آج ہم جس موضوع پر طبع آزمائی کرنے جا رہے ہیں یہ زیادہ تر ہمارا موضوع نہیں رہا ۔ بس اتنا ہی ہے جس حد تک مارکس کے بقول ایک کیمونسٹ کو اپنے وقت کے دیگر علوم سے بھی آگاہی ضروری ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم اس گستاخی کی جراَت کیوں کر رہے ہیں ؟۔ ہوا کچھ یوں کہ عوامی ورکرز پارٹی کی حالیہ فیڈرل کمیٹی کی میٹنگ منعقدہ لاہور 20-21 اپریل کی درمیانی شب ہم کچھ دوست بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ۔ زبانوں سے بات چلتی چلتی مہر گڑھ، ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی طرف چل نکلی ۔ ہماری ماڑی قسمت ہم نے بھی ایک رائے دے دی ۔ بس پھر دوستوں نے وہ دُرگت بنائی کہ نانی یاد آگئی ۔ خیراس وقت خاموشی ہی بہتر تھی ، سو ہم نے وہی راستہ چنُا ۔
اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ مہرگڑھ پر دوستوں کی رائے تھی کہ مہرگڑھ 8/9 ہزار سال کی تہذیب ہے ۔ ہم نے کہہ دیا کہ نہیں 65000 ہزار سال کی تہذیب ہے ۔ 70000 ہزار سال قبل انسان افریقہ سے نکلا ۔ 5000 ہزار سال میں وہ مہرگڑھ تک پہنچا۔ ویسے تو دوست بھی درست تھے اور ہم بھی ۔ کھدائی یہی 8/9 ہزار سال کی تاریخ بتاتی ہے ۔ لیکن Genetic سائنس کے علم نے اس فیلڈ میں بھی انقلاب پرپا کر دیا ہے۔ جنیٹک سائنس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہندوستانی خواتین کے 70 سے 90 فیصد جین 65000 ہزار سال قبل مسیح میں افریقہ سے آئے انسانوں سے مشابہ ہیں ۔ اس کے برعکس 10تا 40 فیصد مردوں کے جین 65000 ہزار سال قبل افریقہ سے آنے والے مردوں سے مشابہ ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے جین کی تفصیل میں ہم فی الحال نہیں جا رہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ عورت کے جین کا تقابل عورت سے ، مرد کا مرد سے کیا جاتا ہے ۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کے جین میں یہ فرق کیوں ہے ۔
سماجی سائنس یہ بتا رہی ہے کہ آریا مویشی پال تھے ۔ مویشی پال وقتوں میں بہت کم امکان کہ ان کے ساتھ خواتین بھی ہوں ۔ خواتین کی اکثریت مقامی رہی ہے۔ جب کہ مرد باہر سے آتے رہے ۔ زور زبردستی یا دیگر صورتوں میں مقامی خواتین کے ساتھ ہی ملاپ یا شادیاں ہوتی رہیں ۔
آج بھی روٹی روز گار کی غرض سے پہلے نمبر پر نوجوان اورپھرشادی شدہ مرد زیادہ تر باہر کا رخ کرتے ہیں ۔ بہت کم اپنے خاندان ساتھ لے کر جاتے ہیں ۔ genes کی سائنسی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ دنیا کے سارے انسان افریقہ سے نکل کر ہر طرف پھیلے ہیں ۔ اس سے کئ ایک اور مفروضوں کے پرخچے بھی اڑ گئے ہیں۔ ان پر آئندہ بات کریں گے ۔
7/8 ہزارسال قبل مسیح میں ایران کے علاقے زاگروس Zagros سے زراعت سے آشنا قبائل بھی مہرگڑھ پہنچے۔ زاگروس سے آنے والوں کے جین 65 ہزار سال قبل افریقہ سے آنے والوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
مہرگڑھ ( بلوچستان میں دریائے بولان پر ) کی کھدائی 20 ویں صدی کی آخری چوتھائی میں ہوئی ۔ فرانسیسی تحقیقاتی ٹیم کی ریسرچ سے ثابت ہوا کہ مہرگڑھ 7 ہزار سال قبل مسیح میں ایک شہر کی صورت میں بسا ہوا تھا۔ یہ پورے ایشیاء میں پہلا زرعی مقام تھا ۔ کپاس کے آثار بھی ملے ۔
یہ کپاس دو قبروں میں تانبے کے ہار میں پھنسی ہوئی ملی ہے ۔ یہ دنیا میں پہلی جگہ ہے ، جہاں کپاس کے وجود کے آثار ملے ہیں ۔ یہی آبادی ختم ہوکر بعد میں ہڑپہ کی ترقی یافتہ تہذیب میں تبدیل ہوئی ۔
