” سماجی تبدیلیاں تاریخ کا جبر ہوتی ہیں“ کے عنوان سے لکھے گئے آرٹیکل مورخہ 8 جنوری 2024ء پر ہمارے ایک دوست/ نظریاتی ساتھی صیاد رفیق صاحب (جو کہ پارٹی میں تو نہیں ہیں ) نے خاصے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ جن پر مزید لکھنا ضروری ہو گیا ہے ۔
سوالات کچھ اس طرح ہیں ۔
1۔ بلاشبہ کیمونسٹ سماجی تبدیلی میں بطور catalyst کام کرتے ہیں ، مگر یہ تحقیق بھی لازم ہے ، کہ کیا کیمونسٹ اکیلے بطور catalyst کام کرتے ہیں یا دیگر elements بھی یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو ان عناصر کی تفصیل اور ان کے ساتھ کمیونسٹوں کے تعلق کی نوعیت ؟
2۔ دھوپ کب سے کب تک رہی ؟ بہار کی دھوپ کا دورانیہ کیا تھا اور گرما کی دھوپ کا دورانیہ ؟ چھاؤں میں کب سے ہیں ۔؟ کیا اب حرارت کے سب سر چشمے سوکھ گئے یا کچھ باقی ہیں ۔ تفصیل طلب
3۔ سماجی تبدیلیاں ہماری خواہشات پر نہیں بلکہ مادے اور سماج کی حرکت کے دوران پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ضرورت ہے جو ایجاد کو پیدا کرتی ہے ۔ مستقبل کے بیج حال کے پھل میں پیدا ہوتے ہیں ۔تاریخی لزوم ناگزیر ہوتا ہے ۔تاریخی لزوم سے رخنے بھی ٹکراتے ہیں ۔ مگر فتح یابی تاریخی لزوم کی ہوتی ہے ۔
4 ۔ عوام دانشور نہیں ہوتے، اس لیے عوام سماجی سائنس پڑھ کر تحریکوں کا حصہ نہیں بنتے ۔ دانشور طبقہ بھی اپنی دانش کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے سے بلکل بھی نہیں ہچکچاتا ۔ مارکسزم اور جدلیات کے علم پر عبور حاصل کرنے کے بعد یہ بلکل بھی ضروری نہیں کہ اس علم کو کوئی دانشور مارکسی سیاسی جماعت کے اندر ہی استعمال کرے ۔ ( بائیں بازو کی پارٹیوں کے اندر بھی منفی کردار ادا کرتا رہتا ہے ۔راقم)۔ بورژوا سیاسی جماعتوں، کاروباری اور دیگر سماجی اداروں، تنظیموں کے لیے بھی علمائے مارکسزم و جدلیات کی خدمات کا دستیاب رہنا عام مشاہدے میں آیا ہے ۔
تاریخی لزوم عوام اور دانشوروں کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتا ہے ۔
ہونی ہو کر رہتی ہے ۔
یہ تھی ہمارے دوست کی تحریر۔
سوالات کی بجائے تحریر کا لفظ ہم نے شعوری طور پر لکھا ہے ۔ اس لیے کہ انہوں نے صرف سوالات ہی نہیں اٹھائے، بلکہ ہم سے بہتر ہمارے آرٹیکل کی تفسیر بیان کر دی ہے ۔ سوالات تو اس میں نمبر 1 اور 2 ہیں
نمبر 1 ۔ کا پہلا واضع جواب ہاں میں ہے ۔ کمیونسٹوں کے علاوہ دیگر عناصر بھی catalyst کا رول ادا کرتے ہیں ۔ ان کی نشاندہی تو کی جا سکتی ہے۔ مکمل لسٹ مرتب کرنا مشکل ٹاسک ہے ۔ بورثوا صنعتی سماج اور ادارے خود سے ایک catalyst ہوتے ہیں۔ بورثوا سیاسی جماعتیں ، انتظامیہ، عدلیہ (عدالتی فیصلے ) ، میڈیا، تھیڑ، موسیقی، مصوری کیٹالسٹ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ حتی کہ تیسری دنیا سے اب سے کچھ دن پہلے کے انڈیا کی مثال ہم اٹھا سکتے ہیں۔ زرعی اصلاحات ، جاگیرداری کا خاتمہ، غیر جانبدار خارجہ پالیسی، آئینی سازی ، سیکولرازم، بورثوا جمہوریت , مقابلتا عورت کی empowerment وغیرہ وغیرہ ۔
تاریخی طور پر یہ رول ہے ہی بورژوا سماج کا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ہے ،کہ تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کا سرمایہ دارانہ صنعتی معاشروں میں تبدیل ہونا اب تقریبا ناممکن ہو چکا ہے ۔ حتی کہ انڈیا بھی پسماندہ ممالک کی فہرست سے نہیں نکل پایا ۔
