13 دسمبر کو ترواننت پورم میں منعقدہ پی گووند پلئی ایوارڈ تقریب میں اروندھتی رائے کا خطاب؛
پی گووند پلئی کے نام پر مجھے یہ اعزاز عطا کرنے کے لیے شکریہ، جو کیرالہ سے تعلق رکھنے والے مارکسی فکر و فلسفہ کے سرکردہ دانشوروں میں سے ایک تھے۔ اور اس کے لیے بھی شکریہ کہ آپ نے مجھے یہ اعزاز دینے کے لیے این رام سے گزارش کی۔ میں جانتی ہوں کہ انہیں پچھلے سال اس اعزاز سے نوازا گیاتھا، لیکن کئی لحاظ سے میرے اس اعزاز میں ان کا بھی حصہ ہے۔ 1998 میں فرنٹ لائن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے – اور آؤٹ لک کے ایڈیٹر ونود مہتہ کے ساتھ – انہوں نے میرا پہلا سیاسی مضمون ’دی اینڈ آف امیجنیشن‘ شائع کیا تھا، جو ہندوستان کے جوہری تجربات کے بارے میں تھا۔ اور اس کے بعد وہ کئی سالوں تک میری نگارشات شائع کرتے رہے۔ ان کی مدیرانہ جرٲت مندی نےہی مجھےایسا قلمکار بننے کا حوصلہ دیا جو آج میں ہوں۔
ہندوستان میں آزاد صحافت کے خاتمے کے بارے میں بولنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہاں موجود تمام لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ اور نہ ہی میں اس بارے میں بولنے جا رہی ہوں کہ ان تمام اداروں کا کیا حشر ہوا ہے، جن کو ہماری جمہوریت کو صیقل کرنے اور اسے صحیح راستے پر گامزن کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ بیس سالوں سے میں یہی کرتی آ رہی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہاں موجود تمام لوگ میرے خیالات سے واقف ہوں گے۔
شمالی ہندوستان سے کیرالہ آنے کے بعدیا قریب قریب کسی بھی جنوبی ریاست میں آکر میں سکون محسوس کرتی ہوں اور بے چینی بھی کہ شمال میں رہنے والے ہم میں سے متعدد لوگوں کو روزمرہ کی زندگی میں جس دہشت کے ساتھ جینا پڑتا ہے، لگتا ہے اس سےکتنی دور آ گئی ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم جتنا سوچ رہے ہیں، یہ اتنی دور نہیں ہے۔ اگر موجودہ حکومت اگلے سال دوبارہ اقتدار میں آتی ہے، تو 2026 میں حد بندی کی کارروائی کے تحت ممکن ہے کہ پارلیامنٹ میں ہم جتنے ایم پی بھیجتے ہیں ، ان کی تعداد کو کم کرکے پورے جنوبی ہندوستان کی طاقت چھین لی جائے۔ ہمارے تنوع پسند ملک کی ریڑھ وفاقیت بھی خطرے میں ہے۔
مرکزی حکومت جس طرح اپنے آپ کو بے لگام طاقت اور اختیارات سونپتی جا رہی ہے، اس میں ہم اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت والی ریاستوں کے منتخب وزرائے اعلیٰ کی بے بسی بھی دیکھ رہے ہیں۔انہیں ان کےریاستوں کے لیے بنےعوامی فنڈ سے اپنی ریاستوں کے حصہ کے لیےمنتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔
وفاقیت کو تازہ ترین دھچکا سپریم کورٹ کا آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کو درست قرار دینے کا فیصلہ ہے۔ اس آرٹیکل میں ریاست جموں و کشمیر کو نیم خود مختاری کا درجہ دیا گیا تھا۔ یہ ہندوستان کی واحد ریاست نہیں ہے جسے خصوصی درجہ حاصل ہے۔ یہ تصور کرنا سنگین غلطی ہو گی کہ یہ فیصلہ صرف کشمیر کے بارے میں ہے۔ اس کا اثر ہمارے نظام کے بنیادی ڈھانچے تک پہنچتا ہے۔
لیکن آج میں ایک ایسی چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں جو بہت زیادہ فوری اور ضروری ہے۔ ہمارا ملک اپنی اخلاقیات کھو چکا ہے۔ انتہائی گھناؤنے جرائم، نسل کشی اور نسلی تطہیر کے انتہائی خوفناک اعلانات کی تعریف کی جا رہی ہے اور سیاسی انعامات دیے جا رہے ہیں۔ جہاں تمام دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو رہی ہے وہیں یہ طاقتیں غریبوں پر چند ٹکڑے ڈال کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں جس سے غریب عوام کی حالت زار میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
ہمارے دور کا سب سے حیران کن مخمصہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں لوگ خود کو مزید کمزور اور محروم بنانے کے لیے ووٹ دیتے نظر آرہے ہیں۔ وہ انہیں موصولہ معلومات کی بنیاد پر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ وہ معلومات کیا ہے اور اس پر کس کا کنٹرول ہے – یہ جدید دنیا کا میٹھا زہر ہے۔جس کا ٹکنالوجی پر قبضہ ہے، اس کا دنیا پر کنٹرول ہے۔ لیکن آخرکار، میرا یقین ہے کہ عوام پر قبضہ نہیں جا سکتا اور وہ قبضے میں نہیں آئیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ نئی نسل بغاوت کے لیے کمر بستہ ہے۔ ایک انقلاب آئے گا۔ مجھے معاف کیجیے۔ میں یہ بات اصلاح کرکے کہتی ہوں۔ انقلاب آئیں گے، کئی سارے انقلاب آئیں گے۔
میں نے کہا کہ ایک ملک کے طور پرہم اپنا اخلاقی کمپاس (قطب نما) کھو چکے ہیں۔ پوری دنیا میں لاکھوں یہودی، مسلمان، عیسائی، ہندو، کمیونسٹ اور ملحد سڑکوں پر جلوس نکال رہے ہیں، غزہ پر حملوں کو فوراً بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کی سڑکیں آج خاموش ہیں، ہمارا وہی ملک ہے جو کبھی غلام، اور استعماری عوام کا سچا دوست، جو فلسطین کا خیرخواہ تھا۔ جہاں کبھی لاکھوں لوگوں کے جلوس نکلے ہوئے ہوتے ، وہی سڑکیں آج خاموش ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے اکثر ادیب اور دانشور بھی خاموش ہیں۔ کتنی شرمناک بات ہے۔ اور تنگ نظری کاکس قدر افسوسناک مظاہرہ۔
جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت کے تانے بانے کو کس طرح منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے، اور ہمارے غیر معمولی تنوع پسند ملک پر ایک جھوٹی اور سب کو ایک ساتھ جکڑ دینے والی قوم پرستی مسلط کی جا رہی ہے، تو کم از کم جو لوگ اپنے آپ کو دانشور کہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ غصہ اور فرقہ پرستی ہمارے ملک میں بھی تباہی لا سکتی ہے۔
اگر ہم اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی عوام کے کھلے عام قتل کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں، یہاں تک کہ یہ ہماری نجی زندگی کے انتہائی باطنی اور نجی لمحوں تک میں لائیو اسٹریم ہو رہا ہے، تو ہم اس قتل عام میں شریک ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم بس چپ چاپ دیکھتے رہیں گے، جبکہ گھروں، ہسپتالوں، پناہ گزینوں کے کیمپوں، اسکولوں، یونیورسٹیوں، آرکائیوز پر بم گرائے جارہے ہیں، دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور ملبے کے نیچے سے بچوں کی لاشیں نکل رہی ہیں؟ غزہ کی سرحدیں بند ہیں۔ لوگ کہیں نہیں جا سکتے۔ ان کے پاس چھپنے کی جگہ نہیں ہے، کھانا نہیں ہے، پانی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ نصف سے زیادہ آبادی بھوک مری کا سامنا کر رہی ہے اور اس کے باوجود ان پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہے۔ کیا ہم پھر سے اسے خاموشی سے دیکھتے رہیں گے کہ ایک پوری قوم کو اس قدر کمتر انسان بنا دیا جائے کہ ان کا خاتمہ ایک بے معنی، معمولی بات بن جائے؟
