• Latest

سماجی تبدیلیاں تاریخ کا جبر ہوتی ہیں! – تحریر: رانااعظم

جنوری 8, 2024

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

اکتوبر 5, 2024

صیہونیت کے خلاف توانا آواز حسن نصر اللہ فضائی حملے میں شہید!

ستمبر 28, 2024

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

ستمبر 27, 2024
">
ADVERTISEMENT
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
منگل, مئی 20, 2025
Daily Lalkaar
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
    • خبریں
  • پاکستان
    • سماجی مسائل
    • سیاسی معیشت
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • بین الاقوامی
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز
  • اداریہ
No Result
View All Result
Daily Lalkaar
No Result
View All Result
">
Home home مضامین

سماجی تبدیلیاں تاریخ کا جبر ہوتی ہیں! – تحریر: رانااعظم

تحریکوں میں لوگ آتے ہیں مگر نہیں ٹھہر پاتے ، تاوقتیکہ کسی نے جدلیات اور مارکسزم کی رسی کو مضبوطی سے تھامے نہیں ہوتا۔ جن میں تخلیقی صلاحیت اور ثابت قدمی ہوتی ہے ، وہی کھڑے رہ پاتے ہیں۔ مارکسزم ٹھوس سماجی سائنس ہے مگر جامد نہیں ۔

للکار نیوز by للکار نیوز
جنوری 8, 2024
in مضامین
A A
1

ہم اکثر لیکن اب تو کئی دنوں سے اس موضوع پر مختلف الفاظ اور عنوانات کے تحت ایک ہی بات دوہرائے جا رہے ہیں۔ کچھ پبلک اور کچھ پارٹی پلیٹ فارم پر، کہ مایوسی ، pessimism ، یاسیت یا اس طرح کے دیگر روئیے بطور ترقی پسند ، سماجی تبدیلی کے catalyst ( عمل کو تیز کرنے والا عامل ) , کیمونسٹ کو زیب نہیں دیتے۔

تاریخ میں کبھی چھاؤں ہی چھاؤں نہیں رہتی ۔ دھوپ بھی آتی ہے ۔ اگر آج ہم پر دھوپ ہے، تو گذشتہ کل تاریخ نے ہم پر چھاؤں کی ہوئی تھی۔ جب دھوپ ہو تو وہ وقت تاریخ سے جنگ لڑنےکا ہوتا ہے ۔ اس وقت یہ ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ کہ ہم میں مزاحمت کی کتنی طاقت ہے ۔ ہم کتنی تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ہم اظہار اور نئے رشتے بنانے کا کتنا فن جانتے ہیں ۔ جب ہم نئے رشتوں کی بات کرتے ہیں ،تو مطلب ہوتا ہے کہ بدلے سماج میں ہم میں نئے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کی کتنی قوت ہے ۔ دھوپ دیکھتے ہی ہمارے ہاتھ پاوں پھول نہیں جانے چاہیں۔

سماجی تبدیلیاں ہماری خواہشات یا منصوبوں کے تابع نہیں ہوتیں۔ تاریخ کا جبر ہوتیں ہیں۔ تاریخ کی product ، پیداوار ہوتی ہیں۔ کبھی خوشگوار اور کبھی ناگوار۔ جن کے لئے مادہ پرائمری ہوتا ہے۔ ان کے لئے تبدیلیاں تقدیری ، جدلیاتی ہوتی ہیں۔ جدلیات میں آپ تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس وقت آپ نے لمحہء موجود کی جدلی وحدت کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔

پلیخانوف
جارجی پلیخانوف

یہاں ہم نے لفظ تقدیری، جدلیاتی اور تاریخ کا جبر استعمال کیا ہے۔ درست ہونے کے باوجود وضاحت طلب ہے ۔ ہم نے فرد کے لئے Catalyst کا لفظ بھی لکھا ہے ۔ اس نکتے کی وضاحت میں انقلاب کی ساری سماجی سائنس لکھنے کی بجائے گزارش کریں گے کہ دوست پلیخانوف کی تحریر ” تاریخ میں فرد کا رول " دہرا لیں ۔ چھوٹا سا کتابچہ ہے۔