پاکستان اور دیگر پسماندہ ممالک میں یہ سارا بوجھ ترقی پسندوں کے کمزور کندھوں پر تاریخ نے ڈال دیا ہے ۔ یہ تاریخی جبر نوآبادیاتی نظام کا بھی ہے۔ اوپر سے ہمارے ہاں کا آوارہ گرد ترقی پسند ( لمپن لیفٹ ) اور لبرل ہمیں ہر وقت کٹہرے میں کھڑا رکھتا ہے ۔ یہ بھی مان لینا چاہیے کہ ہم بھی غلطیوں سے مبرا نہیں ہیں۔
نمبر 2 ۔ دھوپ، چھاؤں کا سوال۔ سوویت دور چھاؤں کا دور کہا جا سکتا ہے۔ بعد کے وقت کو گرما کی دھوپ کے پلڑے میں ۔ یہ بہت سادہ سی تقسیم ہے ۔ تفصیل میں جانے سے اور الجھاؤ پیدا ہوں گے ۔ یہاں تک حرارت کے سرچشموں کے سوکھ جانے کا سوال ہے ۔ اگر ہم حرارت کو نمو کے معنوں میں لیتے ہیں ۔ لگتا ہے ساتھی نے بھی انہی معنوں میں لکھا ہے ۔ طبقاتی سماج میں سوتے/ سرچشمے کبھی خشک نہیں ہوتے ۔ طبقاتی سماج از خود سے سرچشموں کا Organic source ہوتا ہے ۔ جب تک طبقاتی سماج قائم رہے گا ، طبقاتی کشمکش کے سوتے خشک نہیں ہو سکتے۔ یہی بات ہم اپنے آرٹیکل میں کہہ چکے ہیں ، کہ جدلیات تبدیل ہو سکتی ہے نہ ختم ۔
نمبر 3 اور 4 سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے ہماری بات کی کمزوریوں کو دور کر دیا ۔ البتہ نمبر 4 میں ایک چھوٹی سی وضاحت دینا چاہتے ہیں ۔ ہم نے عبور حاصل کر لینے کے بعد کی بجائے جڑے رہنا لکھا ہے ۔ ورنہ جڑت کی essence کمزور پڑنے لگتی ہے ۔ جڑے رہنے سے موقعہ پرستی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں ۔ ختم تو نہیں ہوتے ۔ استثنائی صورتوں کو مکمل رد نہیں کیا جاسکتا ۔ مجموعی طور پر ہمارے ساتھی کی بات درست ہے ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
جواب دیں جواب منسوخ کریں
” سماجی تبدیلیاں تاریخ کا جبر ہوتی ہیں“ کے عنوان سے لکھے گئے آرٹیکل مورخہ 8 جنوری 2024ء پر ہمارے ایک دوست/ نظریاتی ساتھی صیاد رفیق صاحب (جو کہ پارٹی میں تو نہیں ہیں ) نے خاصے سنجیدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ جن پر مزید لکھنا ضروری ہو گیا ہے ۔
سوالات کچھ اس طرح ہیں ۔
1۔ بلاشبہ کیمونسٹ سماجی تبدیلی میں بطور catalyst کام کرتے ہیں ، مگر یہ تحقیق بھی لازم ہے ، کہ کیا کیمونسٹ اکیلے بطور catalyst کام کرتے ہیں یا دیگر elements بھی یہ فریضہ سر انجام دے رہے ہیں ۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو ان عناصر کی تفصیل اور ان کے ساتھ کمیونسٹوں کے تعلق کی نوعیت ؟
2۔ دھوپ کب سے کب تک رہی ؟ بہار کی دھوپ کا دورانیہ کیا تھا اور گرما کی دھوپ کا دورانیہ ؟ چھاؤں میں کب سے ہیں ۔؟ کیا اب حرارت کے سب سر چشمے سوکھ گئے یا کچھ باقی ہیں ۔ تفصیل طلب
3۔ سماجی تبدیلیاں ہماری خواہشات پر نہیں بلکہ مادے اور سماج کی حرکت کے دوران پیدا ہوتی ہیں۔ یہ ضرورت ہے جو ایجاد کو پیدا کرتی ہے ۔ مستقبل کے بیج حال کے پھل میں پیدا ہوتے ہیں ۔تاریخی لزوم ناگزیر ہوتا ہے ۔تاریخی لزوم سے رخنے بھی ٹکراتے ہیں ۔ مگر فتح یابی تاریخی لزوم کی ہوتی ہے ۔
4 ۔ عوام دانشور نہیں ہوتے، اس لیے عوام سماجی سائنس پڑھ کر تحریکوں کا حصہ نہیں بنتے ۔ دانشور طبقہ بھی اپنی دانش کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے سے بلکل بھی نہیں ہچکچاتا ۔ مارکسزم اور جدلیات کے علم پر عبور حاصل کرنے کے بعد یہ بلکل بھی ضروری نہیں کہ اس علم کو کوئی دانشور مارکسی سیاسی جماعت کے اندر ہی استعمال کرے ۔ ( بائیں بازو کی پارٹیوں کے اندر بھی منفی کردار ادا کرتا رہتا ہے ۔راقم)۔ بورژوا سیاسی جماعتوں، کاروباری اور دیگر سماجی اداروں، تنظیموں کے لیے بھی علمائے مارکسزم و جدلیات کی خدمات کا دستیاب رہنا عام مشاہدے میں آیا ہے ۔
