کیا یہ ایک حادثہ ہے؟
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی موت بظاہر ہیلی کاپٹر کے تباہ ہونے کے ایک واقعہ میں ہوئی ہے، جو کہ ایک حادثہ مانا جا رہا ہے۔ تاہم، اس حادثے کی اصل وجوہات ابھی تک واضح نہیں ہیں اور مختلف ذرائع ابلاغ میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ایرانی حکومت اور عوام اس حادثے کی تفصیلات کے منتظر ہیں اور اُمید کی جا رہی ہے کہ مزید تحقیقات سے حادثے کی اصل وجوہات سامنے آئیں گی۔ فی الحال انسانی جبلت اس واقعہ میں مسلسل گہری سازشیں تلاش کر رہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ غزّہ کی جنگ کے دوران اور اس سے قبل بھی ایران اور اسرائیل کی کشیدگی نہ صرف برقرار ہے بلکہ بڑھ رہی ہے تو ذہن اس واقعے کو اُسی کشیدگی کی ایک کڑی سمجھ رہا ہے۔ تاہم ابھی تک تخریب کاری کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
دیگر دو نکات پر بات اور تجزیے سے پہلے ہم صدر ابراہیم رئیسی کے بارے میں بنیادی معلومات کا ذکرکر دیں۔
ابراہیم رئیسی کا سیاسی کیریئر:
وہ 14 دسمبر 1960ء کو مشہد، ایران میں پیدا ہوئے، بعد میں رئیسی ایران کی عدلیہ کی صفوں میں سے نکل کر ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک نمایاں اور مؤثر شخصیت بن گئے۔ وہ انقلابِ ایران کے ابتدائی دَور سے اس سے وابستہ رہے، بلکہ اس میں شامل تھے اور آیت اللہ خمینی کے پُرجوش حامی تھے۔
رئیسی کا دَور بطور ایرانی صدر، جو 2021 ءمیں شروع ہوا، ان کے سخت گیر مؤقف اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ غیر متزلزل وفاداری کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی صدارت کی خصوصیت قدامت پسند اقدار کے فروغ اور اسلامی انقلاب کے اُصولوں پر سختی سے عمل پیرا تھی۔
ان کے انتخاب کا پس منظر:
ان کے صدر منتخب ہونے سے قبل اصلاح پسند ایرانی صدر حسن رُوحانی دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے تھے اور اُن کے دَور میں مغربی ممالک سے تعلقات میں بہتری کی کوششیں کی گئیں۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جے سی پی او اے کہلانے والا جوہری معاہدہ بھی رُوحانی کے دَور میں ہوا تھا، جسے بد قسمتی سے دو برس بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ختم کردیا۔
اس معاہدے کے ختم ہونے کی وجہ سے ایران میں اصلاح پسندوں کی مقبولیت کم ہوئی اور ان قوتوں کو پھر سے مقبولیت ملی جو مغرب کے خلاف سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میں جب رُوحانی کے دو صدراتی ادوار کے خاتمے کے بعد 2021ء میں ایران میں صدارتی انتخابات ہوتے ہیں تو مذہبی طور پر سخت گیر مؤقف رکھنے والے آیت اللہ ابراہیم رئیسی کامیاب ہو جاتے ہیں۔
چیف جسٹس آف ایران:
اپنی صدارت سے قبل، رئیسی نے 2019ء سے 2021 ء تک ایران کی عدلیہ کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں، جہاں وہ انقلاب مخالف عناصر کے لیے اپنے سخت روّیے اور 1988ء میں مبینہ سیاسی قیدیوں کی بڑی تعداد میں پھانسیوں میں کسی مبینہ کردار کے لیے جانے جاتے تھے—ان واقعات کا کیا پس منظر ہے اور کتنے لوگوں کو پھانسیاں دی گئی تھیں یہ متنازعہ معاملات ہیں، لیکن اسلامی انقلاب کے مخالفین نے انہیں ”تہران کا قصاب“ قرار دیا۔ البتہ انقلاب کے وہ حامی جو ان کے مخالف ہیں، وہ اس ٹائیٹل کی تائید نہیں کرتے ہیں۔
”تہران کا قصاب“ کا ٹائیٹل اور پسِ منظر:
ابراہیم رئیسی سے وابستہ ”تہران کا قصاب“ کا ٹائیٹل 1988ء کے موسمِ گرما میں ایران میں مبینہ سیاسی قیدیوں کو دیے جانے والے پھانسیوں کے سلسلے میں ان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ ٹائیٹل سنہ 1988ء میں جانا نہیں جاتا تھا۔
