ہم اکثر لیکن اب تو کئی دنوں سے اس موضوع پر مختلف الفاظ اور عنوانات کے تحت ایک ہی بات دوہرائے جا رہے ہیں۔ کچھ پبلک اور کچھ پارٹی پلیٹ فارم پر، کہ مایوسی ، pessimism ، یاسیت یا اس طرح کے دیگر روئیے بطور ترقی پسند ، سماجی تبدیلی کے catalyst ( عمل کو تیز کرنے والا عامل ) , کیمونسٹ کو زیب نہیں دیتے۔
تاریخ میں کبھی چھاؤں ہی چھاؤں نہیں رہتی ۔ دھوپ بھی آتی ہے ۔ اگر آج ہم پر دھوپ ہے، تو گذشتہ کل تاریخ نے ہم پر چھاؤں کی ہوئی تھی۔ جب دھوپ ہو تو وہ وقت تاریخ سے جنگ لڑنےکا ہوتا ہے ۔ اس وقت یہ ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ کہ ہم میں مزاحمت کی کتنی طاقت ہے ۔ ہم کتنی تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ہم اظہار اور نئے رشتے بنانے کا کتنا فن جانتے ہیں ۔ جب ہم نئے رشتوں کی بات کرتے ہیں ،تو مطلب ہوتا ہے کہ بدلے سماج میں ہم میں نئے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کی کتنی قوت ہے ۔ دھوپ دیکھتے ہی ہمارے ہاتھ پاوں پھول نہیں جانے چاہیں۔
سماجی تبدیلیاں ہماری خواہشات یا منصوبوں کے تابع نہیں ہوتیں۔ تاریخ کا جبر ہوتیں ہیں۔ تاریخ کی product ، پیداوار ہوتی ہیں۔ کبھی خوشگوار اور کبھی ناگوار۔ جن کے لئے مادہ پرائمری ہوتا ہے۔ ان کے لئے تبدیلیاں تقدیری ، جدلیاتی ہوتی ہیں۔ جدلیات میں آپ تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس وقت آپ نے لمحہء موجود کی جدلی وحدت کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔
یہاں ہم نے لفظ تقدیری، جدلیاتی اور تاریخ کا جبر استعمال کیا ہے۔ درست ہونے کے باوجود وضاحت طلب ہے ۔ ہم نے فرد کے لئے Catalyst کا لفظ بھی لکھا ہے ۔ اس نکتے کی وضاحت میں انقلاب کی ساری سماجی سائنس لکھنے کی بجائے گزارش کریں گے کہ دوست پلیخانوف کی تحریر ” تاریخ میں فرد کا رول " دہرا لیں ۔ چھوٹا سا کتابچہ ہے۔
ہم بھی الگ سے فرد (Catalyst) کے رول پر لکھیں گے۔ سماجی تبدیلی کے عمل میں فرد passive نہیں رہتا ، عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم نے تاریخ کے جبر اور فرد کے رول کو الگ الگ کرکے دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ورنہ ایک ہی مختصر تحریر میں گڈ مڈ سے بچنا اور شفافیت برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم اپنے گزشتہ آرٹیکل ” یاسیت ہم پہ منع فرما دی گئی ہے ” میں لکھ چکے ہیں ۔ پھر دوہرائے دیتے ہیں ۔ سبق کو دہراتے رہنے میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔ جن کا لفظ، معنی، متن، فکر، نظریہ، کتاب سے اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے۔ وہ pessimism کا کم ہی شکار ہوتے ہیں۔( یہاں شاید کچھ دوست بدک اٹھیں کہ عمل غائب ہے ۔ عمل موجود ہے ۔ علم بھی عمل ہوتا ہے ۔ اسے الگ الگ کرکے دیکھنا کج روی ہے )۔
متن صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ شۓ ، object، معروض ، معروضی حالات اور ان میں آنے والی تبدیلیوں سے گہری جڑت ، وابستگی ، فہم، آگاہی، شعور، علم کا نام بھی ہے ۔ صرف فہم اور آگاہی لے کر سڑکوں پہ گھومتے رہنا گمراہی کا سبب بنتا ہے ۔ فہم کو شعور اور علم تک بلند کیے بغیر متن میں اترنا مشکل ہے یہ جدلی رشتہ ہے ۔
