موضوع پر براہ راست جانے سے پہلے اسے کی وجہ نزول ہمارے لیئے دلچسپی کا باعث ہے ۔ اس سے آپ بھی سیاق و سباق سے آگاہ ہوں گے ۔ آئندہ ہونے والی گفتگو کو بہتر انداز میں جاننے میں مدد ملے گی ۔ آج سے کوئی پچاس سال پہلے ہم چاروں دوستوں (جو اس گفتگو کے نزول کے حصہ دار ہیں ) نے پاکستان سوشلسٹ پارٹی میں شعوری سیاسی آنکھ کھولی۔ کم از کم ہم اپنے بارے میں تو حتمی طور پر کہہ سکتے ہیں۔ ہم چاروں دوست ایک لمبا عرصہ جگری یار بھی رہے۔ پھر نظریاتی دوری کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ جن میں سے ایک ملتان دوسرے لاہور تیسرے بلوچستان سبی سے ہیں۔ ہم ان کے نام بھی لکھ دیتے لیکن اجازت نہیں لی۔ بغیر اجازت کے بات ذاتیات کی طرف چلی جاتی ہے۔ ہمارے سوا باقی تینوں دوستوں نے اس لمبے سفر کے دوران مختلف راستے اختیار کر لیے۔ بنیادی طور پر یہی بات اس مکالمے کا سبب بنی۔
ملتان کے دوست کی فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی، جو کچھ اس طرح تھی؛
”جب کائنات ارتقاء پذیر ہو تو کوئی نظریہ اور عقیدہ بھی جامد و ساکت اور بے تغّیر نہیں ہو سکتا “
مختلف لوگ حسب معمول اس پر واہ واہ کرتے رہے ۔ سبی کے دوست نے لکھا ” اور اس میں مارکسزم بھی شامل ہے یا نہیں؟ “ جواب میں پوسٹ لکھنے والے دوست نے لکھا کہ” ہر شے پہ ہے تغّیر حاوی مارکسزم سمیت “ ۔
آگےجا کر ہم نے بنیادی پوسٹ لکھنے والے دوست کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ”آپ کی بات درست ہونے کے باوجود abstract ہے ۔ کیا کوئی چیز کائنات/سماج میں کسی لمحے concrete/ complete بھی ہوتی ہے ؟۔ (ابھی ہم اپنے دوستوں کی بات کو پوسٹ ماڈرن ازم کے پس منظر میں نہیں لے رہے ۔ بعد میں دیکھیں گے)۔ اس پر ملتان اور لاہور کے دوستوں نے ہم اور ہماری بات پر دوستانہ مذاق شروع کر دیا۔ خیر وہ باتیں لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہم نے اپنی بات کے پیرائے میں دو ایک چھوٹی چھوٹی درج ذیل مزید باتیں لکھ دیں۔ ”سماج میں کوئی لمحہ پڑاؤکا بھی ہوتا ہے ؟۔“ مزید لکھا کہ ”چندر گپت موریہ کے دور سے لے کر پچاس کی دہائی تک ہمارے دیہات ایک ہی حالت میں رہے ۔“ یہ بات ہم تفصیل سے ایک آرٹیکل میں لکھ چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وقت رُکا رہا ۔ اس کو کہتے ہیں” پڑاؤ۔“پھر لکھا کہ؛
”مارکس ساری زندگی ایک بات ثابت کرنے میں لگا رہا۔ایک کے نزدیک ہوئی دوسرے کے نزدیک نہیں ہوئی ہوگی ۔ لیکن وہ لگا رہا ۔ “ اس کو کہتے ہیں پڑاؤ، نہ کہ ارتقاء رُکا رہا ۔
اس بات کو باضابطہ ریکارڈ پر لانے کا مقصد یہ ہے کہ ، اگر ہم (راقم ) کسی غلطی پہ ہوں تو دوست تصحیح کر دیں ۔ اُمید بہت کم ہے ۔ چلیں آج نہیں کوئی آنے والے کل کو کر دے گا ۔
سوال اُٹھا ہے تو درست جواب آ کے رہے گا ۔ہمارا بالکل یہ کہنا نہیں ہے کہ ارتقاء/ حرکت کا عمل کسی لمحے رُک جاتا ہے ۔ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ انسان کے پیدا ہونے سے مرنے تک پڑاؤ کا وقت ہوتا ہے۔ باوجود بچپن، جوانی ، بڑھاپے کے عمل سے گزرتا ہے ۔ غلام داری سماج صدیوں قائم رہا ۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری صدیوں سے موجود ہے ۔ ان میں تبدیلی کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔ یہی تبدیلی کا عمل مارکسزم پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔باوجود اس بات کے، کہ سوشلزم کا سورج اگر ایک طرف غروب ہو رہا ہے، تو کہیں طلوع بھی ہو رہا ہے ۔آخری بات تغّیر/ ارتقاء کے جاری و ساری عمل کے ساتھ ساتھ پڑاؤ کے مراحل بھی ہوتے ہیں ۔اگر ہمارے دوست ارتقاء کے بہانے اپنے عمل کی توضیح پیش کر رہے ہیں اور کھڑے رہنے والوں کو جامد و ساکت کا طعنہ دیں تو وہ غلطی پر ہوں گے۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