فلسطینیوں کو انسانوں سے کمتر کوئی چیز سمجھنے کی شروعات بنجمن نیتن یاہو اور ان کے گروپ سے نہیں ہوئی تھی۔ یہ دہائیوں پہلے شروع ہوگئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ میں نے11 ستمبر 2001 کی پہلی سالگرہ پر 2002 میں اقوام متحدہ میں ایک لیکچر دیا تھا ‘کم ستمبر‘۔ اس میں میں نے 11 ستمبر کی دیگر سالگرہوں کے بارے میں بات کی تھی۔ اس تاریخ کو 1973 میں چلی کے صدر سالوادور آییندے کے خلاف سی آئی اے کی حمایت سے تختہ پلٹ ہوا تھا۔ اور پھر اسی تاریخ کو 1990 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش بش سینئر نے پارلیامنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے کے حکومتی فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ اور پھر میں نے فلسطین کے بارے میں بات کی تھی۔ میں آپ کو وہ حصہ پڑھ کر سناتی ہوں، اور آپ دیکھیں گے کہ اگر میں نے آپ کو یہ نہ بتایا ہوتا کہ یہ 21 سال پہلے لکھا گیا تھا، تو آپ سوچتے کہ یہ آج کے بارے میں ہے۔
’’ گیارہ ستمبر کی المناک بازگشت مشرق وسطیٰ میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ 11 ستمبر 1922 کو عرب عوام کے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے برطانوی حکومت نے فلسطین میں ایک فرمان جاری کیا۔ یہ 1917 کے بالفور اعلان کا اگلا قدم تھا، جو برطانوی سلطنت نے اس وقت جاری کیا تھا جب اس کی فوجیں غزہ کی سرحدوں پر تعینات تھیں۔ بالفور اعلان نے یورپی صیہونیوں کو یہودیوں کے لیے ایک مملکت کا وعدہ کیا تھا۔ (اس وقت سلطنت، جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا، لوگوں کی زمینیں چھیننے اور بانٹنے کے لیے آزاد تھی، جیسے کہ کوئی دبنگ بچہ اسکول میں گولیاں بانٹتا ہے)۔ کتنی لاپرواہی کے ساتھ سلطنتوں نے قدیم تہذیبوں کو تباہ کیا ہے۔ فلسطین اور کشمیر برطانیہ کے گہرے خون میں لت پت زخم ہیں جو اس نے جدید دنیا کو لگائے ہیں۔ آج دونوں ہی شدید بین الاقوامی تنازعات کے مراکز ہیں۔’
سنیے کہ 1937 میں ونسٹن چرچل نے فلسطینی عوام کے بارے میں کیا کہا تھا، ‘میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ ایک ناند میں رہنے والے کتے کا اس ناند پر آخری حق ہوتا ہے، خواہ وہ اس میں لمبے عرصے تک کیوں نہ رہا ہو۔ میں اس حق کو قبول نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر، میں یہ قبول نہیں کرتا کہ امریکہ کے ریڈ انڈین یا آسٹریلیا کے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ کوئی بہت برا سلوک کیا گیا ہے۔ میں اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ ان لوگوں پر اس حقیقت سے کوئی ظلم ہوا ہو کہ ایک طاقتور نسل، ایک اعلیٰ نسل نے،کہہ سکتے ہیں کہ دنیاوی طور پر زیادہ ذہین نسل نے، آکر ان کی جگہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی ریاست کا رویہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ 1969 میں اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مایر نے کہا، ‘فلسطینیوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔’ ان کے بعد وزیر اعظم بننے والے لیوی اےشال نے کہا، ‘فلسطینی کیا ہوتے ہیں؟ جب میں یہاں (فلسطین) آیا تو یہاں 250000 غیر یہودی تھے جن میں زیادہ تر عرب اور بدو تھے۔ یہ ایک صحرا تھا، پسماندہ علاقے سے بھی بدتر۔ کچھ بھی نہیں تھا۔‘ وزیراعظم میناکیم بیگن نے فلسطینیوں کو ’دو ٹانگوں والا جانور‘ کہا تھا۔ وزیر اعظم اسحاق شامیر نے انہیں ‘ٹڈے’ کہاتھا جنہیں کچلا جا سکتا ہے۔ یہ ملک کے حکمرانوں کی زبان ہے، عام لوگوں کے الفاظ نہیں۔‘‘
اس طرح بنا وطن والے ایک عوام کے لیے بنا عوام والے ایک وطن کا خوفناک قصہ شروع ہوا۔
’’سن 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو باضابطہ طور پر تقسیم کیا اور فلسطینی اراضی کا 55 فیصد صہیونیوں کے حوالے کر دیا۔ لیکن ایک سال کے اندر انہوں نے فلسطین کے 76 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیل کی ریاست 14 مئی 1948 کو قائم ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ نے اعلان کے چند منٹوں میں اسے تسلیم کر لیا۔ اردن نے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا۔ غزہ پٹی مصری فوج کے قبضے میں آ گئی اور فلسطین کا باقاعدہ وجود ختم ہو گیا، سوائے ان لاکھوں فلسطینیوں کے دل و دماغ کے جو اب اجڑ کر پناہ گزین ہو چکے تھے۔ 1967 میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ پٹی پر بھی قبضہ کر لیا۔ دہائیوں تک بغاوتیں، جنگیں اور انتفاضہ جاری رہے۔ دسیوں ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ معاہدوں اور قرار ناموں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور ان کی خلاف ورزی کی گئی۔ لیکن خونریزی ختم نہیں ہوتی۔
فلسطین پر ناجائز قبضہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے لوگ غیر انسانی حالات میں رہتے ہیں۔نسلی امتیاز کی بنیاد پر بند علاقوں میں، ایک قسم کے بنتوستانوں میں رہتے ہیں، جہاں انہیں اجتماعی سزائیں دی جاتی ہیں، جہاں کرفیو کبھی ختم نہیں ہوتا، جہاں روزانہ ان کی تذلیل کی جاتی ہے، وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کب ان کے گھر گرا دیےجائیں گے، کب ان کے بچوں کو گولی مار دی جائے گی، کب ان کے بیش قیمتی درخت کاٹ دیے جائیں گے، کب ان کی سڑکیں بند کر دی جائیں گی، کب انہیں خوراک اور بازار سے ادویات خریدنے کی اجازت دی جائے گی۔اور کب نہیں دی جائے گی؟ وہ بغیر کسی عزت کے رہتے ہیں۔ اور بغیر کسی توقع کے۔ اپنی زمین پر، اپنی حفاظت پر، اپنی نقل و حرکت پر، اپنی مواصلات پر، پانی کی فراہمی پر ان کاکوئی کنٹرول نہیں ہے۔