اَسی کی دہائی کے دوران اور ایران ۔عراق جنگ کے خاتمے کے بعد، مبینہ طور پر ماورائے عدالت پھانسیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اُس وقت ایران کے صدر آیت اللہ خامنہ ای تھے، اور ابراہیم رئیسی مقامی سطح کے ایک جج تھے۔ اس لیے یہ ٹائیٹل رئیسی کے لیے مخصوص کرنا ناقابل فہم ہے۔
مخالفینِ انقلاب کا دعویٰ ہے کہ ایرانی حکومت نے ہزاروں قیدیوں کو، بنیادی طور پر ”سیاسی اختلاف“رکھنے والے اور حزب اختلاف کے گروپوں جیسے کہ مجاہدینِ خلق (MEK) کے ارکان کو ایک ”ڈیتھ کمیٹی“ کے ذریعے مختصر ٹرائلز کے بعد پھانسیاں دی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کمیٹی میں رئیسی نے مبینہ طور پر خدمات انجام دی تھیں۔
1988ء کی پھانسی ایران کی تاریخ کا ایک انتہائی متنازعہ باب ہے۔ متاثرین کی صحیح تعداد بہت متنازعہ ہے، لیکن ایران مخالف انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ 5000 افراد کو اس دَور میں پھانسیاں دی گئی تھیں۔ پھانسیوں کے ان الزامات اور تعداد کے دعوؤں کی ایرانی حکومت ہمیشہ سے تردید کرتی ہے۔
رئیسی کے حامیوں کا مؤقف:
سنہ 1988ء کی پھانسیوں کے بارے میں رئیسی کے حامیوں کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔ وہ اکثر انہیں اسلامی جمہوریہ کے ایک کٹر محافظ کے طور پر دیکھتے ہیں جنہوں نے ایک ہنگامہ خیز وقت میں ملک کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے تھے۔
رئیسی کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ 1988ء میں اُٹھائے گئے سلامتی کے اقدامات ضروری تھے کیونکہ اُس وقت ایران اور عراق کی جنگ کے دوران مجاہدینِ خلق عراق منتقل ہو گئی تھی اور وہاں سے وہ صدام حسین کی مدد سے ایران پر حملے کر رہی تھی۔
تخریب کاری یا دہشت گردی کا یہ دَور انقلاب کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ لیکن دہشت گردی کے ان حملوں کی تعداد عراق-ایران جنگ کے بعد سنہ 1982ء سے بے انتہا بڑھ گئی تھی۔ جنگ کے دوران دہشت گردی کے ان حملوں کی وجہ سے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس قسم کے حالات میں ایسی خصوصی عدالتوں کا قیام تقریباً ہر ملک کی تاریخ میں دیکھا گیا ہے، چاہے وہ مغرب میں ہوں یا مشرق میں۔
اس لیے بقول رئیسی کے حامیوں کے، اِن دہشت گرد گروپوں کی طرف سے لاحق خطرات، خاص طور پر جنگ کے تناظر میں ان کے خلاف سخت کارروائیاں کرنا درست اقدام تھا۔ رئیسی کے حامی ان کے چیف جسٹس کے دَور (2019ء-2021ء) اور صدارت کے دَور میں ان کے بعد کے کام بیان کرتے ہوئے، یعنی بدعنوانی سے نمٹنے اور اسلامی انقلاب کی اقدار کے مطابق انصاف کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ تاریخی مؤقف کسی کے نقطۂ نظر کے لحاظ سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں، اور 1988ء کے واقعات مختلف تشریحات اور سیاسی نقطۂ نظر سے مشروط ہیں۔ ایسے واقعات کی بحث اکثر پولرائزڈ ہوتی ہے، جو ایرانی معاشرے اور سیاست میں وسیع تر تقسیم کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی اندرونی سیاست یا تنازعات پر جب بھی بحث ہوتی ہے تو مغربی میڈیا ایران کے خلاف عموماًمخامصانہ روّیہ اختیار کرتا ہے جس کے نتیجے میں سچ دَب جاتا ہے۔
مجاہدینِ خلق:
مجاہدینِ خلق ابتدا میں تو ایک لیفٹسٹ تنظیم تھی لیکن بعد میں یہ آہستہ آہستہ پہلے تو اسلامک کمیونسٹ نظریات کی جانب جھکی، پھر یہ اسلامی انقلاب کی مخالف تنظیم میں بدل گئی۔ دیگر لیفٹسٹ تنظیموں، تودہ پارٹی، کوملا پارٹی آف ایرانین کُردستان، یہاں تک کہ فدائین خلق نے بھی مجاہدینِ خلق کی حمایت نہیں کی۔
