للکار (انٹرنیشنل نیوز ڈیسک) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی افواج کے حملوں میں دو فلسطینی صحافیوں سمیت 123 افراد ہلاک ہو گئے۔ غزہ میں صحافیوں کی یونین کے مطابق فری لانس صحافی حمزہ وائل الدحدوح اور مصطفیٰ ثورایا کی گاڑی کو جنوبی غزہ میں رفح اور خان یونس کے درمیان دوران سفر نشانہ بنایا گیا۔
بی بی سی کے مطابق ان صحافیوں کے گروپ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اسرائیلی فوج کی جانب سے محفوظ قرار دیے گئے ”انسانی ہمدردی کے علاقوں‘‘ کی رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے۔ ان علاقوں پر حال ہی میں اسرائیلی فضائیہ نے بمباری کی تھی۔
ہلاک ہونے والے ایک صحافی حمزہ کے والد وائل الدحدوح قطری نیوز چینل الجزیرہ کے غزہ میں بیورو چیف ہیں۔ اس نشریاتی ادارے نے ایک بیان میں اسرائیل پر ”آزادی صحافت کے اصولوں کی خلاف ورزی‘‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا، "الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک اسرائیلی قابض افواج کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کی گاڑی کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘‘ اسرائیلی فوج نے فوری طور پر اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسرائیلی فوج البتہ ماضی میں صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی تردید کر چکی ہے۔ خیال رہے کہ الجزیرہ کے تجربہ کار نامہ نگار وائل الدحدوح کی اہلیہ، ایک اور بیٹا، بیٹی اور پوتا اکتوبر کے آخر میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔ وہ خود بھی دسمبر میں ایک اسرائیلی حملے کے دوران زخمی ہو گئے تھے۔میڈیا کے حقوق پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق غزہ میں جاری تنازعے کی کوریج کرتے ہوئے ہفتہ چھ جنوری تک 77 صحافی اور میڈیا ورکرز مارے جا چکے ہیں۔
ان میں 70 فلسطینی، چار اسرائیلی اور تین لبنانی شامل ہیں، جو تمام مختلف میڈیا اداروں بشمول روئٹرز، ایجنسی فرانس پریس اور ترکی کی انادولو نیوز ایجنسی کے لیے کام کر رہے تھے۔ حماس کے زیر انتظام غزہ میں قائم وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کو اسرائیلی حملوں کے آغاز کے بعد سے لے کر اب تک 22 ہزار 835 افراد ہلاک اور 58 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔اُردن کے شاہ کا جنگ بندی کا مطالبہ
اردن کے بادشاہ نے مشرق وسطیٰ کے خطے کا دورہ کرنے والےامریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے کہا ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی پر زور دیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان سات اکتوبر کو شروع ہونے والے تنازع کے بعد اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار خطے کے اپنے چوتھے دورے پر ہیں۔ اردن کے شاہی محل سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق شاہ عبداللہ نے بلنکن کو ”غزہ میں جاری تنازعے کے تباہ کن نتائج کے بارے میں خبردار کیا اور وہاں المناک انسانی بحران کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔‘‘ بیان کے مطابق شاہ عبداللہ نے جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے اور امداد کی ترسیل کو یقینی بنانے میں امریکہ کے اہم کردار پر زور دیا۔ بلنکن نے عمان میں کہا، ”ہماری توجہ اس تنازعہ کو پھیلنے سے روکنے پر ہے۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ کا دورہ مشرقِ وسطیٰ جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے ٹھیک تین ماہ بعد اتوار کو برلن سے مشرق وسطیٰ کے اپنے ایک اور دورے پر روانہ ہوئیں۔ اس موقع پر انہوں نےمشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اور سلامتی پر زور دیا۔ بیئربوک نے کہا، ”ہم سب محسوس کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی اس کہانی کو آگے نہیں بڑھنے دینا چاہیے۔ دہشت گردی کو روکنا چاہیے۔ لوگوں کو درپیش انسانی المیوں کو روکنا چاہیے۔ خطے کو تشدد کے اس ابدی چکر سے نکلنا چاہیے۔