ابھی تک ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے ملنے والی تحاریر نہیں پڑھی جا سکیں۔ لیکن کچھ ثبوت ایک تیسرے فریق میسوپوٹیمیا (عراق) کی کھدائیوں سے ملنے والی تحریروں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ میسوپوٹیمیا سے ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی دریائی تجارت رہی ہے ۔ ہڑپہ، موہنجوداڑو کی تحریروں کے نہ پڑھے جا سکنے بارے میں ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ یہ جان بوجھ کر پاکستان میں نہیں ہونے دیا جا رہا ۔ اس سے پاکستان کے قیام کی بنیادیں زمین بوس ہو جائیں گی ۔ دوسری طرف ہمارے ہاں ابھی تک پرانی نسل کو دراوڑ اور زبان دراوڑی کو لے کر ہی آگے بڑھا جا رہا ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ دراوڑی زبانوں کے ہمارے بہت اثرات ہیں۔ چونکہ ہڑپہ سب سے پہلے کی کھدائی ہے۔ اب تو خیر کئی ایک اور کھدائیاں ہریانہ، اُترپردیش، راجستھان، گجرات کے کئی شہروں کی کھدائی ہوئی ہے ۔
زبیرشفیع غوری کی کتاب ”راوی کنارے کی ہڑپائی بستیاں “ 14 ٹیلوں کی دریافت بھی ہو چکی ہے۔ آثار قدیمہ نے ان میں سے کئی ایک کو نوٹیفائی بھی کر دیا ہے ۔ میسوپوٹیمیا کی study بتاتی ہے کہ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی زبان دراوڑی نہیں تھی ۔ اسے مولوہا کا نام دیا جاتا ہے ۔ پنجابی اور سندھی بعد کی شکلیں ہیں۔ یہ زبانیں آریاؤں کے آنے کے بعد کی ہیں ۔ ہندوتوا آریاؤں کو باہر سے آنے والے نہیں مانتا ۔
زبیرشفیع غوری کی کتاب ”راوی کنارے کی ہڑپائی بستیاں “ 14 ٹیلوں کی دریافت بھی ہو چکی ہے۔ آثار قدیمہ نے ان میں سے کئی ایک کو نوٹیفائی بھی کر دیا ہے ۔ میسوپوٹیمیا کی study بتاتی ہے کہ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی زبان دراوڑی نہیں تھی ۔ اسے مولوہا کا نام دیا جاتا ہے ۔ پنجابی اور سندھی بعد کی شکلیں ہیں۔ یہ زبانیں آریاؤں کے آنے کے بعد کی ہیں ۔ ہندوتوا آریاؤں کو باہر سے آنے والے نہیں مانتا ۔
حکمران طبقات کے سوشیواکنامک مفادات تاریخی ، نسلی اور لسانی حقائق کا کس طرح قلع قمع کرتے ہیں ۔ اس حقیقت کو ذہن میں نہ رکھنے کے باعث ہمارے پیٹی بورژوا لیفٹ کی ہمیشہ ایک بدقسمتی رہی ہے کہ وہ حکمران طبقات کے نسلی ، لسانی و دیگر نعروں سے متاثر ہوکر ان کا دُم چھلہ بنا رہتا ہے۔
ہمیں نسلی لسانی حقائق سے انکار نہیں ہے ۔ جس بیٹھک کا ذکر کر رہے ہیں ۔ اس میں بھی ہم نے عرض کیا تھا کہ زبانوں کی گرائمر، تاریخ اور ان کے مستعمل ادوار کو نظر میں رکھے بغیر ہم بورژوازی کے ہاتھوں شعوری ، لاشعوری طورپر استعمال ہوتے رہیں گے ۔ حاکم طبقات کے مفادات اپنے اپنے وقت کے سماج میں بہت بھاری ہوتے ہیں ۔
زبانیں توانسانی اتصال اور ضروریات کی بنیاد پر نشوونما پاتی ہیں ۔ زبانیں جامد Static نہ مقدس ہوتی ہیں ، البتہ اپنے علم کے خزانہ کے اعتبار سے rich اور poor ضرور ہوتی ہیں ۔
الفاظ یا زبانیں متروک اور نئی پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مادری زبان میں بچوں کا سیکھنا کہیں زیادہ ہوتا ہے ، بہ نسبت کسی دوسری کے۔ چند دن قبل ہمیں پنجابی دانشوروں کی ایک محفل میں جانے کا اتفاق ہوا ، وہاں دوران گفتگو ہم نے لفظ گندم بول دیا ۔ پنجابی دانشوروں نے اعتراض اٹھا دیا کہ ہم نے” کنک“ کیوں نہیں بولا، جب کہ ہم دیہاتی پنجابی ہیں ۔ جواب میں ہم نے پوچھا کہ” کنک“کا لفظ کہاں سے اور کب آیا۔ اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہ تھا ۔ اس کا کوئی source اور خبر ہے بھی نہیں۔ اس محفل میں اور بھی سوالات زیر گفتگو آئے ان پر آئندہ بات کریں گے ۔