مجاہدین خلق کے بارے میں ایران میں ایک عمومی تاثر ہے کہ انقلاب کے ابتدائی دَور میں جو بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوئے، مثلاً پارلیمان کا دھماکہ، صدر اور وزیراعظم کے قتل، انقلاب کے حامیوں کی اسیسینیشن، ان میں اکثر کے پیچھے مجاہدینِ خلق کا ہاتھ تھا۔
سنہ اسّی کی دہائی میں جب ایرانی ریاست عراق سے جنگ بھی لڑ رہی تھی اور اندرونی دہشت گردی سے بھی نبردآزما تھی، اُس وقت ہر ریاست کی طرح سکیورٹی معاملات کو اوّلین ترجیح دینا لازمی عمل بن جاتا ہے۔ اور ایسے حالات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
اسی لیے ایرانی ریاست کے اقدامات کو جنگ اور دہشت گردی سے الگ کرکے دیکھنا یا بیان کرنا دانشورانہ بے ایمانی ہوگی۔ ویسے اِس وقت مجاہدینِ خلق کے بڑے حامیوں میں امریکی ری پبلکن پارٹی کے کئی رہنما شمار ہوتے ہیں اور ان مجاہدین کو البانیہ منتقل کردیا گیا ہے۔ یورپین یونین نے اسے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے بھی خارج کردیا ہے۔
رئیسی کی لیگیسی:
رئیسی کے بارے میں ان تنازعات کے باوجود اُن کی ایران کی خودمختاری سے وابستگی اور مشرقِ وسطیٰ کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی تناؤ کو دُور کرنے کی ان کی کوششوں کو سُراہا گیا ہے۔ اگرچہ ان کے کئی اقدامات ایرانی ریاست کی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے سمجھے جائیں گے، تاہم رُوس اور چین کے ساتھ تعلقات میں گہرائی ان کے کریڈٹ میں جائے گی۔ سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری میں ان کا کردار سُراہا جائے گا۔ پاکستان پر میزائل مارنا پھر پاکستان کا دَورہ کرنا بھی ان کی پالیسی کا حصہ تھی۔
ابراہیم رئیسی ماضی قریب میں مشد کے وقف کے بھی سربراہ رہے جو کہ ایران کا سب سے بڑا وقف ہے جس کے اختیار میں اربوں ڈالر کے کاروبار اور صنعتیں ہیں۔ اس وقف کو انہوں نے بہتر طریقے سے چلا کر ملک کے اندر کافی نیک نامی کمائی تھی۔
19 مئی 2024ء کو جولفہ، ایران کے قریب ان کی بے وقت موت نے ایرانی سیاست میں بظاہر ایک خلا پیدا کیا ہے اور کچھ تجزیہ نگار ملک کی مستقبل کی سمت کے بارے میں سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ چونکہ جب ایران صدر ابراہیم رئیسی کی موت کا پر سوگ منا رہا ہے، ان کی لیگیسی ایرانیوں اور عالمی برادری کے درمیان یکساں طور پر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
اسرائیل پر ایران کا پہلا براہِ راست حملہ:
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا اسرائیل پر براہ راست حملے میں کردار کے بارے میں مختلف رپورٹس موجود ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق، ایرانی صدر نے اسرائیل کے خلاف سخت جوابی حملے کی دھمکی دی تھی اور ایران کی عسکری قوت کا استعمال کرنے کی بات کی تھی۔ اس کے علاوہ، ایرانی حکومت نے اسرائیل کے خلاف براہ راست عسکری کارروائیوں کی بھی بات کی۔
مگر ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے حادثے کے بعد، اسرائیلی عہدے داروں نے اس حادثے سے اپنے کسی بھی تعلق کی تردید کی ہے۔ عموماً اسرائیل کسی خفیہ کارروائی کی صورت میں خاموشی اختیار کرتا اگر اس کا کسی حملے میں ہاتھ ہو۔ بہرحال اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کی تاریخ رہی ہے، اور دونوں ممالک نے مختلف مواقع پر ایک دوسرے کے خلاف عسکری اور خفیہ کارروائیاں کی ہیں۔
ایران کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا امکان:
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسیوں میں فوری یا بنیادی تبدیلیوں کا امکان نہیں ہے۔ ایران کی حکومت اور سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے طے شدہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایران کے سیاسی نظام میں صدر کا کردار اہم ہوتا ہے، لیکن سپریم لیڈر کے پاس بڑی پالیسیوں پر حتمی رائے دینے کا اختیار ہوتا ہے اور وہ مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی تقرری کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس لیے، رئیسی کی موت سے ایران کی خارجہ پالیسی میں کوئی نمایاں تبدیلی کی توقع نہیں کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایران میں انسٹیٹیوشنز کا نظام اتنا زیادہ پیچیدہ ہے کہ کسی ایک شخص کے آنے یا جانے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔ اندرونی مشاورت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
کیا ایران میں عدم استحکام پیدا ہوگا؟
صدر رئیسی کی موت کے بعد ایران میں سیاسی عدم استحکام کے بارے میں مختلف تجزیے اور قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ لیکن ایران کے سیاسی نظام میں صدر کی موت کے بعد بھی نظام کو استحکام دینے کے لیے ایک آئینی میکانزم موجود ہے۔ ایران کے آئین کے مطابق، اگر صدر کی موت ہو جائے تو نائب صدر عبوری صدر کے طور پر کام کرتے ہیں جب تک کہ نئے صدر کا انتخاب نہ ہو جائے۔
اس کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر کے پاس بڑی پالیسیوں پر حتمی رائے دینے کا اختیار ہوتا ہے، جو ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس لیے، صدر کی موت سے ایران کی خارجہ پالیسی میں فوری تبدیلی کی توقع نہیں کی جا رہی ہے۔
بہرحال ایران کی داخلی سیاست میں مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے مقابلہ شروع ہو سکتا ہے، جس سے مختصر مدت کے لیے معمول کا سیاسی عدم استحکام کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن ایران کے سیاسی ڈھانچے میں موجود میکانزم کی وجہ سے، ملک میں طویل مدتی عدم استحکام کی توقع کم ہے۔ ایران کے عوام اور حکومت اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے تیار ہوں گے اور ممکن ہے کہ نئے صدر کے انتخاب تک کوئی بڑی تبدیلی نہ ہو۔
اس کے علاوہ ایران میں ایک وسیع سطح کی حکومت مخالف تصویر کشی جو مغربی میڈیا کرتا ہے وہ کافی حد تک گمراہ کن ہے۔ مثلاً مھسا امینی کی موت کے بعد جو ہنگامے ہوئے اُنھیں مغربی میڈیا نے انقلاب کے خلاف ایک تحریک کے طور پر پیش کیا۔
جبکہ حقیقت یہ تھی کہ انقلاب کے حامی اصلاح پسند گروہان بھی حجاب کے بارے میں نرم پالیسی کے حامی ہیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے لیے حجاب کو قانونی طور پر لازم قرار دینے والی وہ پارلیمان اور حکومت تھی جس میں میر حسین موسوی وزیراعظم تھےجو اب خامنہ ای کے سخت مخالف ہیں مگر انقلاب کے مخالف نہیں ہیں۔
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں جو حکومت مخالف تو سمجھی جا سکتی ہیں لیکن انھیں قطعی طور پر شاہ پرست نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ایران میں لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ ایک قدرتی بات ہے لیکن جے سی پی او اے کے ناکام تجربے نے اس تبدیلی کے خواہشمند طبقے کو ایران کے اندر سیاسی طور پر سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ رئیسی کی موت ”بزنس ایز یوژیول“ (Business as usual)کو متاثر نہیں کرے گی۔
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ آپ سیاسی، سماجی معاشی اور بین الاقوامی اُمور پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