‘‘ بیئربوک نے مزید کہا کہ غزہ کو ”اب اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ا نہوں نے حماس پر زور دیتے ہوئے کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔ جرمن وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امن کے قیام کے لیے غزہ اور مغربی کنارے کے لوگوں کو ”سلامتی، وقار اور خود ارادیت‘‘ کے ساتھ رہنے کا موقع درکار ہے اور غزہ کو بھی فوری طور پر مزید انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ بیئربوک نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو ”دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع‘‘ کا حق حاصل ہے، لیکن یہ فرض بھی ہے کہ وہ ”اپنی فوجی کارروائی میں شہریوں کی زیادہ بہتر حفاظت کرے۔‘‘ یادر رہے! مغربی ممالک جو عالمی سیاست اور معیشت پر اجارہ داری رکھتے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی بربریت کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اور معصوم فلسطینی عورتوں، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں کا بے دریغ قتلِ عام جاری ہے۔ دنیا میں انسانی حقوق کے علمبردار یہ مغربی ممالک معصوم فلسطینیوں کے قتلِ عام کے لئے اسرائیل کو اسلحہ اور دیگر جنگی سازو سامان تسلسل کے ساتھ مہیّا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب انہی مغربی ممالک میں ہی لاکھوں افراد اس بربریت کے خلاف فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر نکلے ہیں۔ انہوں نے اپنے ممالک کی حکمران اشرافیہ کی جانب سے اسرائیل کی صیہونی ریاست کی پشت پناہی پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔جواب دیں جواب منسوخ کریں
للکار (انٹرنیشنل نیوز ڈیسک) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی افواج کے حملوں میں دو فلسطینی صحافیوں سمیت 123 افراد ہلاک ہو گئے۔ غزہ میں صحافیوں کی یونین کے مطابق فری لانس صحافی حمزہ وائل الدحدوح اور مصطفیٰ ثورایا کی گاڑی کو جنوبی غزہ میں رفح اور خان یونس کے درمیان دوران سفر نشانہ بنایا گیا۔
بی بی سی کے مطابق ان صحافیوں کے گروپ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اسرائیلی فوج کی جانب سے محفوظ قرار دیے گئے ”انسانی ہمدردی کے علاقوں‘‘ کی رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے۔ ان علاقوں پر حال ہی میں اسرائیلی فضائیہ نے بمباری کی تھی۔
ہلاک ہونے والے ایک صحافی حمزہ کے والد وائل الدحدوح قطری نیوز چینل الجزیرہ کے غزہ میں بیورو چیف ہیں۔ اس نشریاتی ادارے نے ایک بیان میں اسرائیل پر ”آزادی صحافت کے اصولوں کی خلاف ورزی‘‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا، "الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک اسرائیلی قابض افواج کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کی گاڑی کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘‘ اسرائیلی فوج نے فوری طور پر اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسرائیلی فوج البتہ ماضی میں صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی تردید کر چکی ہے۔ خیال رہے کہ الجزیرہ کے تجربہ کار نامہ نگار وائل الدحدوح کی اہلیہ، ایک اور بیٹا، بیٹی اور پوتا اکتوبر کے آخر میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔ وہ خود بھی دسمبر میں ایک اسرائیلی حملے کے دوران زخمی ہو گئے تھے۔میڈیا کے حقوق پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق غزہ میں جاری تنازعے کی کوریج کرتے ہوئے ہفتہ چھ جنوری تک 77 صحافی اور میڈیا ورکرز مارے جا چکے ہیں۔
ان میں 70 فلسطینی، چار اسرائیلی اور تین لبنانی شامل ہیں، جو تمام مختلف میڈیا اداروں بشمول روئٹرز، ایجنسی فرانس پریس اور ترکی کی انادولو نیوز ایجنسی کے لیے کام کر رہے تھے۔ حماس کے زیر انتظام غزہ میں قائم وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کو اسرائیلی حملوں کے آغاز کے بعد سے لے کر اب تک 22 ہزار 835 افراد ہلاک اور 58 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