لہٰذا جب معاہدوں پر دستخط کیے جاتے ہیں، اور ’خودمختاری‘ اور ’ریاست کا درجہ‘ جیسے لفظوں کے پرچم لہرائے جاتے ہیں، تب یہ سوال پوچھنا ضروری ہو جاتا ہے: کس قسم کی خود مختاری؟ کیسی ریاست؟ اس کے شہریوں کو کس قسم کے حقوق حاصل ہوں گے؟ جو نوجوان فلسطینی اپنے غصے پر قابو نہیں کرپاتے وہ خود کو انسانی بموں میں بدل دیتے ہیں اور اسرائیلی سڑکوں اور گلیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ خود کو دھماکے سے اڑاتے ہیں، عام شہریوں کی جان لیتے ہیں، ان کی روزمرہ کی زندگیوں کو دہشت سے بھردیتے ہیں، اور بالآخر دونوں معاشروں کے شکوک و شبہات اور ایک دوسرے سے باہمی نفرت کو ہی تقویت دیتے ہیں۔ ہر بمباری بے رحمانہ جوابی حملے کو دعوت دیتی ہے، جس سے فلسطینی عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن پھر سچ یہ ہے کہ خودکش بم حملے ذاتی مایوسی کی کارروائیاں ہیں، انقلابی قدم نہیں۔ فلسطینی حملے یقیناً اسرائیلی شہریوں کو خوفزدہ کرتے ہیں، لیکن یہ اسرائیلی حکومت کی فلسطینی علاقوں میں روزانہ کی جانے والی مداخلتوں کا ایک بہترین بہانہ بھی بن جاتے ہیں۔ وہ پرانے زمانے کے، 19ویں صدی کے استعمار کے لیے ایک بہترین بہانہ بن جاتے ہیں، جسے 21ویں صدی کے نئے زمانے کی ‘جنگ’ کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل کا سب سے مضبوط سیاسی اور فوجی اتحادی امریکہ ہے اور ہمیشہ سے رہا ہے۔‘‘
’’امریکی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی ہر اس قرارداد کو روکا ہے، جو اس تنازعے کے پرامن اور منصفانہ حل کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس نے اسرائیل کی تقریباً ہر جنگ کی حمایت کی ہے۔ جب اسرائیل فلسطین پر حملہ کرتا ہے تو فلسطینیوں کے گھر تباہ کرنے والے میزائل امریکی ہوتے ہیں۔ اور ہر سال اسرائیل کو اقوام متحدہ سے کئی ارب ڈالر ملتے ہیں جو کہ یہاں کے ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہے۔‘‘
آج اسرائیل شہری آبادیوں پر جو بھی بم گرا رہا ہے اس پر امریکہ کا نام لکھا ہوا ہے۔ ہر ٹینک پر۔ ہر گولی پر۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر امریکہ دل و جان سے اس کی حمایت نہ کرتا۔ ہم سب نے دیکھا کہ 8 دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کیا ہوا، جب 13 رکن ممالک نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا اور امریکہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ ویڈیو دیکھنا پریشان کن تھا جس میں امریکی نائب سفیر جو ایک سیاہ فام امریکی ہیں،کا ہاتھ قرارداد پر ویٹو کے لیے اٹھا۔ اس کے نشان ہمیشہ ہمارے ذہنوں پر رہیں گے۔ سوشل میڈیا پر کچھ ناراض لوگوں نے تلخی سے اسے انٹرسیکشنل امپیریل ازم قرار دیا ہے۔
نوکر شاہی کے اقدامات کو دیکھتے ہوئےایسا لگتا ہے کہ امریکہ کا کہنا ہے: اپنا مقصد پورا کرو، لیکن رحمدلی کے ساتھ۔
’’ہمیں اس المناک تنازعے سے کیا سبق سیکھنا چاہیے؟ جن یہودی لوگوں نے خود اتنے مظالم برداشت کیے ہیں (شاید تاریخ میں کسی بھی عوام سے زیادہ)، ان کے لیے کیا ان کے خطرات اور خواہشات کو سمجھ پانا سچ مچ ناممکن ہےجنہیں انہوں نے بے گھر کر رکھا ہے؟ کیا خوفناک مصائب ہمیشہ سفاکی کو جنم دیتی ہیں؟ انسانیت کے لیے اس سے کیسی امید پیدا ہوتی ہے؟ ایک فتح کی صورت میں فلسطینی لوگ کیسا برتاؤ کریں گے؟ جب ریاست سے محروم قوم ریاست بن جائے گی تو وہ ریاست کیسی ہوگی؟ اس کے جھنڈے کے سائے تلے کیسی وحشت برپا ہو گی۔ کیا ہمیں ایک الگ ریاست کے لیے لڑنا چاہیے، یا پھر ہمیں ہر ایک کی آزادی اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق کے لیے لڑنا چاہیے، چاہے کسی کی نسلی شناخت یا مذہب کچھ بھی ہو؟
فلسطین کبھی مشرق وسطیٰ میں سیکولرازم کا محاذ تھا۔ لیکن آج اسی جگہ حماس ایک کمزور، غیر جمہوری، ہر طرح سے بدعنوان لیکن مبینہ طور پر غیر تنگ پی ایل او لے کی جگہ لیتا جارہا ہے، جو ایک تنگ نظریہ اور اسلام کے نام پر لڑنے کا کھلے عام دعویٰ کرتا ہے۔ ان کا منشور کہتا ہے: ‘ہم اس کے سپاہی ہوں گے اور اس کی آگ کے لیے لکڑی ہوں گے جو دشمنوں کو جلا دے گی’۔ دنیا سے مطالبہ ہے کہ وہ خودکش حملہ آوروں کی مذمت کرے۔ لیکن کیا ہم اس طویل سفر کو نظر انداز کر سکتے ہیں جس سے گزر کر وہ اس مقام تک پہنچے ہیں؟ 11 ستمبر 1922 سے 11 ستمبر 2002 – ایک جنگ کوجاری رکھنے کے لیے 80 سال بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔ کیا دنیا فلسطین کے لوگوں کو کوئی مشورہ دے سکتی ہے؟ کیا انہیں صرف گولڈا مایر کا مشورہ مان لینا چاہیے، اور حقیقت میں اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنا وجود مٹا ڈالیں؟ ‘‘
فلسطینی عوام کو ختم کر دینے، انہیں مکمل طور پر تباہ کردینے کے خیال کو اسرائیلی سیاسی رہنما اور فوجی افسران واضح طور پر بیان کر رہے ہیں۔ ‘نسل کشی کی روک تھام میں ناکامی’— جو بذات کود ایک جرم ہے— بائیڈن انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے ایک امریکی وکیل کا کہنا ہے کہ نسل کشی کے عزائم کو اس طرح صاف صاف اور عوامی سطح پر کہنے کے معاملے بہت کمیاب ہیں۔ ایک بار اس مقصد کوحاصل کر لینے کے بعد، شاید ان حکمرانوں کا ارادہ یہ ہو کہ ایسے عجائب گھر بنائے جائیں جن میں فلسطینی ثقافت اور دستکاری کی نمائش ہو۔ مستند فلسطینی کھانا پیش کرنے والے ریستوراں ہوں۔ شاید نئی غزہ بندرگاہ پر لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو بھی ہو تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ پرانا غزہ کتنا رنگین ہوا کرتا تھا۔ ممکن ہے یہ بندرگاہ بین گوریون کینال منصوبے کے دہانے پر تعمیر کی جائے، جسے سویز نہر کے پیمانے پر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سمندر میں کھدائی کے معاہدے پر دستخط کیے جا رہے ہیں۔
بیس سال پہلے جب میں نے نیو میکسیکو میں ‘کم ستمبر’ لیکچر دیا، تو امریکہ میں فلسطین کے حوالے سے ایک قسم کی خاموشی تھی۔ اس کے بارے میں جو لوگ بولتے تھےانہوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ آج نوجوان سڑکوں پر ہیں۔ اگلے محاذ پر ان کی قیادت یہودی اور فلسطینی کر رہے ہیں، جو اپنی حکومت، امریکی حکومت کی کرتوتوں سے ناراض ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ہنگامہ آرائی ہے۔ سب سے اشرافیہ کیمپس میں بھی۔ سرمایہ داری ان کو خاموش کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ عطیہ دہندگان فنڈنگ روکنے کی دھمکی دے رہے ہیں، اس طرح اس بات کا فیصلہ کر رہے ہیں کہ امریکی طلباء کیا کہہ سکتے ہیں اور کیا نہیں کہہ سکتے، اور انہیں کیسے سوچنا چاہیے اور کیسے نہیں سوچنا چاہیے۔ یہ ایک نام نہاد لبرل تعلیم کے بنیادی اصولوں پر حملہ ہی ہے۔