کیا یہ ایک حادثہ ہے؟
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی موت بظاہر ہیلی کاپٹر کے تباہ ہونے کے ایک واقعہ میں ہوئی ہے، جو کہ ایک حادثہ مانا جا رہا ہے۔ تاہم، اس حادثے کی اصل وجوہات ابھی تک واضح نہیں ہیں اور مختلف ذرائع ابلاغ میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ایرانی حکومت اور عوام اس حادثے کی تفصیلات کے منتظر ہیں اور اُمید کی جا رہی ہے کہ مزید تحقیقات سے حادثے کی اصل وجوہات سامنے آئیں گی۔ فی الحال انسانی جبلت اس واقعہ میں مسلسل گہری سازشیں تلاش کر رہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ غزّہ کی جنگ کے دوران اور اس سے قبل بھی ایران اور اسرائیل کی کشیدگی نہ صرف برقرار ہے بلکہ بڑھ رہی ہے تو ذہن اس واقعے کو اُسی کشیدگی کی ایک کڑی سمجھ رہا ہے۔ تاہم ابھی تک تخریب کاری کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
دیگر دو نکات پر بات اور تجزیے سے پہلے ہم صدر ابراہیم رئیسی کے بارے میں بنیادی معلومات کا ذکرکر دیں۔
ابراہیم رئیسی کا سیاسی کیریئر:
وہ 14 دسمبر 1960ء کو مشہد، ایران میں پیدا ہوئے، بعد میں رئیسی ایران کی عدلیہ کی صفوں میں سے نکل کر ملک کے سیاسی منظر نامے میں ایک نمایاں اور مؤثر شخصیت بن گئے۔ وہ انقلابِ ایران کے ابتدائی دَور سے اس سے وابستہ رہے، بلکہ اس میں شامل تھے اور آیت اللہ خمینی کے پُرجوش حامی تھے۔
رئیسی کا دَور بطور ایرانی صدر، جو 2021 ءمیں شروع ہوا، ان کے سخت گیر مؤقف اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ غیر متزلزل وفاداری کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی صدارت کی خصوصیت قدامت پسند اقدار کے فروغ اور اسلامی انقلاب کے اُصولوں پر سختی سے عمل پیرا تھی۔
ان کے انتخاب کا پس منظر:
ان کے صدر منتخب ہونے سے قبل اصلاح پسند ایرانی صدر حسن رُوحانی دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے تھے اور اُن کے دَور میں مغربی ممالک سے تعلقات میں بہتری کی کوششیں کی گئیں۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جے سی پی او اے کہلانے والا جوہری معاہدہ بھی رُوحانی کے دَور میں ہوا تھا، جسے بد قسمتی سے دو برس بعد ہی اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر ختم کردیا۔
اس معاہدے کے ختم ہونے کی وجہ سے ایران میں اصلاح پسندوں کی مقبولیت کم ہوئی اور ان قوتوں کو پھر سے مقبولیت ملی جو مغرب کے خلاف سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میں جب رُوحانی کے دو صدراتی ادوار کے خاتمے کے بعد 2021ء میں ایران میں صدارتی انتخابات ہوتے ہیں تو مذہبی طور پر سخت گیر مؤقف رکھنے والے آیت اللہ ابراہیم رئیسی کامیاب ہو جاتے ہیں۔
چیف جسٹس آف ایران:
اپنی صدارت سے قبل، رئیسی نے 2019ء سے 2021 ء تک ایران کی عدلیہ کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں، جہاں وہ انقلاب مخالف عناصر کے لیے اپنے سخت روّیے اور 1988ء میں مبینہ سیاسی قیدیوں کی بڑی تعداد میں پھانسیوں میں کسی مبینہ کردار کے لیے جانے جاتے تھے—ان واقعات کا کیا پس منظر ہے اور کتنے لوگوں کو پھانسیاں دی گئی تھیں یہ متنازعہ معاملات ہیں، لیکن اسلامی انقلاب کے مخالفین نے انہیں ”تہران کا قصاب“ قرار دیا۔ البتہ انقلاب کے وہ حامی جو ان کے مخالف ہیں، وہ اس ٹائیٹل کی تائید نہیں کرتے ہیں۔
”تہران کا قصاب“ کا ٹائیٹل اور پسِ منظر:
ابراہیم رئیسی سے وابستہ ”تہران کا قصاب“ کا ٹائیٹل 1988ء کے موسمِ گرما میں ایران میں مبینہ سیاسی قیدیوں کو دیے جانے والے پھانسیوں کے سلسلے میں ان کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے ہے۔ یہ ٹائیٹل سنہ 1988ء میں جانا نہیں جاتا تھا۔
