للکار ( خصوصی رپورٹ) صدرعارف علوی نے 20 اگست کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک ہلچل مچا دینے والا انکشاف کیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے پاکستان آرمی ترمیمی بل اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان بلوں سے اتفاق نہیں کرتے۔
عارف علوی نے 20 اگست کو اپنی ایک ٹوئیٹ میں یہ انکشاف کیا ہے۔ ٹوئیٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے سٹاف سے پوچھا تھا کہ بل دستخط کے بغیر پارلیمنٹ واپس بھیجے گئے ہیں یا نہیں اور اس کے جواب میں انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ بھیج دئیے گئے ہیں۔
میں اللّٰہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔…
— Dr. Arif Alvi (@ArifAlvi) August 20, 2023
جسٹس وجیہہ الدین احمدکا کہنا ہے کہ، ”اگر صدر مملکت یہ دعویٰ کر رہے ہیں تو قانونی راستہ یہ ہے کہ وہ ایک اندرونی انکوائری ایوانِ صدر میں کرائیں اور ان لوگوں کی نشاندہی کروائیں جو دستخط کے عمل میں ملوث ہیں۔ اس کے لیے صدر کسی ایوان صدر کے افسر کو انکوائری افسر کے طور پر مقرر کر سکتے ہیں اور اس کو ایک خاص وقت میں انکوائری مکمل کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔‘‘
جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق اس کی دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ صدر مملکت نگران حکومت سے اس کی انکوائری کا مطالبہ کریں اور تیسری صورت میں سپریم کورٹ اس معاملے کا از خود نوٹس لے۔‘‘
برابری پارٹی پاکستان کے چئیرمین جود احمد کا اس صورتِ حال پر ردِ عمل سامنے آیا ہے کہ عارف علوی اور عمران خان نے اقتدار کے حصول کے لئے "خود بوٹ پالش” کیے ہیں۔ یہ لوگ موقع پر ست اور منافق ہیں۔ یہ اب جس قدر چاہیں قسمیں کھائیں عوام ان کی اصلیت جان چکے ہیں۔
یہ سب عمران خان، عارف علوی اور PTI کا ہی کیا دھرا ہے جو اب ان کے سامنے آ رہا ہے۔ بوٹ پالشیوں نے نہ کبھی پہلے فیض پایا اور نہ آئندہ فیض پائیں گے۔ اب یہ جتنی مرضی قسمیں کھائیں، قوم ان لوگوں کی موقع پرستی اور منافقت کو اچھی طرح جانتی ہے۔ pic.twitter.com/5VlS6fDFbH
— Jawad Ahmad (@jawadahmadone) August 20, 2023
حکومتی مؤقف
حکومت کی طرف سے صدر عارف علوی کے ان الزامات کی تردید کی جا رہی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات مرتضٰی سولنگی سے میڈیا نے رابطہ کیا، تو انہوں نے اس معاملے پر وزارتِ قانون و انصاف نقطہ میڈیا کو بھیج دیا۔
وزارتِ قانون و انصاف کےاس بیان کے مطابق جب کوئی بل صدر مملکت کو بھیجا جاتا ہے تو آئین کے مطابق وہ منظوری دیتے ہیں یا اپنے مخصوص مشاہدات یا اعتراضات کے ساتھ اسے پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیتے ہیں، ”لیکن ان دونوں شرائط میں سے کسی کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ بلکہ صدر نے جان بوجھ کر بل کی منظوری میں تاخیر کی۔ بل کو مخصوص مشاہدات یا منظوری کے بغیر بھیجنے کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح کا عمل آئین کی بنادی رُوح کے خلاف ہے۔‘‘
مذکورہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر صدر کو بلوں پر کوئی اعتراض تھا تو وہ یہ اعتراض لگا کر بلوں کو واپس بھیج سکتے تھے، جیسا کہ انہوں نے حال ہی میں اور ماضی میں بھی کیا تھا، ”وہ اس حوالے سے کوئی پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔ یہ بہت تشویشناک بات ہے کہ صدر نے اپنے ہی افسران پر بد اعتمادی کا اظہار کیا ہے۔ صدر کو اپنے اقدامات کی ذمہ داری قبول کرنا چاہیے۔‘‘
آئین کیا کہتا ہے؟
اس ساری صورتِ حال کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ایک طرف یہ بات واضح ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق؛
- آرٹیکل 75 کے مطابق جب کوئی بل صدر کو منظوری کے لیے پیش کیا جاتا ہے تو صدر 10 دن کے اندر بل کی منظوری دے گا یا منی بل کے علاوہ کسی بل کی صورت میں اسے مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو واپس کر دے گا۔ ایک نوٹ کے ساتھ کہ بل یا اس کی کسی مخصوص شق پر دوبارہ غور کیا جائے اور نوٹ میں بیان کردہ کسی بھی ترمیم پر غور کیا جائے۔
- اس میں مزید کہا گیا ہے کہ جب صدر نے کوئی بل مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو واپس کر دیا ہے، تو اس پر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کی طرف سے مشترکہ اجلاس میں دوبارہ غور کیا جائے گا اور، اگر یہ دوبارہ اپنی پہلی شکل میں ہی سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں ایوانوں میں موجود اور ووٹنگ کرنے والے ارکان کی اکثریت کے ووٹوں سےمنظور کیا جاتا ہے، اس بل پر صدر دس دنوں کے اندر اپنی رضامندی دے گا، ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس کی منظوری دی گئی سمجھی جائے گی۔
اب صدر علوی کے اس بیان کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی قلعی کھل جاتی ہے کہ کیا صدر علوی نے مقررہ 10 دنوں میں ان بلز کو اپنے اعتراضات یا تجاویز کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھجوایا؟ کیا صدر علوی کسی بھی بھیجے گئے بلز کو بغیر کسی اعتراض یا تجاویز کے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا سکتے ہیں؟
اس پر آئینِ پاکستان مکمل طور پر واضح ہے۔ اوریہ کہ عارف علوی کا مذکورہ ٹوئیٹ اصل حقائق پر پردہ پوشی کے سِوا کچھ بھی نہیں۔