مابعد نوآبادیات، کثیر الثقافتی، بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کا ڈھونگ ختم ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ بولنے کی آزادی یا عوامی اخلاقیات کا ڈھونگ بھی ختم ہو چکا ہے۔ جسے بین الاقوامی وکلاء اور اسکالرز تمام کسوٹیوں پر ایک نسلی نسل کشی قرار دے رہے ہیں، وہ ’جنگ‘ جاری ہے جس میں جرائم کے مرتکب اپنے آپ کو متاثرین کے طور پر پیش کر رہے ہیں، ایک نسل پرست ریاست چلانے والے استعمار اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
امریکہ میں اس پر سوال کرنے کا مطلب ہوگا کہ یہود مخالف ہونے کا الزام لگنا۔ خواہ سوال کرنے والے خود یہودی کیوں نہ ہوں۔ آپ ہوش کھو دیں گے۔ حتیٰ کہ اسرائیل بھی اس طرح کی آوازوں کو نہیں کچلتا جتنا امریکہ کچلتا ہے، جہاں اختلاف رائے رکھنے والے اسرائیلی شہری جیسے گیڈون لیوی اسرائیلی اقدامات کے سب سے زیادہ باخبر اور سخت ناقدین میں سے ہیں (حالانکہ وہاں بھی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے)۔ امریکہ میں تو انتفاضہ کی بات کرنے کو یہودیوں کی نسلی تطہیر کی دعوت سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ انتفاضہ کا مطلب ہے بغاوت، مزاحمت،جو فلسطین کے معاملے میں نسل کشی کی مخالفت ہے۔ اس کا مطلب ہے اپنے کو مٹا دیے جانے کے خلاف احتجاج۔
ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس اخلاقی طور پر کرنے کے لیے صرف ایک ہی کام ہے – کہ وہ مر جائیں۔ ہم سب کے سامنے صرف ایک قانونی آپشن ہے – کہ ہم انہیں مرتے ہوئے دیکھیں۔ اور خاموش رہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو ہم اپنے اسکالرشپ، گرانٹس، لیکچر فیس اور اپنی روزی روٹی کو خطرے میں ڈال دیں گے۔
امریکی وار آن ٹیرر نے 11 ستمبر کے بعد دنیا بھر کی حکومتوں کو اپنے شہری حقوق کو ختم کر دینے کا، اور ایک پیچیدہ، جارحانہ نگرانی کا نظام قائم کرنے کا بہانہ فراہم کیا۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہماری حکومتیں ہمارے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں، اور ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اسی طرح امریکہ کے نئے میکارتھی ازم کی چھتری تلے پوری دنیا کے ممالک میں خطرناک چیزیں پروان چڑھیں گی۔ یقیناً ہمارے اپنے ملک میں یہ برسوں پہلے شروع ہو گیا تھا۔ لیکن اگر ہم نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تو یہ مضبوط ہو کر ہم سب کو بہا لے جائے گا۔
ابھی کل ہی خبر آئی کہ دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جو کبھی ہندوستان کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی تھی، نے طلبہ کے طرز عمل کے حوالے سے نئے قواعد جاری کیے ہیں۔ ان کے تحت احتجاج یا بھوک ہڑتال کرنے والے ہر طالبعلم پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ ’ملک مخالف نعرے‘ لگانے پر 10000 روپے۔ یہ کس قسم کے نعرے ہیں اس کی فی الحال کوئی فہرست نہیں ہے – لیکن ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی نسلی تطہیر اور نسل کشی کا مطالبہ کرنے والے نعرے اس فہرست کا حصہ نہیں ہوں گے۔ یعنی فلسطین کی لڑائی ہماری لڑائی بھی ہے۔
کہنے کے لیے جو بچا ہے اسے صاف صاف کہنا اور دوہرانا ضروری ہے!
مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ اور غزہ کا محاصرہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ امریکہ اور دوسرے ممالک جو اس قبضے کی مالی معاونت کرتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں وہ اس جرم میں شریک ہیں۔ آج ہم جس دہشت گردی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، حماس اور اسرائیل کی طرف سے شہریوں کا اندھا دھند قتل، اسی محاصرے اور قبضے کا نتیجہ ہے۔
خواہ دونوں طرف سے ہونے والے ظلم کی کیسی بھی اور کتنی ہی تفصیلات پیش کی جائیں، ان کی زیادتیوں کی کتنی ہی مذمت کی جائے، ان کے مظالم میں برابری کا جھوٹ کتنا ہی گھڑا جائے، وہ ہمیں کسی حل کی طرف نہیں لے جا سکتے۔
اس وحشت کو جنم دینے والی چیز قبضہ ہے۔ قبضہ ہی وہ چیز ہے جو جرم کے مرتکب اور اس جرم کے متاثرین دونوں پر تشدد کرتی ہے۔ اس کے متاثرین مر رہے ہیں۔ اور ان کے مجرموں کو اب اپنے جرائم کے ساتھ جینا پڑے گا۔ اور ان کی آنے والی نسلوں کو بھی۔
یہ کسی فوجی کارروائی سے حل نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف ایک سیاسی حل ہی ہو سکتا ہے، جس میں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں کو ہی ایک دوسرے کے ساتھ یا ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہنا پڑے گا۔ احترام کے ساتھ، اور مساوی حقوق کے ساتھ۔ اس میں دنیا کی مداخلت ضروری ہے۔ اس قبضے کا خاتمہ ضروری ہے۔ فلسطینیوں کو حقیقی ملک ملنا ضروری ہے۔ اور یہ ضروری ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو واپسی کا حق حاصل ہو۔
اگر نہیں تو مغربی تہذیب کی اخلاقی عمارت منہدم ہو جائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ دو چہروں والی چیز تھی، لیکن اس میں بھی ایک قسم کی پناہ ملتی تھی۔ وہ پناہ گاہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو رہی ہے۔
لہٰذا فلسطین اور اسرائیل کی خاطر، جو زندہ ہیں ان کی خاطر اور جو مارے گئے ان کی خاطر، حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے لوگوں کی خاطر اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کی خاطر۔ ساری انسانیت کی خاطر، یہ قتل عام فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔
مجھے اس اعزاز کے لیے منتخب کرنے کے لیے ایک بار پھر شکریہ۔ اس ایوارڈ کے ساتھ ملنے والے 3 لاکھ روپے کے لیے بھی شکریہ۔ یہ میرے پاس نہیں رہیں گے۔ یہ ان کارکنوں اور صحافیوں کے لیے کارآمد ثابت ہوں گے جو بھاری قیمت چکانے کے باوجود اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اروندھتی رائے ناول، دی گاڈ آف سمال تھنگز کی مصنفہ ہیں، جس کے لیے انہیں 1997 میں بُکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے An Ordinary Person’s Guide to Empire, War Talk, Power Politics,، اور The Cost of Living جیسے مضامین کے مجموعے بھی شائع کیے ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب Azadi: Freedom, Fascism, Fiction ہے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