اَسی کی دہائی کے دوران اور ایران ۔عراق جنگ کے خاتمے کے بعد، مبینہ طور پر ماورائے عدالت پھانسیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اُس وقت ایران کے صدر آیت اللہ خامنہ ای تھے، اور ابراہیم رئیسی مقامی سطح کے ایک جج تھے۔ اس لیے یہ ٹائیٹل رئیسی کے لیے مخصوص کرنا ناقابل فہم ہے۔
مخالفینِ انقلاب کا دعویٰ ہے کہ ایرانی حکومت نے ہزاروں قیدیوں کو، بنیادی طور پر ”سیاسی اختلاف“رکھنے والے اور حزب اختلاف کے گروپوں جیسے کہ مجاہدینِ خلق (MEK) کے ارکان کو ایک ”ڈیتھ کمیٹی“ کے ذریعے مختصر ٹرائلز کے بعد پھانسیاں دی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کمیٹی میں رئیسی نے مبینہ طور پر خدمات انجام دی تھیں۔
1988ء کی پھانسی ایران کی تاریخ کا ایک انتہائی متنازعہ باب ہے۔ متاثرین کی صحیح تعداد بہت متنازعہ ہے، لیکن ایران مخالف انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ 5000 افراد کو اس دَور میں پھانسیاں دی گئی تھیں۔ پھانسیوں کے ان الزامات اور تعداد کے دعوؤں کی ایرانی حکومت ہمیشہ سے تردید کرتی ہے۔
رئیسی کے حامیوں کا مؤقف:
سنہ 1988ء کی پھانسیوں کے بارے میں رئیسی کے حامیوں کا نقطۂ نظر مختلف ہے۔ وہ اکثر انہیں اسلامی جمہوریہ کے ایک کٹر محافظ کے طور پر دیکھتے ہیں جنہوں نے ایک ہنگامہ خیز وقت میں ملک کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کیے تھے۔
رئیسی کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ 1988ء میں اُٹھائے گئے سلامتی کے اقدامات ضروری تھے کیونکہ اُس وقت ایران اور عراق کی جنگ کے دوران مجاہدینِ خلق عراق منتقل ہو گئی تھی اور وہاں سے وہ صدام حسین کی مدد سے ایران پر حملے کر رہی تھی۔
تخریب کاری یا دہشت گردی کا یہ دَور انقلاب کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ لیکن دہشت گردی کے ان حملوں کی تعداد عراق-ایران جنگ کے بعد سنہ 1982ء سے بے انتہا بڑھ گئی تھی۔ جنگ کے دوران دہشت گردی کے ان حملوں کی وجہ سے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس قسم کے حالات میں ایسی خصوصی عدالتوں کا قیام تقریباً ہر ملک کی تاریخ میں دیکھا گیا ہے، چاہے وہ مغرب میں ہوں یا مشرق میں۔
اس لیے بقول رئیسی کے حامیوں کے، اِن دہشت گرد گروپوں کی طرف سے لاحق خطرات، خاص طور پر جنگ کے تناظر میں ان کے خلاف سخت کارروائیاں کرنا درست اقدام تھا۔ رئیسی کے حامی ان کے چیف جسٹس کے دَور (2019ء-2021ء) اور صدارت کے دَور میں ان کے بعد کے کام بیان کرتے ہوئے، یعنی بدعنوانی سے نمٹنے اور اسلامی انقلاب کی اقدار کے مطابق انصاف کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کو اُجاگر کرتے ہیں۔
یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ تاریخی مؤقف کسی کے نقطۂ نظر کے لحاظ سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں، اور 1988ء کے واقعات مختلف تشریحات اور سیاسی نقطۂ نظر سے مشروط ہیں۔ ایسے واقعات کی بحث اکثر پولرائزڈ ہوتی ہے، جو ایرانی معاشرے اور سیاست میں وسیع تر تقسیم کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایران کی اندرونی سیاست یا تنازعات پر جب بھی بحث ہوتی ہے تو مغربی میڈیا ایران کے خلاف عموماًمخامصانہ روّیہ اختیار کرتا ہے جس کے نتیجے میں سچ دَب جاتا ہے۔
مجاہدینِ خلق:
مجاہدینِ خلق ابتدا میں تو ایک لیفٹسٹ تنظیم تھی لیکن بعد میں یہ آہستہ آہستہ پہلے تو اسلامک کمیونسٹ نظریات کی جانب جھکی، پھر یہ اسلامی انقلاب کی مخالف تنظیم میں بدل گئی۔ دیگر لیفٹسٹ تنظیموں، تودہ پارٹی، کوملا پارٹی آف ایرانین کُردستان، یہاں تک کہ فدائین خلق نے بھی مجاہدینِ خلق کی حمایت نہیں کی۔