ہم بھی الگ سے فرد (Catalyst) کے رول پر لکھیں گے۔ سماجی تبدیلی کے عمل میں فرد passive نہیں رہتا ، عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم نے تاریخ کے جبر اور فرد کے رول کو الگ الگ کرکے دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ورنہ ایک ہی مختصر تحریر میں گڈ مڈ سے بچنا اور شفافیت برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم اپنے گزشتہ آرٹیکل ” یاسیت ہم پہ منع فرما دی گئی ہے ” میں لکھ چکے ہیں ۔ پھر دوہرائے دیتے ہیں ۔ سبق کو دہراتے رہنے میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔ جن کا لفظ، معنی، متن، فکر، نظریہ، کتاب سے اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے۔ وہ pessimism کا کم ہی شکار ہوتے ہیں۔( یہاں شاید کچھ دوست بدک اٹھیں کہ عمل غائب ہے ۔ عمل موجود ہے ۔ علم بھی عمل ہوتا ہے ۔ اسے الگ الگ کرکے دیکھنا کج روی ہے )۔

متن صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ شۓ ،   object، معروض ، معروضی حالات اور ان میں آنے والی تبدیلیوں سے گہری جڑت ، وابستگی ، فہم، آگاہی، شعور، علم کا نام بھی ہے ۔ صرف فہم اور آگاہی لے کر سڑکوں پہ گھومتے رہنا گمراہی کا سبب بنتا ہے ۔ فہم کو شعور اور علم تک بلند کیے بغیر متن میں اترنا مشکل ہے یہ جدلی رشتہ ہے ۔

جو دوست نہیں کر پاتے وہ سڑکوں پر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے پھرتے رہتے ہیں، کہ لیفٹ میں نئے حالات کو جاننے پہچاننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہ اکٹھے کیوں نہیں ہوتے ۔ یہ آج بھی 1917 میں بیٹھے ہیں ۔ سماجی تبدیلیوں سے بے بہرہ ہیں ۔مارکسزم رد ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ( یہ روّیہ نقصان دہ ہونے کے باوجود وقتی طور پر بڑا مزہ دیتا ہے ۔ کسی بھی زمہ داری سے فراریت )

ہاں اگر مارکسزم رد ہو گیا ہے یا ہم سمجھ نہیں پا رہے ، تو آپ آگے آئیں ۔ ہمیں جدلیات میں تبدیلی یا اس کا متبادل دکھا دیں ۔ ہم اسے Follow کرلیں گے ۔ ضد کا مسئلہ تھوڑی ہے ؟۔ اگر یہ صلاحیت پلیخانوف میں نہیں تھی تو لینن آگے بڑھا ۔ ایسے ہی تاریخ، سماج آگے بڑھتا ہے ۔ ایک یا چند آدمیوں کے ٹھہر جانے سے رُک تو نہیں جاتا ؟۔ جب تاریخ سے جنگ ہوتی ہے ،تو نئے اخذ کردہ نتائج اور فارمولوں کےاطلاقات پیدا کرنے ہوتے ہیں۔ مارکس اور لینن نے اپنے اپنے وقت میں کرکے دکھائے ۔

تحریکوں میں لوگ آتے ہیں مگر نہیں ٹھہر پاتے ، تاوقتیکہ کسی نے جدلیات اور مارکسزم کی رسی کو مضبوطی سے تھامے نہیں ہوتا۔ جن میں تخلیقی صلاحیت اور ثابت قدمی ہوتی ہے ، وہی کھڑے رہ پاتے ہیں۔ مارکسزم ٹھوس سماجی سائنس ہے مگر جامد نہیں ۔

 —♦—

rana
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے۔

Comments 1

  1. پنگ بیک: سماجی تبدیلیاں تاریخ کا جبر ہوتی ہیں! (قسط 2) – تحریر: رانا اعظم - Daily Lalkaar

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Advertisement. Scroll to continue reading.
">

ہم اکثر لیکن اب تو کئی دنوں سے اس موضوع پر مختلف الفاظ اور عنوانات کے تحت ایک ہی بات دوہرائے جا رہے ہیں۔ کچھ پبلک اور کچھ پارٹی پلیٹ فارم پر، کہ مایوسی ، pessimism ، یاسیت یا اس طرح کے دیگر روئیے بطور ترقی پسند ، سماجی تبدیلی کے catalyst ( عمل کو تیز کرنے والا عامل ) , کیمونسٹ کو زیب نہیں دیتے۔