موضوع پر براہ راست جانے سے پہلے اسے کی وجہ نزول ہمارے لیئے دلچسپی کا باعث ہے ۔ اس سے آپ بھی سیاق و سباق سے آگاہ ہوں گے ۔ آئندہ ہونے والی گفتگو کو بہتر انداز میں جاننے میں مدد ملے گی ۔ آج سے کوئی پچاس سال پہلے ہم چاروں دوستوں (جو اس گفتگو کے نزول کے حصہ دار ہیں ) نے پاکستان سوشلسٹ پارٹی میں شعوری سیاسی آنکھ کھولی۔ کم از کم ہم اپنے بارے میں تو حتمی طور پر کہہ سکتے ہیں۔ ہم چاروں دوست ایک لمبا عرصہ جگری یار بھی رہے۔ پھر نظریاتی دوری کے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ جن میں سے ایک ملتان دوسرے لاہور تیسرے بلوچستان سبی سے ہیں۔ ہم ان کے نام بھی لکھ دیتے لیکن اجازت نہیں لی۔ بغیر اجازت کے بات ذاتیات کی طرف چلی جاتی ہے۔ ہمارے سوا باقی تینوں دوستوں نے اس لمبے سفر کے دوران مختلف راستے اختیار کر لیے۔ بنیادی طور پر یہی بات اس مکالمے کا سبب بنی۔
ملتان کے دوست کی فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی، جو کچھ اس طرح تھی؛
”جب کائنات ارتقاء پذیر ہو تو کوئی نظریہ اور عقیدہ بھی جامد و ساکت اور بے تغّیر نہیں ہو سکتا “
مختلف لوگ حسب معمول اس پر واہ واہ کرتے رہے ۔ سبی کے دوست نے لکھا ” اور اس میں مارکسزم بھی شامل ہے یا نہیں؟ “ جواب میں پوسٹ لکھنے والے دوست نے لکھا کہ” ہر شے پہ ہے تغّیر حاوی مارکسزم سمیت “ ۔
آگےجا کر ہم نے بنیادی پوسٹ لکھنے والے دوست کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ”آپ کی بات درست ہونے کے باوجود abstract ہے ۔ کیا کوئی چیز کائنات/سماج میں کسی لمحے concrete/ complete بھی ہوتی ہے ؟۔ (ابھی ہم اپنے دوستوں کی بات کو پوسٹ ماڈرن ازم کے پس منظر میں نہیں لے رہے ۔ بعد میں دیکھیں گے)۔ اس پر ملتان اور لاہور کے دوستوں نے ہم اور ہماری بات پر دوستانہ مذاق شروع کر دیا۔ خیر وہ باتیں لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ہم نے اپنی بات کے پیرائے میں دو ایک چھوٹی چھوٹی درج ذیل مزید باتیں لکھ دیں۔ ”سماج میں کوئی لمحہ پڑاؤکا بھی ہوتا ہے ؟۔“ مزید لکھا کہ ”چندر گپت موریہ کے دور سے لے کر پچاس کی دہائی تک ہمارے دیہات ایک ہی حالت میں رہے ۔“ یہ بات ہم تفصیل سے ایک آرٹیکل میں لکھ چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وقت رُکا رہا ۔ اس کو کہتے ہیں” پڑاؤ۔“پھر لکھا کہ؛
”مارکس ساری زندگی ایک بات ثابت کرنے میں لگا رہا۔ایک کے نزدیک ہوئی دوسرے کے نزدیک نہیں ہوئی ہوگی ۔ لیکن وہ لگا رہا ۔ “ اس کو کہتے ہیں پڑاؤ، نہ کہ ارتقاء رُکا رہا ۔
اس بات کو باضابطہ ریکارڈ پر لانے کا مقصد یہ ہے کہ ، اگر ہم (راقم ) کسی غلطی پہ ہوں تو دوست تصحیح کر دیں ۔ اُمید بہت کم ہے ۔ چلیں آج نہیں کوئی آنے والے کل کو کر دے گا ۔
سوال اُٹھا ہے تو درست جواب آ کے رہے گا ۔ہمارا بالکل یہ کہنا نہیں ہے کہ ارتقاء/ حرکت کا عمل کسی لمحے رُک جاتا ہے ۔ ہم تو صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ انسان کے پیدا ہونے سے مرنے تک پڑاؤ کا وقت ہوتا ہے۔ باوجود بچپن، جوانی ، بڑھاپے کے عمل سے گزرتا ہے ۔ غلام داری سماج صدیوں قائم رہا ۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری صدیوں سے موجود ہے ۔ ان میں تبدیلی کا عمل بھی جاری و ساری ہے۔ یہی تبدیلی کا عمل مارکسزم پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔باوجود اس بات کے، کہ سوشلزم کا سورج اگر ایک طرف غروب ہو رہا ہے، تو کہیں طلوع بھی ہو رہا ہے ۔آخری بات تغّیر/ ارتقاء کے جاری و ساری عمل کے ساتھ ساتھ پڑاؤ کے مراحل بھی ہوتے ہیں ۔اگر ہمارے دوست ارتقاء کے بہانے اپنے عمل کی توضیح پیش کر رہے ہیں اور کھڑے رہنے والوں کو جامد و ساکت کا طعنہ دیں تو وہ غلطی پر ہوں گے۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
Comments 1