مجاہدین خلق کے بارے میں ایران میں ایک عمومی تاثر ہے کہ انقلاب کے ابتدائی دَور میں جو بڑے بڑے دہشت گردی کے واقعات ہوئے، مثلاً پارلیمان کا دھماکہ، صدر اور وزیراعظم کے قتل، انقلاب کے حامیوں کی اسیسینیشن، ان میں اکثر کے پیچھے مجاہدینِ خلق کا ہاتھ تھا۔
سنہ اسّی کی دہائی میں جب ایرانی ریاست عراق سے جنگ بھی لڑ رہی تھی اور اندرونی دہشت گردی سے بھی نبردآزما تھی، اُس وقت ہر ریاست کی طرح سکیورٹی معاملات کو اوّلین ترجیح دینا لازمی عمل بن جاتا ہے۔ اور ایسے حالات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
اسی لیے ایرانی ریاست کے اقدامات کو جنگ اور دہشت گردی سے الگ کرکے دیکھنا یا بیان کرنا دانشورانہ بے ایمانی ہوگی۔ ویسے اِس وقت مجاہدینِ خلق کے بڑے حامیوں میں امریکی ری پبلکن پارٹی کے کئی رہنما شمار ہوتے ہیں اور ان مجاہدین کو البانیہ منتقل کردیا گیا ہے۔ یورپین یونین نے اسے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے بھی خارج کردیا ہے۔
رئیسی کی لیگیسی:
رئیسی کے بارے میں ان تنازعات کے باوجود اُن کی ایران کی خودمختاری سے وابستگی اور مشرقِ وسطیٰ کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی تناؤ کو دُور کرنے کی ان کی کوششوں کو سُراہا گیا ہے۔ اگرچہ ان کے کئی اقدامات ایرانی ریاست کی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے سمجھے جائیں گے، تاہم رُوس اور چین کے ساتھ تعلقات میں گہرائی ان کے کریڈٹ میں جائے گی۔ سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری میں ان کا کردار سُراہا جائے گا۔ پاکستان پر میزائل مارنا پھر پاکستان کا دَورہ کرنا بھی ان کی پالیسی کا حصہ تھی۔
ابراہیم رئیسی ماضی قریب میں مشد کے وقف کے بھی سربراہ رہے جو کہ ایران کا سب سے بڑا وقف ہے جس کے اختیار میں اربوں ڈالر کے کاروبار اور صنعتیں ہیں۔ اس وقف کو انہوں نے بہتر طریقے سے چلا کر ملک کے اندر کافی نیک نامی کمائی تھی۔
19 مئی 2024ء کو جولفہ، ایران کے قریب ان کی بے وقت موت نے ایرانی سیاست میں بظاہر ایک خلا پیدا کیا ہے اور کچھ تجزیہ نگار ملک کی مستقبل کی سمت کے بارے میں سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ چونکہ جب ایران صدر ابراہیم رئیسی کی موت کا پر سوگ منا رہا ہے، ان کی لیگیسی ایرانیوں اور عالمی برادری کے درمیان یکساں طور پر بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
اسرائیل پر ایران کا پہلا براہِ راست حملہ:
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا اسرائیل پر براہ راست حملے میں کردار کے بارے میں مختلف رپورٹس موجود ہیں۔ ان رپورٹس کے مطابق، ایرانی صدر نے اسرائیل کے خلاف سخت جوابی حملے کی دھمکی دی تھی اور ایران کی عسکری قوت کا استعمال کرنے کی بات کی تھی۔ اس کے علاوہ، ایرانی حکومت نے اسرائیل کے خلاف براہ راست عسکری کارروائیوں کی بھی بات کی۔
مگر ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے حادثے کے بعد، اسرائیلی عہدے داروں نے اس حادثے سے اپنے کسی بھی تعلق کی تردید کی ہے۔ عموماً اسرائیل کسی خفیہ کارروائی کی صورت میں خاموشی اختیار کرتا اگر اس کا کسی حملے میں ہاتھ ہو۔ بہرحال اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کی تاریخ رہی ہے، اور دونوں ممالک نے مختلف مواقع پر ایک دوسرے کے خلاف عسکری اور خفیہ کارروائیاں کی ہیں۔
ایران کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا امکان:
