للکار (نیوز ڈیسک) آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی۔ 30 جنوری کی دوپہر کو خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے زبانی مختصر فیصلہ سُنایا۔
فیصلہ سنانے کے وقت عمران خان اور شاہ محمود قریشی کمرۂ عدالت میں ہی موجود تھے۔ اس موقع پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 342 کا بیان کمرۂ عدالت میں ریکارڈ کرنے کے لیے سوالنامہ دیا گیا۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے عدالت سے استفسار کیا کہ ہمارے وکلاء موجود نہیں ہم کیسے بیان ریکارڈ کرائیں گے؟
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی سے کہا کہ آپ کے وکلاء حاضر نہیں ہو رہے، آپ کو سٹیٹ ڈیفنس کونسل فراہم کی گئی ہے۔
وکلائے صفائی نے سوال کیا کہ ہم جرح کر لیتے ہیں۔
جج نے وکلائے صفائی سے کہا کہ آپ نے مجھ پر عدم اعتماد کیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلاء کو جرح کا موقع دیا تھا۔ مگر انہوں نے گواہان پر جرح کرنے کے بجائے جج پر عدم اعتماد سے متعلق اپنی درخواست پر فیصلہ سنانے پر زور دیا تھا۔ جس پر خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان کے وکلاء کی درخواست خارج کرتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود کو گاہان پر جرح کے لئے سٹیٹ کونسل فراہم کیے تھے۔
فیصلہ سناتے وقت پراسیکیوٹر ذوالفقارنقوی، سٹیٹ کونسل، عمران خان کی بہنیں، شاہ محمود قریشی کے اہلِ خانہ، میڈیا کے نمائندے اور عام افراد بھی کورٹ روم میں موجود تھے۔
خصوصی عدالت میں عمران خان نے اپنی صفائی میں 342 کا بیان ریکارڈ کرایا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے سرکاری معاون (اے ڈی سی) میں سے کسی ایک نے سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایما پر سائفر چوری کیا۔
انہوں نے کہا کہ سائفر وزیراعظم آفس میں تھا جس کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ملٹری سیکریٹری، پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری پروٹوکول پر آتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ان کے ساڑھے تین سالہ دورحکومت کے دوران یہ واحد دستاویز ہے جو وزیراعظم آفس سے گم ہوئی۔
عمران خان کے مطابق سائفر میں کہا گیا تھا کہ اگر وزیرِ اعظم کو نہ ہٹایا تو اس کے نتائج ہوں گے۔ البتہ انہوں نے پریڈ گراؤنڈ جلسے میں جو پیپر لہرایا تھا اس میں صرف خطرے کا ذکر کیا تھا کسی ملک کا نام نہیں لیا۔ ان کے بقول پیپر لہرانے کا مقصد جنرل باجوہ کو یہ پیغام دینا تھا کہ اگر سازش ہوئی تو تمام پلان ایکسپوز کر دیا جائے گا۔
سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت گرانے کے لیے سازش اکتوبر 2021 میں شروع ہوئی جب جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو تبدیل کیا تھا جب کہ اپریل 2022 میں ہماری حکومت گرائی گئی اور چار ماہ بعد جنرل باجوہ نے کہا کہ مجھ پر اور شاہ محمود قریشی پر سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیس ہوگا۔
سائفر کیس میں عمران خان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جنرل باجوہ کی دھمکی کے بعد ان کے خلاف 200 مقدمات درج ہوئے جس کا مقصد جنرل باجوہ اور امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کے حوالے سے ان کا منہ بند کرانا تھا۔
خیال رہے کہ امریکہ نے عمران خان کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیا تھا۔
سائفر مقدمےکا پسِ منظر؟
عمران خان نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفر کو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے ۔
اس کے علاوہ سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکریٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک بھی سامنے آئی تھی جس میں سابق وزیرِ اعظم کو کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف اس کے اوپر کھیلنا ہے کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔
اس آڈیو لیک کے بعد پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی وفاقی کابینہ نے 30 ستمبر 2022 کو عمران خان کی سائفر سے متعلق آڈیو لیک ہونے کے بعد کابینہ کمیٹی تشکیل دی تھی۔
کابینہ کمیٹی نے یکم اکتوبر کو اجلاس میں قانونی کارروائی کی سفارش کی۔ کمیٹی کی سفارشات کو سمری کی شکل میں کابینہ سے منظور کرنے کے لے پیش کیا گیا جب کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ‘سرکولیشن’ کے ذریعے کمیٹی کی سفارشات کی اتوار کو منظوری دے دی ہے۔
کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، جس کے قومی مفادات پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس لیے اس پر قانونی کارروائی لازم ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ ایف آئی اے کے سینیئر حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جب کہ ایف آئی اے دیگر انٹیلی جنس اداروں سے بھی افسران اور اہلکاروں کو ٹیم میں شامل کر سکتی ہے۔
کابینہ سے سرکولیشن کے ذریعے منظور ہونے والی سمری میں کمیٹی نے کہا ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیم جرم کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف کل ہائیکورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ ہائیکورٹ یا پھر سپریم کورٹ سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا میں کمی ہو جائے مگر سزا کی مکمل معطلی ممکن نظر نہیں آتی۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