تاریخ میں کبھی چھاؤں ہی چھاؤں نہیں رہتی ۔ دھوپ بھی آتی ہے ۔ اگر آج ہم پر دھوپ ہے، تو گذشتہ کل تاریخ نے ہم پر چھاؤں کی ہوئی تھی۔ جب دھوپ ہو تو وہ وقت تاریخ سے جنگ لڑنےکا ہوتا ہے ۔ اس وقت یہ ثابت کرنا ہوتا ہے ۔ کہ ہم میں مزاحمت کی کتنی طاقت ہے ۔ ہم کتنی تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ہم اظہار اور نئے رشتے بنانے کا کتنا فن جانتے ہیں ۔ جب ہم نئے رشتوں کی بات کرتے ہیں ،تو مطلب ہوتا ہے کہ بدلے سماج میں ہم میں نئے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان کی کتنی قوت ہے ۔ دھوپ دیکھتے ہی ہمارے ہاتھ پاوں پھول نہیں جانے چاہیں۔

سماجی تبدیلیاں ہماری خواہشات یا منصوبوں کے تابع نہیں ہوتیں۔ تاریخ کا جبر ہوتیں ہیں۔ تاریخ کی product ، پیداوار ہوتی ہیں۔ کبھی خوشگوار اور کبھی ناگوار۔ جن کے لئے مادہ پرائمری ہوتا ہے۔ ان کے لئے تبدیلیاں تقدیری ، جدلیاتی ہوتی ہیں۔ جدلیات میں آپ تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس وقت آپ نے لمحہء موجود کی جدلی وحدت کو تلاش کرنا ہوتا ہے۔

پلیخانوف
جارجی پلیخانوف

یہاں ہم نے لفظ تقدیری، جدلیاتی اور تاریخ کا جبر استعمال کیا ہے۔ درست ہونے کے باوجود وضاحت طلب ہے ۔ ہم نے فرد کے لئے Catalyst کا لفظ بھی لکھا ہے ۔ اس نکتے کی وضاحت میں انقلاب کی ساری سماجی سائنس لکھنے کی بجائے گزارش کریں گے کہ دوست پلیخانوف کی تحریر ” تاریخ میں فرد کا رول " دہرا لیں ۔ چھوٹا سا کتابچہ ہے۔

ہم بھی الگ سے فرد (Catalyst) کے رول پر لکھیں گے۔ سماجی تبدیلی کے عمل میں فرد passive نہیں رہتا ، عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہم نے تاریخ کے جبر اور فرد کے رول کو الگ الگ کرکے دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ورنہ ایک ہی مختصر تحریر میں گڈ مڈ سے بچنا اور شفافیت برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

جیسا کہ ہم اپنے گزشتہ آرٹیکل ” یاسیت ہم پہ منع فرما دی گئی ہے ” میں لکھ چکے ہیں ۔ پھر دوہرائے دیتے ہیں ۔ سبق کو دہراتے رہنے میں کوئی ہرج نہیں ہوتا۔ جن کا لفظ، معنی، متن، فکر، نظریہ، کتاب سے اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے۔ وہ pessimism کا کم ہی شکار ہوتے ہیں۔( یہاں شاید کچھ دوست بدک اٹھیں کہ عمل غائب ہے ۔ عمل موجود ہے ۔ علم بھی عمل ہوتا ہے ۔ اسے الگ الگ کرکے دیکھنا کج روی ہے )۔

متن صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ شۓ ،   object، معروض ، معروضی حالات اور ان میں آنے والی تبدیلیوں سے گہری جڑت ، وابستگی ، فہم، آگاہی، شعور، علم کا نام بھی ہے ۔ صرف فہم اور آگاہی لے کر سڑکوں پہ گھومتے رہنا گمراہی کا سبب بنتا ہے ۔ فہم کو شعور اور علم تک بلند کیے بغیر متن میں اترنا مشکل ہے یہ جدلی رشتہ ہے ۔

جو دوست نہیں کر پاتے وہ سڑکوں پر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہراتے پھرتے رہتے ہیں، کہ لیفٹ میں نئے حالات کو جاننے پہچاننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہ اکٹھے کیوں نہیں ہوتے ۔ یہ آج بھی 1917 میں بیٹھے ہیں ۔ سماجی تبدیلیوں سے بے بہرہ ہیں ۔مارکسزم رد ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ( یہ روّیہ نقصان دہ ہونے کے باوجود وقتی طور پر بڑا مزہ دیتا ہے ۔ کسی بھی زمہ داری سے فراریت )

