چہرہ تو چہرہ پراس کے پیر ایسے ہیں کہ آسماں سے سورج لاکر اس کے پیروں میں رکھ دیں
وہ پیر جو دئیے کی ماند جلے ہیں اور بارشوں کی طرح روئے ہیں!
چہرہ تو چہرہ پر سورج لاکر اس کے ہاتھوں میں رکھ دو،اس کے ہاتھ آزادی کی علامت ہیں اور ان ہاتھوں نے خوف کی زنجیر کو توڑ ڈالا ہے۔
وہ سورج کو اس کے سر سے طلوع ہوا اور دوران سفر اس کے پیروں کی دھول میں غروب ہوگیا
کل پھر سورج طلوع ہوا اور وہ سفر میں تھی،پھر سورج اس کے پیروں کی دھول میں غروب ہو گیا
جب دھرتی کے تمام سردار اپنی پگڑی اور مسند سنبھالے اپنے اپنے قبیلوں کے ذاتی جھگڑوں کو نمٹا رہے تھے جب وہ سسئی کی طرح سفر اور سورج کو شکست دے رہی تھی
کل جب دھرتی کے نام نہاد سردار سیاسی سودے بازیوں میں مصروف تھے،تب وہ اپنے دوپٹے کو آزادی کا پرچم بنائے کونج بنی ہوئی تھی اس بات کے ساکھی دھرتی کے پہاڑ بھی ہیں
کل جب ڈاکٹر مالک سے لےکر زہری تک بلوچستان کی سرکار کے حصے پتیاں کر رہے تھے تب وہ اپنے پیروں سے پہلے کوئٹہ،پھر کراچی کو بہت پیچھے چھوڑ کر شہر اقتدارِ کوفہ میں یہ صدا بلند کر رہی تھی کہ
”میں تھک کر نہیں بیٹھوں گی
میں اپنے بابا کو واپس لے جاؤں گی!“
کل جب دھرتی کے سردار اپنے اپنے بلوں میں گھسے بیٹھے تھے تو آکاش پر چاند تھا
اور دھرتی پر سمی۔۔۔۔
آکاش وشال ہو سکتا ہے،بڑا ہو سکتا ہے پر چاند کے لیے نہیں چاند پورے آکاش پر پھیرا لگا کر پھر شہدہ کے مزاروں پر آکر ٹھہر جاتا ہے
اسی طرح دھرتی وشال ہو سکتی ہے،(پندھ)سفر بڑے ہو سکتے ہیں پر سمی کے پیروں نے اس دھرتی کو سمیٹ لیا ہے،اس کے پیروں نے اس تمام سفر کو تمام کیا ہے جو سفر مظلوم دھرتی کا ہے(دھرتی یعنی کہ بلوچستان)اس لیے سمی کے پیروں پر بس دھول نہیں پر وہ اس دھول میں وہ درد بھی ہے جو دوران سفر اس کے پیروں سے اُلجھ گیا ہے۔
دھرتی کے نام نہاد سرداروں کے سروں پر عزت کی پگڑی ہے
اور سمی کے سر پر موجود پوتی اب پرچم بن چکا ہے
سرداروں کی پگڑی ان کے لیے پھانسی گھاٹ بنے گی اور وہ پھانسی جھول جائیں گے
اور سمی اپنے پرچم کو لیکر ایسا اعلان بنے گی کہ دھرتی کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک سنائی دیں گے
سردار اپنے نام نہاد پگڑی سے مصلوب ہونگے
جب کہ سمی کا دوپٹے میں آکاش سے تارے گریں گے اور وہ دوپٹہ نور سے بھر جائے گا
دھرتی کی شہراؤں پر سرداروں کی”ریوو“کے ٹائروں کے نشان تو ہو سکتے ہیں،پر پیروں کے نشان کہیں نہیں،یہ سردار اتنے معتبر نہیں کہ ان کے پیروں کے نشان دھرتی کے ماتھے پر منقش ہو جائیں
دھرتی تو دھرتی،پہاڑ،پہاڑی چوٹیاں یہاں تک کہ دھرتی کے پتھر بھی اس بات کے ساکھی ہیں کہ ان راستوں سے سمی گزری ہے اور سمی کے پیروں کے نشان،پہاڑوں کی چوٹیوں سے لیکر پتھروں تک،میدانوں پر نقش ہو گئے جہاں جہاں سے سمی سسئی کی طرح گزری اور پتھروں کو کہتے گزری کہ
”ڈونگر مون سین روءِ
کڈھی پار پنہوں جا!!!!“
اور پتھر میں مظلوم ماؤں کی معصوم آنکھوں کی طرح سمی کے ساتھ روتے روتے گزرے اس بات کے ساکھی اک تو چاند ہے۔اک پہاڑ ہیں اور اک سورج!
دھرتی کے نام نہاد سردار تاریخ کے تاریک کباڑ خانے میں دفن ہو جائیں گے اور کل کون جانیں گا کہ کوئی رئیسانی قبیلا بھی تھا کوئی
پر جب تک پہاڑ،بارش،رنگ،خوشبو،قوس قزح باقی رہیں گے سمی کے گیت رہیں گے
پہاڑ آگے بڑھ کر سمی کے گیت گائیں گے
چاند ان گیتوں میں روشنی بھرے گا
اور پھول ان گیتوں میں خوشبو بھر دیں گے
سردار اپنی چال بازیوں سے غلام قوم کا دامن تو لے سکتے ہیں پر دھرتی اور آزادی کا دامن نہیں
پر سمی کے ہاتھوں میں دھرتی کا دامن اور آزادی کا پرچم ہے
کل دھرتی سے نام نہاد سرداروں کا دامن مٹ جائے گا تو محبت کی ہوائیں گھلیں گی
تو پہاڑ سمی کے گیت گائیں گے
پھول سمی پر آپ نچھاور ہونگے
اور بارش سمی کا پتا معلوم کرتی دیوانی ہوتی رہے گی
سرداروں نے تو بلوچ دھرتی کا دامن تنگ کیا ہے اور پھر اس تنگ دامن کو آگ لگائی ہے
پر بلوچ بیٹیوں نے تو بلوچ دھرتی کا دامن وشال کیا ہے،
اپنے سفر سے اس میں پھول کھلائے ہیں
اور آنکھوں سے بارش برسائی ہے
آج بلوچ دھرتی کی عزت ان بلوچ بیٹیوں کے دم سے ہے
بلوچ سردار تو بلوچ دھرتی کی کالک ہیں
دھرتی انہیں جلد مٹادے گی
سورج نے ہمیشہ سمی کے چہرے کو جھلسایا ہے آج سمی کے چہرے سے سورج جل اُٹھا ہے
بلوچ دھرتی یہ چاہتی ہے کہ یہ چہرہ ایسے ہی کھلا رہے
اور دیس پر روشنی ہوتی رہے
دیس نام نہاد سرداری چہروں سے تنگ آ چکا ہے
جو سیاسی سودے بازی کرتے ہیں اور کہیں دفن ہو جاتے ہیں
اب بلوچ دیس کو اک نئی سسئی کی ضرورت ہے
اور سمی بلوچ دھرتی کی نئی سسئی ہے
—♦—

محمد خان داؤد نےکراچی یونیورسٹی سے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا ہے،سندھ اور بلوچستان کے سیاسی و سماجی مسائل پر لکھنے کا یارا رکھتے ہیں۔