13 دسمبر کو ترواننت پورم میں منعقدہ پی گووند پلئی ایوارڈ تقریب میں اروندھتی رائے کا خطاب؛
پی گووند پلئی کے نام پر مجھے یہ اعزاز عطا کرنے کے لیے شکریہ، جو کیرالہ سے تعلق رکھنے والے مارکسی فکر و فلسفہ کے سرکردہ دانشوروں میں سے ایک تھے۔ اور اس کے لیے بھی شکریہ کہ آپ نے مجھے یہ اعزاز دینے کے لیے این رام سے گزارش کی۔ میں جانتی ہوں کہ انہیں پچھلے سال اس اعزاز سے نوازا گیاتھا، لیکن کئی لحاظ سے میرے اس اعزاز میں ان کا بھی حصہ ہے۔ 1998 میں فرنٹ لائن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے – اور آؤٹ لک کے ایڈیٹر ونود مہتہ کے ساتھ – انہوں نے میرا پہلا سیاسی مضمون ’دی اینڈ آف امیجنیشن‘ شائع کیا تھا، جو ہندوستان کے جوہری تجربات کے بارے میں تھا۔ اور اس کے بعد وہ کئی سالوں تک میری نگارشات شائع کرتے رہے۔ ان کی مدیرانہ جرٲت مندی نےہی مجھےایسا قلمکار بننے کا حوصلہ دیا جو آج میں ہوں۔
ہندوستان میں آزاد صحافت کے خاتمے کے بارے میں بولنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہاں موجود تمام لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ اور نہ ہی میں اس بارے میں بولنے جا رہی ہوں کہ ان تمام اداروں کا کیا حشر ہوا ہے، جن کو ہماری جمہوریت کو صیقل کرنے اور اسے صحیح راستے پر گامزن کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ بیس سالوں سے میں یہی کرتی آ رہی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہاں موجود تمام لوگ میرے خیالات سے واقف ہوں گے۔
شمالی ہندوستان سے کیرالہ آنے کے بعدیا قریب قریب کسی بھی جنوبی ریاست میں آکر میں سکون محسوس کرتی ہوں اور بے چینی بھی کہ شمال میں رہنے والے ہم میں سے متعدد لوگوں کو روزمرہ کی زندگی میں جس دہشت کے ساتھ جینا پڑتا ہے، لگتا ہے اس سےکتنی دور آ گئی ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم جتنا سوچ رہے ہیں، یہ اتنی دور نہیں ہے۔ اگر موجودہ حکومت اگلے سال دوبارہ اقتدار میں آتی ہے، تو 2026 میں حد بندی کی کارروائی کے تحت ممکن ہے کہ پارلیامنٹ میں ہم جتنے ایم پی بھیجتے ہیں ، ان کی تعداد کو کم کرکے پورے جنوبی ہندوستان کی طاقت چھین لی جائے۔ ہمارے تنوع پسند ملک کی ریڑھ وفاقیت بھی خطرے میں ہے۔
مرکزی حکومت جس طرح اپنے آپ کو بے لگام طاقت اور اختیارات سونپتی جا رہی ہے، اس میں ہم اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت والی ریاستوں کے منتخب وزرائے اعلیٰ کی بے بسی بھی دیکھ رہے ہیں۔انہیں ان کےریاستوں کے لیے بنےعوامی فنڈ سے اپنی ریاستوں کے حصہ کے لیےمنتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔
وفاقیت کو تازہ ترین دھچکا سپریم کورٹ کا آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کو درست قرار دینے کا فیصلہ ہے۔ اس آرٹیکل میں ریاست جموں و کشمیر کو نیم خود مختاری کا درجہ دیا گیا تھا۔ یہ ہندوستان کی واحد ریاست نہیں ہے جسے خصوصی درجہ حاصل ہے۔ یہ تصور کرنا سنگین غلطی ہو گی کہ یہ فیصلہ صرف کشمیر کے بارے میں ہے۔ اس کا اثر ہمارے نظام کے بنیادی ڈھانچے تک پہنچتا ہے۔
لیکن آج میں ایک ایسی چیز کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں جو بہت زیادہ فوری اور ضروری ہے۔ ہمارا ملک اپنی اخلاقیات کھو چکا ہے۔ انتہائی گھناؤنے جرائم، نسل کشی اور نسلی تطہیر کے انتہائی خوفناک اعلانات کی تعریف کی جا رہی ہے اور سیاسی انعامات دیے جا رہے ہیں۔ جہاں تمام دولت چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہو رہی ہے وہیں یہ طاقتیں غریبوں پر چند ٹکڑے ڈال کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں جس سے غریب عوام کی حالت زار میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
ہمارے دور کا سب سے حیران کن مخمصہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں لوگ خود کو مزید کمزور اور محروم بنانے کے لیے ووٹ دیتے نظر آرہے ہیں۔ وہ انہیں موصولہ معلومات کی بنیاد پر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ وہ معلومات کیا ہے اور اس پر کس کا کنٹرول ہے – یہ جدید دنیا کا میٹھا زہر ہے۔جس کا ٹکنالوجی پر قبضہ ہے، اس کا دنیا پر کنٹرول ہے۔ لیکن آخرکار، میرا یقین ہے کہ عوام پر قبضہ نہیں جا سکتا اور وہ قبضے میں نہیں آئیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ نئی نسل بغاوت کے لیے کمر بستہ ہے۔ ایک انقلاب آئے گا۔ مجھے معاف کیجیے۔ میں یہ بات اصلاح کرکے کہتی ہوں۔ انقلاب آئیں گے، کئی سارے انقلاب آئیں گے۔
میں نے کہا کہ ایک ملک کے طور پرہم اپنا اخلاقی کمپاس (قطب نما) کھو چکے ہیں۔ پوری دنیا میں لاکھوں یہودی، مسلمان، عیسائی، ہندو، کمیونسٹ اور ملحد سڑکوں پر جلوس نکال رہے ہیں، غزہ پر حملوں کو فوراً بند کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کی سڑکیں آج خاموش ہیں، ہمارا وہی ملک ہے جو کبھی غلام، اور استعماری عوام کا سچا دوست، جو فلسطین کا خیرخواہ تھا۔ جہاں کبھی لاکھوں لوگوں کے جلوس نکلے ہوئے ہوتے ، وہی سڑکیں آج خاموش ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے اکثر ادیب اور دانشور بھی خاموش ہیں۔ کتنی شرمناک بات ہے۔ اور تنگ نظری کاکس قدر افسوسناک مظاہرہ۔
جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت کے تانے بانے کو کس طرح منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے، اور ہمارے غیر معمولی تنوع پسند ملک پر ایک جھوٹی اور سب کو ایک ساتھ جکڑ دینے والی قوم پرستی مسلط کی جا رہی ہے، تو کم از کم جو لوگ اپنے آپ کو دانشور کہتے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ غصہ اور فرقہ پرستی ہمارے ملک میں بھی تباہی لا سکتی ہے۔