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایران کی خارجہ پالیسیوں میں فوری یا بنیادی تبدیلیوں کا امکان نہیں ہے۔ ایران کی حکومت اور سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی طرف سے طے شدہ پالیسیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایران کے سیاسی نظام میں صدر کا کردار اہم ہوتا ہے، لیکن سپریم لیڈر کے پاس بڑی پالیسیوں پر حتمی رائے دینے کا اختیار ہوتا ہے اور وہ مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی تقرری کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس لیے، رئیسی کی موت سے ایران کی خارجہ پالیسی میں کوئی نمایاں تبدیلی کی توقع نہیں کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایران میں انسٹیٹیوشنز کا نظام اتنا زیادہ پیچیدہ ہے کہ کسی ایک شخص کے آنے یا جانے سے کوئی بڑی تبدیلی نہیں آسکتی ہے۔ اندرونی مشاورت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
کیا ایران میں عدم استحکام پیدا ہوگا؟
صدر رئیسی کی موت کے بعد ایران میں سیاسی عدم استحکام کے بارے میں مختلف تجزیے اور قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ لیکن ایران کے سیاسی نظام میں صدر کی موت کے بعد بھی نظام کو استحکام دینے کے لیے ایک آئینی میکانزم موجود ہے۔ ایران کے آئین کے مطابق، اگر صدر کی موت ہو جائے تو نائب صدر عبوری صدر کے طور پر کام کرتے ہیں جب تک کہ نئے صدر کا انتخاب نہ ہو جائے۔
اس کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر کے پاس بڑی پالیسیوں پر حتمی رائے دینے کا اختیار ہوتا ہے، جو ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس لیے، صدر کی موت سے ایران کی خارجہ پالیسی میں فوری تبدیلی کی توقع نہیں کی جا رہی ہے۔
بہرحال ایران کی داخلی سیاست میں مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے مقابلہ شروع ہو سکتا ہے، جس سے مختصر مدت کے لیے معمول کا سیاسی عدم استحکام کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن ایران کے سیاسی ڈھانچے میں موجود میکانزم کی وجہ سے، ملک میں طویل مدتی عدم استحکام کی توقع کم ہے۔ ایران کے عوام اور حکومت اس صورتحال کو سنبھالنے کے لیے تیار ہوں گے اور ممکن ہے کہ نئے صدر کے انتخاب تک کوئی بڑی تبدیلی نہ ہو۔
اس کے علاوہ ایران میں ایک وسیع سطح کی حکومت مخالف تصویر کشی جو مغربی میڈیا کرتا ہے وہ کافی حد تک گمراہ کن ہے۔ مثلاً مھسا امینی کی موت کے بعد جو ہنگامے ہوئے اُنھیں مغربی میڈیا نے انقلاب کے خلاف ایک تحریک کے طور پر پیش کیا۔
جبکہ حقیقت یہ تھی کہ انقلاب کے حامی اصلاح پسند گروہان بھی حجاب کے بارے میں نرم پالیسی کے حامی ہیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے لیے حجاب کو قانونی طور پر لازم قرار دینے والی وہ پارلیمان اور حکومت تھی جس میں میر حسین موسوی وزیراعظم تھےجو اب خامنہ ای کے سخت مخالف ہیں مگر انقلاب کے مخالف نہیں ہیں۔
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں جو حکومت مخالف تو سمجھی جا سکتی ہیں لیکن انھیں قطعی طور پر شاہ پرست نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ایران میں لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ ایک قدرتی بات ہے لیکن جے سی پی او اے کے ناکام تجربے نے اس تبدیلی کے خواہشمند طبقے کو ایران کے اندر سیاسی طور پر سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ رئیسی کی موت ”بزنس ایز یوژیول“ (Business as usual)کو متاثر نہیں کرے گی۔
ثقلین امام برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ آپ سیاسی، سماجی معاشی اور بین الاقوامی اُمور پر لکھتے رہتے ہیں۔