حوالہ جات
1. Joseph , Tony, Early Indians, Juggmaut Books 2018.
2. Oppenheimer , Stephen. The real eve: Modern Man’s Journey out of Africa 2003
3. Joseph, p 167
—♦—
مصنف کے بارے
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">
آج ہم جس موضوع پر طبع آزمائی کرنے جا رہے ہیں یہ زیادہ تر ہمارا موضوع نہیں رہا ۔ بس اتنا ہی ہے جس حد تک مارکس کے بقول ایک کیمونسٹ کو اپنے وقت کے دیگر علوم سے بھی آگاہی ضروری ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم اس گستاخی کی جراَت کیوں کر رہے ہیں ؟۔ ہوا کچھ یوں کہ عوامی ورکرز پارٹی کی حالیہ فیڈرل کمیٹی کی میٹنگ منعقدہ لاہور 20-21 اپریل کی درمیانی شب ہم کچھ دوست بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ۔ زبانوں سے بات چلتی چلتی مہر گڑھ، ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی طرف چل نکلی ۔ ہماری ماڑی قسمت ہم نے بھی ایک رائے دے دی ۔ بس پھر دوستوں نے وہ دُرگت بنائی کہ نانی یاد آگئی ۔ خیراس وقت خاموشی ہی بہتر تھی ، سو ہم نے وہی راستہ چنُا ۔
اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ مہرگڑھ پر دوستوں کی رائے تھی کہ مہرگڑھ 8/9 ہزار سال کی تہذیب ہے ۔ ہم نے کہہ دیا کہ نہیں 65000 ہزار سال کی تہذیب ہے ۔ 70000 ہزار سال قبل انسان افریقہ سے نکلا ۔ 5000 ہزار سال میں وہ مہرگڑھ تک پہنچا۔ ویسے تو دوست بھی درست تھے اور ہم بھی ۔ کھدائی یہی 8/9 ہزار سال کی تاریخ بتاتی ہے ۔ لیکن Genetic سائنس کے علم نے اس فیلڈ میں بھی انقلاب پرپا کر دیا ہے۔ جنیٹک سائنس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہندوستانی خواتین کے 70 سے 90 فیصد جین 65000 ہزار سال قبل مسیح میں افریقہ سے آئے انسانوں سے مشابہ ہیں ۔ اس کے برعکس 10تا 40 فیصد مردوں کے جین 65000 ہزار سال قبل افریقہ سے آنے والے مردوں سے مشابہ ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے جین کی تفصیل میں ہم فی الحال نہیں جا رہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ عورت کے جین کا تقابل عورت سے ، مرد کا مرد سے کیا جاتا ہے ۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کے جین میں یہ فرق کیوں ہے ۔
سماجی سائنس یہ بتا رہی ہے کہ آریا مویشی پال تھے ۔ مویشی پال وقتوں میں بہت کم امکان کہ ان کے ساتھ خواتین بھی ہوں ۔ خواتین کی اکثریت مقامی رہی ہے۔ جب کہ مرد باہر سے آتے رہے ۔ زور زبردستی یا دیگر صورتوں میں مقامی خواتین کے ساتھ ہی ملاپ یا شادیاں ہوتی رہیں ۔
آج بھی روٹی روز گار کی غرض سے پہلے نمبر پر نوجوان اورپھرشادی شدہ مرد زیادہ تر باہر کا رخ کرتے ہیں ۔ بہت کم اپنے خاندان ساتھ لے کر جاتے ہیں ۔ genes کی سائنسی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ دنیا کے سارے انسان افریقہ سے نکل کر ہر طرف پھیلے ہیں ۔ اس سے کئ ایک اور مفروضوں کے پرخچے بھی اڑ گئے ہیں۔ ان پر آئندہ بات کریں گے ۔
