ضروری ہے۔
اس سے ایک بات تو مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ موجودہ نگران حکومت بجلی کے بلوں میں عائد ٹیکسوں کو نہ تو ختم کرنے جارہی ہے اور نہ ہی ان میں کسی طرح کمی واقع ہوگی۔ اور اسی طرح اگلے چند دنوں میں پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یعنی مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کے پاس اب اُٹھ کھڑے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ ایک منظم عوامی تحریک کے نتیجے میں ہی حکمران عوام کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے۔