اگر ہم اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی عوام کے کھلے عام قتل کے بارے میں کچھ نہیں کہتے ہیں، یہاں تک کہ یہ ہماری نجی زندگی کے انتہائی باطنی اور نجی لمحوں تک میں لائیو اسٹریم ہو رہا ہے، تو ہم اس قتل عام میں شریک ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم بس چپ چاپ دیکھتے رہیں گے، جبکہ گھروں، ہسپتالوں، پناہ گزینوں کے کیمپوں، اسکولوں، یونیورسٹیوں، آرکائیوز پر بم گرائے جارہے ہیں، دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور ملبے کے نیچے سے بچوں کی لاشیں نکل رہی ہیں؟ غزہ کی سرحدیں بند ہیں۔ لوگ کہیں نہیں جا سکتے۔ ان کے پاس چھپنے کی جگہ نہیں ہے، کھانا نہیں ہے، پانی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ نصف سے زیادہ آبادی بھوک مری کا سامنا کر رہی ہے اور اس کے باوجود ان پر مسلسل بمباری کی جا رہی ہے۔ کیا ہم پھر سے اسے خاموشی سے دیکھتے رہیں گے کہ ایک پوری قوم کو اس قدر کمتر انسان بنا دیا جائے کہ ان کا خاتمہ ایک بے معنی، معمولی بات بن جائے؟
فلسطینیوں کو انسانوں سے کمتر کوئی چیز سمجھنے کی شروعات بنجمن نیتن یاہو اور ان کے گروپ سے نہیں ہوئی تھی۔ یہ دہائیوں پہلے شروع ہوگئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ میں نے11 ستمبر 2001 کی پہلی سالگرہ پر 2002 میں اقوام متحدہ میں ایک لیکچر دیا تھا ‘کم ستمبر‘۔ اس میں میں نے 11 ستمبر کی دیگر سالگرہوں کے بارے میں بات کی تھی۔ اس تاریخ کو 1973 میں چلی کے صدر سالوادور آییندے کے خلاف سی آئی اے کی حمایت سے تختہ پلٹ ہوا تھا۔ اور پھر اسی تاریخ کو 1990 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش بش سینئر نے پارلیامنٹ کے ایک مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے کے حکومتی فیصلے کا اعلان کیا تھا۔ اور پھر میں نے فلسطین کے بارے میں بات کی تھی۔ میں آپ کو وہ حصہ پڑھ کر سناتی ہوں، اور آپ دیکھیں گے کہ اگر میں نے آپ کو یہ نہ بتایا ہوتا کہ یہ 21 سال پہلے لکھا گیا تھا، تو آپ سوچتے کہ یہ آج کے بارے میں ہے۔
’’ گیارہ ستمبر کی المناک بازگشت مشرق وسطیٰ میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ 11 ستمبر 1922 کو عرب عوام کے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے برطانوی حکومت نے فلسطین میں ایک فرمان جاری کیا۔ یہ 1917 کے بالفور اعلان کا اگلا قدم تھا، جو برطانوی سلطنت نے اس وقت جاری کیا تھا جب اس کی فوجیں غزہ کی سرحدوں پر تعینات تھیں۔ بالفور اعلان نے یورپی صیہونیوں کو یہودیوں کے لیے ایک مملکت کا وعدہ کیا تھا۔ (اس وقت سلطنت، جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا، لوگوں کی زمینیں چھیننے اور بانٹنے کے لیے آزاد تھی، جیسے کہ کوئی دبنگ بچہ اسکول میں گولیاں بانٹتا ہے)۔ کتنی لاپرواہی کے ساتھ سلطنتوں نے قدیم تہذیبوں کو تباہ کیا ہے۔ فلسطین اور کشمیر برطانیہ کے گہرے خون میں لت پت زخم ہیں جو اس نے جدید دنیا کو لگائے ہیں۔ آج دونوں ہی شدید بین الاقوامی تنازعات کے مراکز ہیں۔’
سنیے کہ 1937 میں ونسٹن چرچل نے فلسطینی عوام کے بارے میں کیا کہا تھا، ‘میں اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ ایک ناند میں رہنے والے کتے کا اس ناند پر آخری حق ہوتا ہے، خواہ وہ اس میں لمبے عرصے تک کیوں نہ رہا ہو۔ میں اس حق کو قبول نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر، میں یہ قبول نہیں کرتا کہ امریکہ کے ریڈ انڈین یا آسٹریلیا کے سیاہ فام لوگوں کے ساتھ کوئی بہت برا سلوک کیا گیا ہے۔ میں اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ ان لوگوں پر اس حقیقت سے کوئی ظلم ہوا ہو کہ ایک طاقتور نسل، ایک اعلیٰ نسل نے،کہہ سکتے ہیں کہ دنیاوی طور پر زیادہ ذہین نسل نے، آکر ان کی جگہ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ فلسطینیوں کے بارے میں اسرائیلی ریاست کا رویہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ 1969 میں اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مایر نے کہا، ‘فلسطینیوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔’ ان کے بعد وزیر اعظم بننے والے لیوی اےشال نے کہا، ‘فلسطینی کیا ہوتے ہیں؟ جب میں یہاں (فلسطین) آیا تو یہاں 250000 غیر یہودی تھے جن میں زیادہ تر عرب اور بدو تھے۔ یہ ایک صحرا تھا، پسماندہ علاقے سے بھی بدتر۔ کچھ بھی نہیں تھا۔‘ وزیراعظم میناکیم بیگن نے فلسطینیوں کو ’دو ٹانگوں والا جانور‘ کہا تھا۔ وزیر اعظم اسحاق شامیر نے انہیں ‘ٹڈے’ کہاتھا جنہیں کچلا جا سکتا ہے۔ یہ ملک کے حکمرانوں کی زبان ہے، عام لوگوں کے الفاظ نہیں۔‘‘
اس طرح بنا وطن والے ایک عوام کے لیے بنا عوام والے ایک وطن کا خوفناک قصہ شروع ہوا۔
’’سن 1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو باضابطہ طور پر تقسیم کیا اور فلسطینی اراضی کا 55 فیصد صہیونیوں کے حوالے کر دیا۔ لیکن ایک سال کے اندر انہوں نے فلسطین کے 76 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔ اسرائیل کی ریاست 14 مئی 1948 کو قائم ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ نے اعلان کے چند منٹوں میں اسے تسلیم کر لیا۔ اردن نے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا۔ غزہ پٹی مصری فوج کے قبضے میں آ گئی اور فلسطین کا باقاعدہ وجود ختم ہو گیا، سوائے ان لاکھوں فلسطینیوں کے دل و دماغ کے جو اب اجڑ کر پناہ گزین ہو چکے تھے۔ 1967 میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ پٹی پر بھی قبضہ کر لیا۔ دہائیوں تک بغاوتیں، جنگیں اور انتفاضہ جاری رہے۔ دسیوں ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ معاہدوں اور قرار ناموں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اور ان کی خلاف ورزی کی گئی۔ لیکن خونریزی ختم نہیں ہوتی۔
فلسطین پر ناجائز قبضہ اب بھی جاری ہے۔ اس کے لوگ غیر انسانی حالات میں رہتے ہیں۔نسلی امتیاز کی بنیاد پر بند علاقوں میں، ایک قسم کے بنتوستانوں میں رہتے ہیں، جہاں انہیں اجتماعی سزائیں دی جاتی ہیں، جہاں کرفیو کبھی ختم نہیں ہوتا، جہاں روزانہ ان کی تذلیل کی جاتی ہے، وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ کب ان کے گھر گرا دیےجائیں گے، کب ان کے بچوں کو گولی مار دی جائے گی، کب ان کے بیش قیمتی درخت کاٹ دیے جائیں گے، کب ان کی سڑکیں بند کر دی جائیں گی، کب انہیں خوراک اور بازار سے ادویات خریدنے کی اجازت دی جائے گی۔اور کب نہیں دی جائے گی؟ وہ بغیر کسی عزت کے رہتے ہیں۔ اور بغیر کسی توقع کے۔ اپنی زمین پر، اپنی حفاظت پر، اپنی نقل و حرکت پر، اپنی مواصلات پر، پانی کی فراہمی پر ان کاکوئی کنٹرول نہیں ہے۔