7/8 ہزارسال قبل مسیح میں ایران کے علاقے زاگروس Zagros سے زراعت سے آشنا قبائل بھی مہرگڑھ پہنچے۔ زاگروس سے آنے والوں کے جین 65 ہزار سال قبل افریقہ سے آنے والوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔
مہرگڑھ ( بلوچستان میں دریائے بولان پر ) کی کھدائی 20 ویں صدی کی آخری چوتھائی میں ہوئی ۔ فرانسیسی تحقیقاتی ٹیم کی ریسرچ سے ثابت ہوا کہ مہرگڑھ 7 ہزار سال قبل مسیح میں ایک شہر کی صورت میں بسا ہوا تھا۔ یہ پورے ایشیاء میں پہلا زرعی مقام تھا ۔ کپاس کے آثار بھی ملے ۔
یہ کپاس دو قبروں میں تانبے کے ہار میں پھنسی ہوئی ملی ہے ۔ یہ دنیا میں پہلی جگہ ہے ، جہاں کپاس کے وجود کے آثار ملے ہیں ۔ یہی آبادی ختم ہوکر بعد میں ہڑپہ کی ترقی یافتہ تہذیب میں تبدیل ہوئی ۔
ابھی تک ہڑپہ اور موہنجوداڑو سے ملنے والی تحاریر نہیں پڑھی جا سکیں۔ لیکن کچھ ثبوت ایک تیسرے فریق میسوپوٹیمیا (عراق) کی کھدائیوں سے ملنے والی تحریروں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ میسوپوٹیمیا سے ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی دریائی تجارت رہی ہے ۔ ہڑپہ، موہنجوداڑو کی تحریروں کے نہ پڑھے جا سکنے بارے میں ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ یہ جان بوجھ کر پاکستان میں نہیں ہونے دیا جا رہا ۔ اس سے پاکستان کے قیام کی بنیادیں زمین بوس ہو جائیں گی ۔ دوسری طرف ہمارے ہاں ابھی تک پرانی نسل کو دراوڑ اور زبان دراوڑی کو لے کر ہی آگے بڑھا جا رہا ہے ۔ یہ بھی درست ہے کہ دراوڑی زبانوں کے ہمارے بہت اثرات ہیں۔ چونکہ ہڑپہ سب سے پہلے کی کھدائی ہے۔ اب تو خیر کئی ایک اور کھدائیاں ہریانہ، اُترپردیش، راجستھان، گجرات کے کئی شہروں کی کھدائی ہوئی ہے ۔
زبیرشفیع غوری کی کتاب ”راوی کنارے کی ہڑپائی بستیاں “ 14 ٹیلوں کی دریافت بھی ہو چکی ہے۔ آثار قدیمہ نے ان میں سے کئی ایک کو نوٹیفائی بھی کر دیا ہے ۔ میسوپوٹیمیا کی study بتاتی ہے کہ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی زبان دراوڑی نہیں تھی ۔ اسے مولوہا کا نام دیا جاتا ہے ۔ پنجابی اور سندھی بعد کی شکلیں ہیں۔ یہ زبانیں آریاؤں کے آنے کے بعد کی ہیں ۔ ہندوتوا آریاؤں کو باہر سے آنے والے نہیں مانتا ۔
زبیرشفیع غوری کی کتاب ”راوی کنارے کی ہڑپائی بستیاں “ 14 ٹیلوں کی دریافت بھی ہو چکی ہے۔ آثار قدیمہ نے ان میں سے کئی ایک کو نوٹیفائی بھی کر دیا ہے ۔ میسوپوٹیمیا کی study بتاتی ہے کہ ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی زبان دراوڑی نہیں تھی ۔ اسے مولوہا کا نام دیا جاتا ہے ۔ پنجابی اور سندھی بعد کی شکلیں ہیں۔ یہ زبانیں آریاؤں کے آنے کے بعد کی ہیں ۔ ہندوتوا آریاؤں کو باہر سے آنے والے نہیں مانتا ۔