تاریخی لزوم عوام اور دانشوروں کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتا ہے ۔
ہونی ہو کر رہتی ہے ۔
یہ تھی ہمارے دوست کی تحریر۔
سوالات کی بجائے تحریر کا لفظ ہم نے شعوری طور پر لکھا ہے ۔ اس لیے کہ انہوں نے صرف سوالات ہی نہیں اٹھائے، بلکہ ہم سے بہتر ہمارے آرٹیکل کی تفسیر بیان کر دی ہے ۔ سوالات تو اس میں نمبر 1 اور 2 ہیں
نمبر 1 ۔ کا پہلا واضع جواب ہاں میں ہے ۔ کمیونسٹوں کے علاوہ دیگر عناصر بھی catalyst کا رول ادا کرتے ہیں ۔ ان کی نشاندہی تو کی جا سکتی ہے۔ مکمل لسٹ مرتب کرنا مشکل ٹاسک ہے ۔ بورثوا صنعتی سماج اور ادارے خود سے ایک catalyst ہوتے ہیں۔ بورثوا سیاسی جماعتیں ، انتظامیہ، عدلیہ (عدالتی فیصلے ) ، میڈیا، تھیڑ، موسیقی، مصوری کیٹالسٹ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ حتی کہ تیسری دنیا سے اب سے کچھ دن پہلے کے انڈیا کی مثال ہم اٹھا سکتے ہیں۔ زرعی اصلاحات ، جاگیرداری کا خاتمہ، غیر جانبدار خارجہ پالیسی، آئینی سازی ، سیکولرازم، بورثوا جمہوریت , مقابلتا عورت کی empowerment وغیرہ وغیرہ ۔
تاریخی طور پر یہ رول ہے ہی بورژوا سماج کا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ہے ،کہ تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کا سرمایہ دارانہ صنعتی معاشروں میں تبدیل ہونا اب تقریبا ناممکن ہو چکا ہے ۔ حتی کہ انڈیا بھی پسماندہ ممالک کی فہرست سے نہیں نکل پایا ۔
پاکستان اور دیگر پسماندہ ممالک میں یہ سارا بوجھ ترقی پسندوں کے کمزور کندھوں پر تاریخ نے ڈال دیا ہے ۔ یہ تاریخی جبر نوآبادیاتی نظام کا بھی ہے۔ اوپر سے ہمارے ہاں کا آوارہ گرد ترقی پسند ( لمپن لیفٹ ) اور لبرل ہمیں ہر وقت کٹہرے میں کھڑا رکھتا ہے ۔ یہ بھی مان لینا چاہیے کہ ہم بھی غلطیوں سے مبرا نہیں ہیں۔
نمبر 2 ۔ دھوپ، چھاؤں کا سوال۔ سوویت دور چھاؤں کا دور کہا جا سکتا ہے۔ بعد کے وقت کو گرما کی دھوپ کے پلڑے میں ۔ یہ بہت سادہ سی تقسیم ہے ۔ تفصیل میں جانے سے اور الجھاؤ پیدا ہوں گے ۔ یہاں تک حرارت کے سرچشموں کے سوکھ جانے کا سوال ہے ۔ اگر ہم حرارت کو نمو کے معنوں میں لیتے ہیں ۔ لگتا ہے ساتھی نے بھی انہی معنوں میں لکھا ہے ۔ طبقاتی سماج میں سوتے/ سرچشمے کبھی خشک نہیں ہوتے ۔ طبقاتی سماج از خود سے سرچشموں کا Organic source ہوتا ہے ۔ جب تک طبقاتی سماج قائم رہے گا ، طبقاتی کشمکش کے سوتے خشک نہیں ہو سکتے۔ یہی بات ہم اپنے آرٹیکل میں کہہ چکے ہیں ، کہ جدلیات تبدیل ہو سکتی ہے نہ ختم ۔
نمبر 3 اور 4 سے ہم مکمل اتفاق کرتے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے ہماری بات کی کمزوریوں کو دور کر دیا ۔ البتہ نمبر 4 میں ایک چھوٹی سی وضاحت دینا چاہتے ہیں ۔ ہم نے عبور حاصل کر لینے کے بعد کی بجائے جڑے رہنا لکھا ہے ۔ ورنہ جڑت کی essence کمزور پڑنے لگتی ہے ۔ جڑے رہنے سے موقعہ پرستی کے امکانات کم ہو سکتے ہیں ۔ ختم تو نہیں ہوتے ۔ استثنائی صورتوں کو مکمل رد نہیں کیا جاسکتا ۔ مجموعی طور پر ہمارے ساتھی کی بات درست ہے ۔
—♦—
رانا اعظم کا تعلق عوامی ورکرز پارٹی سے ہے، آپ بائیں بازو کے منجھے ہوئے نظریاتی لوگوں میں سے ہیں اور اکثر سیاسی، سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