جو دوست نہیں کر پاتے وہ سڑکوں پر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے پھرتے رہتے ہیں، کہ لیفٹ میں نئے حالات کو جاننے پہچاننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہ اکٹھے کیوں نہیں ہوتے ۔ یہ آج بھی 1917 میں بیٹھے ہیں ۔ سماجی تبدیلیوں سے بے بہرہ ہیں ۔مارکسزم رد ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ( یہ روّیہ نقصان دہ ہونے کے باوجود وقتی طور پر بڑا مزہ دیتا ہے ۔ کسی بھی زمہ داری سے فراریت )
ہاں اگر مارکسزم رد ہو گیا ہے یا ہم سمجھ نہیں پا رہے ، تو آپ آگے آئیں ۔ ہمیں جدلیات میں تبدیلی یا اس کا متبادل دکھا دیں ۔ ہم اسے Follow کرلیں گے ۔ ضد کا مسئلہ تھوڑی ہے ؟۔ اگر یہ صلاحیت پلیخانوف میں نہیں تھی تو لینن آگے بڑھا ۔ ایسے ہی تاریخ، سماج آگے بڑھتا ہے ۔ ایک یا چند آدمیوں کے ٹھہر جانے سے رُک تو نہیں جاتا ؟۔ جب تاریخ سے جنگ ہوتی ہے ،تو نئے اخذ کردہ نتائج اور فارمولوں کےاطلاقات پیدا کرنے ہوتے ہیں۔ مارکس اور لینن نے اپنے اپنے وقت میں کرکے دکھائے ۔
تحریکوں میں لوگ آتے ہیں مگر نہیں ٹھہر پاتے ، تاوقتیکہ کسی نے جدلیات اور مارکسزم کی رسی کو مضبوطی سے تھامے نہیں ہوتا۔ جن میں تخلیقی صلاحیت اور ثابت قدمی ہوتی ہے ، وہی کھڑے رہ پاتے ہیں۔ مارکسزم ٹھوس سماجی سائنس ہے مگر جامد نہیں ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
ہم اکثر لیکن اب تو کئی دنوں سے اس موضوع پر مختلف الفاظ اور عنوانات کے تحت ایک ہی بات دوہرائے جا رہے ہیں۔ کچھ پبلک اور کچھ پارٹی پلیٹ فارم پر، کہ مایوسی ، pessimism ، یاسیت یا اس طرح کے دیگر روئیے بطور ترقی پسند ، سماجی تبدیلی کے catalyst ( عمل کو تیز کرنے والا عامل ) , کیمونسٹ کو زیب نہیں دیتے۔
تاریخ میں کبھی چھاؤں ہی چھاؤں نہیں رہتی ۔ دھوپ بھی آتی ہے ۔ اگر آج ہم پر دھوپ ہے، تو گذشتہ کل تاریخ نے ہم پر چھاؤں کی ہوئی تھی۔ جب دھوپ ہو تو وہ وقت تاریخ سے جنگ لڑنےکا ہوتا ہے ۔ اس وقت یہ ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ کہ ہم میں مزاحمت کی کتنی طاقت ہے ۔ ہم کتنی تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ہم اظہار اور نئے رشتے بنانے کا کتنا فن جانتے ہیں ۔ جب ہم نئے رشتوں کی بات کرتے ہیں ،تو مطلب ہوتا ہے کہ بدلے سماج میں ہم میں نئے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کی کتنی قوت ہے ۔ دھوپ دیکھتے ہی ہمارے ہاتھ پاوں پھول نہیں جانے چاہیں۔
سماجی تبدیلیاں ہماری خواہشات یا منصوبوں کے تابع نہیں ہوتیں۔ تاریخ کا جبر ہوتیں ہیں۔ تاریخ کی product ، پیداوار ہوتی ہیں۔ کبھی خوشگوار اور کبھی ناگوار۔ جن کے لئے مادہ پرائمری ہوتا ہے۔ ان کے لئے تبدیلیاں تقدیری ، جدلیاتی ہوتی ہیں۔ جدلیات میں آپ تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس وقت آپ نے لمحہء موجود کی جدلی وحدت کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔
یہاں ہم نے لفظ تقدیری، جدلیاتی اور تاریخ کا جبر استعمال کیا ہے۔ درست ہونے کے باوجود وضاحت طلب ہے ۔ ہم نے فرد کے لئے Catalyst کا لفظ بھی لکھا ہے ۔ اس نکتے کی وضاحت میں انقلاب کی ساری سماجی سائنس لکھنے کی بجائے گزارش کریں گے کہ دوست پلیخانوف کی تحریر ” تاریخ میں فرد کا رول " دہرا لیں ۔ چھوٹا سا کتابچہ ہے۔
ہم بھی الگ سے فرد (Catalyst) کے رول پر لکھیں گے۔ سماجی تبدیلی کے عمل میں فرد passive نہیں رہتا ، عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم نے تاریخ کے جبر اور فرد کے رول کو الگ الگ کرکے دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ورنہ ایک ہی مختصر تحریر میں گڈ مڈ سے بچنا اور شفافیت برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم اپنے گزشتہ آرٹیکل ” یاسیت ہم پہ منع فرما دی گئی ہے ” میں لکھ چکے ہیں ۔ پھر دوہرائے دیتے ہیں ۔ سبق کو دہراتے رہنے میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔ جن کا لفظ، معنی، متن، فکر، نظریہ، کتاب سے اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے۔ وہ pessimism کا کم ہی شکار ہوتے ہیں۔( یہاں شاید کچھ دوست بدک اٹھیں کہ عمل غائب ہے ۔ عمل موجود ہے ۔ علم بھی عمل ہوتا ہے ۔ اسے الگ الگ کرکے دیکھنا کج روی ہے )۔
متن صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ شۓ ، object، معروض ، معروضی حالات اور ان میں آنے والی تبدیلیوں سے گہری جڑت ، وابستگی ، فہم، آگاہی، شعور، علم کا نام بھی ہے ۔ صرف فہم اور آگاہی لے کر سڑکوں پہ گھومتے رہنا گمراہی کا سبب بنتا ہے ۔ فہم کو شعور اور علم تک بلند کیے بغیر متن میں اترنا مشکل ہے یہ جدلی رشتہ ہے ۔
جو دوست نہیں کر پاتے وہ سڑکوں پر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے پھرتے رہتے ہیں، کہ لیفٹ میں نئے حالات کو جاننے پہچاننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہ اکٹھے کیوں نہیں ہوتے ۔ یہ آج بھی 1917 میں بیٹھے ہیں ۔ سماجی تبدیلیوں سے بے بہرہ ہیں ۔مارکسزم رد ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ( یہ روّیہ نقصان دہ ہونے کے باوجود وقتی طور پر بڑا مزہ دیتا ہے ۔ کسی بھی زمہ داری سے فراریت )
ہاں اگر مارکسزم رد ہو گیا ہے یا ہم سمجھ نہیں پا رہے ، تو آپ آگے آئیں ۔ ہمیں جدلیات میں تبدیلی یا اس کا متبادل دکھا دیں ۔ ہم اسے Follow کرلیں گے ۔ ضد کا مسئلہ تھوڑی ہے ؟۔ اگر یہ صلاحیت پلیخانوف میں نہیں تھی تو لینن آگے بڑھا ۔ ایسے ہی تاریخ، سماج آگے بڑھتا ہے ۔ ایک یا چند آدمیوں کے ٹھہر جانے سے رُک تو نہیں جاتا ؟۔ جب تاریخ سے جنگ ہوتی ہے ،تو نئے اخذ کردہ نتائج اور فارمولوں کےاطلاقات پیدا کرنے ہوتے ہیں۔ مارکس اور لینن نے اپنے اپنے وقت میں کرکے دکھائے ۔
تحریکوں میں لوگ آتے ہیں مگر نہیں ٹھہر پاتے ، تاوقتیکہ کسی نے جدلیات اور مارکسزم کی رسی کو مضبوطی سے تھامے نہیں ہوتا۔ جن میں تخلیقی صلاحیت اور ثابت قدمی ہوتی ہے ، وہی کھڑے رہ پاتے ہیں۔ مارکسزم ٹھوس سماجی سائنس ہے مگر جامد نہیں ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے۔
Comments 1