لہٰذا جب معاہدوں پر دستخط کیے جاتے ہیں، اور ’خودمختاری‘ اور ’ریاست کا درجہ‘ جیسے لفظوں کے پرچم لہرائے جاتے ہیں، تب یہ سوال پوچھنا ضروری ہو جاتا ہے: کس قسم کی خود مختاری؟ کیسی ریاست؟ اس کے شہریوں کو کس قسم کے حقوق حاصل ہوں گے؟ جو نوجوان فلسطینی اپنے غصے پر قابو نہیں کرپاتے وہ خود کو انسانی بموں میں بدل دیتے ہیں اور اسرائیلی سڑکوں اور گلیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ خود کو دھماکے سے اڑاتے ہیں، عام شہریوں کی جان لیتے ہیں، ان کی روزمرہ کی زندگیوں کو دہشت سے بھردیتے ہیں، اور بالآخر دونوں معاشروں کے شکوک و شبہات اور ایک دوسرے سے باہمی نفرت کو ہی تقویت دیتے ہیں۔ ہر بمباری بے رحمانہ جوابی حملے کو دعوت دیتی ہے، جس سے فلسطینی عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن پھر سچ یہ ہے کہ خودکش بم حملے ذاتی مایوسی کی کارروائیاں ہیں، انقلابی قدم نہیں۔ فلسطینی حملے یقیناً اسرائیلی شہریوں کو خوفزدہ کرتے ہیں، لیکن یہ اسرائیلی حکومت کی فلسطینی علاقوں میں روزانہ کی جانے والی مداخلتوں کا ایک بہترین بہانہ بھی بن جاتے ہیں۔ وہ پرانے زمانے کے، 19ویں صدی کے استعمار کے لیے ایک بہترین بہانہ بن جاتے ہیں، جسے 21ویں صدی کے نئے زمانے کی ‘جنگ’ کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ اسرائیل کا سب سے مضبوط سیاسی اور فوجی اتحادی امریکہ ہے اور ہمیشہ سے رہا ہے۔‘‘
’’امریکی حکومت نے اسرائیل کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی ہر اس قرارداد کو روکا ہے، جو اس تنازعے کے پرامن اور منصفانہ حل کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس نے اسرائیل کی تقریباً ہر جنگ کی حمایت کی ہے۔ جب اسرائیل فلسطین پر حملہ کرتا ہے تو فلسطینیوں کے گھر تباہ کرنے والے میزائل امریکی ہوتے ہیں۔ اور ہر سال اسرائیل کو اقوام متحدہ سے کئی ارب ڈالر ملتے ہیں جو کہ یہاں کے ٹیکس دہندگان کا پیسہ ہے۔‘‘
آج اسرائیل شہری آبادیوں پر جو بھی بم گرا رہا ہے اس پر امریکہ کا نام لکھا ہوا ہے۔ ہر ٹینک پر۔ ہر گولی پر۔ یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر امریکہ دل و جان سے اس کی حمایت نہ کرتا۔ ہم سب نے دیکھا کہ 8 دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں کیا ہوا، جب 13 رکن ممالک نے جنگ بندی کے حق میں ووٹ دیا اور امریکہ نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ ویڈیو دیکھنا پریشان کن تھا جس میں امریکی نائب سفیر جو ایک سیاہ فام امریکی ہیں،کا ہاتھ قرارداد پر ویٹو کے لیے اٹھا۔ اس کے نشان ہمیشہ ہمارے ذہنوں پر رہیں گے۔ سوشل میڈیا پر کچھ ناراض لوگوں نے تلخی سے اسے انٹرسیکشنل امپیریل ازم قرار دیا ہے۔
نوکر شاہی کے اقدامات کو دیکھتے ہوئےایسا لگتا ہے کہ امریکہ کا کہنا ہے: اپنا مقصد پورا کرو، لیکن رحمدلی کے ساتھ۔
’’ہمیں اس المناک تنازعے سے کیا سبق سیکھنا چاہیے؟ جن یہودی لوگوں نے خود اتنے مظالم برداشت کیے ہیں (شاید تاریخ میں کسی بھی عوام سے زیادہ)، ان کے لیے کیا ان کے خطرات اور خواہشات کو سمجھ پانا سچ مچ ناممکن ہےجنہیں انہوں نے بے گھر کر رکھا ہے؟ کیا خوفناک مصائب ہمیشہ سفاکی کو جنم دیتی ہیں؟ انسانیت کے لیے اس سے کیسی امید پیدا ہوتی ہے؟ ایک فتح کی صورت میں فلسطینی لوگ کیسا برتاؤ کریں گے؟ جب ریاست سے محروم قوم ریاست بن جائے گی تو وہ ریاست کیسی ہوگی؟ اس کے جھنڈے کے سائے تلے کیسی وحشت برپا ہو گی۔ کیا ہمیں ایک الگ ریاست کے لیے لڑنا چاہیے، یا پھر ہمیں ہر ایک کی آزادی اور وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کے حق کے لیے لڑنا چاہیے، چاہے کسی کی نسلی شناخت یا مذہب کچھ بھی ہو؟
فلسطین کبھی مشرق وسطیٰ میں سیکولرازم کا محاذ تھا۔ لیکن آج اسی جگہ حماس ایک کمزور، غیر جمہوری، ہر طرح سے بدعنوان لیکن مبینہ طور پر غیر تنگ پی ایل او لے کی جگہ لیتا جارہا ہے، جو ایک تنگ نظریہ اور اسلام کے نام پر لڑنے کا کھلے عام دعویٰ کرتا ہے۔ ان کا منشور کہتا ہے: ‘ہم اس کے سپاہی ہوں گے اور اس کی آگ کے لیے لکڑی ہوں گے جو دشمنوں کو جلا دے گی’۔ دنیا سے مطالبہ ہے کہ وہ خودکش حملہ آوروں کی مذمت کرے۔ لیکن کیا ہم اس طویل سفر کو نظر انداز کر سکتے ہیں جس سے گزر کر وہ اس مقام تک پہنچے ہیں؟ 11 ستمبر 1922 سے 11 ستمبر 2002 – ایک جنگ کوجاری رکھنے کے لیے 80 سال بہت طویل عرصہ ہوتا ہے۔ کیا دنیا فلسطین کے لوگوں کو کوئی مشورہ دے سکتی ہے؟ کیا انہیں صرف گولڈا مایر کا مشورہ مان لینا چاہیے، اور حقیقت میں اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنا وجود مٹا ڈالیں؟ ‘‘
فلسطینی عوام کو ختم کر دینے، انہیں مکمل طور پر تباہ کردینے کے خیال کو اسرائیلی سیاسی رہنما اور فوجی افسران واضح طور پر بیان کر رہے ہیں۔ ‘نسل کشی کی روک تھام میں ناکامی’— جو بذات کود ایک جرم ہے— بائیڈن انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے ایک امریکی وکیل کا کہنا ہے کہ نسل کشی کے عزائم کو اس طرح صاف صاف اور عوامی سطح پر کہنے کے معاملے بہت کمیاب ہیں۔ ایک بار اس مقصد کوحاصل کر لینے کے بعد، شاید ان حکمرانوں کا ارادہ یہ ہو کہ ایسے عجائب گھر بنائے جائیں جن میں فلسطینی ثقافت اور دستکاری کی نمائش ہو۔ مستند فلسطینی کھانا پیش کرنے والے ریستوراں ہوں۔ شاید نئی غزہ بندرگاہ پر لائٹ اینڈ ساؤنڈ شو بھی ہو تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ پرانا غزہ کتنا رنگین ہوا کرتا تھا۔ ممکن ہے یہ بندرگاہ بین گوریون کینال منصوبے کے دہانے پر تعمیر کی جائے، جسے سویز نہر کے پیمانے پر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سمندر میں کھدائی کے معاہدے پر دستخط کیے جا رہے ہیں۔
بیس سال پہلے جب میں نے نیو میکسیکو میں ‘کم ستمبر’ لیکچر دیا، تو امریکہ میں فلسطین کے حوالے سے ایک قسم کی خاموشی تھی۔ اس کے بارے میں جو لوگ بولتے تھےانہوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی۔ آج نوجوان سڑکوں پر ہیں۔ اگلے محاذ پر ان کی قیادت یہودی اور فلسطینی کر رہے ہیں، جو اپنی حکومت، امریکی حکومت کی کرتوتوں سے ناراض ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ہنگامہ آرائی ہے۔ سب سے اشرافیہ کیمپس میں بھی۔ سرمایہ داری ان کو خاموش کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ عطیہ دہندگان فنڈنگ روکنے کی دھمکی دے رہے ہیں، اس طرح اس بات کا فیصلہ کر رہے ہیں کہ امریکی طلباء کیا کہہ سکتے ہیں اور کیا نہیں کہہ سکتے، اور انہیں کیسے سوچنا چاہیے اور کیسے نہیں سوچنا چاہیے۔ یہ ایک نام نہاد لبرل تعلیم کے بنیادی اصولوں پر حملہ ہی ہے۔