حکمران طبقات کے سوشیواکنامک مفادات تاریخی ، نسلی اور لسانی حقائق کا کس طرح قلع قمع کرتے ہیں ۔ اس حقیقت کو ذہن میں نہ رکھنے کے باعث ہمارے پیٹی بورژوا لیفٹ کی ہمیشہ ایک بدقسمتی رہی ہے کہ وہ حکمران طبقات کے نسلی ، لسانی و دیگر نعروں سے متاثر ہوکر ان کا دُم چھلہ بنا رہتا ہے۔
ہمیں نسلی لسانی حقائق سے انکار نہیں ہے ۔ جس بیٹھک کا ذکر کر رہے ہیں ۔ اس میں بھی ہم نے عرض کیا تھا کہ زبانوں کی گرائمر، تاریخ اور ان کے مستعمل ادوار کو نظر میں رکھے بغیر ہم بورژوازی کے ہاتھوں شعوری ، لاشعوری طورپر استعمال ہوتے رہیں گے ۔ حاکم طبقات کے مفادات اپنے اپنے وقت کے سماج میں بہت بھاری ہوتے ہیں ۔
زبانیں توانسانی اتصال اور ضروریات کی بنیاد پر نشوونما پاتی ہیں ۔ زبانیں جامد Static نہ مقدس ہوتی ہیں ، البتہ اپنے علم کے خزانہ کے اعتبار سے rich اور poor ضرور ہوتی ہیں ۔
الفاظ یا زبانیں متروک اور نئی پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مادری زبان میں بچوں کا سیکھنا کہیں زیادہ ہوتا ہے ، بہ نسبت کسی دوسری کے۔ چند دن قبل ہمیں پنجابی دانشوروں کی ایک محفل میں جانے کا اتفاق ہوا ، وہاں دوران گفتگو ہم نے لفظ گندم بول دیا ۔ پنجابی دانشوروں نے اعتراض اٹھا دیا کہ ہم نے” کنک“ کیوں نہیں بولا، جب کہ ہم دیہاتی پنجابی ہیں ۔ جواب میں ہم نے پوچھا کہ” کنک“کا لفظ کہاں سے اور کب آیا۔ اس سوال کا کسی کے پاس جواب نہ تھا ۔ اس کا کوئی source اور خبر ہے بھی نہیں۔ اس محفل میں اور بھی سوالات زیر گفتگو آئے ان پر آئندہ بات کریں گے ۔
حوالہ جات
1. Joseph , Tony, Early Indians, Juggmaut Books 2018.
2. Oppenheimer , Stephen. The real eve: Modern Man’s Journey out of Africa 2003
3. Joseph, p 167
—♦—
مصنف کے بارے
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 2
-
بصیر نوید says:
رانا صاحب بہت شاندار آرٹیکل۔ مارکسی نکتہ نگاہ سے جب ہم تاریخ کو دیکھیں گے تبھی ہم اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں ورنہ جھوٹ پر عمارتیں کھڑی کرنے کے سبب گمراہ کن لوگ ہی پیدا کرسکتے ہیں جیسے پاکستان میں ہورہے ہے
-
للکار نیوز says:
جناب بصیر نوید صاحب، مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ نے درست کہا ہے کہ تاریخ کو مادی نکتہ نگاہ سے دیکھنے سے ہی درست طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
-
جواب دیں جواب منسوخ کریں
">
ADVERTISEMENT
رانا صاحب بہت شاندار آرٹیکل۔ مارکسی نکتہ نگاہ سے جب ہم تاریخ کو دیکھیں گے تبھی ہم اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں ورنہ جھوٹ پر عمارتیں کھڑی کرنے کے سبب گمراہ کن لوگ ہی پیدا کرسکتے ہیں جیسے پاکستان میں ہورہے ہے
جناب بصیر نوید صاحب، مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ۔ آپ نے درست کہا ہے کہ تاریخ کو مادی نکتہ نگاہ سے دیکھنے سے ہی درست طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