ہاں اگر مارکسزم رد ہو گیا ہے یا ہم سمجھ نہیں پا رہے ، تو آپ آگے آئیں ۔ ہمیں جدلیات میں تبدیلی یا اس کا متبادل دکھا دیں ۔ ہم اسے Follow کرلیں گے ۔ ضد کا مسئلہ تھوڑی ہے ؟۔ اگر یہ صلاحیت پلیخانوف میں نہیں تھی تو لینن آگے بڑھا ۔ ایسے ہی تاریخ، سماج آگے بڑھتا ہے ۔ ایک یا چند آدمیوں کے ٹھہر جانے سے رُک تو نہیں جاتا ؟۔ جب تاریخ سے جنگ ہوتی ہے ،تو نئے اخذ کردہ نتائج اور فارمولوں کےاطلاقات پیدا کرنے ہوتے ہیں۔ مارکس اور لینن نے اپنے اپنے وقت میں کرکے دکھائے ۔

تحریکوں میں لوگ آتے ہیں مگر نہیں ٹھہر پاتے ، تاوقتیکہ کسی نے جدلیات اور مارکسزم کی رسی کو مضبوطی سے تھامے نہیں ہوتا۔ جن میں تخلیقی صلاحیت اور ثابت قدمی ہوتی ہے ، وہی کھڑے رہ پاتے ہیں۔ مارکسزم ٹھوس سماجی سائنس ہے مگر جامد نہیں ۔

 —♦—

rana
مصنف کے بارے

رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے۔

Comments 1

  1. پنگ بیک: سماجی تبدیلیاں تاریخ کا جبر ہوتی ہیں! (قسط 2) – تحریر: رانا اعظم - Daily Lalkaar

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

">
ADVERTISEMENT
Tags: HistoryRevolutionSocial ChangesSocial TransformationSocialismWorld Socialism
">
ADVERTISEMENT
للکار نیوز

للکار نیوز

RelatedPosts

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

by للکار نیوز
اپریل 6, 2025
0
0

اگرچہ بظاہر استعماریت کا خاتمہ گزشتہ صدی میں ہو چکا ہے، لیکن حقیقت میں مغربی طاقتیں اپنی سابقہ نوآبادیات پر...

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

by للکار نیوز
اکتوبر 13, 2024
0
0

پنجاب سے ہمارے اک سینئر تنظیمی ساتھی لکھ رہے ہیں؛” 1۔ صوفی ازم کے تارکِ دُنیا کے فلسفے کیا کریں...

پاکستانی کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر۔۔۔خدشات و خطرات!- تحریر: ڈاکٹر توقیر گیلانی

by للکار نیوز
اکتوبر 5, 2024
1
0

پاکستانی معاشرہ شدت پسندجتھوں اور فرقہ پرست مُلاؤں کی جنت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بلاسفیمی کے الزامات کا شکار افراد...

کیمونسٹ راہنما سیتارام یچوری بھی چل بسے! – تحریر: پرویزفتح

by للکار نیوز
ستمبر 27, 2024
0
0

پانچ دہائیوں تک ہندوستان کی قومی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرنے والے برِصغیر کے نامور مارکسی مفکر، انقلابی تحریکوں...

بلوچ جدوجہد اور بلوچوں کی تاریخی حقیقت؟ – تحریر:ممتاز احمد آرزو

by للکار نیوز
ستمبر 26, 2024
0
0

ہر چند کہ ہم میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ کسی بھی مظلوم قوم، طبقے یا...

کالے کوئلے کو سفید بنانے والی ”دانائی“ اور ماحولیاتی سوال! – تحریر:بخشل تھلہو

by للکار نیوز
ستمبر 8, 2024
0
0

اس اگست کی دو تاریخ کو نصیر میمن صاحب نے اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ کی، جس میں...

">
ADVERTISEMENT

Follow Us

Browse by Category

  • home
  • Uncategorized
  • اداریہ
  • بین الاقوامی
  • پاکستان
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • سائنس و ٹیکنالوجی
  • سماجی مسائل
  • سیاسی معیشت
  • فنون و ادب
  • ماحولیات
  • مضامین
  • ویڈیوز

Recent News

استعماری میڈیا کا محکوم قوموں سے سلوک

اپریل 6, 2025

سندھ اور صوفی ازم ؟ – تحریر: بخشل تھلہو

اکتوبر 13, 2024
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں

Daily Lalkaar© 2024

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • ادارتی پالیسی
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • للکار پر اشتہار دیں

Daily Lalkaar© 2024

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.