مابعد نوآبادیات، کثیر الثقافتی، بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن، انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کا ڈھونگ ختم ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ بولنے کی آزادی یا عوامی اخلاقیات کا ڈھونگ بھی ختم ہو چکا ہے۔ جسے بین الاقوامی وکلاء اور اسکالرز تمام کسوٹیوں پر ایک نسلی نسل کشی قرار دے رہے ہیں، وہ ’جنگ‘ جاری ہے جس میں جرائم کے مرتکب اپنے آپ کو متاثرین کے طور پر پیش کر رہے ہیں، ایک نسل پرست ریاست چلانے والے استعمار اپنے آپ کو مظلوم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
امریکہ میں اس پر سوال کرنے کا مطلب ہوگا کہ یہود مخالف ہونے کا الزام لگنا۔ خواہ سوال کرنے والے خود یہودی کیوں نہ ہوں۔ آپ ہوش کھو دیں گے۔ حتیٰ کہ اسرائیل بھی اس طرح کی آوازوں کو نہیں کچلتا جتنا امریکہ کچلتا ہے، جہاں اختلاف رائے رکھنے والے اسرائیلی شہری جیسے گیڈون لیوی اسرائیلی اقدامات کے سب سے زیادہ باخبر اور سخت ناقدین میں سے ہیں (حالانکہ وہاں بھی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے)۔ امریکہ میں تو انتفاضہ کی بات کرنے کو یہودیوں کی نسلی تطہیر کی دعوت سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ انتفاضہ کا مطلب ہے بغاوت، مزاحمت،جو فلسطین کے معاملے میں نسل کشی کی مخالفت ہے۔ اس کا مطلب ہے اپنے کو مٹا دیے جانے کے خلاف احتجاج۔
ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس اخلاقی طور پر کرنے کے لیے صرف ایک ہی کام ہے – کہ وہ مر جائیں۔ ہم سب کے سامنے صرف ایک قانونی آپشن ہے – کہ ہم انہیں مرتے ہوئے دیکھیں۔ اور خاموش رہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں تو ہم اپنے اسکالرشپ، گرانٹس، لیکچر فیس اور اپنی روزی روٹی کو خطرے میں ڈال دیں گے۔
امریکی وار آن ٹیرر نے 11 ستمبر کے بعد دنیا بھر کی حکومتوں کو اپنے شہری حقوق کو ختم کر دینے کا، اور ایک پیچیدہ، جارحانہ نگرانی کا نظام قائم کرنے کا بہانہ فراہم کیا۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہماری حکومتیں ہمارے بارے میں سب کچھ جانتی ہیں، اور ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ اسی طرح امریکہ کے نئے میکارتھی ازم کی چھتری تلے پوری دنیا کے ممالک میں خطرناک چیزیں پروان چڑھیں گی۔ یقیناً ہمارے اپنے ملک میں یہ برسوں پہلے شروع ہو گیا تھا۔ لیکن اگر ہم نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی تو یہ مضبوط ہو کر ہم سب کو بہا لے جائے گا۔
ابھی کل ہی خبر آئی کہ دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی جو کبھی ہندوستان کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی تھی، نے طلبہ کے طرز عمل کے حوالے سے نئے قواعد جاری کیے ہیں۔ ان کے تحت احتجاج یا بھوک ہڑتال کرنے والے ہر طالبعلم پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ ’ملک مخالف نعرے‘ لگانے پر 10000 روپے۔ یہ کس قسم کے نعرے ہیں اس کی فی الحال کوئی فہرست نہیں ہے – لیکن ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی نسلی تطہیر اور نسل کشی کا مطالبہ کرنے والے نعرے اس فہرست کا حصہ نہیں ہوں گے۔ یعنی فلسطین کی لڑائی ہماری لڑائی بھی ہے۔
کہنے کے لیے جو بچا ہے اسے صاف صاف کہنا اور دوہرانا ضروری ہے!
مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ اور غزہ کا محاصرہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ امریکہ اور دوسرے ممالک جو اس قبضے کی مالی معاونت کرتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں وہ اس جرم میں شریک ہیں۔ آج ہم جس دہشت گردی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، حماس اور اسرائیل کی طرف سے شہریوں کا اندھا دھند قتل، اسی محاصرے اور قبضے کا نتیجہ ہے۔
خواہ دونوں طرف سے ہونے والے ظلم کی کیسی بھی اور کتنی ہی تفصیلات پیش کی جائیں، ان کی زیادتیوں کی کتنی ہی مذمت کی جائے، ان کے مظالم میں برابری کا جھوٹ کتنا ہی گھڑا جائے، وہ ہمیں کسی حل کی طرف نہیں لے جا سکتے۔
اس وحشت کو جنم دینے والی چیز قبضہ ہے۔ قبضہ ہی وہ چیز ہے جو جرم کے مرتکب اور اس جرم کے متاثرین دونوں پر تشدد کرتی ہے۔ اس کے متاثرین مر رہے ہیں۔ اور ان کے مجرموں کو اب اپنے جرائم کے ساتھ جینا پڑے گا۔ اور ان کی آنے والی نسلوں کو بھی۔
یہ کسی فوجی کارروائی سے حل نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف ایک سیاسی حل ہی ہو سکتا ہے، جس میں اسرائیلی اور فلسطینی دونوں کو ہی ایک دوسرے کے ساتھ یا ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہنا پڑے گا۔ احترام کے ساتھ، اور مساوی حقوق کے ساتھ۔ اس میں دنیا کی مداخلت ضروری ہے۔ اس قبضے کا خاتمہ ضروری ہے۔ فلسطینیوں کو حقیقی ملک ملنا ضروری ہے۔ اور یہ ضروری ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو واپسی کا حق حاصل ہو۔
اگر نہیں تو مغربی تہذیب کی اخلاقی عمارت منہدم ہو جائے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمیشہ دو چہروں والی چیز تھی، لیکن اس میں بھی ایک قسم کی پناہ ملتی تھی۔ وہ پناہ گاہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو رہی ہے۔
لہٰذا فلسطین اور اسرائیل کی خاطر، جو زندہ ہیں ان کی خاطر اور جو مارے گئے ان کی خاطر، حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے لوگوں کی خاطر اور اسرائیلی جیلوں میں بند فلسطینیوں کی خاطر۔ ساری انسانیت کی خاطر، یہ قتل عام فوری طور پر بند ہونا چاہیے۔
مجھے اس اعزاز کے لیے منتخب کرنے کے لیے ایک بار پھر شکریہ۔ اس ایوارڈ کے ساتھ ملنے والے 3 لاکھ روپے کے لیے بھی شکریہ۔ یہ میرے پاس نہیں رہیں گے۔ یہ ان کارکنوں اور صحافیوں کے لیے کارآمد ثابت ہوں گے جو بھاری قیمت چکانے کے باوجود اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اروندھتی رائے ناول، دی گاڈ آف سمال تھنگز کی مصنفہ ہیں، جس کے لیے انہیں 1997 میں بُکر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے An Ordinary Person’s Guide to Empire, War Talk, Power Politics,، اور The Cost of Living جیسے مضامین کے مجموعے بھی شائع کیے ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب Azadi: Freedom, Fascism, Fiction ہے۔