للکار (نیوز ڈیسک) آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی۔ 30 جنوری کی دوپہر کو خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے زبانی مختصر فیصلہ سُنایا۔
فیصلہ سنانے کے وقت عمران خان اور شاہ محمود قریشی کمرۂ عدالت میں ہی موجود تھے۔ اس موقع پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 342 کا بیان کمرۂ عدالت میں ریکارڈ کرنے کے لیے سوالنامہ دیا گیا۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے عدالت سے استفسار کیا کہ ہمارے وکلاء موجود نہیں ہم کیسے بیان ریکارڈ کرائیں گے؟
جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی سے کہا کہ آپ کے وکلاء حاضر نہیں ہو رہے، آپ کو سٹیٹ ڈیفنس کونسل فراہم کی گئی ہے۔
وکلائے صفائی نے سوال کیا کہ ہم جرح کر لیتے ہیں۔
جج نے وکلائے صفائی سے کہا کہ آپ نے مجھ پر عدم اعتماد کیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلاء کو جرح کا موقع دیا تھا۔ مگر انہوں نے گواہان پر جرح کرنے کے بجائے جج پر عدم اعتماد سے متعلق اپنی درخواست پر فیصلہ سنانے پر زور دیا تھا۔ جس پر خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے عمران خان کے وکلاء کی درخواست خارج کرتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود کو گاہان پر جرح کے لئے سٹیٹ کونسل فراہم کیے تھے۔
فیصلہ سناتے وقت پراسیکیوٹر ذوالفقارنقوی، سٹیٹ کونسل، عمران خان کی بہنیں، شاہ محمود قریشی کے اہلِ خانہ، میڈیا کے نمائندے اور عام افراد بھی کورٹ روم میں موجود تھے۔
خصوصی عدالت میں عمران خان نے اپنی صفائی میں 342 کا بیان ریکارڈ کرایا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کے سرکاری معاون (اے ڈی سی) میں سے کسی ایک نے سابق فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایما پر سائفر چوری کیا۔
انہوں نے کہا کہ سائفر وزیراعظم آفس میں تھا جس کی سیکیورٹی کی ذمہ داری ملٹری سیکریٹری، پرنسپل سیکریٹری اور سیکریٹری پروٹوکول پر آتی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ان کے ساڑھے تین سالہ دورحکومت کے دوران یہ واحد دستاویز ہے جو وزیراعظم آفس سے گم ہوئی۔
عمران خان کے مطابق سائفر میں کہا گیا تھا کہ اگر وزیرِ اعظم کو نہ ہٹایا تو اس کے نتائج ہوں گے۔ البتہ انہوں نے پریڈ گراؤنڈ جلسے میں جو پیپر لہرایا تھا اس میں صرف خطرے کا ذکر کیا تھا کسی ملک کا نام نہیں لیا۔ ان کے بقول پیپر لہرانے کا مقصد جنرل باجوہ کو یہ پیغام دینا تھا کہ اگر سازش ہوئی تو تمام پلان ایکسپوز کر دیا جائے گا۔
سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ ان کی حکومت گرانے کے لیے سازش اکتوبر 2021 میں شروع ہوئی جب جنرل باجوہ نے آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو تبدیل کیا تھا جب کہ اپریل 2022 میں ہماری حکومت گرائی گئی اور چار ماہ بعد جنرل باجوہ نے کہا کہ مجھ پر اور شاہ محمود قریشی پر سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیس ہوگا۔
سائفر کیس میں عمران خان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جنرل باجوہ کی دھمکی کے بعد ان کے خلاف 200 مقدمات درج ہوئے جس کا مقصد جنرل باجوہ اور امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کے حوالے سے ان کا منہ بند کرانا تھا۔
خیال رہے کہ امریکہ نے عمران خان کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیا تھا۔
سائفر مقدمےکا پسِ منظر؟
عمران خان نے امریکا میں پاکستانی سفیر کے مراسلے یا سائفر کو بنیاد بنا کر ہی اپنی حکومت کے خلاف سازش کا بیانیہ بنایا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کے خاتمے میں امریکا کا ہاتھ ہے ۔
اس کے علاوہ سائفر سے متعلق عمران خان اور ان کے سابق سیکریٹری اعظم خان کی ایک آڈیو لیک بھی سامنے آئی تھی جس میں سابق وزیرِ اعظم کو کہتے سنا گیا تھا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف اس کے اوپر کھیلنا ہے کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔
اس آڈیو لیک کے بعد پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کی وفاقی کابینہ نے 30 ستمبر 2022 کو عمران خان کی سائفر سے متعلق آڈیو لیک ہونے کے بعد کابینہ کمیٹی تشکیل دی تھی۔
کابینہ کمیٹی نے یکم اکتوبر کو اجلاس میں قانونی کارروائی کی سفارش کی۔ کمیٹی کی سفارشات کو سمری کی شکل میں کابینہ سے منظور کرنے کے لے پیش کیا گیا جب کہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ‘سرکولیشن’ کے ذریعے کمیٹی کی سفارشات کی اتوار کو منظوری دے دی ہے۔
کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے تجویز کیا ہے کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے، جس کے قومی مفادات پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس لیے اس پر قانونی کارروائی لازم ہے۔
کمیٹی نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ ایف آئی اے کے سینیئر حکام پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جب کہ ایف آئی اے دیگر انٹیلی جنس اداروں سے بھی افسران اور اہلکاروں کو ٹیم میں شامل کر سکتی ہے۔
کابینہ سے سرکولیشن کے ذریعے منظور ہونے والی سمری میں کمیٹی نے کہا ہے کہ ایف آئی اے کی ٹیم جرم کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف کل ہائیکورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ ہائیکورٹ یا پھر سپریم کورٹ سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا میں کمی ہو جائے مگر سزا کی مکمل معطلی ممکن نظر نہیں آتی۔